• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث سبعۃ أحرف … ایک جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حدیث سبعۃ أحرف … ایک جائزہ

علامہ علی محمد الضبّاع
مترجم: عمران حیدر​
شیخ القراء علامہ علی محمدالضباع رحمہ اللہ کا زیر نظر مضمون ان کے مجلہ ’کنوز الفرقان‘ سے منتخب کرکے شائع کیا جارہا ہے۔ یہ مجلہ موصوف نے اپنی زندگی میں تجوید و قراء ات کی ترویج کے لئے خود جاری فرمایا تھا، جس کے رئیس التحریر بھی آپ خود تھے۔ مجلہ ہذا نومبر ۱۹۴۸ء سے مئی ۱۹۵۳ء تک باقاعدہ نکلتا رہا۔ ہمارے محترم کویتی دوست الشیخ ڈاکٹر یاسر ابراہیم مزروعی﷾ نے ان مضامین کو تنویر البصر في جمع مقالات وکتابات شیخ القراء بمصر کے عنوان سے تہذیب و ترتیب کے بعد وزارۃ الاوقاف، کویت کی طرف سے شائع کرنا شروع کیا ہے۔ اس سلسلہ کی تاحال پہلی جلد شائع کی گئی ہے۔ اس شمارے میں ہم علامہ الضباع رحمہ اللہ کی دو علمی تحریریں ترجمہ کرکے شائع کررہے ہیں، جن میں سے دوسری تحریر ’رسم عثمانی کی شرعی حیثیت‘ کے عنوان سے شامل اشاعت ہے۔ اسی طرح سیر وسوانح کے تحت علامہ موصوف کے تفصیلی حالات زندگی بھی اس شمارے کے صفحات کی زینت ہیں۔
زیر نظر مضمون میں علامہ موصوف نے جہاں حدیث ’سبعہ اَحرف‘ سے متعلق دیگر مسائل پر بحث کی ہے، وہیں اس کے مفہوم کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ فن قراء ات کی معروف نمائندہ شخصیات امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ، امام ابومحمد مکی القیسی رحمہ اللہ اور امام ابو عمرو دانی رحمہ اللہ وغیرہ کی اس رائے سے بھرپور اتفاق رکھتے ہیں کہ ’سبعہ اَحرف‘ سے مراد ’اَوجہ سبعہ‘ کے بجائے ’سات لغات‘ کا اختلاف ہے۔ اس مضمون کو ہم اس احساس سے پیش کر رہے ہیں کہ بعض اہل علم جو کہ اس رائے کو غیر وقیع خیال کرتے ہیں، انہیں معلوم ہوجائے کہ فن قراء ات کے ماہرین میں سے کئی ممتاز شخصیات اس رائے کی حامل ہیں۔ عام طور پر متاخرین قراء کرام میں محقق ابن جزری رحمہ اللہ کی رائے کی وجہ سے ’سبعہ اَوجہ‘ کی تعبیر کی طرف میلان پایا جاتا ہے، جبکہ اس سلسلہ میں موجود ’سبعہ لغات‘ کی تشریح کو وقعت نہیں دی جاتی، حالانکہ’ سبعہ احرف‘ بمراد ’سبعہ لغات‘ کے قائلین متقدمین ومتاخرین اہل علم میں سے جمہورہیں اور اکثر متقدمین قراء بھی اسی رائے کے قائل تھے۔ پاکستان میں علم تجوید وقراء ات کی خدمات کے سلسلہ میں پیش پیش پانی پتی سلسلۂ قراء ات کے تمام بانی اَساتذہ بھی اسی رائے کے قائل تھے اور اسی کے حق میں پر زور دلائل اپنی کتب میں پیش کرتے آئے ہیں۔ مزید برآں ’سبعہ احرف‘کے مفہوم کے ضمن میں جمہور علماء اور امام ابن جریررحمہ اللہ کی رائے میں کیا وزن پایا جاتاہے؟ اس حوالے سے گذشتہ اور حالیہ قراء ات نمبر میں ’تعارف علم ِقراء ات‘ از ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی﷾ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے متواتر صحیح طرق سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’إنَّ ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ما تیسّر منہ‘‘ ’’قرآن مجید سات اَحرف پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے جو آسان لگے اس کے مطابق پڑھ لو۔‘‘
صحیح بخاری میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرمایا:
