• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث غزوہ قسطنطنیہ اور اس پر کچھ شبہات کا رد

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
حدیث غزوہ قسطنطنیہ اور اس پر کچھ شبہات کا رد

ماہنامہ :تجلی (دیوبند)۔ اشاعت ماہ فروری و مارچ سن 1961

تمہید
آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد بخاری شریف میں ہے ، شائد وہ ایک طویل حدیث ہے جسے امام بخاری ؒ نے راویوں کے اختلاف اور جداگانہ ابواب کی تقسیم کے سبب سے چھ جگہ بیان کیا ہے۔ انکی تفضیل کچھ اسطرح ہے کہ جلد اول کتاب الجھاد کے (1) باب الدعاء بالجہاد میں (2) باب غزوۃ المراۃ فی البحر میں (3) باب من یصرع فی سبیل اللہ میں (4) باب رکوب البحر میں (5) باب ما قیل فی قتال الروم (6) جلد دوم کتاب الاستیذان کے باب میں من ذارقوما فقال عنداھم میں۔امام بخاری کتاب الجہاد والسیر میں باب ما قیل فی قتال الروم کے تحت حدیث لائے ہیں:
عن ام حرام انہا سمعت النبی یقول: ”اول جیش من امتی یغزون البحر قد اوجبوا“ قالت ام حرام: قلت: یا رسول اﷲ انا فیھم؟ قال: ”انت فیہم“ ثم قال النبی : ”اول جیش من امتی یغزون مدینہ قیصر مغفور لہم“ فقلت: انا فیھم یا رسول اﷲ؟ قال: ”لا“ (البخاری: ٢٨٥٧)

ہم ان چھوں روایتوں کو جمع کرکے ایک مربوط اور مسلسل عبارت میں انکا ترجمہ لکھتے ہیں۔ بے شک راوی کو ہم نے قصدا حذف کردیا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ جب قبا تشریف لے جاتے تھے تو حضرت ام حرام بنت ملحان زوجہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما کے یہاں اکثر جاتے تھے۔ حضرت ام حرام کی عادت تھی کہ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز ضرور پیش کیا کرتی تھیں۔ ام حرام رض نے مجھے سے بیان کیا کہ ایک بار حضور ﷺ دوپہر میں میرے گھر تشریف لائے تو میں نے حضور اکرم ﷺ کے سامنے کھانے کی کوئی چیز پیش کی اور قریب ہی بیٹھ کر آپ ﷺ کے سرمبارک میں جوئیں تلاش کرنے لگی۔ اسکے بعد حضور ﷺ نے قریب ہی کسی چیز سے ذرا ٹیک لگالی اور سوگئے ۔ یکایک تھوڑی دیر کے بعد آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ، کیا بات ہوئی جس پر آپ کو ہنسی آئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ خواب میں میرے سامنے لائے گئے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کو نکلے تھے اور اس سمندر کی پشت پر اسطرح شان اور اطمینان سے بیٹھے چلے جارہے تھے کہ جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر ہوں۔ مجھے انکو دیکھ کر تعجب اور خوشی سی ہوئی۔ میری امت کی جو پہلی فوج بحری جہاد کرے گی ، ان لوگوں نے تو (اپنے اوپر جنت) واجب ہی کرلی۔ یہ سن کر میں نے (حضرت ام حرام رضی اللہ عنھا) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کردیجئے کہ وہ مجھے بھی ان مجاہد غازیوں میں شامل کردے۔ حضور اکرم ﷺ نے میرے لئے دعا فرمائی کہ بارلہا! انکو بھی اس جماعت میں داخل کردیجئے! پھر فرمایا ہاں تم بھی ان میں شامل ہوگی۔ پھر آپ ﷺ نے دوبارہ ذرا ٹیک لگالی اور کچھ دیر کے لئے آپ ﷺ پھر سوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ﷺ پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اب حضور کو کس بات پر ہنسی آئی؟ آپ ﷺ نے پھر پہلے کی طرح فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ پھر مجھے خواب میں دکھائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے نکلے۔ تو میری امت کی جو پہلی فوج قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گی، انہیں بخش دیا گیا۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے حق میں دعا کردیجئے کہ ان مجاہد غازیوں میں مجھے بھی شریک و شامل فرمائے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا تم بس پہلی جماعت میں ہوں، دوسری میں نہیں۔ تو عبادہ بن صامت رض نے ان سے (ام حرام سے) نکاح کرلیا اور وہ حضرت معاویہ رض کے ہمراہ جب بحری غزوہ میں گئے تو انکو ساتھ لے گئے۔ ام حرام بھی (حضرت معاویہ رض کی بیوی فاختہ) بنت قرظہ کے ساتھ غزوہ میں گئیں، جب غزوہ سے لوٹیں تو فوج شام میں ٹھہری، وہاں سے روانگی کے وقت سواری کے جانور پر سوار ہونے لگیں، یکایک جانور بدکا، ام حرام گر پڑیں جس سے انکی گردن ٹوٹ گئی اور اسی صدمہ میں وہ انتقال کرگئیں۔ (انتہیٰ)

اس حدیث کے متعلق ادھر کچھ عرصے سے اکثر علمی بحثیں رسائل تجلی وغیرہ میں بھی اور بعض تصانیف "شھید کربلا اور یزید" وغیرہ میں بھی نظر سے گذرتی رہیں، مگر وہ بحثیں بہت ناکافی اور انکی بعض رائیں محض انفرادی تھیں جن سے اکثر ذہن کے اکثر شبہات کی تشفی نہیں ہوسکی۔ خود اس حدیث میں تو کوئی ایسی بات نہیں تھی جو سمجھ میں نہ آسکے، مگر الجھن جو اسمیں پیدا ہوجاتی ہے وہ بعض شارحین حدیث کی نکتہ آفرینیوں سے یا بعض اکابر کی غلبہ حال کی تحریروں سے پیدا ہوجاتی ہے۔ انکی شرحیں بالکل "شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا" کی مصداق معلوم ہوتی ہیں۔ مثلا ابن التین اور ابن المنیر نے جو نکتے اسمیں نکالے ہیں ، وہ اب بھی اہل حق اور ارباب بصیرت کی زیادہ سے زیادہ غائر نظر اور تحقیق کے مستحق ہیں۔ جسطرح "لعن یزید" اور" تکفیر یزید" کے" مبارک" کام میں اہل سنت و الجماعت میں شائد سب سے قدیم اور سب سے جوشیلے وکیل سعد الدین تفتازانی ہیں، اسی طرح شھر قیصر پر اپنے حملہ آور لشکر کی مغفوریت میں شبہے نکالنے والے شائد سب سے قدیم اور سے زیادہ پرجوش وکیل یہ "ابن التین اور ابن المنیر" ہیں اور جسطرح تفتازانی کے بارے میں ملاعلی قاری حنفی نے شرح فقہ اکبر میں فیہ رائحہ من الرفض کا ریمارک کیا ہے۔ بعض قرآئن سے ۔۔ جو تفضیلا آگے آرہے ہیں۔۔ ان دونوں ابن التین اور ابن المنیر کے بارے میں رائے یہی ہے کہ فیھما رائحۃ من الرفض (ان میں تو رفض کی بو آرہی ہے)۔ جسطرح خود امام بخاری ؒ نے بعض روافض کی روایت انکے ظاہری دین دار ہونے پر اعتماد کرکے لے لی ہے، اسی طرح بخاری کے شارحین عسقلانی ؒ، قسطلانی ؒ، عینی نے بھی کیا تعجب ہے بعض رائحہ رفض ، دونوں کے اقوال انکی دین داری کی خبر سن کر قبول کرلئے ہوں؟

