HUMAIR YOUSUF
رکن
- شمولیت
- مارچ 22، 2014
- پیغامات
- 191
- ری ایکشن اسکور
- 56
- پوائنٹ
- 57
حدیث غزوہ قسطنطنیہ اور اس پر کچھ شبہات کا رد
ماہنامہ :تجلی (دیوبند)۔ اشاعت ماہ فروری و مارچ سن 1961
تمہید
آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد بخاری شریف میں ہے ، شائد وہ ایک طویل حدیث ہے جسے امام بخاری ؒ نے راویوں کے اختلاف اور جداگانہ ابواب کی تقسیم کے سبب سے چھ جگہ بیان کیا ہے۔ انکی تفضیل کچھ اسطرح ہے کہ جلد اول کتاب الجھاد کے (1) باب الدعاء بالجہاد میں (2) باب غزوۃ المراۃ فی البحر میں (3) باب من یصرع فی سبیل اللہ میں (4) باب رکوب البحر میں (5) باب ما قیل فی قتال الروم (6) جلد دوم کتاب الاستیذان کے باب میں من ذارقوما فقال عنداھم میں۔امام بخاری کتاب الجہاد والسیر میں باب ما قیل فی قتال الروم کے تحت حدیث لائے ہیں:
عن ام حرام انہا سمعت النبی یقول: ”اول جیش من امتی یغزون البحر قد اوجبوا“ قالت ام حرام: قلت: یا رسول اﷲ انا فیھم؟ قال: ”انت فیہم“ ثم قال النبی : ”اول جیش من امتی یغزون مدینہ قیصر مغفور لہم“ فقلت: انا فیھم یا رسول اﷲ؟ قال: ”لا“ (البخاری: ٢٨٥٧)
ہم ان چھوں روایتوں کو جمع کرکے ایک مربوط اور مسلسل عبارت میں انکا ترجمہ لکھتے ہیں۔ بے شک راوی کو ہم نے قصدا حذف کردیا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ جب قبا تشریف لے جاتے تھے تو حضرت ام حرام بنت ملحان زوجہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما کے یہاں اکثر جاتے تھے۔ حضرت ام حرام کی عادت تھی کہ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز ضرور پیش کیا کرتی تھیں۔ ام حرام رض نے مجھے سے بیان کیا کہ ایک بار حضور ﷺ دوپہر میں میرے گھر تشریف لائے تو میں نے حضور اکرم ﷺ کے سامنے کھانے کی کوئی چیز پیش کی اور قریب ہی بیٹھ کر آپ ﷺ کے سرمبارک میں جوئیں تلاش کرنے لگی۔ اسکے بعد حضور ﷺ نے قریب ہی کسی چیز سے ذرا ٹیک لگالی اور سوگئے ۔ یکایک تھوڑی دیر کے بعد آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ، کیا بات ہوئی جس پر آپ کو ہنسی آئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ خواب میں میرے سامنے لائے گئے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کو نکلے تھے اور اس سمندر کی پشت پر اسطرح شان اور اطمینان سے بیٹھے چلے جارہے تھے کہ جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر ہوں۔ مجھے انکو دیکھ کر تعجب اور خوشی سی ہوئی۔ میری امت کی جو پہلی فوج بحری جہاد کرے گی ، ان لوگوں نے تو (اپنے اوپر جنت) واجب ہی کرلی۔ یہ سن کر میں نے (حضرت ام حرام رضی اللہ عنھا) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کردیجئے کہ وہ مجھے بھی ان مجاہد غازیوں میں شامل کردے۔ حضور اکرم ﷺ نے میرے لئے دعا فرمائی کہ بارلہا! انکو بھی اس جماعت میں داخل کردیجئے! پھر فرمایا ہاں تم بھی ان میں شامل ہوگی۔ پھر آپ ﷺ نے دوبارہ ذرا ٹیک لگالی اور کچھ دیر کے لئے آپ ﷺ پھر سوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ﷺ پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اب حضور کو کس بات پر ہنسی آئی؟ آپ ﷺ نے پھر پہلے کی طرح فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ پھر مجھے خواب میں دکھائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے نکلے۔ تو میری امت کی جو پہلی فوج قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گی، انہیں بخش دیا گیا۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے حق میں دعا کردیجئے کہ ان مجاہد غازیوں میں مجھے بھی شریک و شامل فرمائے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا تم بس پہلی جماعت میں ہوں، دوسری میں نہیں۔ تو عبادہ بن صامت رض نے ان سے (ام حرام سے) نکاح کرلیا اور وہ حضرت معاویہ رض کے ہمراہ جب بحری غزوہ میں گئے تو انکو ساتھ لے گئے۔ ام حرام بھی (حضرت معاویہ رض کی بیوی فاختہ) بنت قرظہ کے ساتھ غزوہ میں گئیں، جب غزوہ سے لوٹیں تو فوج شام میں ٹھہری، وہاں سے روانگی کے وقت سواری کے جانور پر سوار ہونے لگیں، یکایک جانور بدکا، ام حرام گر پڑیں جس سے انکی گردن ٹوٹ گئی اور اسی صدمہ میں وہ انتقال کرگئیں۔ (انتہیٰ)
اس حدیث کے متعلق ادھر کچھ عرصے سے اکثر علمی بحثیں رسائل تجلی وغیرہ میں بھی اور بعض تصانیف "شھید کربلا اور یزید" وغیرہ میں بھی نظر سے گذرتی رہیں، مگر وہ بحثیں بہت ناکافی اور انکی بعض رائیں محض انفرادی تھیں جن سے اکثر ذہن کے اکثر شبہات کی تشفی نہیں ہوسکی۔ خود اس حدیث میں تو کوئی ایسی بات نہیں تھی جو سمجھ میں نہ آسکے، مگر الجھن جو اسمیں پیدا ہوجاتی ہے وہ بعض شارحین حدیث کی نکتہ آفرینیوں سے یا بعض اکابر کی غلبہ حال کی تحریروں سے پیدا ہوجاتی ہے۔ انکی شرحیں بالکل "شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا" کی مصداق معلوم ہوتی ہیں۔ مثلا ابن التین اور ابن المنیر نے جو نکتے اسمیں نکالے ہیں ، وہ اب بھی اہل حق اور ارباب بصیرت کی زیادہ سے زیادہ غائر نظر اور تحقیق کے مستحق ہیں۔ جسطرح "لعن یزید" اور" تکفیر یزید" کے" مبارک" کام میں اہل سنت و الجماعت میں شائد سب سے قدیم اور سب سے جوشیلے وکیل سعد الدین تفتازانی ہیں، اسی طرح شھر قیصر پر اپنے حملہ آور لشکر کی مغفوریت میں شبہے نکالنے والے شائد سب سے قدیم اور سے زیادہ پرجوش وکیل یہ "ابن التین اور ابن المنیر" ہیں اور جسطرح تفتازانی کے بارے میں ملاعلی قاری حنفی نے شرح فقہ اکبر میں فیہ رائحہ من الرفض کا ریمارک کیا ہے۔ بعض قرآئن سے ۔۔ جو تفضیلا آگے آرہے ہیں۔۔ ان دونوں ابن التین اور ابن المنیر کے بارے میں رائے یہی ہے کہ فیھما رائحۃ من الرفض (ان میں تو رفض کی بو آرہی ہے)۔ جسطرح خود امام بخاری ؒ نے بعض روافض کی روایت انکے ظاہری دین دار ہونے پر اعتماد کرکے لے لی ہے، اسی طرح بخاری کے شارحین عسقلانی ؒ، قسطلانی ؒ، عینی نے بھی کیا تعجب ہے بعض رائحہ رفض ، دونوں کے اقوال انکی دین داری کی خبر سن کر قبول کرلئے ہوں؟
بخاری شریف کے مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی نے اوپر کی چھ حدیثوں میں سے حدیث نمبر 5 کی شرح میں ان دونوں بزرگوں کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اسکا ترجمہ یہ ہے "مہلت کہتے ہیں کہ اس حدیث میں سیدنا معاویہ رض کی منقبت ہے ، کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے بحری جہاد کیا اور انکے بیٹے (یزید) کی بھی اسمیں منقبت ہے، کیونکہ اسی نے سب سے پہلے مدینہ قیصر پر جہاد کیا۔ مہلب کے اس قول پر ابن التین اور ابن المنیر نے اعتراض کیا ہے، جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حکم "مغفور لھم" کے عموم میں یزید کے داخل ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ کوئی خاص دلیل بھی اسے اِس حکم سے خارج نہیں کرسکتی، کیونکہ اہل علم کا اسمیں مطلق اختلاف نہیں کہ حضور اکرم ﷺ کا یہ قول مشروط ہے۔ اس شرط کے ساتھ وہ مجاہدین مغفرت کے اہل بھی رہے ہوں۔ یہاں تک کہ اگر بالفرض ان مجاہدین میں سے کوئی شخص اس جہاد کے بعد دین سے پھر گیا تو سب علماء متفق ہیں کہ وہ اس حکم میں داخل نہ ہوسکے گا۔ قسطلانی میں ہے کہ مہلب نے اس حدیث سے یزید کی خلافت پر استدلال کیا ہے مگر اسکا جواب اسطرح دیا گیا ہے کہ یہ استدلال صرف بنوامیہ کی حمایت میں کیا گیا ہے (ج 5ص 171) یہ مجیب صاحب بھی جنکا نام اور حال مجہول ہے۔ مہلب کے اس قول سے بے پریشان اور بدحواس ہوگئے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کا منشاء یہ ہے کہ ان مجاہدین میں سے صرف انھیں کو بخشا جائے گا، جن میں مغفرت کی شرط بھی پائے جائے گی۔ (آگے چل کر)۔ لیکن ابن التین کا یہ کہنا کہ "یزید تو اس غزوہ میں گیا ہی نہیں تھا"۔ مردود اور غلط ہے، ہاں البتہ کہا جاسکتا ہے کہ یزید دست بدست جنگ کرنے والوں میں نہیں تھا کیونکہ وہ تو امیر لشکر تھا۔ (فتح الباری ج 2 ص 65)
دیکھئے ابن التین نے اسمیں تین شبہے ڈالنے چاہے ہیں
(1) اس حکم عام میں اگر امیر یزید کو داخل مان بھی لیا جائے تو بھی اسے نفع نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ اس کے بعد اگر بالفرض اس نے کفر اور ارتداد کا ارتکاب کیا ہو تب تو تمام علماء اسکے بشارت سے خارج ہونے پر متفق ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے اکثر اعمال کے فضائل میں غفر لہ ماتقدم من ذنبہ وما تاخر وغیرہ کے وعدے اور بشارات فرمائی ہیں، ان میں اہل علم ہمیشہ وفات علی الایمان کی شرط ملحوظ رکھتے ہیں ، گویا حضور اکرم ﷺ کے ایک ارشاد تبشیری کو جسطرح بالعموم عام قانون کی روشنی میں نہ دیکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا منشاء یہ ہر گز نہیں ہوسکتا اگر اس جہاد کے مجاہدین بعد میں مرتد بھی ہوجائینگے تب بھی انکو بخش دیا جائے گا۔
(2) دوسرا شبہہ یہ اٹھایا کہ امیر یزید تو مدینہ قیصر پر حملہ آور فوج میں تھا بھی سپہ سالار کوئی دوسرا تھا ، پھر بھلا اسے مغفوریت کی بشارت کا نفع کیونکر مل سکتا ہے؟
عن ام حرام انہا سمعت النبی یقول: ”اول جیش من امتی یغزون البحر قد اوجبوا“ قالت ام حرام: قلت: یا رسول اﷲ انا فیھم؟ قال: ”انت فیہم“ ثم قال النبی : ”اول جیش من امتی یغزون مدینہ قیصر مغفور لہم“ فقلت: انا فیھم یا رسول اﷲ؟ قال: ”لا“ (البخاری: ٢٨٥٧)
ہم ان چھوں روایتوں کو جمع کرکے ایک مربوط اور مسلسل عبارت میں انکا ترجمہ لکھتے ہیں۔ بے شک راوی کو ہم نے قصدا حذف کردیا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ جب قبا تشریف لے جاتے تھے تو حضرت ام حرام بنت ملحان زوجہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما کے یہاں اکثر جاتے تھے۔ حضرت ام حرام کی عادت تھی کہ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز ضرور پیش کیا کرتی تھیں۔ ام حرام رض نے مجھے سے بیان کیا کہ ایک بار حضور ﷺ دوپہر میں میرے گھر تشریف لائے تو میں نے حضور اکرم ﷺ کے سامنے کھانے کی کوئی چیز پیش کی اور قریب ہی بیٹھ کر آپ ﷺ کے سرمبارک میں جوئیں تلاش کرنے لگی۔ اسکے بعد حضور ﷺ نے قریب ہی کسی چیز سے ذرا ٹیک لگالی اور سوگئے ۔ یکایک تھوڑی دیر کے بعد آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ، کیا بات ہوئی جس پر آپ کو ہنسی آئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ خواب میں میرے سامنے لائے گئے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کو نکلے تھے اور اس سمندر کی پشت پر اسطرح شان اور اطمینان سے بیٹھے چلے جارہے تھے کہ جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر ہوں۔ مجھے انکو دیکھ کر تعجب اور خوشی سی ہوئی۔ میری امت کی جو پہلی فوج بحری جہاد کرے گی ، ان لوگوں نے تو (اپنے اوپر جنت) واجب ہی کرلی۔ یہ سن کر میں نے (حضرت ام حرام رضی اللہ عنھا) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کردیجئے کہ وہ مجھے بھی ان مجاہد غازیوں میں شامل کردے۔ حضور اکرم ﷺ نے میرے لئے دعا فرمائی کہ بارلہا! انکو بھی اس جماعت میں داخل کردیجئے! پھر فرمایا ہاں تم بھی ان میں شامل ہوگی۔ پھر آپ ﷺ نے دوبارہ ذرا ٹیک لگالی اور کچھ دیر کے لئے آپ ﷺ پھر سوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ﷺ پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اب حضور کو کس بات پر ہنسی آئی؟ آپ ﷺ نے پھر پہلے کی طرح فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ پھر مجھے خواب میں دکھائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے نکلے۔ تو میری امت کی جو پہلی فوج قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گی، انہیں بخش دیا گیا۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے حق میں دعا کردیجئے کہ ان مجاہد غازیوں میں مجھے بھی شریک و شامل فرمائے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا تم بس پہلی جماعت میں ہوں، دوسری میں نہیں۔ تو عبادہ بن صامت رض نے ان سے (ام حرام سے) نکاح کرلیا اور وہ حضرت معاویہ رض کے ہمراہ جب بحری غزوہ میں گئے تو انکو ساتھ لے گئے۔ ام حرام بھی (حضرت معاویہ رض کی بیوی فاختہ) بنت قرظہ کے ساتھ غزوہ میں گئیں، جب غزوہ سے لوٹیں تو فوج شام میں ٹھہری، وہاں سے روانگی کے وقت سواری کے جانور پر سوار ہونے لگیں، یکایک جانور بدکا، ام حرام گر پڑیں جس سے انکی گردن ٹوٹ گئی اور اسی صدمہ میں وہ انتقال کرگئیں۔ (انتہیٰ)
اس حدیث کے متعلق ادھر کچھ عرصے سے اکثر علمی بحثیں رسائل تجلی وغیرہ میں بھی اور بعض تصانیف "شھید کربلا اور یزید" وغیرہ میں بھی نظر سے گذرتی رہیں، مگر وہ بحثیں بہت ناکافی اور انکی بعض رائیں محض انفرادی تھیں جن سے اکثر ذہن کے اکثر شبہات کی تشفی نہیں ہوسکی۔ خود اس حدیث میں تو کوئی ایسی بات نہیں تھی جو سمجھ میں نہ آسکے، مگر الجھن جو اسمیں پیدا ہوجاتی ہے وہ بعض شارحین حدیث کی نکتہ آفرینیوں سے یا بعض اکابر کی غلبہ حال کی تحریروں سے پیدا ہوجاتی ہے۔ انکی شرحیں بالکل "شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا" کی مصداق معلوم ہوتی ہیں۔ مثلا ابن التین اور ابن المنیر نے جو نکتے اسمیں نکالے ہیں ، وہ اب بھی اہل حق اور ارباب بصیرت کی زیادہ سے زیادہ غائر نظر اور تحقیق کے مستحق ہیں۔ جسطرح "لعن یزید" اور" تکفیر یزید" کے" مبارک" کام میں اہل سنت و الجماعت میں شائد سب سے قدیم اور سب سے جوشیلے وکیل سعد الدین تفتازانی ہیں، اسی طرح شھر قیصر پر اپنے حملہ آور لشکر کی مغفوریت میں شبہے نکالنے والے شائد سب سے قدیم اور سے زیادہ پرجوش وکیل یہ "ابن التین اور ابن المنیر" ہیں اور جسطرح تفتازانی کے بارے میں ملاعلی قاری حنفی نے شرح فقہ اکبر میں فیہ رائحہ من الرفض کا ریمارک کیا ہے۔ بعض قرآئن سے ۔۔ جو تفضیلا آگے آرہے ہیں۔۔ ان دونوں ابن التین اور ابن المنیر کے بارے میں رائے یہی ہے کہ فیھما رائحۃ من الرفض (ان میں تو رفض کی بو آرہی ہے)۔ جسطرح خود امام بخاری ؒ نے بعض روافض کی روایت انکے ظاہری دین دار ہونے پر اعتماد کرکے لے لی ہے، اسی طرح بخاری کے شارحین عسقلانی ؒ، قسطلانی ؒ، عینی نے بھی کیا تعجب ہے بعض رائحہ رفض ، دونوں کے اقوال انکی دین داری کی خبر سن کر قبول کرلئے ہوں؟