’’سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان في حیاۃ رسول اﷲ ! فاستمعت لقراء تہ فإذا ھو یقرأ علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اﷲ ! فکدت أساورہ في الصلاۃ فتصبرت حتی سلم فلببتہ بروائہ فقلت،من أقرأک ھذہ السورۃ التی سمعتک تقرأھا؟ فقال: أقرأنیھا رسول اﷲ ! فقلت: کذبت فإن رسول اﷲ! أقرأنیھا علی غیر ما قرأت فانطلقت بہ أقودہ إلی رسول اﷲ! فقلت إن ھٰذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف لم تقرئنیھا،فقال رسول اﷲ! أرسلہ اقرأ یاہشام! فقرأعلیہ القراء ۃ التي سمعتہ یقرأھا،فقال: کذلک أنزلت۔ إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء واما تیسر منہ‘‘(صحیح بخاری:۴۶۰۸)
’’میں نے رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہشام بن حکیم کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قراء ت میں غور کیا کہ وہ بہت سے حروف پر پڑھ رہے ہیں جورسول اللہﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے۔ میں نے چاہا کہ میں انہیں نماز میں ہی دبوچ لوں پھرمیں نے صبر کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے سلام پھیردیا۔میں نے چادر کے ساتھ انہیں دبوچ لیا اورکہا: میں نے تمہیں جو پڑھتے ہوئے سنا ہے تمہیں یہ سورت کس نے پڑھائی ہے؟ کہا: رسول اللہﷺنے، میں نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو۔ رسول اللہﷺنے مجھے اس طرح نہیں پڑھایا۔ پھر میں انہیں رسول اللہﷺکے پاس لے گیا اور عرض کی۔یہ سورۂ فرقان ان حروف پر پڑھتے ہیں جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ اے ہشام پڑھو! تو جس طرح میں نے انہیں پڑھتے ہوئے سناتھا اسی طرح پڑھا۔ آپؐ نے فرمایا:اسی طرح نازل ہوئی یقیناً قرآن مجید سات اَحرف پرنازل ہوا ان میں سے جو آسان لگے اس کے مطابق پڑھ لو۔‘‘
صحیح مسلم میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ حدیث مروی ہے:
أن النبیﷺ کان عند أضاۃ بنی غفار فأتاہ جبریل فقال: إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرف، فقال: سل اﷲ معافاتہ ومعونتہ فإن أمتی لا تطیق ذلک ثم أتاہ الثانیۃ علی حرفین فقال لہ مثل ذلک،ثم أتاہ الثالثۃ بثلاثۃ فقال لہ مثل ذلک،ثم أتاہ الرابعۃ فقال،إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف فأیما حرف قرء وا علیہ فقد أصابوا(صحیح مسلم ،باب أن القرآن علی سبعۃ احرف)
’’نبی کریمﷺ بنی غفار کے أضاۃ کے پاس تھے کہ آپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور فرمایا: اللہ آپﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ اپنی اُمت کو ایک حرف پرقرآن مجید پڑھائیں تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس کی عافیت اور مدد مانگو، میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ پھر جبریل علیہ السلام دو حروف لے کر آئے، تو آپ نے وہی بات کہی، پھر جبریل علیہ السلام تیسری مرتبہ تین حروف لے کر آئے تو آپﷺنے پھر وہی بات کہی، پھر جبریل علیہ السلام چوتھی مرتبہ آئے اورکہا: اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ آپ اپنی اُمت کو سات حروف پر قرآن مجید پڑھائیں۔ وہ جوبھی حرف پڑھیں گے وہ صحیح ہوگا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جامع ترمذی کی روایت میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لقي رسول اﷲ ! جبریل عند أحجار المروۃ قال: فقال رسول اﷲ! لجبریل:إنی بعثت إلی أمۃ أمیین فیہم الشیخ الفاني والعجوز الکبیرۃ والغلام قال: فمرھم فلیقرء وا القرآن علی سبعۃ أحرف (قال الترمذی،کتاب القرآت،باب ما جاء أن القرآن انزل علی سبعۃ احرف)