بخاری شریف کے مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی نے اوپر کی چھ حدیثوں میں سے حدیث نمبر 5 کی شرح میں ان دونوں بزرگوں کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اسکا ترجمہ یہ ہے "مہلت کہتے ہیں کہ اس حدیث میں سیدنا معاویہ رض کی منقبت ہے ، کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے بحری جہاد کیا اور انکے بیٹے (یزید) کی بھی اسمیں منقبت ہے، کیونکہ اسی نے سب سے پہلے مدینہ قیصر پر جہاد کیا۔ مہلب کے اس قول پر ابن التین اور ابن المنیر نے اعتراض کیا ہے، جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حکم "مغفور لھم" کے عموم میں یزید کے داخل ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ کوئی خاص دلیل بھی اسے اِس حکم سے خارج نہیں کرسکتی، کیونکہ اہل علم کا اسمیں مطلق اختلاف نہیں کہ حضور اکرم ﷺ کا یہ قول مشروط ہے۔ اس شرط کے ساتھ وہ مجاہدین مغفرت کے اہل بھی رہے ہوں۔ یہاں تک کہ اگر بالفرض ان مجاہدین میں سے کوئی شخص اس جہاد کے بعد دین سے پھر گیا تو سب علماء متفق ہیں کہ وہ اس حکم میں داخل نہ ہوسکے گا۔ قسطلانی میں ہے کہ مہلب نے اس حدیث سے یزید کی خلافت پر استدلال کیا ہے مگر اسکا جواب اسطرح دیا گیا ہے کہ یہ استدلال صرف بنوامیہ کی حمایت میں کیا گیا ہے (ج 5ص 171) یہ مجیب صاحب بھی جنکا نام اور حال مجہول ہے۔ مہلب کے اس قول سے بے پریشان اور بدحواس ہوگئے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کا منشاء یہ ہے کہ ان مجاہدین میں سے صرف انھیں کو بخشا جائے گا، جن میں مغفرت کی شرط بھی پائے جائے گی۔ (آگے چل کر)۔ لیکن ابن التین کا یہ کہنا کہ "یزید تو اس غزوہ میں گیا ہی نہیں تھا"۔ مردود اور غلط ہے، ہاں البتہ کہا جاسکتا ہے کہ یزید دست بدست جنگ کرنے والوں میں نہیں تھا کیونکہ وہ تو امیر لشکر تھا۔ (فتح الباری ج 2 ص 65)

دیکھئے ابن التین نے اسمیں تین شبہے ڈالنے چاہے ہیں

(1) اس حکم عام میں اگر امیر یزید کو داخل مان بھی لیا جائے تو بھی اسے نفع نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ اس کے بعد اگر بالفرض اس نے کفر اور ارتداد کا ارتکاب کیا ہو تب تو تمام علماء اسکے بشارت سے خارج ہونے پر متفق ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے اکثر اعمال کے فضائل میں غفر لہ ماتقدم من ذنبہ وما تاخر وغیرہ کے وعدے اور بشارات فرمائی ہیں، ان میں اہل علم ہمیشہ وفات علی الایمان کی شرط ملحوظ رکھتے ہیں ، گویا حضور اکرم ﷺ کے ایک ارشاد تبشیری کو جسطرح بالعموم عام قانون کی روشنی میں نہ دیکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا منشاء یہ ہر گز نہیں ہوسکتا اگر اس جہاد کے مجاہدین بعد میں مرتد بھی ہوجائینگے تب بھی انکو بخش دیا جائے گا۔

(2) دوسرا شبہہ یہ اٹھایا کہ امیر یزید تو مدینہ قیصر پر حملہ آور فوج میں تھا بھی سپہ سالار کوئی دوسرا تھا ، پھر بھلا اسے مغفوریت کی بشارت کا نفع کیونکر مل سکتا ہے؟
 
Last edited:

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
(1) تیسرا نکتہ اور شبہہ یہ کھڑا کیا کہ اچھا مان لیجئے کہ اُس فوج کا سپہ سالار امیر یزید ہی تھے تو حضور ﷺ کی بشارت تو اُن لوگوں کے لئے تھی جو تلوار لے کر قلعہ تک جائیں اور قلعہ کی دیوار یا پھاٹک پر تلوار کی ضربیں لگائیں۔ اسمیں تو یزید نہیں تھا؟ وہ تو امیر لشکر بنا دور بیٹھا تھا اور زبانی جمع خرچ کرکے مجاہدین کو بڑھاتا اور لڑاتا رہا۔ اسلئے مغفرت کی بشارت کا نفع بھلا اُن کو کیوں مغفرت کی بشارت کا نفع بھلا اسے کیونکر مل سکتا ہے؟ نہ معلوم ابن التین پہلے غزوہ میں ام حرام کو بھی داخل بشارت کیونکر مان لیں گے، کیونکہ وہ بھی تلوار لے کر تو میدان نہیں اتریں تھیں۔

حالانکہ غریب ابن التین کو شائد خبر نہیں کہ ارتداد کے بعد بھی ایک قائدہ خداوندی کی رو سے مغفرت ہوسکتی ہے، جیسا آگے آرہا ہے۔ دوسرے اس ذہانت کی تو ذرا داد دیجئے کہ اگر جہاد کے بعد بالفرض کوئی مرتد ہوگیا تو علماء اُسے خارج کرنے پر متفق ہیں! اگر اس پر کوئی کہے کہ بہت اچھا، ہیں متفق تو۔۔ آگے فرمائیے کہ ۔ یعنی امیر یزید کو جہنم میں بھیجنے کے لئے پہلے یہ بھی تو ثابت کیجئے کہ اس نے کفر و ارتداد کا فلاں کام کیا تھا اور اس کام کےکفر و ارتداد ہونے پر تمام علماء جن میں"رائحہ رفض" نہیں ہے متفق بھی ہیں۔ کسی مدعی کے بیان میں اگر آپ یہ دیکھیں کہ وہ اثبات مدعا کے لئے کبھی ایک دلیل بہت زور و شور سے بیان کرتا ہے پھر کچھ سوچ کر دوسری دلیل پیش کرتا ہے کہ پہلے قول کو زور پہنچائے۔ پھر تیسری بات اسکی تائید میں لارہا ہے تو اس سے جہاں یہ بات آپ کو معلوم ہوگی کہ وہ خود بھی اپنی کسی ایک دلیل کو ثبوت میں کافی نہیں سمجھ رہا ہے وہاں یہ بھی روز ِ روشن کی طرح آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ اس مدعی کی نیت، غرض اور کوشش میں سب فاسد در فاسد ہے۔ اگر ان ابن التین کے قرآئن علم و دیانت کے نزدیک صحیح اور باوزن ہوں تو آخر کیا جوہری فرق ہے ابن التین صاحب کے اس طرز استدلال اور اثبات مدعا میں اور فرقہ سبائیہ کے طرز استدلال اور کوششوں میں کہ منت کنت مولاۃ فعلی مولاۃ سے خلافت علی بلافصل کا اثبات ہورہا ہے اور انفسنا و انفسھم خلافت علی بلافصل کا اثبات کررہے ہیں۔ کیا صاف معلوم نہیں ہورہا کہ دونوں طرز استدلال ایک ہی قسم کی ذہنیت اور ذہانت کی پیداوار ہیں؟

