• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث قدسی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حدیث قدسی

اس منفرد حدیث کے الفاظ آپ ﷺ خود ادا فرماتے ہیں مگران کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمادیتے ہیں۔جس کی وجہ سے انہیں احادیث قدسیہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً آپ ﷺ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یَاعِبَادِیْ إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّماً فَلاَ تَظَالَمُوْا۔ الحدیث۔( مسلم : ۲۵۷۷) اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کردیا ہے اور تمہارے درمیان بھی۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا۔

حدیث نبوی اور حدیث قدسی:
احادیث قدسیہ اوراحادیث نبویہ دونوں کے الفاظ نبی ﷺ کے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے :

…حدیث نبوی کی نسبت آپ ﷺ کی طرف ہے اور قدسی کی قدس کی طرف۔مگر پھر بھی دونوں کا مقام ایک ہے خواہ حدیث قدسی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ نسبت اسے قرآن کا مرتبہ عطا نہیں کر سکتی۔

… جس طرح حدیث نبوی صحیح، حسن یاضعیف وموضوع ہوتی ہے اسی طرح حدیث قدسی بھی ہوتی ہے۔

قرآن اور حدیث قدسی:
… قرآن مجید لفظاً ومعناً اللہ عزوجل کی طرف سے ہے ۔ حدیث قدسی کے لفظ رسول کے ہیں مگر معنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔دونوں کے اسلوب میں بہت مماثلت ہے نیز حدیث قدسی کی معنوی روایت ہوسکتی ہے مگر قرآن کی نہیں ۔معنوی روایت اگر قرآن کریم کو چاہئے ہوتی تو یہ کام بھی اللہ تعالیٰ فرمادیتے لیکن پھر وہ کلام اللہ باقی نہیں رہتااور اس میں تبدیلی اور تحریف کا دروازہ کھلتا ہے۔

… قرآن مجید میں چیلنج دیا گیا کہ اس جیسی کوئی کتاب ، سورت یا ایک آیت گھڑلاؤ۔ جب کہ حدیث قدسی میں ایسا نہیں ۔ یوں حدیث نبوی اور حدیث قدسی برابر ٹھہریں۔

… قرآن کی تلاوت عبادت ہے اورنمازکا اہم رکن بھی۔ جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ حدیث قدسی کا معاملہ حدیث نبوی کی طرح ہے اس کا پڑھنا باعث ثواب تو ہے مگر نماز میں وہ پڑھی جائے تو نماز باطل ہو جائے گی۔

…حدیث قدسی کو بیان کرنے میں جناب رسالت مآب ﷺ نے اپنا ایک اسلوب اپنایاجیسے دیگر انبیاء کرام کی گفتگو یا دعاؤں کے اسلوب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔

اصول:
احادیث کی یہ مختلف اقسام ارشاد الٰہی کے مطابق أسوۃ حسنۃ قرار پائیں جن کی پابندی کا اہل اسلام کو حکم دیا گیا۔ اس لئے آپ ﷺ کے مقابلے میں کوئی مثالی نمونہ اللہ تعالیٰ نے پیش نہیں کیا۔ خواہ وہ انبیاء کرام ہوں یا کوئی کتاب ہو یا کوئی بزرگ شخصیت ہو

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
… قرآن مجید لفظاً ومعناً اللہ عزوجل کی طرف سے ہے ۔ حدیث قدسی کے لفظ رسول کے ہیں مگر معنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی بہت تعریف فرمائی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہو ئے الفاظ کو بعین ہی یاد رکھے اور آگے پہنچا دے۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کریں گے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کریں گے؟
حنفی حنیف بھائی! آپ کیوں ہر جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دیکھئے! آپ کے یعنی کہ حنفی ماتریدیہ کے مؤقف کے مطابق اللہ تعالیٰ کی بات کے الفاظ نہیں ہوتے!
اور نہ ہی اللہ یہ منزل من اللہ عربی قرآن اللہ کا کلام ہے!
بلکہ یہ اللہ کے کلام پر دلالت کرتا ہے!
اور آپ یعنی حنفی حنیف صاحب، حدیث قدسی کے الفاظ کو اللہ کے الفاظ قرار دینا چاہتے ہیں!
ملاحظہ فرمائیں:
اہل الکلام کا منز ل من اللہ عربی قرآن کو کلام اللہ اور غیر مخلوق ماننے سے انکار:

پہلے تو قرآن کی آیت دیکھ لیں:
الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿1﴾ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿2﴾ ﴿سورة يوسف﴾
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں ﴿﴾ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں تمہارے سمجھنے کے لیے نازل کیا ﴿﴾ ﴿ترجمہ احمد علی لاہوری
اب ذرا اہل الکلام کا علم الکلام کی بنیاد پر ان کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں:
(قوله الأصل السادس والسابع أنه متكلم بكلام قديم) زاد غيره باق أبدي (قائم بذاته) زاد غيره لا يفارق ذاته ولا يزايله (ليس بحرف ولا صوت) زاد غيره ليس بعبري ولا سوري ولا عربي وانما العربي والسوري والعبري مما هو دلالات علی كلام الله تعالیٰ وانه واحد غیر متجزئ والا متبعض (هو به طالب) أي آمرناه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 – 75 جلد 01 مفصولة بجدول (حاشية على المسامرة في شرح المسايرة في علم الكلام) - زين الدين قاسم بن قطلوبغا (المتوفى: 878هـ) – المكتبة الأزهرية للتراث
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 69 – 70 مفصولة بجدول (حاشية على المسامرة في شرح المسايرة في علم الكلام) - زين الدين قاسم بن قطلوبغا (المتوفى: 878هـ) – المطبعة الكبری الاميرية


والكلام وهي صفة أزلية عبر عنها المسمی بالقرآن المركب من الحروف؛ وذلك لأن كل من يأمر وينهی ويخبر يجد في نفسه معنی، ثم يدل عليه بالعبارة أو الكتابة أو الإشارة،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور (آٹھویں صفت) کلام ہے اور ازلی صفت ہے جسے نظم (متلوّ) سے تعبیر کیا جاتاہے جو قرآن کے نام سے موسوم ہے جو حروف سے مرکب ہے۔ اور یہ اس لئے کہ ہر شخص جو حکم کرتا ہے اور منع کرتا ہے اور خبر دیتا ہے وہ اپنے جی میں ایک معنی پاتا ہے پھر اس (معنی) پر عبارت (الفاظ) یا کتابت یا اشارہ کے ذریعے دلالات کرتا ہے (یعنی بتلاتا ہے)۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 225 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور (آٹھویں صفت) کلام ہے اور وہ ایک ایسی صفت ازلی ہے جس کو اس قرآن نامی نظم کے ذریعہ تعبیر کیا جاتا ہے جو حروف سے مرکب ہے اور یہ اس لئے کہ ہر شخص جو امرو نہی کرتا ہے اور خبر دیتا ہے وہ اپنے دل میں ایک بات محسوس کرتا ہے پھر اس کو لفظ کے ذریعہ یا کتابت کے ذریعہ یا اشارہ کے ذریعہ بتلاتا ہے
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 234حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور کلام ہے اور یہ ایسی صفت ازلیہ ہے جس کو اس نظم سے تعبیر کیا جاتا ہے جو قرآن کے نام سے موسوم ہے جو حروف سے مرکب ہے اور یہ اس لئے کہ ہر وہ شخص جو حکم کرتا ہے اور منع کرتا ہے اور خبر دیتا ہے وہ اپنے نفس میں ایک معنیٰ پاتا ہے پھر اس معنیٰ کے اوپر عبارت یا کتابت یا اشارہ کے ذریعہ دلالت کرتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 263 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور (آٹھویں صفت) کلام ہے اور وہ ایک ایسی ازلی صفت ہے جو کو اس قرآن نامی نظم کے ذریعہ تعبیر کیا جاتا ہے جو حروف سے مرکب ہے اور یہ اس لئے کہ ہر شخص جو امر ونہی کرتا ہے اور خبر دیتا ہے وہ اپنے دل میں ایک بات محسوس کرتا ہے پھر اس کو لفظ کے ذریعے یا کتابت کے ذریعہ یا اشارہ کے ذریعے بتلاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

والدليل علی ثبوت صفة الكلام: إجماع الأمة وتواتر النقل عن الأنبياء عليهم السلام، انه تعالیٰ متكلم، مع القطع باستحالة التكلم من غير ثبوت صفة الكلام، فثبت أن لله تعالیٰ صفات ثمانية، هي والقدرة والحياة والسمع والبصر والإرادة والتكوين والكلام.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 154 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور صفت کلام کے ثبوت پر دلیل امت کا اجماع ہے اور انبیاء علیہم السلام سے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہیں اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ صفت کلام کے ثبوت کے بغیر متکلم ہونا محال ہے پس ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے آٹھی صفات ہیں، وہ علم اور قدرت اور حیات اور سمع اور بصر اور ارادہ اور تکوین اور کلام ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 226 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور صفتِ کلام کے ثبوت پر دلیل امت کا اجماع اور انبیاء علیہم السلام سے تواتر کے ساتھ یہ منقول ہونا ہے، کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہے اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ بغیر صفت کلام کے ثبوت کے متکلم ہونا محال ہے پس ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیئے آٹھ صفات ہیں اور وہ علم، قدرت، حیات، سمع بصر، ارادہ، تکوین اور کلام ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 234 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور صفت کلام کے ثبوت پر اجماع امت اور نقل کا متواتر ہوا ہے انبیاء علیہم السلام سے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہے، متکلم کے استحالہ کے یقینی ہونے کے باوجود صفت کلام کے ثبوت کے بغیر، تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے لئت آٹھ صفات ہیں جو کہ علم اور قدرت اور حیٰوۃ اور سمع اور بصر اور ارادہ اور تکوین اور کلام ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 266 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور صفت ِ کلام کے ثبوت پر دلیل امت کا اجماع اور انبیاء علیہ السلام سے تواتر کے ساتھ یہ منقول ہونا ہے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہے اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ بغیر صفت کلام کے متکلم ہونا محال ہے پس ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے آٹھ صفات ہیں اور وہ علم، قدرت، حیات، سمع، بصر، ارادہ، تکوین اور کلام ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

