• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث سید الشباب اہل الجنہ پر ایک تحقیق

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
فورم ہذا پر ایک تھریڈ چل رہا ہے، مذہبی داستانوں اور انکی حقیقت۔ اسمیں ترمذی کی ایک حدیث کے بارے میں بار بار کہا جارہا ہے کہ یہ موضوع ہے، اور وہ یہ ہے
عن حذیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :ان ھذا ملک لم ینزل الارض قط قبل اللیلۃ استاذن ربہ ان یسلم علی ویبشرنی بان فاطمۃ سیدة نساء اھل الجنۃ، وان الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنۃ

جسکا ترجمہ کچھ یوں ہے :
حضرت حذیفہ ابن یمانؓ سے روایت کیا گیا ھے کہ ،مجھ سے میری والدہ نے سوال کیا تم کب سے نبی ﷺ سے نہیں ملے ؟،، میں نے عرض کیا کہ اتنے دن ھو گئے ھیں ! انہوں نے مجھے برا بھلا کہا ،، میں نے کہا اچھا میں حضورﷺ کے ساتھ مغرب پڑھوں گا اور اپنی اور آپکی مغفرت کے لئے دعا کراؤں گا،،!!

میں مسجد میں حاضر ھوا اور مغرب کی نماز پڑھی لیکن آپ مغرب سے لے کر عشاء تک نفل پڑھتے رھے، جب آپ لوٹے تو میں آپﷺ کے ساتھ چلا ،، آپﷺ نے سوال کیا حذیفہ ھو ؟میں نے عرض کیا جی ھاں،، آپﷺ نے فرمایا اللہ تیری اور تیری ماں کی مغفرت فرمائے ،، کیا حاجت ھے ؟


میرے پاس ابھی ابھی ایک فرشتہ نازل ھوا ھے جو آج سے پہلے کبھی نہ آیا تھا ،پروردگار کی طرف سے سلام پڑھا اور مجھے خوشخبری سنائی کہ فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ھے اور حسن حسین اھلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ھوں گے،ترمذی کہتے ھیں کہ یہ روایت اس سند سے غریب ھے اور ھم اسے اسرائیل کے علاوہ اور کسی طریق سے نہیں جانتے( ترمذی ج 2 )
---------------------------------------------------
اب اس حدیث کی تحقیق کے متعلق ایک ویب سائٹ پر یہ میں آرٹیکل پڑھا اور میں چاہ رہا ہوں کہ اسکو سب کے ساتھ شئیر کریں۔ میری تحقیق حدیث کے متعلق اتنی معلومات تو نہیں ہیں، لیکن اس آرٹیکل میں لکھے ہوئے پوائینٹس پر چاہوں گہ کہ اہل علم اپنا تبصرہ درج کریں۔ ازرائے کرم موضوع پر ہی بات رہے تو بہتر ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث میں چند امور غور طلب ھیں !

1-حضرت حذیفہؓ صاحب السر النبی مدینہ میں رھائش پذیر ھیں مگر عرصہ دراز سے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ھوئے یہانتک کہ اماں نے ڈانٹ ڈپٹ کر بھیجا !
2-حضرت حذیفہؓ کام کی وجہ سے مشغول تو ھو سکتے ھیں مگر پنج وقتہ نماز کہاں پڑھا کرتے تھے ؟
3- رسول اللہﷺ نوافل مسجد میں ادا نہیں فرماتے تھے،اس دن کیا خاص وجہ تھی، کیا فرشتے کا انتظار مقصود تھا ؟
4- اس بشارت کے لئے خاص وہ ہی فرشتہ کیوں نازل ہوا جو اس سے پہلے زمین پر آیا نہیں تھا ؟

اس حدیث میں بہت ساری باتیں لاجواب ھیں مگر پہلے اس کی سند پر گفتگو کر لیتے ھیں کیونکہ ھم اسے متفق علیہ ھی سمجھ کر خطبوں مین استعمال کرتے رھے ھیں،،

حضرت عمرؓ جب ایمان لائے تو آپ نے قسم کھائی کہ جہاں جہاں جس جس مجلس اور جس جس بندے کے سامنے میں نے نبی پاکﷺ اور اسلام کی بدگوئی کی ھے،، ھر اس مجلس میں نبیﷺ کی شان بیان کروں گا اور ھر اس بندے کے سامنے اسلام کی حقانیت بیان کروں گا چاھے رد عمل کچھ بھی ھو،، بس بالکل یہی قسم ھم نے بھی کھائی ھے کہ جو جو حدیث ھم نے خوش فہمی میں لوگوں کو اپنے خطبوں کے ذریعے کھلائی ھے،، ان کے ذھن بھی صاف کریں گے،، اگرچہ ھمیں پتہ ھے کہ کیڑے مار گولیاں کھانے والی عورت کا معدہ صاف کرنا آسان ھے مگر سبائیت بھری احادیث کھانے والے اذھان کا صاف کرنا مشکل ھے،،

اس کے ایک راوی منہال بن عمرو الکوفی ھے اس سے مسلم کے علاوہ تمام محدثین نے روایات لی ھیں یحی ابن معین اسے ثقہ کہتے ھیں، احمد العجلی نے بھی ثقہ کہا ھے، لیکن امام احمد کو اطمینان نہیں،، شعبہ ابتدا مین اس کی روایات لیتے تھے،مگر ایک دن اس کے گھر سے گانے کی آواز سنی تو حدیث لینا ترک کر دیا،کیونکہ اس زمانے میں گانا ٹیپ پر نہیں بجتا تھا، گانے والی چاھئے ھوتی تھی !
حاکم کہتے ھیں یحی بن سعید نے اس پر اعتراض کیا ھے ،جوزجانی اپنی کتاب الضعفاء میں لکھتے ھیں یہ بدترین مذھب،کٹر شیعہ تھا،جس کا ثبوت یہ روایت خود ھے،، ابن حزم نے اس کی ایک روایت پر کلام کر کے اسے ناقابلِ اعتبار قرار دیا ھے( المیزان )
ھمارے محدثیں نے ایک بھولا بھالا سیدھا سادا سا اصول بنایا تھا،، جس کا نتیجہ آج تک یہ امت بھگت رھی ھے اور قیامت تک بھگتتی رھے گی !
اصول یہ تھا کہ شیعہ اگر سچا ھو تو اس کی روایت لی جائے مگر وہ راویت جو وہ اھلِ بیت کی شان میں بیان کرے چھوڑ دی جائے گی،یعنی اس پر شک کیا جائے گا،، قربان جائیں اپنے اسلاف کی سادگی کے،کہ اعتبار بھی نہیں اھل بیت کے فضائل کی لینے میں تو ھچکچاھٹ ھے،مگر حلال اور حرام،،قران کی تفسیر دنیا و آخرت،، قبر اور حشر کی خبریں ان سے رس ملائی سمجھ کر لتے جا رھے ھیں،، پھر فضائل سے کونسی قیامت آ جانی تھی؟ کبھی کسی نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ ایک عام سی حدیث پکڑا کر جب کوئی راوی،مسلم اور بخاری کا راوی ھونے کا اعزاز حاصل کر لیتا ھے تو پھر اس کی مارکیٹ کا عالم کیا ھو گا،،دوسرے لوگ تو علی شرطِ بخاری کہہ کر ٹوٹ پڑیں گے،، آگے چل کے آپ دیکھیں گے کہ اسی روایت کے راوی اسرائیل سے امام بخاری فضائلِ اھل بیت کی حدیث لینے میں تو بہت پرھیز کرتے ھیں،مگر اصولِ شریعت جیسے نازک اور اھم مسائل میں اسی اسرائیل سے روایت لے لیتے ھیں،، !!!

یہ حدیث 5 زمانوں تک ایک ایک راوی تک ھی محدود رھی ھے،کسی دوسرے کان نے نہیں سنی، حضورﷺ سے سوائے حذیفہؓ کے کوئی روایت نہیں کرتا، حذیفہؓ سے زر بن حبیش کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا،زر بن حبیش سے منہال کے سوا کوئی روایت نہیں کرتا،منہال سے میسرہ بن حبیب کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا اور میسرہ سے اسرائیل کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا،، امام ترمذی رحمہ اللہ نے آخری جملے میں اسی طرف اشارہ کیا ھے !!
اس اسرائیل کے معاملے میں بھی بہت اختلاف ھے،اسرائیل بن ابو اسحاق السبیعی تمام صحاحِ ستہ کا راوی ھے،امام احمد رحمہ اللہ اس پر اعتماد کرتے ھیں،مگر ساتھ بتاتے ھیں کہ امام یحی بن سعید اس پر اعتراض کرتے تھے اور اسے پسند نہ فرماتے تھے،، ابو حاتم کہتے ھیں " سچا ھے" اپنے والد کے شاگردوں میں والد کی احادیث کا سب سے زیادہ حافظ ھے،( مگر یہ حدیث اس نے والد سے روایت نہیں کی) یعقوب بن شیبہ کہتے ھیں یہ حدیث مین کمزور ھے، علی المدینی کہتے ھیں کہ ضعیف ھے،ابن سعد لکھتے ھیں اسے بعض حضرات نے ضعیف کہا ھے،ابن حزم نے اسے ضعیف قرار دیا ھے،نسائی کہتے ھیں اس میں کوئی خاص برائی نہیں !
امام بخاری رحمہ اللہ نے اور امام مسلم رحمہاللہ نے اس سے اصولِ شریعت کی احادیث تو لے لی ھیں مگر فضائل سے اجتناب برتا ھے، چونکہ اس نے یہ روایت باپ سے نہیں لی اور دوسروں سے اس کی روایات میں وہ کمزور ھے،،

اب درائیت کی بات یہ ھے کہ کیا جنت میں بوڑھے بھی ھوں گے؟

یا تو حدیث میں جنت کے تمام لوگوں کے سردار ھونے چاھئیں تھے،، یا بوڑھوں کا سردار کوئی اور ھو گا ،مثلاً ابوبکرؓ اور نوجوانوں کے سردار یہ ھوں گے؟؟ اور کیا جنت میں دو دو سردار ھوں گے،،کیا دنیا میں کوئی ایسا قبیلہ جہاں دو سردار ھوتے ھوں ،یا دو دو خلیفہ ھوتے ھوں ؟؟
جب جنت میں نبیوں سمیت سارے ھی نوجوان ھوں گے تو کیا یہ دونوں نبیوں کے سردار بھی ھوں گے ؟
کیا یہ دونوں نوجوانی میں وفات پا گئے تھے جو نوجوانوں کے سردار ھوں گے،، دونوں اپنی عمر کے 60 سال کے لگ بھگ فوت ھوئے ھیں ،،پھر نوجوانوں کے سردار ؟؟؟؟

حدیث میں کوئی ربطِ کلام نہیں،،نبیﷺ سوال کرتے ھیں کیا حاجت ھے؟ مگر حذیفہؓ کے جواب کا انتظار بھی نہیں کرتے اور ایک غیر متعلق بات شروع کر دیتے ھیں،یہ اندازِ کلام ھی نبیﷺ کے اسلوبِ کلام سے لگ
ۜ نہیں کھاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حدیث اہل سنت کی ان کتب میں درج ہے

۔ترمذی،الجامع الصحیح ،۶۶۰۵،رقم ۳۷۸۱
۲۔نسائی ،السنن الکبریٰ۵:۸۰،۹۵رقم ۸۲۹۸،۸۳۶۵
۳۔نسائی فضائل الصحابہ :۵۸،۷۶،رقم ۱۹۳،۲۶۰
۴۔احمد بن حنبل ،المسند ،۵:۳۹۱
۵۔احمد بن حنبل ،فضائل الصحابہ :۲:۷۸۸،رقم :۱۴۰۶
۶۔ابن ابی شیبہ المصنف ،۶:۳۸۸،رقم ۳۲۲۷۱
۷۔حاکم المستدرک ۳:۱۶۴،رقم :۴۷۲۱،۴۷۲۲
۸۔طبرانی المعجم الکبیر،۲۲:۴۰۲رقم ۱۰۰۵
۹۔بہقہی الاعتقاد :۳۲۸
۱۰۔ابونعیم ،حلیةالاولیاء وطبقات الاصفیاء ۴:۱۹۰
۱۱۔محب طبری ذخائرالعقبی ٰ فی مناقب ذوی القربی :۲۲۴
۱۲۔ذہبی ،سیراعلام النبلاء ۳:۱۲۳،۲۵۲
۱۳۔عسقلائی فتح الباری ،۲:۲۲۵
۱۴۔سیوطی تدریب الراوی ۲:۲۲۵
۱۵۔سیوطی ،الخصائص الکبری ۲:۵۶،۴۶۴

میری یہاں اہل علم برادران سے درخواست ہے کہ اس حدیث کے متعلق جو معلومات ہیں وہ یہاں پر شئیر کریں۔ جزاکم اللہ خیرا



 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس مضمون میں جو تھوڑی بہت کام کی بات ہے وہ ہے سند پر اعتراض کہ سند میں فلاں فلاں راوی ضعیف ہے ، اور ساتھ لکھنے والے نے یہ بھی کہا کہ یہ حدیث ایک ہی سند سے مروی ہے ، حالانکہ یہی حدیث ترمذی میں موجود ہے ، جس کی سند اس سے بالکل مختلف اور محققین کے نزدیک صحیح ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/حسن-و-حسین-سیدا-شباب-اھل-الجنة”-والی-حدیث-موضوع-ھے؟.20850/
حدیث کی سند ٹھیک ہو ، لیکن میرے جیسا کوئی کند ذہن آدمی اس کا معنی نہ سمجھ سکے تو بڑے بڑے محدثین او رعلماء سے ٹکّر لینے کی بجائے اپنی عقل کا علاج کروانا چاہیے ۔
بہت ہی تعجب خیز بات ہے کہ اسانید کی صحت و ضعف کا پیمانہ ایک ’’ خامل و متواری ‘‘ شخص کی ’’ عقل ‘‘ قرار پائے ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top