’’مروہ کے پہاڑی کے پاس رسول اللہﷺکی جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: میں اَن پڑھ قوم کی طرف مبعوث کیاگیا ہوں۔ ان میں بوڑھے آدمی،زیادہ عمر کی عورتیں اور جوان شامل ہیں۔ جبریل ؑ نے کہا: آپ انہیں حکم دیجئے کہ وہ قرآن مجیدسات حروف پر پڑھیں۔‘‘
ایک حدیث کے الفاظ ہیں: ’’ فمن قرأ بحرف منھا فھو کما قرأ ‘‘
’’جس نے ان میں سے کوئی حرف پڑھا وہی درست ہے۔‘‘
سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں:
’’فقلت یا جبریل! إنی أرسلت إلی أمۃ أمیۃ فیھم الرجل والمرأۃ والغلام والجاریۃ والشیخ الفاني الذی لم یقرأ کتابا قط قال إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف‘‘
’’میں نے کہا: اے جبریل! میں اَن پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں، ان میں آدمی، عورتیں، بچے، بچیاں اور ایسے بوڑھے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی، جبریل ؑ نے کہا: بے شک یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں:
’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ ’’قرآن کریم سات حروف پرنازل کیا گیاہے۔‘‘
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے :
’’دخلت المسجد أصلی فدخل رجل فافتتح النحل فقرأ فخالفني فی القراء ۃ،فلما انفتل قلت: من أقرأک؟ قال: رسول اﷲ! ثم جاء رجل فقام وصلی فقرأ فافتتح النحل فخالفني وخالف صاحبی،فلما انفتل قلت من أقرأک؟ قال رسول اﷲ!۔ قال فدخل قلبی من الشک والتکذیب أشد ما کان في الجاھلیۃ۔ فأخذت بأیدیھما وانطلقت بھما إلی رسول اﷲ! فقلت استقریٔ ھذین۔ فاستقرأ أحدھما فقال: أحسنت فدخل قلبی من الشک والتکذیب أشد مما کان في الجاھلیۃ۔ فضرب رسول اﷲ! صدری بیدہ فقال أعیذک یا أُبَي من الشّک! ثم قال: إنَّ جبریل أتانی فقال: إن ربک عزوجل یأمرک أن تقرأ القرآن علی حرف واحد فقلت: اللھم خفف عن أمتی ثم عاد فقال إن ربک عزّ وجل یأمرک أن تقرأ القرآن علی حرفین فقلت اللھم خفف عن أمتی ثم عاد فقال إن ربّک عزّ وجل یأمرک أن تقرأ القرآن علی سبعۃ أحرف وأعطاک بکل ردۃ مسألۃ۔ الحدیث حرث بن ابی اسامہ نے اپنی سند میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کیاہے۔
’’میں نے مسجد میں نماز پڑھی، اسی اثناء میں ایک آدمی آیا اور اس نے سورہ نحل شروع کی۔اس نے میری قراء ت کے برعکس پڑھا۔ جب وہ فارغ ہواتو میں نے پوچھا: تمہیں کس نے پڑھایاہے؟اس نے کہا: رسول اللہﷺنے۔ پھر ایک اور آدمی آیا اس نے نماز میں سورۃ نحل شروع کی اور قراء ت میں ہم دونوں کی مخالفت کی۔جب وہ فارغ ہواتو میں نے پوچھا:تمہیں اس طرح کس نے پڑھایا ہے؟ اس نے کہا: رسو ل اللہﷺنے۔ابی بن کعب﷜ کہتے ہیں۔ اس صورت حال سے میرے دل میں جاہلیت کے دور سے بھی زیادہ شک اور تکذیب پیدا ہوا۔ میں نے ان دونوں کاہاتھ پکڑا اور رسول اللہﷺ کے پاس لے آیااور عرض کی۔آپؐ ان دونوں سے تلاوت سنیں۔ آپؐ نے ایک سے سن کر فرمایا: أحسنت۔میرے دل میں پھر دورِجاہلیت سے بڑھ کر شک اور تکذیب پیداہوا۔ رسول اللہﷺنے میرے سینے پراپنا ہاتھ مارا اور فرمایا:اے اُبی! میں تمہیں شک سے اللہ کی پناہ میں دیتاہوں۔پھرفرمایا:جبریل ؑ نے میرے پاس آکر کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک حرف پرقرآن مجید پڑھنے کاحکم دیاہے۔میں نے کہا: اے اللہ میری اُمت سے تخفیف فرمائیں۔ جبریل ؑ نے آکر کہا: اللہ تعالیٰ آپ کودو حروف پر پڑھنے کاحکم دیتے ہیں۔میں نے کہا:اے اللہ میری اُمت سے تخفیف فرمائیں۔پھر جبریل ؑ نے آکر کہا:اللہ تعالیٰ آپ کو حکم د یتے ہیں کہ آپ سات حروف پر قرآن مجید کی تلاوت کریں اوراللہ تعالیٰ نے آپ کے ہرسوال کاجواب دیا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سیدنا عبداللہ بن مسعود﷜ کی روایت کے الفاظ یوں ہیں:
فمن قرأ علی حرف منھا فلا یتحوّل إلی غیرہ رغبۃ عنہ
’’جو ان میں سے کسی حرف پر پڑھے تو وہ اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے دوسرے کو اختیار نہ کرے۔‘‘
سیدناابوبکرہ﷜ کی روایت کے الفاظ ہیں:
’’کلہا شاف کاف ما لم یختم آیۃ عذاب برحمۃ أو آیۃ رحمۃ بعذاب‘‘
’’تمام (حروف) کافی شافی ہیں جب تک عذاب کی آیت کورحمت یارحمت کی آیت کو عذاب سے نہ بدل دے۔‘‘
سیدنا عمرو بن عاص﷜ کی روایت یوں ہے:
’’فأي ذلک قرأتم فقد أصبتم،ولا تماروا فیہ فإن المراء فیہ کفر ‘‘
’’ان میں سے تم جس کی قراء ت بھی کرو گے وہ درست ہے اور تم اس میں شک نہ کرو، کیونکہ اس میں شک کرناکفر ہے۔‘‘
سیدناعمر بن خطاب﷜ کے ہشام﷜ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی طرح بہت سے واقعات صحابہ کرام﷢ کے ساتھ پیش آئے۔ اس کی ایک مثال اُبی بن کعب﷜ اور عبداللہ بن مسعود﷜ کے درمیان سورہ نحل کے پڑھنے کی صورت میں بیان ہوچکی ہے۔اس کی ایک دوسری مثال عمرو بن عاص﷜ کے مولیٰ ابن قیس حضرت عمرو سے بیان کرتے کہ ایک آدمی نے قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کی تو سیدنا عمرو نے کہا: یہ تو ایسے ہے اورنبی کریمﷺ کو بتایا۔ آپﷺنے فرمایا:
’’إنَّ ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فأي ذلک قرأتم أصبتم فلا تماروا فیہ‘‘
’’قرآن کریم سات اَحرف پر نازل ہواہے۔ ان میں سے جو بھی پڑھو وہ درست ہے۔اس لیے تم اس میں شک نہ کرو۔‘‘ یہ حدیث امام احمد نے حسن سند سے روایت کی ہے۔
مسند احمد، ابی عبید اور طبری میں ابوجھم بن صمۃ کی روایت اسی معنی کی بیان کی گئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طبری اور طبرانی میں زیدبن ارقم﷜ سے مروی ہے:
’’جاء رجل إلی رسول اﷲ! فقال: أقرأني ابن مسعود سورۃ أقرأنیھا زید بن ثابت وأقرأنیھا أبی بن کعب فاختلفت قراء تھم،فبقراء ۃ أیھم آخذ؟ فسکت رسول اﷲ! وعلي إلی جنبہ، فقال علي: لیقرأ کل إنسان منکم کما عُلِّم،فإنہ حسن جمیل‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی:۴۹۳۸)
’’ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا: مجھے ابن مسعود، زید بن ثابت اورابی بن کعب﷢نے ایک سورۃ مختلف قراء ات میں پڑھائی ہے۔ میں ان میں سے کس کی قراء ت کو اختیارکروں؟ رسول اللہﷺ خاموش ہوگئے جبکہ سیدنا علی﷜آپ کے پاس تشریف فرماتھے انہوں نے فرمایا،ہرانسان کو اس طرح پڑھناچاہئے۔جس طرح اسے سکھایاگیاہے۔وہی طریقہ بہتر ہے۔‘‘
ابن حبان اور مستدرک حاکم میں عبداللہ بن مسعود﷜سے مروی ہے:
’’أقرأني رسول اﷲ! سورۃ من آل حم، فرحت إلی المسجد فقلت لرجل:اقرأھا،فإذا ھو یقرأ حروفا ما أقرأھا فقال: أقرأنیھا رسول اﷲ! فانطلقت إلی رسول اﷲ! فأخبرناہ فتغیر وجھہ وقال إنما أھلک من کان قبلکم الاختلاف،ثم أسر إلی علی شیئا، فقال علي: إن رسول اﷲ! یأمرکم أن یقرأ کل رجل منکم کما علم،قال: فانطلقنا وکل رجل منا یقرأ حروفا لا یقرأھا صاحبہ‘‘(مستدرک الحاکم:۲/۲۲۳)
’’رسول اللہﷺنے مجھے آل حم میں سے ایک سورت پڑھائی، مسجد میں آکرمیں نے ایک آدمی سے کہا: تم یہ سورت پڑھو۔اس نے میری قراء ت کے برعکس پڑھا اور کہا: مجھے رسول اللہﷺنے اس طرح پڑھایا ہے۔ ہم نے رسول اللہﷺ کو جاکر خبر دی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور فرمایا: تم سے پہلے لوگوں کو اختلاف نے ہلاک کردیا۔پھر آپ نے حضرت علی﷜سے سرگوشی کی تو سیدنا علی﷜نے فرمایا : رسول اللہﷺتمہیں حکم دیتے ہیں کہ ہر آدمی اسی طرح پڑھے جیسے اسے سکھایا گیاہے۔عبداللہ بن مسعود﷜نے فرمایا: پھر ہم چلے آئے اور ہم میں سے ہر شخص الگ الگ حروف میں پڑھتا تھا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن جزری شرح میں فرماتے ہیں کہ امام ابوعبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اس حدیث کا نبی کریمﷺسے متواتر سند سے نقل ہونا بیان کیا ہے۔ اس حدیث کے طرق ایک جزء میں جمع کئے گئے ہیں۔ جس میں یہ حدیث درج ذیل صحابہ کرام سے مروی ہے۔ عمر بن خطاب،ہشام بن حکیم بن حزام، عبدالرحمن بن عوف، اُبی بن کعب، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس ابوسعید خدری، حذیفہ بن یمان، ابوبکرہ، عمرو بن العاص، زید بن ارقم، انس بن مالک، سمرہ بن جندب، عمر بن ابی سلمہ، ابوجھم، ابوطلحہ انصاری اور سیدہ اُم ایوب انصاریہ﷢ ۔
حافظ ابویعلی موصلی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے:
’’أن عثمان بن عفان قال یومًا وھو علی المنبر: أذ کر اﷲ رجلا سمع النبی قال: إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف،کلھا شاف کاف، لما قام فقاموا حتی لم یحصوا،فشھدوا أن رسول اﷲ! قال: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلھا شاف کاف،فقال عثمان،وأنا أشھد معھم‘‘(سنن نسائی:۹۴۱)
’’ایک دن عثمان بن عفان﷜نے منبرپر فرمایا: میں اس شخص کو قسم دیتا ہوں جس نے نبی کریمﷺسے یہ فرمان سنا ہے: ’’قرآن کریم سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔ یہ تمام کافی شافی ہیں۔‘‘ جب آپ کھڑے ہوئے تو لوگ بھی کھڑے ہوگئے (ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ) انہیں شمار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے گواہی دی کہ نبی کریمﷺنے یہ حدیث بیان فرمائی ہے۔سیدنا عثمان﷜نے فرمایا میں بھی ان کے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید کے سبعہ احرف میں نزول کا سبب
امام ابن جزری رحمہ اللہ نے فرمایا: قرآن مجید کے سبعہ اَحرف پر نازل کرنے کا بنیادی مقصد اس امت کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے اس اُمت کے ساتھ نرمی اور آسانی کا معاملہ فرمایا، اپنے فضل سے نوازا، وسعت اور رحمت عطا کی اور اس اُمت کا خاصہ قرار دیا، جیسا کہ اس حدیث ِطیبہ سے معلوم ہوتا ہے۔ جب جبریل امین﷤ نے رسول اللہﷺسے عرض کی:
’’إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرف، فقال سل اﷲ معافاتہ ومعونتہ إن أمتی لاتطیق ذلک، ولم یزل یردّد المسألۃ حتی بلغ سبعۃ أحرف‘‘(صحیح مسلم :۸۲۱)
’’اللہ تعالیٰ آپ کوحکم دیتے ہیں کہ آپ اپنی اُمت کو قرآن مجید ایک حرف پر پڑھائیں تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد اور عافیت کا سوال کریں، میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ آپ اسی طرح سوال کرتے رہے یہاں تک کہ سبعہ اَحرف (میں قرآن مجید پڑھنے کی اِجازت) تک پہنچ گئے۔‘‘
جیسا کہ یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ چکی کہ قرآن مجید سبعہ اَحرف میں نازل ہوا ہے۔ رسول اللہﷺسے قبل انبیاء کرام خاص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے جبکہ نبی آخر الزمانﷺ کو پوری دنیا کی تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیاہے۔وہ عرب جن کی زبان میں قرآن مجید نازل ہوا، ان کی لغات مختلف اور زبانیں جدا جدا ہیں۔ ان کے لیے ایک لغت سے دوسری اور ایک حرف سے دوسرے حرف کی طرف منتقل ہونا نہایت مشکل ہے حتیٰ کہ بعض لوگ تو تعلیم اور علاج کے ذریعے بھی ایسا نہیں کرسکتے۔ ایسے میں اَن پڑھ بوڑھے اور خواتین وغیرہ کو دوسری لغت یا حرف کا مکلف بنادیاجاتا تو یہ حکم بجا لانا ان کی طاقت سے باہر ہوجاتا اور وہ اس کی اتباع نہ کرپاتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’المشکل‘ میں فرماتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسانی ہے کہ اس نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ہر اُمت اپنی لغت اور عادت کے مطابق پڑھ لے۔ ہذلی پڑھتے ہیں (عتی حین) ان کا ارادہ حتی حین کا ہوتا ہے، لیکن اس طرح سے وہ تلفظ اَدا کرتے ہیں۔ اسدی لوگ (ألم إعھد إلیکم) مضارع کے کسرہ کے ساتھ، بنو تمیم ہمزہ کے ساتھ اور قریشی بغیر ہمزہ کے پڑھتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے لوگ قیل لھم وغیض الماء ضمہ کے اشمام کوکسرہ کے ساتھ، وبضاعتنا ردّت إلینا۔کسرہ کے اشمام کو ضمہ کے ساتھ، ما لک لا تأمنا۔ ضمہ کے اشمام کو ادغام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر ان میں سے ہر فریق دوسری لغت کو اختیار کرنا چاہے تو ان کے لیے بہت مشکل ہے۔خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں کے لئے۔ البتہ اگر کوئی اس کے لیے سخت محنت اور مسلسل ریاضت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ رحمت اور محبت کا معاملہ فرماتے ہوئے، اس کے لیے یہ کام آسان بنادیتے ہیں۔‘‘
اسی لیے رسول اللہﷺنے پوری مخلوق کو قرآن مجید کایہ چیلنج دیا ہے:
’’ قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی أنْ یَّأتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْآنِ لَایَأتُوْنَ بِمِثْلِہٖ ‘‘(الاسراء :۸۸)
’’آپ کہہ دیجئے! اگرانسان اورجن اس قرآن جیسی مثال لانے پر متفق ہوجائیں(پھربھی)وہ اسکی مثال نہیں لاسکتے۔‘‘
اگر قرآن مجید مخاطبین کی لغت کے علاوہ دوسری لغت میں ہوتا تو وہ جواب میں کہہ دیتے، اگرقرآن ہماری لغت میں ہوتا تو پھر ہم اس جیسا کلام بناکرلے آتے اور قرآن کے اس دعویٰ کو وہ جھوٹ قرار دے دیتے۔سبعہ احرف میں قرآن مجید پڑھنے کی اجازت کی وجہ سے کسی کے لیے ابہام باقی نہیں رہا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ احرف سے کیا مراد ہے؟
ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سبعہ احرف کے معنی کے تعین میں علماء کے تقریباً چالیس اَقوال ہیں۔البتہ اس بات پر سب کا اِجماع ہے کہ اس سے مشہور سبعہ قراء اور ان کی مروجہ قراء ات مراد نہیں ہیں، جیسا کہ عوام الناس میں سے بعض لوگ سمجھتے ہیں۔سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں ابوبکر بن مجاہد نے قراء ات کو جمع کیا۔ اگر حدیث میں موجود سبعہ اَحرف سے یہ سات قراء یا ان کی قراء ات مراد ہوتیں تو صحابہ کرام﷢ کے لیے قرآن مجید پڑھنا ممکن نہ ہوتا ،کیونکہ یہ قراء تابعین کے بعد پیداہوئے ہیں۔ اس کے بعد ان کی سبعہ قراء ات مشہور ہوئیں۔
قراء ت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ثقہ امام سے ایک ایک لفظ لیا جائے وہ اپنے امام سے لے ۔اس طرح اس کی سند رسول اللہﷺ تک پہنچ جائے۔ اس طرح اس بات پر بھی سب کا اجماع ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر کلمہ سات طریقوں سے پڑھا جائے، کیونکہ مشہور مذہب کے مطابق عملی طور پر اس کی ایک کلمہ میں بھی مثال نہیں ملتی۔
سبعہ احرف کی مراد کے بارے میں سب سے بہتر قول امام بیہقی، اَبہری اور اکثر علماء نے اختیارکیا ہے کہ سبعہ احرف سے لغات کی مختلف صورتیں مراد ہیں۔ انہوں نے دلیل کے طور پر یہ آیت کریمہ پیش کی ہے: ’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اﷲَ عَلٰی حَرْفٍ‘‘(الحج:۱۱) ’’لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جوکنارے پر (شک کی حالت میں)عبادت کرتا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابوعمرو دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺنے احرف کے معنی کی طرف دو پہلوؤں سے اشارہ فرمایاہے:
(١) قرآن مجید لغات کی سات صورتوں پر ناز ل کیاگیا۔احرف حرف کی جمع قلت ہے جس طرح فلس و أفلس۔ حرف سے وجہ بھی مراد لی جاتی ہے۔جیسا کہ اس آیت کریمہ میں آیا ہے: ’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اﷲَ عَلٰی حَرْفٍ‘‘(الحج:۱۱)
یہاں پر ’حرف‘ سے وجہ مراد ہے۔ یعنی اگر اسے نعمتیں ملتی رہیں، معاملات درست رہیں اور وہ مطمئن ہو تو اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اگر حالات بدل جائیں، اللہ تعالیٰ سختی کے ذریعے اس کاامتحان لیں تو عبادت چھوڑ کر کفر اختیار کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک وجہ (صورت) میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتاہے۔ اسی لیے رسول اللہﷺقراء ات اور لغات کی مختلف وجہوں کا نام اَحرف رکھا ہے یعنی ان میں سے ہر صورت ایک وجہ ہے۔
(٢) قراء ات کا نام وسعت کے طور پر ’احرف‘ رکھ دیاگیا ہے۔جیساکہ عرب کی عادت ہے وہ کسی چیز کا نام اس کے کسی حصے یا اس سے متعلق کسی چیز کے نام پر رکھ دیتے ہیں مثلاً کسی جملے کا نام اس کے کسی اسم پررکھ دیا جائے۔ کلمہ ’ترحیب‘ کے نام پر مقرر پوری تقریر کرجاتا ہے۔اسی طرح رسول اللہﷺنے قراء ت کا نام حرف رکھ دیا، اگرچہ وہ ایک لمبی کلام ہوتی ہے، کیونکہ اس کے کسی حرف میں ضمہ یا کسرہ کو تبدیل کردیا۔ کسی حرف کو دوسرے سے بدل دیا، کوئی کمی یا اضافہ کردیا۔جیساکہ قرآن مجید کی مختلف قراء ات میں آتا ہے، تو عرب کی عادت کے مطابق اس میں سے حرف کا نام قراء ۃ رکھ دیا۔
 
Top