• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث سبعۃ أحرف … ایک جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس معنی کا احتمال دونوں صورتوں میں پایاجاتاہے۔ان میں سے پہلا احتمال زیادہ قوی ہے۔ ’’سبعۃ أحرف، أی سبعۃ أوجہ‘‘ حضرت عمر﷜ کے قول میں دوسرے معنی کا زیادہ احتمال ہے۔ جب آپ نے فرمایا: سمعت ھشاما یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اﷲ!۔ میں نے ہشام کو سورہ فرقان ان حروف پر پڑھتے ہوئے سنا جو رسول اللہﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ دوسری روایت کے لفظ ہیں: سمعتہ یقرأ أحرفا لم یکن رسول اﷲ! أقرأنیھا ’’میں نے اسے ایسے احرف پڑھتے ہوئے سنا جو رسول اللہﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘
أوجہ سے لغات مرادلینے کی تائید اس بات سے بھی ملتی ہے ، کہ قرآن مجید کوسبعہ احرف پرنازل کرنے کی حکمت تخفیف اور آسانی ہے۔تاکہ اس امت کے لوگ اپنی لغت کے مطابق آسانی سے تلاوت کرسکیں۔ اس بات کی صراحت صحیح احادیث سے ملتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا :أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ ’’میں اللہ تعالیٰ سے اس کی عافیت اور مدد کا طلب گار ہوں۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا:إن ربی أرسل إلي أن أقرأ القرآن علی حرف واحد فرددت علیہ أن ھون علی أمتی ولم یزل یردد حتی بلغ سبعۃ أحرف ’’میرے رب نے میری طرف (حکم) نازل کیا کہ میں قرآن مجید ایک حرف پر پڑھوں۔ میں عرض کرتا رہاکہ میری امت پرآسانی فرمائیں، حتیٰ کہ سبعہ احرف تک رخصت مل گئی۔‘‘ آپﷺنے جبریل ؑ سے فرمایا: ’’ إنی أرسلت إلی أمۃ أمیۃ فیھم الرجل والمرأۃ والغلام والجاریۃ والشیخ الفاني الذی لم یقرأ کتابا قط‘‘ ’’میں اُمی (اَن پڑھ) قوم کی طرف بھیجاگیاہوں۔ ان میں مرد، عورت، بچے اور ایسے بوڑھے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔‘‘
رسول اللہﷺپوری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی زبانوں میں انتہادرجے کااختلاف ہے۔یہ تمام قرآن مجید کے مخاطب ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآن‘‘ (المزمل:۲۰) اگر انہیں ایک لغت کا مکلف بنا دیا جائے تو ان کے لیے مشکل ہوجائے گی اور کچھ لوگ تو کوشش کے باوجود اپنی لغت چھوڑ نہ پائیں گے۔لہٰذا دین کی آسانی کا تقاضا ہے کہ قرآن مجید کومختلف لغات میں پڑھا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ اَحرف کا اختلاف تنوع اور تغایر کا ہے نا کہ تضاد و تناقض کا
رسول اللہﷺسے روایت کردہ قراء ات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ہمیں جو اختلاف نظر آتا ہے۔ یہ تنوع کا ہے۔ کلام اللہ میں تضاد کاپایاجانا محال ہے۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ أفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا‘‘ (النساء :۸۲)
’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔‘‘
ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم نے قراء ات کے اختلاف میں غور کیا تو اس کی تین صورتیں نظر آئیں۔
(١) لفظ کا اختلاف ہے معنی میں کوئی اختلاف نہیں۔
(٢) دونوں کا اختلاف ایسا ہے جسے ایک ہی چیز میں جمع کیا جاسکتا ہے۔
(٣) دونوں کے اختلاف کو ایک چیز میں جمع کیا جاسکتا ہے بلکہ دوسرے پہلو سے دونوں متفق ہوجاتی ہیں جن میں تضاد باقی نہیں رہتا۔