وهو أي الله تعالیٰ متكلم بكلام هو صفة له، ضرورة امتناع إثبات المشتق للشيء، من غير قيام مأخذ الاشتقاق به. وفي هذا رد علی المعتزلة، حيث ذهبوا إلی أنه متكلم بكلام هو قائم بغيره ليس صفة له أزلية ضرورة امتناع قيام الحوادث بذاته تعالیٰ، ليس من جنس الحروف والأصوات، ضرورة أنها أعرض حادثة، مشروط حدوث بعضها بانقضاء البعض؛ لأن امتناع التكلم بالحرف الثاني بدون انقضاء الحروف الأول بديهي. وفي هذا رد علی الحنابلة والكرامية القائلين بأن كلامه عرض، من ضنس الأصوات والحروف، ومع ذلك فهو قديم.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 155 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
پس (ماتن رحمہ اللہ ) کہا اور وہ یعنی اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسی کلام کے ساتھ جو صفت ہے، کسی شئی کے لئے مشتق کے اثبات کے امتناع کی ضرورت کی وجہ سے ماخذ اشتقاق کے قیام کے بغیر اور اس (عبارت) میں معتزلہ پر رد ہے کہ وہ اس بات کی طرف چلے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسی کلام کے ساتھ جو اس کے غیر کے ساتھ قائم ہے اس (اللہ تعالیٰ) کی صفت نہیں ہے (ماتن رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ صفت کلام) ازلی ہے حوادث کے قیام کا ذات باری کے ساتھ محال کے ضروری ہونے کی وجہ سے (وہ صفتِ کلام) حروف اور اصوات کی جنس ميں بھی نہیں اس بات کی ضرورت کی وجہ سے، کہ (حروف و اصوات) ایسے اعراض ہیں جو حادث ہیں بعض کا حادث ہونا دوسرے بعض کے ختم ہونے کے ساتھ مشروط ہے اس لئے کہ حرف قول کے (تلفظ) ختم ہونے کے بغیر حرف ثانی کے تلفظ کا محال ہونا بدیہی ہے اور اس (عبارت) میں حنابلہ اور کرامیہ پر رد ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ (اللہ تعالیٰ کی) کلام عرض ہے اصوات اور حروف کی جنس میں سے ہے اور اس کے باوجود وہ قدیم ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 228 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور وہ یعنی اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسے کلام کے سبب جو ان کی صفت ہے۔ شی کئ لئے اسم مشتق کا اثبات اس کے ساتھ ماخذِ اشتاق کے قائم ہوئے بغیر محال ہونے کی وجہ سے، اور اس میں معتزلہ کی تردید ہے۔ اس لئے کہ ان کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسے کلام کی وجہ سے جو اس کے علاوہ کے ساتھ قائم ہے ان کی صفت نہیں ہے۔ وہ صفت ازلی ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام محال ہونے کی وجہ سے، حروف اور اصوات کی جنس سے نہیں ہے کیونکہ حروف واصوات ایسے اعراض ہیں جو حادث ہیں۔ بعض کا حادث ہونا دوسرے بعض کے ختم کے ساتھ مشروط ہے کیونکہ حرف اول کے ختم ہوئے بغیر حرف ثانی کے تلفظ کا محال ہونا بدیہی ہے اور اس میں حنابلہ اور کرامیہ کی تردید ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام عرض ہے۔ اصوات اور حروف کی جنس سے ہے اور اس کے باوجود وہ قدیم ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 237 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور وہ یعنی اللہ تعالیٰ متکلم ہے ایسے کلام کے ساتھ جو اس کی صفت ہےکسی شئ کے لئے اثبات مشتق کے امتناع کی ضرورت کی وجہ سے اس کے ساتھ ماخذ اشتقاق کے قائم ہوئے بغیر، اور اس کے اندر رد ہے معتزلہ پر جو گئے ہیں اس بات کی جانب کہ وہ متکلم ہے ایسے کلام کے ساتھ جو اس کے غیر کے ساتھ قائم ہے اس کی صفت نہیں ہے (وہ صفت) ازلی ہے قیامِ حوادث کے امتناع کے ضروری ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ (وکلام) حروف اور اصوات کی جنس سے نہیں ہے اس بات کی ضرورت کی وجہ سے یہ (حروف و اصوات) اعراض حادثہ ہیں ان میں بعض حدوث مشروط ہے بعض کے ختم ہونے کے ساتھ، اس لئے کہ حرف ثانی کے تکلم کا ممتنع ہونا حرف اول کے ختم ہوئے بغیر بدیہی ہے اور اس کے اندر رد ہے حنابلہ اور کرامیہ پر جو اس بات کے قائل ہیں کہ اس کا کلام عرض ہے جو اصوات اور حروف کی جنس سے ہے اور اس کے باوجود قدیم ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 267 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور وہ متکلم یعنی اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسے کلام کے ساتھ جو ان کی صفت ہے شئی کے لئے اسم مشتق کا اثبات اس کے ساتھ ماخذِ اشتقاق کے قائم ہوئے بغیر محال ہونے کی وجہ سے، اور اس میں معتزلہ کی تردید ہے اس لئے کہ ان کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسے کلام کی وجہ سے جو اس کے علاوہ کے ساتھ قائم ہے ان کی صفت نہیں ہے۔ وہ صفت ازلی ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام محال ہونے کی وجہ سے، حروف اور اصوات کی جنس سے نہیں ہے کیونکہ حروف واصوات ایسے اعراض ہیں جو حادث ہیں۔ بعض کا حادث ہونا دوسرے بعض کے ختم کے ساتھ مشروط ہے کیونکہ حرف اول کے ختم ہوئے بغیر حرف چانی کے تلفظ کا محال ہونا بدیہی ہے اور اس میں حنابلہ اور کرامیہ کی تردید ہے جو اس بات کے قائل ہین کہ اللہ تعالیٰ کا کلام عرض ہے۔ اصوات اور حروف کی جنس سے ہے اور اس کے باوجود قدیم ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

ولما صرح بأزلية الكلام حاول التنبيه علی القرآن أيضاً قد يطلق علی هذا الكلام النفسي القديم، كما يطلق علی النظم المتلوّ الحادث، فقال: والقرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق، وعقب القرآن بكلام الله تعالیٰ؛ لما ذكر مشائخ من أنه يقال القرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق، ولا يقال: القرآن غير مخلوق؛ لئلا يسبق إلی الفهم أن المؤلف من الأصوات والحروف قديم، كما ذهب إليه الحنابلة جهلاً أو عناداً، وأقام غير المخلوق مقام غير الحادث تنبيهاً علی اتحاهما، وقصداً ألی جري الكلام علی وفق الحديث، حيث قال عليه السلام: ''القرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق، ومن قال: إنه مخلوق فهو كافر بالله العظيم''، وتنصيصاً علی محل الخلاف بالعبارة المشهورة فيما بين الفريقين، وهو أن القرآن مخلوق أو غير مخلوق؛ ولهذا تترجم هذه المسألة بمسألة خلق القرآن،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 159 - 161 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور جب (ماتن رحمہ اللہ نے) کلام کے ازلی ہونے کی تصریح فرمائی ہے (تو اب) اس بات پر تنبیہ کرنے کا ارادہ فرمایا ہے کہ قرآن جس طرح اس کلام نفسی قدیم پر بولا جاتا ہے اسی طرح نظم متلوّ (جس کی تلاوت کی جاتی ہے) حادث پر بھی بولا جاتا ہے۔ پس (ماتن رحمہ اللہ نے) کہا۔ اور قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے غیر مخلوق ہے اور (لفظ) قرآن کے بعد کلام اللہ لائے، اس لئے کہ مشائخ نے ذکر کیا ہے کہ یوں کہا جائے '' القرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق'' اور (یوں نہ کہا جائے '' القرآن غير مخلوق'' تاکہ ذہن کی طرف یہ بات سبقت نہ کرے کہ (قرآن) حروف اور اصوات سے مرکب ہے، قدیم ہے جیسا کہ اس کی طرف حنابلہ جہالت یا عناد کی وجہ سے گئے ہیں اور ماتن رحمہ اللہ نے '' غیر مخلوق '' کو '' غير حادث '' کی جگہ پر رکھا ہے، دونوں (مخلوق و حادث) کے متحد ہونے پر، تنبیہ کرتے ہوئے اور حدیث کے موافق کلام کو جاری کرنے کے ارادے سے، اس لئے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا '' القرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق ومن قال انه مخلوق فهو كافر بالله العظيم '' (قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے غیر مخلوق ہے اور جس نے اس کو مخلوق کہا اس نے اللہ العظیم کے ساتھ کفر کیا ہے) اور فریقین کے درمیان مشہور عبارت کے ذریعے محل اختلاف پر تصریح کرتے ہوئے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق۔ اور اسی وجہ سے اس مسئلہ کا عنوان مسئلہ خلق قرآن رکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 235 – 236 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور جب مصنف رحمہ اللہ کلام کے ازلی ہونے کی صراحت کر چکے تو اس بات سے آگاہ کرنے کا ارادہ کیا کہ لفظ قرآن اس کلام نفسی پر بھی بولا جاتا ہے جس طرح نظم متلو حادث پر بولا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا اورقرآن اللہ کا کام غیر مخلوق ہے اور لفظ قرآن کے بعد کلام کا لفظ لائے۔ کیونکہ مشائخ نے ذکر کیا ہے کہ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق کہا جائے۔ القرآن غیر مخلوق نہ کہا جائے تاکہ ذہن کی طرف یہ بات سبقت نہ کرے کہ وہ کلام جو حروف واصوات سے مرکب ہے وہ قدیم ہے جیسا کہ جہالت یا عناد کی وجہ سے حنابلہ اس طرف گئے ہیں اور غیر حادث کے بجائے غیر مخلوق کا لفظ لائے دونوں کے اتحاد پر متنبہ کرنے اور کلام کو حدیث کے موافق جاری کرنے کے ارادہ سے۔ اس لئے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا۔ القرآن كلام الله غير مخلوق ومن قال انه مخلوق فهو كافر بالله العظيم، اور فریقین کے درمیان مشہور عبارت کے ذریعے محل خلاف کی صراحت کرنے کے لئے۔ اور وہ یہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق ہے۔ اسی وجہ سے اس مسئلہ کا مسئلہ خلق قرآن عنوان رکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 245 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور جب مصنف نے کلام کے ازلی ہونے کی صراحت فرمائی ہے تو انہوں نے ارادہ کیا اس بات پر متنبہ کرنے کا کہ قرآن کا اطلاق کبھی کلام نفسی پر کردیا جاتا ہے جو قدیم ہے جیسا کہ اطلاق کیا جاتا ہے کہ اس نظم پر جس کی تلاوت کی جاتی ہے جو کہ حادث ہے تو فرمایا مصنف علیہ الرحمہ نے۔ اور قرآن جو اللہ کا کلام ہے غیر مخلوق ہے۔ اور مصنف رحمہ اللہ پیچھے لائے قرآن کے کلام اللہ تعالیٰ کو بوجہ اس کے کہ مشائخ نے ذکر کیا ہے کہ القرآن کلام اللہ تعالیٰ غیر مخلوق بولا جاتا ہے اور القرآن غیر مخلوق نہیں بولا جاتا۔ تاکہ فہم کی جانب یہ بات سبقت نہ کرے کہ جو اصوات وحروف سے مرکب ہے وہ قدیم ہے جیسا کہ جہالت یا عناد کی وجہ سے حنابلہ اس کی طرف گئے ہیں۔ اور رکھا مصنف رحمہ اللہ غیر مخلوق کو غیر حادث کی جگہ تنبیہ کرتے ہوئے ان دونوں کے اتحاد پر اور ارادہ کرتے ہوئے کلام کو جاری کرنے کا حدیث کے موافق اس حیثیت سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن جو اللہ کا کلام ہے وہ غیر مخلوق ہے اور جس نے کہا کہ مخلوق ہے اس نے اللہ عظیم کے ساتھ کفر کیا، اور تصریح کرتے ہوئے محل اختلاف پر اس عبارت کے ذریعہ جو فریقین کے درمیان مشہور ہے اور وہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق اور اسی وجہ سے اس مسئلہ کو عنوان دیا جاتا ہے مسئلہ خلق قرآن کے ساتھ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 276 – 279 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور جب مصنف رحمہ اللہ کلام کے ازلی ہونے کی صراحت کرچکے تو اب اس بات سے آگاہ کرنے کا ارادہ کیا کہ لفظ قرآن اس کلام نفسی قدیم پر بھی بولا جاتا ہے جس طرح نظم متلو حادث پر بولا جاتا ہے چنانچہ فرمایا اور قرآن اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور لفظ قرآن کے بعد کلام اللہ لا لفظ لائے کیونکہ مشایخ نے ذکر کیا ہے کہ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق کہا جائے القرآن غیر مخلوق نہ کہا جائے تاکہ ذہن کی طرف یہ بات سبقت نہ کرے کہ وہ کلام جو حروف او اصوات سے مرکب ہے وہ قدیم ہے جیسا کہ جہالت یا عناد کی وجہ سے حنابلہ اس طرف گئے ہیں اور غیر حادث کی بجائے غیر مخلوق کا لفظ لائے دونوں کے اتحاد پر متنبہ کرنے اور کلام کو حدیث کے موافق جاری کرنے کے ارادہ سے اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' القرآن كلام الله غير مخلوق ومن قال انه مخلوق فهو كافر بالله العظيم'' اور فریقین کے درمیان مشہور عبارت کے ذریعے محل خلاف کی صراحت کرنے کے لئے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق ہے اسی وجہ سے اس مسئلہ کا مسئلۂ خلقِ قرآن عنوان رکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 289 - 290 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی


وأما استدلالهم: أن القرآن متصف بما هو من صفات المخلوق وسمات الحدوث، من التأليف والتنظيم والإنزال والتنزيل، وكونه عربيا مسموعاً فصيحا معجزا إلی غير ذلك، فإنما يقوم حجة علی الحنابلة لا علينا؛ لأنا قائلون بحدوث النظم، وإنما الكلام في المعنی القديم،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 161 - 162 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور بہر حال ان (معتزلہ کا یہ استدلال کہ قرآن ایسی چیزوں کے ساتھ متصف ہے جو مخلوق کی صفات میں سے اور حدوث کی علامات میں سے ہیں یعنی تالیف (مرکب ہونا) اور تنظیم (مرتب ہونا) اور انزال اور تنزیل اور اس (قرآن کا) عربی، مسموع، فصیح، معجز ہونا وغیرہ (تو یہ استدلال) حنابلہ کے خلاف حجت ہو سکتا ہے نہ کہ ہمارے کلاف، اس لئے کہ ہم حدوث نظم (الفاظ) کے قائل ہین اور کلام تو صرف معنی قدیم میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 238 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
رہا (کلام نفسی قدیم کی نفی اور قرآن کے حادث ہونے پر) معتزلہ کا یہ استدلال کہ قرآن ایسی چیزوں کے ساتھ متصف ہے جو مخلوق کی صفات اور حدوث کی علامات میں سے ہیں، مثلاً مؤلف ہونا، منظم ہونا نازل کیا جانا عربی میں ہونا، اس کا سنا جانا، فصيح ہونا، معجزہ ہونا وغیر، تو یہ استدلال حنابلہ کے خلاف حجت بنے گا نہ کہ ہمارے خلاف کیونکہ نظم اور الفاظ کے حدوث کے تو ہم بھی قائل ہیں اور ہماری بات (غیر مخلوق ہونے کی) صرف معنیٰ قدیم یعنی کلام نفسی کے بارے میں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 247 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور بہر حال معتزلہ کا استدال اس طریقہ پر کہ قرآن اُن اوصاف کے ساتھ متصف ہے جو مخلوق کی صفات اور حدوث کی علامات میں سے ہیں یعنی تالیف اور تنظیم اور انزال اور تنزیل اور اس کا عربی مسموع، فصيح، معجز وغیرہ ہونا (تو یہ استدلال) حنابلہ کے خلاف حجت ہو سکتا ہے، ہم پر نہیں اس لئے کہ ہم تو حدوث نظم کے قائل ہیں اور گفتگو معنیٰ قدیم میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 281 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
رہا (کلام نفسی قدیم کی نفی اور قرآن کے حادث ہونے پر) معتزلہ کا یہ استدلال کہ قرآن ایسی چیزوں کے ساتھ متسف ہے جو مخلوق کی صفات اور حدوث کی علامات میں سے ہیں۔ مثلاً مؤلف ہونا، متکلم ہونا، منظّم ہونا، نازل کیا جانا عربی ہونا، اس کا سنا جانا، فصیح ہونا، معجزہ ہونا وغیرہ تو یہ استدلال حنابلہ کے خلاف حجت بنے گا۔ نہ کہ ہمارے خلاف کیونکہ نظم اور الفاظ کی حدوث کے ہم بھی قائل ہیں اور ہماری بات (غیر مخلوق ہونے کی صرف قدیم یعنی کلام نفسی کے بارے میں ہے)۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