بہرحال اس حدیث کی شرح میں مذکورہ بالا استدلال کے شہبات اگر صرف ابن التین کے (بلکہ بالفرض خود کسی جناب التین صاحب کے یا کسی ابو التین صاحب کے بھی) ہوتے تو بھی انکی طرف ادنیٰ الفتات بھی کرتے اور علماء سے اسکا مطلب پوچھنے کی زحمت نہ اٹھاتے، بلکہ جو مطلب میں نے سمجھ لیا تھا، اُسی کو صحیح جانتے۔ مگر چونکہ اس سلسلے میں اکثر کتب کی مراجعت سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ عسقلانی، قسطلانی اور عینی نے شرح حدیث میں ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم ابواب بخاری میں مولانا تھانوی ؒ نے فتوے میں انہیں ابن التین کا قول کلا یا جزا تسلیم کیا اور دہرادیا تو یہ آسانی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غالبا اس استدلال اور اس قول کے بانی و مبانی ابن التین صاحب ہی ہیں۔ رہا ان اکابر علماء کا اس قول کو تسلیم کرلینا تو غالبا بلکہ اغلبا محبت رسول ﷺ کے غلبے اور محبت حسین رض کے ہجوم میں ان حضرات کو اس قول کی طرف پوری طرح التفات نہیں ہوسکا۔ ابن التین صاحب کا قول جو بہت "زہریلا" ہے، ان حضرات کے لئے "دام ہم رنگ زمین" میں ثابت ہوا کہ بات کچھ لگتی ہوئی دیکھی، تو تفضیلا اسکی گہرائی میں غور سے جھانکنے کی انھوں نے ضرورت ہی نہیں سمجھی اور اُسے دہرانے لگے۔ یعنی تین صورتیں سمجھ میں آئیں ہیں

(الف) یا تو ابن التین کے اعتراضات ا ور شبہات واقعی مظبوط ہی بنیادوں پر قائم ہیں اور کوئی اسکو اپنی عقلی علمی بے مائیگی کے باعث اس بنیاد کو سمجھ ہی نہیں سکا۔

(ب) یا یہ اکابر جنکی خاک ِ پا بننا بھی سب کے لئے باعثِ فخر ہے۔۔ حب الرسول ﷺ اور عقیدت حسین رض میں (یا کم سے کم بغض یزید میں) صحیح مطلب سمجھ میں آنیکے باوجود اسکے اظہار میں مصلحت نہیں دیکھتے۔ ورنہ مطلب وہ بھی وہی سمجھتے ہیں جو کوئی اور سمجھ سکتا ہے۔

(ج) یا انہوں نے سرسری نظر میں ابن التین کے قول کو حب حسین رض ۔۔ حب رسول ﷺ اور بغض یزید کا متضمن پایا تو بغیر مزید غور کے اسے تسلیم کرلیا۔ اگر اول الذکر صور ہے اور کوئی اپنی کم علمی کے پیش نظر اسی صورت کو متعین و متعین سمجھتا ہے تو اپنے زیل کے چند اشکالات کو عصر حاضر کے کسی بھی 10 علماء کی خدمت میں کوئی پیش کرسکتا ہے اور ان سے بہ ادب درخواست کرتے ہیں کہ استفتاء ہذا کا جواب ادلہ و کتاب و سنت و فقہائے امت کے اقوال سے عطا فرمایا جائے تاکہ کتنوں کم فہموں کے لئے تشفی بخش ہو۔

استفتاء:
(1) کیا فرماتے ہیں علماء دین حسب ذیل استفسارات و شبہات کے باب میں۔ کیا مغفور لھم سے مغفرت اول مراد ہے جسکا دوسرا عنوان دخول جنت بغیر عذاب ہے یا مغفرت بعدسزائے کبائر مراد ہے؟ اگر مغفرت بعد سزا مراد ہو تو نہ اسمیں امیر یزید اور دیگر لشکریان کے لئے خصوصیت، کوئی مدح، کوئی مژد و بشارت ہے اور ابن التین وغیرہ کو اس پر گھبرانے اور تاویلات پیدا کرنے اور مشتبہ بنانے کی کوئی ضرورت ہے۔ کیونکہ وہ ابن التین کے لئے، کسی عام بندے کے لئے اور تمام گناہگاروں کے لئے عام ہی ہے، مگر بظاہر ابن التین کی یہ کلامی کوششیں یہ بتاتی ہیں کہ وہ تمام لشکریوں کے لئے خصوصا امیر یزید کے کسی قسم کی مغفرت کے قائل نہیں۔

(2) حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مغفور لھم کا طرز بیان، پوری حدیث کے دیگر قرآئن کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے ، کیا جہاد قسطنطنیہ کی ترغیب اور فضائل کا محض عام ذکر ہے۔ (اور اگر کوئی فرد یا لشکر پہلے غزوہ قسطنطنیہ میں جائے گا تو مغفور لھم کے ثواب میں بشرط وجود شرائط عامہ ثواب کا شریک ہوسکے گا) یا یہ خاص حالات کے مخصوص افراد ک لئے ایک خاص تبشیر ہے، جسکا مطلب یہ کہ انکو اس انعام کا ملنا تو اٹل ہے۔ یہ انعام انھیں مل ہی کر رہے گا۔ کیونکہ ان مخصوص لوگوں کی ایمان کی سلامتی اور وفات علی الایمان تو تیقین و متعین ہے۔ اسمیں کوئی شرط و تعلیق نہیں؟

(3) اگر یہ اوجبو اور مغفور لھم ذکر فضائل جہاد مجاہدین ہے اور ترغیب عمل نہیں بلکہ مخصوص تبشیر جیش ہے تو کیا مخصوص تبشیر میں بھی شرط و تعلیق ہوا کرتی ہے؟ اگر ہوسکتی ہے تو اسکی کوئی نظیر؟

(4) اگر ایک بشارت مغفور لھم میں شروط و تعلیق علماء نے مانی ہے تو کیا اُسی وقت کی اور اُسی حیثیت کی دوسری بشارت اوجبو میں بھی شرط و تعلیق مانی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اس سے ترجیع بلا مرجح لازم آتی ہے اور اگر ہے تو پھر ابن التین کو یا ہم کو اس ارشاد میں اور کن کن قوانین کو ملا کر اوجبو کا انعام تقسیم کرنے کا ضابطہ بنانا چاہیے اور کن کن افراد کو کس کس قانون کی روشنی سے اُس بشارت کا نفع ملنے سے خارج کردینا چاہیے؟
 