بخاری شریف کے مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی نے اوپر کی چھ حدیثوں میں سے حدیث نمبر 5 کی شرح میں ان دونوں بزرگوں کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اسکا ترجمہ یہ ہے "مہلت کہتے ہیں کہ اس حدیث میں سیدنا معاویہ رض کی منقبت ہے ، کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے بحری جہاد کیا اور انکے بیٹے (یزید) کی بھی اسمیں منقبت ہے، کیونکہ اسی نے سب سے پہلے مدینہ قیصر پر جہاد کیا۔ مہلب کے اس قول پر ابن التین اور ابن المنیر نے اعتراض کیا ہے، جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حکم "مغفور لھم" کے عموم میں یزید کے داخل ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ کوئی خاص دلیل بھی اسے اِس حکم سے خارج نہیں کرسکتی، کیونکہ اہل علم کا اسمیں مطلق اختلاف نہیں کہ حضور اکرم ﷺ کا یہ قول مشروط ہے۔ اس شرط کے ساتھ وہ مجاہدین مغفرت کے اہل بھی رہے ہوں۔ یہاں تک کہ اگر بالفرض ان مجاہدین میں سے کوئی شخص اس جہاد کے بعد دین سے پھر گیا تو سب علماء متفق ہیں کہ وہ اس حکم میں داخل نہ ہوسکے گا۔ قسطلانی میں ہے کہ مہلب نے اس حدیث سے یزید کی خلافت پر استدلال کیا ہے مگر اسکا جواب اسطرح دیا گیا ہے کہ یہ استدلال صرف بنوامیہ کی حمایت میں کیا گیا ہے (ج 5ص 171) یہ مجیب صاحب بھی جنکا نام اور حال مجہول ہے۔ مہلب کے اس قول سے بے پریشان اور بدحواس ہوگئے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کا منشاء یہ ہے کہ ان مجاہدین میں سے صرف انھیں کو بخشا جائے گا، جن میں مغفرت کی شرط بھی پائے جائے گی۔ (آگے چل کر)۔ لیکن ابن التین کا یہ کہنا کہ "یزید تو اس غزوہ میں گیا ہی نہیں تھا"۔ مردود اور غلط ہے، ہاں البتہ کہا جاسکتا ہے کہ یزید دست بدست جنگ کرنے والوں میں نہیں تھا کیونکہ وہ تو امیر لشکر تھا۔ (فتح الباری ج 2 ص 65)
دیکھئے ابن التین نے اسمیں تین شبہے ڈالنے چاہے ہیں
(1) اس حکم عام میں اگر امیر یزید کو داخل مان بھی لیا جائے تو بھی اسے نفع نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ اس کے بعد اگر بالفرض اس نے کفر اور ارتداد کا ارتکاب کیا ہو تب تو تمام علماء اسکے بشارت سے خارج ہونے پر متفق ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے اکثر اعمال کے فضائل میں غفر لہ ماتقدم من ذنبہ وما تاخر وغیرہ کے وعدے اور بشارات فرمائی ہیں، ان میں اہل علم ہمیشہ وفات علی الایمان کی شرط ملحوظ رکھتے ہیں ، گویا حضور اکرم ﷺ کے ایک ارشاد تبشیری کو جسطرح بالعموم عام قانون کی روشنی میں نہ دیکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا منشاء یہ ہر گز نہیں ہوسکتا اگر اس جہاد کے مجاہدین بعد میں مرتد بھی ہوجائینگے تب بھی انکو بخش دیا جائے گا۔
(2) دوسرا شبہہ یہ اٹھایا کہ امیر یزید تو مدینہ قیصر پر حملہ آور فوج میں تھا بھی سپہ سالار کوئی دوسرا تھا ، پھر بھلا اسے مغفوریت کی بشارت کا نفع کیونکر مل سکتا ہے؟
Last edited: