• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث قدسی میں اللہ تعالی کے اس فرمان کا معنی ( کنت سمعہ الذی یسمع بہ ) کا معنی

شمولیت
ستمبر 03، 2012
پیغامات
214
ری ایکشن اسکور
815
پوائنٹ
75
کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مندرجہ ذیل حدیث کی شرح کر دیں ؟
اللہ تعالی کا فرمان ہے : جس نے میرے لئے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کےساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )
فتح الباری حدیث نمبر (6502) اس حدیث کو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اور بیہقی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے اس حدیث میں سے جس کی میں شرح چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ :
( اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے )
الحمدللہ
حدیث کے اس جزء کا معنی یہ ہے کہ بندہ جب فرائض سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اس کے بعد نوافل کے ساتھ بھی قرب چاہتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی اسے اپنا مقرب بنا کر اسے ایمان کے درجہ سے احسان کے درجہ پر فائز کر دیتا ہے تو بندہ اس طرح ہوتا ہے جس طرح کہ وہ اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہو ۔
جس کی بنا پر اس کا دل اللہ تعالی کی محبت ، معرفت ، تعظیم ۔ اس کے خوف وڈر اور عظمت وجلال سے بھر جاتا ہے ۔
حب دل اس سے بھر جائے تو اللہ تعالی کے علاوہ ہر چیز سے تعلق منقطع ہو جاتا اور بندے کا اس کی خواہشات سے تعلق باقی نہیں رہتا اور نہ ہی وہ اپنے ارادے سے کچھ کرتا ہے بلکہ وہ اپنے مولا اور رب کی چاہت پر عمل کرتا اور اس کی زبان سے اللہ تعالی کے ذکر کے علاوہ کچھ نکلتا ہی نہیں اس کی حرکات وسکنات اللہ تعالی کے حکم سے ہوتی ہیں اور اس کا بولنا اور سننا اور نظر کے ساتھ دیکھنا یہ سب کچھ اللہ تعالی کی توفیق سے ہے ۔
تو پھر بندہ وہ کچھ سنتا ہے جو کہ اس کے رب اور مولا کو پسند ہے اور دیکھتا وہ اس چیز کو جو اللہ کو راضی کرے اور ہاتھ سے وہ پکڑتا اور پاؤں سے اس طرف جاتا ہے جس میں اس کے رب اور مولا کی رضا پنہاں ہوتی ہو ۔
اور اس حدیث کا یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی ہی اس کا ہاتھ اور پاؤں اور اس کی آنکھ و کان ہے - اللہ تعالی بلند اللہ سبحانہ وتعالی اپنے عرش پر مستوی اور اپنی ساری مخلوق سے بلند وبالا ہے لیکن اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کے دیکھنے وسننے اور پکڑنے اور چلنے میں اسے یہ توفیق دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے پسندیدہ کاموں کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔
اسی لۓ دوسری روایت میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( تو وہ میرے ساتھ سنتا اور دیکھتا اور پکڑتا اور چلتا ہے ) یعنی اللہ عزوجل اسے اس کے اعمال واقوال اور سمع وبصر میں توفیق دے دیتا ہے ۔
اس حدیث کا معنی اہل سنت والجماعت کے ہاں یہی ہے جو مندرجہ بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے تو اس توفیق کے ساتھ اللہ تعالی اس کی دعا کو قبول فرماتا اور اگر وہ سوال کرتا ہے تو اسے عطا فرماتا اور مدد طلب کرنے پر اس کی مدد فرماتا اور جب پناہ طلب کرتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہے ۔ ا ھـ
( اس عبارت میں اختصار کیا گیا ہے تفصیل کے لۓ )
دیکھۓ کتاب :
جامع العلوم الحکم (2 / 347)
اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی ( نور علی الدرب ) کیسٹ نمبر 10
جو بھی اس معنی کے علاوہ عرب کی بھی مخالفت کی اور اس طرح کے عبارات سے جو کچھ سمجھا جاتا ہے اس کی بھی مخالفت کرتا ہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا قول ہے :
( آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بندے اور معبود اور تقرب حاصل کرنے والے اور جس کا تقرب حاصل کیا جا رہا ہے محب اور محبوب اور اسی طرح سائل اور مسئول حاجت مند اور حاجت پوری کرنے والے پناہ طلب کرنے والے اور پناہ دینے والے کا ذکر کیا ہے ۔
حدیث تو دو مختلف اور جدا چیزوں پر دلالت کرتی ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے سے جدا ہے تو جب ایسا ہی ہے تو اللہ تعالی کے اس فرمان کہ ( میں اس کا کان اور آنکھ پاؤں ہوتا ہوں ) کا ظاہر یہ نہیں کہ خالق مخلوق کا جزء یا وصف ہو اللہ تعالی اس سے بلند و بالا ہے ۔
بلکہ اس کا ظاہر اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بندے کی سمع وبصر اور پکڑ درست کر دیتا ہے تو اس کی سمع میں اللہ تعالی کے لۓ اخلاص پیدا ہو جاتا ہے اور اسی سے استعانت طلب کرتا اور اسی کی اتباع کرتا اور اسی کی شریعت پر عمل کرتا ہے اور اس طرح اس کی بصر اور پکڑ اور چال میں بھی اخلاص پیدا ہو جاتا ہے ) اھـ
مجموع فتاوی ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 1/ 145)
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
بشکریہ
 
Top