Last edited:

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
(1) جس قاعدہ کی طرف ابن التین اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ حکم مشروط ہے، اس شرط سے الخ وہ بات صحیح اور تسلیم تو ہے مگر جہاں تک کسی کی ناقص نظر اور ناقص فہم کی رسائی ہے، اسکا طرز بیان ہی جداگانہ ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ دو جملوں (شرط و جزا) میں ہوا کرتا ہے۔ مثلا من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ وما تاخر وغیرہ۔ یہاں دو جملے ہیں مضمون بھی شرط و جزا کا ہے، اس لئے شرط بھی صحیح اور تعلیق بھی تسلیم مگر اول جیس من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفور لھم، تو جملہ مفردہ اسمیہ خبریہ ہے، اسکے اندر بھی شرط و تعلیق ماننا میرے نزدیک ایسا ہی جیسے ایک آدمی زید کو دَورہ پڑھنے کے زمانے میں زید عالم کہدے تو دوسرا کہے کہ واہ زید بھلا اس عموم میں کیونکر داخل ہوسکتا ہے، کیونکہ تمام علماء بلااختلاف جانتے اور مانتے ہیں کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں، کسے معلوم زید زندہ بھی رہے گا اور یہ کہ عالم ہونا مشروط ہے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ شخص عمر طبعی خدا کے یہاں سے لے کر آیا ہو، پھر اسکو مدرسہ بھی جامعہ ازہر مصر کی طرح ملا ہو۔ یہانتک کہ اگر بالفرض اسے ابن التین جیسے استاد نہ ملیں تو اسکے عالم ہونے کا کوئی امکان نہ ہو۔ اس لئے معلوم ہوا کہ کہنے والے کا منشاء عالم کہنے سے صرف اسی صورت کے ساتھ مخصوص و مشروط ہے کہ وہ بوڑھا ہوکر مرے، مصر جاچکا ہو اور ابن التین جیسا استاد بھی اسے ملا ہو۔

(2) کیا حضور اکرم ﷺ کی اور تمام بشارتیں عشرہ مبشرہ کو، اہل بیت قرآنی یعنی امہات المومنین کو۔ اہلبیت حدیثی یعنی آل عبا کو اصحاب بدر کو بلکہ جملہ اصحاب رسول ﷺ کو کہ مغفرۃ واجر عظیما کا وعدہ سبھی سے ہے، بھی اسی ناوک شرط و تعلیق کا ہدف ہیں؟

(3) جب جمع الفوائد جلد دوئم مناقب حسین رض میں معجم کبیر طبرانی کی ایک حدیث ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے یہ مروی ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ اور حضور ﷺ دو معصوموں نے شہادت دی کہ قاتلین حسین رض مسلمان ہونگے۔ چنانچہ اس پر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو تعجب بھی ہوا گویا ان کو قاتلین حسین رض کا مسلمان ہونا یا مسلمان رہ جانا باور ہی نہ ہوتا تھا۔ مگر جب حضور اکرم ﷺ نے انکو مسلمان کہدیا اور قتل حسین رض ہی کے جرم کے ساتھاانکا مسلمان ہونا بیان فرمایا تو کیا ابن التین ( یا تفتازانی یا کسی غوث و قطب) کو اسکا حق پہنچتا ہے کہ اُُسے شریعت محمدیہ کی رو سے کافر یا مرتد کہیں؟

(4) اگر بالفرض امیر یزید نے یا ابن زیاد نے سیدنا حسین رض کو قصدا بھی اس خیال سے قتل کیا کہ وہ تفریق بین المسلمین کے مرتکب ہورہے تھے، جیسا ابن عمر رض کا قول اتقیا اللہ ولا تفرقا بین المسلمین ۔ ابن علی اور ابن زبیر رضی اللہ عنھم کے باب میں مذکور اور حدیث فاقتلوہ کائنا من کان مشہور ہے تو کیا شریعت محمدیہ کی رو سے وہ لوگ گناہ گار ہوئے؟ کیا ایسا کوئی قاتل مسلم یا آمر بقتل مسلم ایسی صورت میں مستحق لعنت ہے جیسا امام غزالی لکھتے ہیں:

(5) حضور اکرم ﷺ نے ام حرام کے یہاں قیلولہ میں جو دو خواب دیکھے اور پھر جو بشارتیں او جبو اور مغفور لھم کی دیں تو کیا ان ارشادات میں اخبار عن الغیب ۔ کشف مستقبل نہیں تھا؟ دونوں خواب خود تو وحی تھے ، مگر کیا اسکے ان ارشادات میں بھی وحی کا کوئی دخل نہیں تھا؟ کیا ایسے قرآئن وحی سے قطع و یقین کا خیال مستنبط ہوتا ہے یا ظن و تخمین اور تعلق و تانین ہی کا پہلو نکلتا ہے؟ اگر ان قرآئن کے باوجود بھی اس ارشاد میں محض ترغیب جہاد اور حکم مشروط نکلتا ہے تو ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اگر حضور اکرم ﷺ نے کیا کسی پیغمبر نے خواب کی وحی سے بھی اعمال کے فضائل اور ثواب تعلیم کئے ہیں تو خواب و خیال کا اعتبار کیا؟ سائل کے نزدیک اس میں ترغیب جہاد ہرگز نہیں ہے، بلکہ خواب کی وحی۔ مسرت اور ضحک کے قوی و جدوحال کے قرآئن سے اسمیں تامہ اور مغفرت اولی مراد ہے۔

(6) اگر ابن التین نے حضور اکرم ﷺ کے ارشاد مغفور لھم کے احترام اور تقدیس میں ایک دوسرے ارشاد نبوی اور عام قانون کو پیش نظر رکھنا اپن علم و دیانت کا تقاضا سمجھا تو یہاں ایک اور حضور ﷺ کے ارشاد کے احترام و تقدیس اور عام انعام خداوندی کو پیش نظر رکھنا اور مسلمانوں تک پہنچانا علم و دیانت کا تقاضہ خیال کرتے ہوئے، علماء کرام فیصلہ کریں کہ سلم سلامتی والے اسلام اور امن و امان والے ایمان کے مزاج کے مطابق اور حضرت رحمۃ اللعالمین ﷺ کی روفیت اور رحمییت اور حق تعالیٰ کی غفاریت اور حمایت کی روح کے موافق ابن التین کے علم و دیانت کا تقاضا ہے یا اس حدیث کی کچھ اہمیت ہے۔ وہ ارشاد نبوی ﷺ یہ ہے : دیکھیے مشکوٰۃ باب وقوف بعرفہ عن عباس ابن مرد اس ص 229" حضور اکرم ﷺ نے عرفہ کے روز دن ڈھلے اپنی امت کی مغفرت (تامہ) کی دعا فرمائی تو دربآر الہیٰ سے جواب ملا کہ اچھا میں نے ان سب کو بخش دیا، بجز مظالم اور حقوق العباد کے، کیونکہ یہ حق تو میں ظالم سے مظلوم کو دلا کر رہونگا، تو حضور اکرم ﷺ نے عرض کیا اے میرے پروردگار! آپ بھی چاہیں تو مظلوم اور ظالم کو (بری فرما کر) معاف فرماسکتے ہیں۔ تو اس دعا کا جواب وہاں میدان عرفات میں تو آپ ﷺ کو نہیں ملا، مگر جب آپ ﷺ نے مزدلفہ پہنچ کر صبح کو پھر وہی دعا مانگی تو آپ ﷺ کی دعا منظور کرلی گئی۔ راوی کہتا ہے کہ پھر حضور اکرم ﷺ ضحک یا تبسم کا وجد طاری ہوگیا، تو آپ سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما نے عرض کیا کہ ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان! یہ گھڑی تو ایسی مبارک اور اہم ہے کہ آپ ﷺ بجز شغل دعا و ابتہال و گریہ اور ذکر کے) کبھی اس وقت ہنسا نہیں کرتے تھے۔ آخر کیا بات تھی جس نے آپکو ہنسا دیا۔ خدا کرے آپ ہمیشہ ہنستے خوش ہوتے رہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا سنو! اللہ کے اُس دشمن ابلیس کو جب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا (مغفرت امت کی) قبول فرما لی اور میری امت کی مغفرت (تامہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی) فرمادی، تو وہ مٹی لے کر سر پر گرانے لگا اور بڑی ہائے واویلا مچانے لگا ہے۔ بس اسکی یہ بدحواسی دیکھ کر مجھے بھی ہنسی آگئی ۔ (انتہیٰ)

اب ابن التین ذرا دیکھیں کہ حدیث میں بھی اُسی مغفرت کا ذکر ہے جسکے ایک صیغہ مغفور لھم نے انکو بدحواس اور تاویلات پر آمادہ کردیا ۔ ابن التین تو ایک امیر یزید ہی کی مغفرت پر سرکہ جبیں ہورہے ہیں اور حضور اکرم ﷺ کی شان رحمۃ الاعالمین ساری ہی امت کی مغفرت تامہ کے لئےبار بار دعا فرمارہی ہے، جن میں نہ معلوم کتنے یزید ہونگے ۔ اب التین اللہ میاں کو تقسیم مغفرت کے متعلق ایک ضابطہ بتا کر مشورہ دے رہے ہیں کہ حضور ﷺ اسے مشروط کردیجئے گا ار حضور اکرم ﷺ جو حریص علیکم کا تاج سر پر رکھے ہوئے ہیں وہ حق تعالیٰ کے سامنے حقوق العباد (جس میں قتل مسلم بھی شامل ہے) کی معافی کے لئے ترحم خسروآنہ کی اپیل کررہے ہیں اور امت کو ولا تخش من ذی العرش اقلالا کے عقیدے کی تعلیم دے رہے ہیں۔

(7) جب مغفر لھم حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے اور مقام تبشیر میں ہے، تنزل کے طور پر اسکے معنی ہی یہ ہیں کہ اس فوج کے لوگ گناہوں سے پاک اور پارسا تو نہ ہونگے، کہ مغفرت اول سے کامیاب ہوں اور بے حساب جنت میں چلے جائیں، بلکہ ہونگے ان میں اکثر مرتکبین کبائر۔ کوئی قاتل مسلم ہوگا کوئی آمر بہ قتل ِمسلم ہوگا ، کوئی مستبشریہ قتل ہوگا، کوئی مدمنِ خمر ہوگا کوئی چیتوں اور کتوں سے شکار کا مشغلہ کرتا ہوگا، کوئی شعر گوئی میں تضیع اوقات کرتا ہوگا۔ ایسے لوگوں کے لئے بھی جب حضور ﷺ نے مغور لھم فرمادیا تو کیا اسکا صاف مطلب یہ نہیں کہ جہاد ِمدینہ قیصر کا ثواب اس قدر بے نہایت ہے اور یہ فعل ایسا پسندیدہ حق ہے کہ اس فوج کے تمام گناہ صغائر بھی کبائر بھی، حقوق اللہ بھی حقوق العباد بھی سب بخش دئیے جائیں گے، بلکہ بالفرض ان مجاہدین میں سے کسی کو (معاذ اللہ) ایک تقدیر ازلی کے بموجب جب کفر و ارتداد کا بھی ابتلا پیش آجائیگا، تب بھی اُس غزوہ کے جملہ شرکاء کے لئے (بلااستثناء مرد و عورت، امیر و مامور، سپاہی اور سپہ سالار) حق تعالیٰ کی دوسری تقدیر یہ بھی ہوچکی ہے کہ اس ابتلاء کے بعد بھی اسے پھر توبہ صادقہ کی توثیق یقینا ہوجائیگی۔ اسطرح وہ مستحق مغفرت ہوجائے گا اور حضور اکرم ﷺ کا فرمان سچا اور پورا ثابت ہوکر رہے گا۔ گویا کہ حضور اکرم ﷺ نے مغفور لھم فرما کر اُسی دوسری تقدیر خداوندی کی طرف اشارہ فرمایا تھا جو ابن التین کے گلے کے نیچے نہیں اتر رہی ہے۔

(8) ایک نظر یہ ہے کہ ہر مسلمان کو اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اگر ابن التین مکذبین بالقدر میں سے نہیں ہے تو ان کو آنکھ کھول کر وہ ارشاد نبوی دیکھنا چاہئیے جسے بخاری و مسلم دونوں نے روایت کیا ہے۔ (دیکھو مشکوٰۃ باب القدر عن سہل بن سعد) "حضور ﷺ نے فرمایا کہ بندہ زندگی بھر دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے، حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔ اسی طرح بندہ جنتیوں کےسے کام کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ انسان کے آخری اعمال کا اعتبار ہوتا ہے۔" یہ تو تھی تقدیر کی تھیوری اور نظریہ۔ اب اسکی ایک مثال بھی عہد سعادت ہی کی سن لیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک بار حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ سے کچھ وحی قرآنی لکھوائی۔ آیت فتبارک اللہ احسن الخالقین پر پہنچ کر ایک تقدیر الہیٰ کی بموجب ، جب انکو ارتداد کا ابتلاء پیش آگیا، مگر چونکہ انکو جنتی ہونا تھا اسلئے دوسری تقدیر آلہیٰ سے وہ سیدنا عثمان رض کی سعی سے انکے عہد میں دوبارہ اسلا م لائے اور فاتح مصر بنے، حالانکہ لسان نبوت نے انکے بارے میں مغفور لھم کی بشار دی بھی نہیں تھی۔ اگر امیر یزید سپہ سالار غزوہ قسطنطنیہ کے لئے بھی جس سے شائد کفر و ارتداد ہوا بھی نہیں تھا، حق تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی لاج رکھنے کے لئے دوسری تقدیر ، توبہ صادقہ قبل الموت، وفات علی ایمان کی فرمادی ہو تو ابن التین صاحب کو اس تقدیر الہیٰ سے انکار کیو ں ہے؟ بینو او توجرو

اب فائدہ اس اشاعت سوالات کا ضرور ہے کہ جس حدیث کا تذکرہ متعلقہ بحث میں بار بار آتا رہا ہے، اسکے تمام گوشے خواص و عوام کے سامنے آجائیں گے اور وہ دیکھ سکیں گے کہ امیریزید کی بخشش کا یقین خواہ مخواہ "بغض حسین رض" میں نہیں کرلیا گیا ہے، بلکہ اسککے لئے مضبوط علمی بنیادیں موجود ہیں۔ غلطی ہر انسان ہر شخص سے ہوسکتی ہے اور بعض غلطیاں جذباتی لگاوٹوں سے ملکر ایسا قبول عام حاصل کرلیتی ہیں کہ افسانے حقیقت بن جاتے ہیں اور حقائق دور کھڑے حسرت سے تکا کرتے ہیں۔ ایسی ٹریجڈی حسین رض اور امیر یزید رحمہ اللہ کی بحث سے سب سے ہوتی ہے۔ ورنہ کیا معنے تھے کہ بڑے بڑے محدثین ابن التین اور ابن المنیر جیسے لوگوں کی صریح الغلط تاویل کو نقل تو شوق سے کردیتے ہیں، مگر اسکا پوسٹ مارٹم کرنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے۔ چلئے مان لیا کہ مجاہدین قسطنطنیہ میں سے کوئی مرتد بھی ہوسکتا تھا ار تداد کے بعد مغفرت کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن محض امکان اتداد سے کیا امیر یزید رحمہ اللہ کے مرتد ہوجانے کا بھی حکم لگایا جاسکتا ہے؟ کیا ہر مفروضے کو واقعہ تسلیم کرلینا چاہئے؟ کمال ہے کہ محض نظری اعتبار سے ایک بات فرض کررہے ہیں، لیکن مخاطبین کے دلوں میں یہ اتار دینا چاہتے ہیں کہ یہ مفروضہ حقیقت ہے!
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
(1) جس قاعدہ کی طرف ابن التین اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ حکم مشروط ہے، اس شرط سے الخ وہ بات صحیح اور تسلیم تو ہے مگر جہاں تک کسی کی ناقص نظر اور ناقص فہم کی رسائی ہے، اسکا طرز بیان ہی جداگانہ ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ دو جملوں (شرط و جزا) میں ہوا کرتا ہے۔ مثلا من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ وما تاخر وغیرہ۔ یہاں دو جملے ہیں مضمون بھی شرط و جزا کا ہے، اس لئے شرط بھی صحیح اور تعلیق بھی تسلیم مگر اول جیس من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفور لھم، تو جملہ مفردہ اسمیہ خبریہ ہے، اسکے اندر بھی شرط و تعلیق ماننا میرے نزدیک ایسا ہی جیسے ایک آدمی زید کو دَورہ پڑھنے کے زمانے میں زید عالم کہدے تو دوسرا کہے کہ واہ زید بھلا اس عموم میں کیونکر داخل ہوسکتا ہے، کیونکہ تمام علماء بلااختلاف جانتے اور مانتے ہیں کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں، کسے معلوم زید زندہ بھی رہے گا اور یہ کہ عالم ہونا مشروط ہے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ شخص عمر طبعی خدا کے یہاں سے لے کر آیا ہو، پھر اسکو مدرسہ بھی جامعہ ازہر مصر کی طرح ملا ہو۔ یہانتک کہ اگر بالفرض اسے ابن التین جیسے استاد نہ ملیں تو اسکے عالم ہونے کا کوئی امکان نہ ہو۔ اس لئے معلوم ہوا کہ کہنے والے کا منشاء عالم کہنے سے صرف اسی صورت کے ساتھ مخصوص و مشروط ہے کہ وہ بوڑھا ہوکر مرے، مصر جاچکا ہو اور ابن التین جیسا استاد بھی اسے ملا ہو۔

(2) کیا حضور اکرم ﷺ کی اور تمام بشارتیں عشرہ مبشرہ کو، اہل بیت قرآنی یعنی امہات المومنین کو۔ اہلبیت حدیثی یعنی آل عبا کو اصحاب بدر کو بلکہ جملہ اصحاب رسول ﷺ کو کہ مغفرۃ واجر عظیما کا وعدہ سبھی سے ہے، بھی اسی ناوک شرط و تعلیق کا ہدف ہیں؟

(3) جب جمع الفوائد جلد دوئم مناقب حسین رض میں معجم کبیر طبرانی کی ایک حدیث ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے یہ مروی ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ اور حضور ﷺ دو معصوموں نے شہادت دی کہ قاتلین حسین رض مسلمان ہونگے۔ چنانچہ اس پر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو تعجب بھی ہوا گویا ان کو قاتلین حسین رض کا مسلمان ہونا یا مسلمان رہ جانا باور ہی نہ ہوتا تھا۔ مگر جب حضور اکرم ﷺ نے انکو مسلمان کہدیا اور قتل حسین رض ہی کے جرم کے ساتھاانکا مسلمان ہونا بیان فرمایا تو کیا ابن التین ( یا تفتازانی یا کسی غوث و قطب) کو اسکا حق پہنچتا ہے کہ اُُسے شریعت محمدیہ کی رو سے کافر یا مرتد کہیں؟

(4) اگر بالفرض امیر یزید نے یا ابن زیاد نے سیدنا حسین رض کو قصدا بھی اس خیال سے قتل کیا کہ وہ تفریق بین المسلمین کے مرتکب ہورہے تھے، جیسا ابن عمر رض کا قول اتقیا اللہ ولا تفرقا بین المسلمین ۔ ابن علی اور ابن زبیر رضی اللہ عنھم کے باب میں مذکور اور حدیث فاقتلوہ کائنا من کان مشہور ہے تو کیا شریعت محمدیہ کی رو سے وہ لوگ گناہ گار ہوئے؟ کیا ایسا کوئی قاتل مسلم یا آمر بقتل مسلم ایسی صورت میں مستحق لعنت ہے جیسا امام غزالی لکھتے ہیں:

(5) حضور اکرم ﷺ نے ام حرام کے یہاں قیلولہ میں جو دو خواب دیکھے اور پھر جو بشارتیں او جبو اور مغفور لھم کی دیں تو کیا ان ارشادات میں اخبار عن الغیب ۔ کشف مستقبل نہیں تھا؟ دونوں خواب خود تو وحی تھے ، مگر کیا اسکے ان ارشادات میں بھی وحی کا کوئی دخل نہیں تھا؟ کیا ایسے قرآئن وحی سے قطع و یقین کا خیال مستنبط ہوتا ہے یا ظن و تخمین اور تعلق و تانین ہی کا پہلو نکلتا ہے؟ اگر ان قرآئن کے باوجود بھی اس ارشاد میں محض ترغیب جہاد اور حکم مشروط نکلتا ہے تو ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اگر حضور اکرم ﷺ نے کیا کسی پیغمبر نے خواب کی وحی سے بھی اعمال کے فضائل اور ثواب تعلیم کئے ہیں تو خواب و خیال کا اعتبار کیا؟ سائل کے نزدیک اس میں ترغیب جہاد ہرگز نہیں ہے، بلکہ خواب کی وحی۔ مسرت اور ضحک کے قوی و جدوحال کے قرآئن سے اسمیں تامہ اور مغفرت اولی مراد ہے۔

(6) اگر ابن التین نے حضور اکرم ﷺ کے ارشاد مغفور لھم کے احترام اور تقدیس میں ایک دوسرے ارشاد نبوی اور عام قانون کو پیش نظر رکھنا اپن علم و دیانت کا تقاضا سمجھا تو یہاں ایک اور حضور ﷺ کے ارشاد کے احترام و تقدیس اور عام انعام خداوندی کو پیش نظر رکھنا اور مسلمانوں تک پہنچانا علم و دیانت کا تقاضہ خیال کرتے ہوئے، علماء کرام فیصلہ کریں کہ سلم سلامتی والے اسلام اور امن و امان والے ایمان کے مزاج کے مطابق اور حضرت رحمۃ اللعالمین ﷺ کی روفیت اور رحمییت اور حق تعالیٰ کی غفاریت اور حمایت کی روح کے موافق ابن التین کے علم و دیانت کا تقاضا ہے یا اس حدیث کی کچھ اہمیت ہے۔ وہ ارشاد نبوی ﷺ یہ ہے : دیکھیے مشکوٰۃ باب وقوف بعرفہ عن عباس ابن مرد اس ص 229" حضور اکرم ﷺ نے عرفہ کے روز دن ڈھلے اپنی امت کی مغفرت (تامہ) کی دعا فرمائی تو دربآر الہیٰ سے جواب ملا کہ اچھا میں نے ان سب کو بخش دیا، بجز مظالم اور حقوق العباد کے، کیونکہ یہ حق تو میں ظالم سے مظلوم کو دلا کر رہونگا، تو حضور اکرم ﷺ نے عرض کیا اے میرے پروردگار! آپ بھی چاہیں تو مظلوم اور ظالم کو (بری فرما کر) معاف فرماسکتے ہیں۔ تو اس دعا کا جواب وہاں میدان عرفات میں تو آپ ﷺ کو نہیں ملا، مگر جب آپ ﷺ نے مزدلفہ پہنچ کر صبح کو پھر وہی دعا مانگی تو آپ ﷺ کی دعا منظور کرلی گئی۔ راوی کہتا ہے کہ پھر حضور اکرم ﷺ ضحک یا تبسم کا وجد طاری ہوگیا، تو آپ سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما نے عرض کیا کہ ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان! یہ گھڑی تو ایسی مبارک اور اہم ہے کہ آپ ﷺ بجز شغل دعا و ابتہال و گریہ اور ذکر کے) کبھی اس وقت ہنسا نہیں کرتے تھے۔ آخر کیا بات تھی جس نے آپکو ہنسا دیا۔ خدا کرے آپ ہمیشہ ہنستے خوش ہوتے رہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا سنو! اللہ کے اُس دشمن ابلیس کو جب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا (مغفرت امت کی) قبول فرما لی اور میری امت کی مغفرت (تامہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی) فرمادی، تو وہ مٹی لے کر سر پر گرانے لگا اور بڑی ہائے واویلا مچانے لگا ہے۔ بس اسکی یہ بدحواسی دیکھ کر مجھے بھی ہنسی آگئی ۔ (انتہیٰ)

اب ابن التین ذرا دیکھیں کہ حدیث میں بھی اُسی مغفرت کا ذکر ہے جسکے ایک صیغہ مغفور لھم نے انکو بدحواس اور تاویلات پر آمادہ کردیا ۔ ابن التین تو ایک امیر یزید ہی کی مغفرت پر سرکہ جبیں ہورہے ہیں اور حضور اکرم ﷺ کی شان رحمۃ الاعالمین ساری ہی امت کی مغفرت تامہ کے لئےبار بار دعا فرمارہی ہے، جن میں نہ معلوم کتنے یزید ہونگے ۔ اب التین اللہ میاں کو تقسیم مغفرت کے متعلق ایک ضابطہ بتا کر مشورہ دے رہے ہیں کہ حضور ﷺ اسے مشروط کردیجئے گا ار حضور اکرم ﷺ جو حریص علیکم کا تاج سر پر رکھے ہوئے ہیں وہ حق تعالیٰ کے سامنے حقوق العباد (جس میں قتل مسلم بھی شامل ہے) کی معافی کے لئے ترحم خسروآنہ کی اپیل کررہے ہیں اور امت کو ولا تخش من ذی العرش اقلالا کے عقیدے کی تعلیم دے رہے ہیں۔

(7) جب مغفر لھم حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے اور مقام تبشیر میں ہے، تنزل کے طور پر اسکے معنی ہی یہ ہیں کہ اس فوج کے لوگ گناہوں سے پاک اور پارسا تو نہ ہونگے، کہ مغفرت اول سے کامیاب ہوں اور بے حساب جنت میں چلے جائیں، بلکہ ہونگے ان میں اکثر مرتکبین کبائر۔ کوئی قاتل مسلم ہوگا کوئی آمر بہ قتل ِمسلم ہوگا ، کوئی مستبشریہ قتل ہوگا، کوئی مدمنِ خمر ہوگا کوئی چیتوں اور کتوں سے شکار کا مشغلہ کرتا ہوگا، کوئی شعر گوئی میں تضیع اوقات کرتا ہوگا۔ ایسے لوگوں کے لئے بھی جب حضور ﷺ نے مغور لھم فرمادیا تو کیا اسکا صاف مطلب یہ نہیں کہ جہاد ِمدینہ قیصر کا ثواب اس قدر بے نہایت ہے اور یہ فعل ایسا پسندیدہ حق ہے کہ اس فوج کے تمام گناہ صغائر بھی کبائر بھی، حقوق اللہ بھی حقوق العباد بھی سب بخش دئیے جائیں گے، بلکہ بالفرض ان مجاہدین میں سے کسی کو (معاذ اللہ) ایک تقدیر ازلی کے بموجب جب کفر و ارتداد کا بھی ابتلا پیش آجائیگا، تب بھی اُس غزوہ کے جملہ شرکاء کے لئے (بلااستثناء مرد و عورت، امیر و مامور، سپاہی اور سپہ سالار) حق تعالیٰ کی دوسری تقدیر یہ بھی ہوچکی ہے کہ اس ابتلاء کے بعد بھی اسے پھر توبہ صادقہ کی توثیق یقینا ہوجائیگی۔ اسطرح وہ مستحق مغفرت ہوجائے گا اور حضور اکرم ﷺ کا فرمان سچا اور پورا ثابت ہوکر رہے گا۔ گویا کہ حضور اکرم ﷺ نے مغفور لھم فرما کر اُسی دوسری تقدیر خداوندی کی طرف اشارہ فرمایا تھا جو ابن التین کے گلے کے نیچے نہیں اتر رہی ہے۔

(8) ایک نظر یہ ہے کہ ہر مسلمان کو اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اگر ابن التین مکذبین بالقدر میں سے نہیں ہے تو ان کو آنکھ کھول کر وہ ارشاد نبوی دیکھنا چاہئیے جسے بخاری و مسلم دونوں نے روایت کیا ہے۔ (دیکھو مشکوٰۃ باب القدر عن سہل بن سعد) "حضور ﷺ نے فرمایا کہ بندہ زندگی بھر دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے، حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔ اسی طرح بندہ جنتیوں کےسے کام کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ انسان کے آخری اعمال کا اعتبار ہوتا ہے۔" یہ تو تھی تقدیر کی تھیوری اور نظریہ۔ اب اسکی ایک مثال بھی عہد سعادت ہی کی سن لیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک بار حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ سے کچھ وحی قرآنی لکھوائی۔ آیت فتبارک اللہ احسن الخالقین پر پہنچ کر ایک تقدیر الہیٰ کی بموجب ، جب انکو ارتداد کا ابتلاء پیش آگیا، مگر چونکہ انکو جنتی ہونا تھا اسلئے دوسری تقدیر آلہیٰ سے وہ سیدنا عثمان رض کی سعی سے انکے عہد میں دوبارہ اسلا م لائے اور فاتح مصر بنے، حالانکہ لسان نبوت نے انکے بارے میں مغفور لھم کی بشار دی بھی نہیں تھی۔ اگر امیر یزید سپہ سالار غزوہ قسطنطنیہ کے لئے بھی جس سے شائد کفر و ارتداد ہوا بھی نہیں تھا، حق تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی لاج رکھنے کے لئے دوسری تقدیر ، توبہ صادقہ قبل الموت، وفات علی ایمان کی فرمادی ہو تو ابن التین صاحب کو اس تقدیر الہیٰ سے انکار کیو ں ہے؟ بینو او توجرو

اب فائدہ اس اشاعت سوالات کا ضرور ہے کہ جس حدیث کا تذکرہ متعلقہ بحث میں بار بار آتا رہا ہے، اسکے تمام گوشے خواص و عوام کے سامنے آجائیں گے اور وہ دیکھ سکیں گے کہ امیریزید کی بخشش کا یقین خواہ مخواہ "بغض حسین رض" میں نہیں کرلیا گیا ہے، بلکہ اسککے لئے مضبوط علمی بنیادیں موجود ہیں۔ غلطی ہر انسان ہر شخص سے ہوسکتی ہے اور بعض غلطیاں جذباتی لگاوٹوں سے ملکر ایسا قبول عام حاصل کرلیتی ہیں کہ افسانے حقیقت بن جاتے ہیں اور حقائق دور کھڑے حسرت سے تکا کرتے ہیں۔ ایسی ٹریجڈی حسین رض اور امیر یزید رحمہ اللہ کی بحث سے سب سے ہوتی ہے۔ ورنہ کیا معنے تھے کہ بڑے بڑے محدثین ابن التین اور ابن المنیر جیسے لوگوں کی صریح الغلط تاویل کو نقل تو شوق سے کردیتے ہیں، مگر اسکا پوسٹ مارٹم کرنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے۔ چلئے مان لیا کہ مجاہدین قسطنطنیہ میں سے کوئی مرتد بھی ہوسکتا تھا ار تداد کے بعد مغفرت کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن محض امکان اتداد سے کیا امیر یزید رحمہ اللہ کے مرتد ہوجانے کا بھی حکم لگایا جاسکتا ہے؟ کیا ہر مفروضے کو واقعہ تسلیم کرلینا چاہئے؟ کمال ہے کہ محض نظری اعتبار سے ایک بات فرض کررہے ہیں، لیکن مخاطبین کے دلوں میں یہ اتار دینا چاہتے ہیں کہ یہ مفروضہ حقیقت ہے!
جناب ،
یزید سے اتنی ہمدردی کیوں صرف ابن التین نے ہی نہیں امت کے اور بھی بڑے اکابرین ہیں جنہوں نے یہی بات پیش کی ہے ان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تراجم ابواب بخاری میں اس باب کی شرح کرتے ہوئےیہی لکھتے ہیں یہ پچھلے گناہوں کی بخشش کے لیے ہے۔
اور اپ نے جو تمام امت کے مغفور لھم کی جو مثال پیش کی ہے اس پر صرف اتنا ہی کہوں گا کہ صحیح بخاری میں شفاعت کے باب میں یہ حدیث موجود ہے کہ میں اپنی امت کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے کر جاؤ گا جب امت مغفور لھم ہے تو جہنم میں کیوں گئی۔
(2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو بشارت دی گئی ہے ان احادیث میں ابدی قرینہ موجود ہے مثلا غزوہ بدر کے شامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے بارے میں موجود ہے "غفرت لھم ماشئت" اس میں جو چاہو کرو کا قرینہ موجود ہے کے یہ ابدی بشارت ہے۔ مگر یزید کے اگر اس کی اس غزوہ میں موجودگی کو مان لیا جائے تو مغفر لھم سے کیا مراد ہے حدیث سے ہی معلوم کرتے ہیں۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے جس کو شیخ سنابلی نے اپنی کتاب "یزید پر اعتراضات کا جواب" میں نقل کیا ہے۔
"نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گا اس کے گناہ اسی طرح ختم ہو جائیں گے جیسے بنی اسرائیل کے ختم ہوئے تھے" اس حدیث میں جو بھی وہ گھاٹی چڑھا اس کے بارے میں مغفور لھم کے الفاظ ہیں۔صحیح مسلم رقم2780
اب مجھے یہ بتائیں ان کی مغفرت کی مثال کس سے دی گئی ہے بنی اسرائیل سےکیا بنی اسرائیل مغفورلھم ہیں یہ سب جنت میں جائیں گے نہیں بلکہ یہ پچھلے گناہوں کی معافی کے بارے میں بیان ہے اسی طرح مغفور لھم اس لشکر کے لیے بھی پچھلے گناہوں کی معافی کا سبب بنے گا جیسا شاہ ولی اللہ کے حوالے سے نقل کر چکا ہوں اور دنیا جانتی ہے یزید نے اس لشکر میں شمولیت کے بعد کیا کیا کام نہیں کیے ہیں مسلمانوں کے تخت پر قابض یہ غاصب حکومت کے لئے کیا کیا ظلم نہیں کیے ہیں۔
(3) اب آخر میں ایک چھوٹا سا سوال کیا وحی آپس میں متضاد ہو سکتی ہے ایک طرف(بقول آپ کے)یزید مغفور لھم ہے اور دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ظلم اور جابر بھی کہیں کیا یہ ممکن ہے
میرے بعد خلافت 30 سال ہے پھر بادشاہت ہو گی اور اس بادشاہت کو ملک عضوض کہا ہے اور تاریخ میں نہیں ان کے کارنامے احادیث کی کتب میں محفوظ ہے اس کے لیے کسی تاریخ کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے نماز ان کے دور میں دیر سے ہوناشروع ہوئی عید کے خطبہ پہلے علی رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی پر منبروں پر لعنت کرنے والے دین میں بدعت نکالنے والے ان کی حمایت کرتے ہیں بدعتوں کو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حوض سے واپس کر دیا ہےاللہ کا خوف کرو اللہ کسی کو جنت دے یا جھنم یہ کل اس کا اختیار ہے مگر ایک اجماعی مسئلہ کہ یزید بلاتفاق فاسق و فاجر ہے اس کو کیوں بدلتے ہو۔ اللہ سب کو ہدایت دے۔
 
Top