پہلی صورت کی مثال: اس اختلاف کی مثالیں: الصِّرَاطَ، عَلَیْھِمْ، یُؤَدِّہٖ، الْقُدُس اور یَحْسَبُ وغیرہ ہے، ان تمام کو السّرَاطَ، عَلَیْھُمْ، یُؤَدِّہْ، الْقُدْس اور یَحْسِبُ بھی پڑھا گیا ہے۔ یہ اختلاف لغات کاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری صورت کی مثال: سورہ فاتحہ میں مَالِکِ اور مَلِکِ پڑھا جاتاہے۔ جس کامطلب ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کامالک اور اس کا بادشاہ ہے ۔ دوسری مثال یَکْذِبُون اور یُکَذِّبُونَ ہے۔اس سے مراد منافق ہیں، کیونکہ وہ نبی کریمﷺ کا انکار کرتے اور آپؐ کی باتوں کوجھٹلایاکرتے تھے۔ اسی طرح نُنشِرُھَا (راء کے ساتھ) اورنُنشِزُھَا (زاء کے ساتھ) دونوں کا مطلب ہڈیاں ہیں۔أنشرھا یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کیا اورأنشزھا انہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھا۔ یہاں تک وہ اکٹھی ہوکر جڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں معانی دونوں قراء توں میں جمع کردیئے۔
تیسری صورت کی مثال: ’’ وَظَنُّوا أنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا‘‘ تشدید اور تخفیف کے ساتھ۔ دوسری مثال ’’وَإِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُولَ مِنْہُ الْجِبَال‘‘ ایک قراء ت میں پہلے لام کے فتحہ اور دوسرے کے رفع کے ساتھ اور دوسری قراء ت میں پہلے کسرہ اور دوسرے کے فتحہ کے ساتھ۔تیسری مثال ’’ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ ‘‘ تاء کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ۔
ان مثالوں میں کذبوا تشدید کی قراء ت کی صورت میں معنی ہوگا۔ رسولوں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ ان کی قوموں نے انہیں جھٹلا دیا۔ تخفیف کی قرا ء ت کی صورت میں معنی ہوگا کہ ان کی امت کے لوگوں کو اس بات کاوہم ہوگیا کہ ان کے رسولوں نے انہیں خبریں دینے میں جھوٹ بولاہے۔ پہلی قراء ت میں لفظ ظن یقین کے معنی میں ہے اور تینوں ضمیریں رسولوں کے لیے ہیں۔ دوسری قراء ت میں ظن شک کے معنی میں ہے اور ضمائر ان کی امت کے لوگوں کی طرف ہیں۔
’’لتزول‘‘ میں پہلے لام کے فتحہ اور دوسرے کے رفع والی قراء ت میں إن مخففہ من المثقلہ ہے ، معنی ہوگا، ان کامکر اتنا شدید ہے کہ اس سے بڑے بڑے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور دوسری قراء ت میں ان نافیہ ہے یعنی ان کامکر اتنا بڑا یا ایسا نہیں ہے کہ اس سے رسول اللہﷺ کا حکم یا دین اسلام ضائع ہوجائے۔ پہلی قراء ت میں جبال حقیقی اور دوسری میں مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
لقد علمت۔ضمہ کی قراء ت میں علم کی نسبت سیدناموسیٰ ﷤کی طرف کی جارہی ہے۔جب فرعون نے کہا: ’’إِنَّ رَسُولَکُمُ الَّذِی أُرْسِلَ إِلَیْکُمْ لَمَجْنُون ‘‘ ’’تمہاری طرف بھیجا جانے والا رسول مجنون ہے۔‘‘ تو اس کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ لَقَدْ عَلِمْتُ مَا أنْزَلَ ھٰؤُلَائِ إِلَّارَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأرْضِ بَصَآئِر‘‘ ’’یقینا میں جانتاہوں کہ آسمانوں اور زمین کے رب نے یہ بصیرتیں نازل کی ہیں۔‘‘ موسیٰ ﷤نے اپنی ذات کے علم کے متعلق فرمایا: ان باتوں کا جاننے والا مجنون نہیں ہے۔ فتحہ کی قراء ت میں اس علم کی نسبت فرعون کی طرف کی گئی ہے ، کہ وہ علم ہونے کے باوجود حق کی دشمنی کی وجہ سے غلط بات کہہ رہا ہے۔
ان مثالوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ الفاظ اور معنی دونوں میں فرق ہے۔ دونوں کاایک مطلب نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود ایک دوسرے پہلو سے ان میں تطبیق دی جاسکتی ہے۔ جس سے تضاد ختم ہوجاتاہے۔ رسول اللہﷺسے ثابت ہر صحیح چیز کو قبول کرنا اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔رسول اللہﷺ اُمت کو جو کچھ بھی دیتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے۔ ہرقراء ۃ دوسری قراء ۃ کے لیے ایک آیت کے ساتھ دوسری آیت کی مانندہے۔ان تمام پر علمی اور عملی طور پر ایمان لازم ضروری ہے۔ایک قراء ت کو دوسری قراء ت کے معارض سمجھتے ہوئے ترک کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ اس بات کی طرف عبداللہ بن مسعود﷜ نے ان الفاظ کے ساتھ اِشارہ کیاہے:
’’لا تختلفوا في القرآن ولا تنازعوا فیہ فإنہ لا یختلف ولا یتساقط ألا ترون أن شریعۃ الاسلام فیہ واحدۃ،حدودھا وقراء تھا،وأمراﷲ فیھا واحد؟ ولو کان من الحرفین حرف یأمر بشيء ینھی عنہ الآخر کان ذلک الاختلاف ولکنہ جامع ذلک کلہ ومن قرأ علی قراء ۃ فلا یدعھا رغبۃ عنھا،فإنہ من کفر بحرف منہ کفر بہ کلہ‘‘
’’تم قرآن مجید میں کسی قسم کا جھگڑا اور اختلاف نہ کرو۔نہ یہ ایک دوسرے کے مخالف ہے اور نہ ایک دوسرے کو ساقط کرتاہے۔کیا تم دیکھتے نہیں کہ شریعت اسلامی ایک ہی،اس کی حدود اور قراء ات میں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی بات کاحکم دیاہے،اگر ایک حرف کسی بات کا حکم دے اور دوسرا اس سے روکے تویہ اختلاف ہوتا،لیکن یہاں تو ان کو جمع کیا جاسکتا ہے کوئی شخص کسی قراء ت کو بے رغبتی کرتے ہوئے نہ چھوڑے۔ جس نے ایک حرف کابھی انکار کیا اس نے مکمل (قرآن مجید) کاانکار کیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺنے بھی اس بات کی طرف اِشارہ کیا ہے۔ جب آپ کے سامنے دو مختلف حروف پر قرآن مجید پڑھنے والوں کا معاملہ آیا تو آپ نے ان میں سے ایک کو کہا:أحسنت۔ دوسری روایت کے لفظ ہیں أصبت۔ ’’تم نے صحیح پڑھا ہے۔‘‘ اور دوسرے سے فرمایا:ھکذا أنزلت، اسی طرح یہ نازل ہوئی ہے ۔ آپ نے دونوں کی تصویب فرمائی اور واضح کردیاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید اسی طرح مختلف حروف میں نازل کیا گیا ہے۔اس سے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ قراء کااختلاف فقہا کے اختلاف سے مختلف ہے۔ قراء کااختلاف سارے کاسارا حق اور درست ہے، اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کاکلام ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے جبکہ فقہاء کااختلاف اجتہادی ہے۔ ہرمذہب دوسرے کی نسبت سے درست ہے، لیکن خطا کا احتمال رکھتا ہے۔
قراء ت اور حروف کی نسبت جن صحابہ کرام یا ان کے علاوہ دیگر لوگوں کی طرف کی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ سب سے زیادہ قراء ۃ کرنے والے اور ضبط کرنے والے تھے۔ یہ دوسروں کے نسبت اس فن کے ساتھ زیادہ وابستہ اور منسلک رہے۔ یہی صورت حال ائمہ قراء اور ان کے رواۃ کی ہے۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ اس قاری یاراوی نے لغت میں سے ایک وجہ کو اختیار کیا۔اسے دوسری وجہوں پرترجیح دی اور اس کے ساتھ مستقل طور پر وابستہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ وہ اس میں معروف ہوگئے، زمانے میں ان کی تشہیر ہوگئی اور لوگ ان سے قراء ۃ روایت کرنے لگے۔اس طرح اس قراء ت یاروایت کی نسبت ان قراء اور راویوں کی طرف ہوگئی۔ ان کی طرف یہ نسبت اختیار اور دوام کی ہے، اختراع، رائے اور اجتہاد کی نہیں ہے۔
اسی طرح ہم آیت اور حدیث کاظاہری تعارض ختم کرسکتے ہیں۔ رسول اللہﷺنے مختلف قراء ات کے حاملین سے فرمایا: ھکذا،أنزلت اس طرح آپ نے قراء ات کے اسی اختلاف کو برقرار رکھااور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافا کَثِیْرًا‘‘ (النساء :۸۲)
اس طرح حدیث اور آیت میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔

٭_____٭_____٭
 
Top