ومن أقوی شبه المعتزلة: أنكم متفقن علی أن القرآن اسم لما نقل إلينا بين دفتي المصاحف تواتراً، وهذا يستلزم كونه مكتوباً في المصاحف مقروّا بالألسن، مسموعاً بالآذان، وكل ذلك من سمات الحدوث بالضرورة، فأشار إلی الجواب بقوله: وهو أي القرآن الذي كلام الله تعالی، مكتوب في مصاحفنا، أي بأشكال الكتابة وصور الحروف الدالة عليه، محفوظ في قلوبنا، أي بألفاظ مخيلة، مقرو بألسنتنا بحروفه الملفوظة المسموعة، مسموع بآذاننا بتلك أيضاً، غير حال فيها، أي مع ذلك ليس حالاًّ في المصاحف، ولا في القلوب ولا في الأالسنة والا في الآذان، بل هو معنی قديم قائم بذات الله تعالی، يلفظ ويسمع بالنظم الدال عليه، ويحفظ بالنظم المخيل، ويكتب بنقوش وأشكال موضوعة للحروف الدالة عليه،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 163 - 164 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور معتزلہ کے قوی شبہوں میں سے (یہ شبہ) ہے کہ بے شک تم (اے اشاعرہ) اس بات پر متفق ہو کہ قرآن اس چیز کا نام ہے جو ہماری طرف منقول ہوا ہے مصاحف کے دونوں دفتوں کے درمیان ہو کر تواتر کے طریقے سے اور یہ (مذکورہ تعریف) مستلزم ہے، مکتوب فی المصاحف (مصحف میں لکھا ہوا) مقروّ بالْاَلْسُنْ (جس کو زبان سے پڑھا جائے) مسموع بالاذان (جس کو کانوں سے سنا جائے) ہونے کو ہر ایک یہ (مکتوب، مقروّ، مسموع) حدوث کے علامات میں سے ہیں بداہیۃً (مصنف نے) جواب کی طرف اشارہ کیا اپنے اس قول سے اور وہ یعنی قرآن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مکتوب فی المصاحف ہے (ہمارے مصاحف میں لکھا ہوا ہے) یعنی کتابت کی شکلوں اور ھروف کی سورتوں کے ساتھ جو اس (کلام اللہ) پر دال ہیں جو محفوظ ہیں ہمارے قلوب میں یعنی الفاظ مخیّلہ کے ساتھ جو ہمارے زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اس کے ان حروف کے ساتھ کہ جن کو بولو جاتا ہے سنا جاتا ہے جو ہمارے کانوں سے سنا جاتا ہے انہی (الفاظ) کے ساتھ ان میں حلول کئے ہوئے نہیں ہے یعنی اس کے باوجود مصاحف میں اور قلوب میں اور زبانوں میں اور کانوں میں (كلام اللہ) حلول کئے ہوئے نہیں ہے بلکہ وہ (کلام) ایک معنی قدیم ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے جو بولا جاتا ہے اور سنا جاتا ہے ان الفاظ کے ساتھ جو اس (کلام) پر دال ہیں۔ اور یاد کیا جاتا ہے ان الفاظ مخیّلہ کے ذریعے اور لکھا جاتا ہے نقوش واشکال کے ذریعے جو وضع کئے گئے ہیں ان حروف کے لئے جو اس (کلام) پر دال ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 241 - 242 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور معتزلہ کے قوی تر دلائل میں سے یہ ہے کہ تم (اشاعرہ) اس بات پر متفق ہو کہ قرآن اس کلام کا نام ہے جو ہم تک تواتر کے ساتھ مصاحف کے دفتین کے درمیان ہو کر پہونچا ہے اور یہ مستلزم ہے اس کے مصاحف میں مکتوب ہونے زبانوں سے پڑھے جانے اور کانوں سے سنے جانے کو۔ اور یہ سب حادث کی علامات میں سے ہیں یقینی طور پر۔ تو مصنف رحمہ اللہ نے اپنے اس قول سے جواب کی طرف اشارہ کیا اور وہ یعنی قرآن جو اللہ کا کلام ہے۔ ہمارے مصاحف میں مکتوب ہے یعنی کلام الہٰی پر دلالت کرنے والے حروف کی سورتوں اور کتابت کی شکلوں کے واسطے سے۔ ہمارے دلوں میں محفوظ ہے۔ خزانۂ خیال میں جمع شدہ الفاظ کے واسطے سے، ہماری زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اس کے قابل تلفظ اور قابل سماع حروف کے واسطے سے۔ ہمارے کانوں سے سُنا جاتا ہے۔ ان ہی (قابل تلفظ اور قابل سماع حروف) کے واسطے سے، ان میں حلول کرنے والا نہیں یعنی ان سب باتوں کے باوجود نہ تو وہ مصاحف میں حلول کئے ہوئے ہے اور نہ قلوب میں اور نہ زبانوں میں اور نہ کانوں میں۔ بلکہ وہ ایک قدیم معنیٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اس کا تلفظ ہوتا ہے اس کو حفظ کیا جاتا ہے۔ اس پر دلالت کرنے والے حروف کے لئے وضع کردہ اشکال ونقوش کے واسطے سے اس کو لکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 250 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور معتزلہ کے قوی شبہہ میں سے یہ شبہہ ہے کہ تم (اے اشاعرہ) اس بات پر متفق ہو کہ قرآن اس کا نام ہے جو ہماری جانب بطریق تواتر مصاحف کی دونوں دفيتوں کے درمیان منقول ہوا ہے اور یہ (تعریف مذکور) اس کے مکتوب فی المصاحف (مصاحف میں لکھا ہوا) مقروٌ باالسن (جو زبان سے پڑھا جائے) مَسْموعٌ باٰذانٍ (جس کو کانوں سے سنا جائے) ہونے کو مستلزم ہے اور یہ سب کی سب حدوث کی علامات ہیں۔ تو مصنف رحمہ اللہ نے اپنے قول سے اس کے جواب کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور وہ یعنی وہ قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ہمارے مصاحف میں لکھا ہوا ہے کتابت کی شکلوں اور ان حروف کی صورتوں کے ساتھ جو اس پر دال ہیں (یعنی کلام اللہ پر) ہمارے قلوب میں محفوظ ہے الفاظِ مخیّلہ کے ساتھ، ہماری زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اس کے ان حروف کے ساتھ جن کو بولا جاتا ہے سنا جاتا ہے ہمارے کانوں سے سنا جاتا ہے انہیں الفاظ کے ساتھ حلول کئے ہوئے نہیں ہے ان میں یعنی اس کے باوجود کلام اللہ مصاحف اور قلوب اور زبانوں اور کانو ں میں حلول کئے ہوئے نہیں ہے بلکہ وہ ایسے معنیٰ قدیم ہیں جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں، بولا اور سنا جاتا ہے اس نظم کے ذریعہ جو اس پر دال ہے اور یاد کیا جاتا ہے نظمِ مخیّل کے ذریعہ اور لکھا جاتا ہے ان نقوش اور اشکال کے ساتھ جو موضوع ہیں ان حروف کے لئے جو اس پر دال ہیں ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 283 – 285 جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور معتزلہ کے قوی تر دلائل میں سے یہ ہے کہ تم (اشاعرہ) اس بات پر متفق ہو کہ قرآن اس کلام کا نام ہے جو ہم تک تواتر کے ساتھ مصاحف کے دفتین کے درمیان ہو کر پہنچا ہے اور یہ مستلزم ہے اس کے مصاحف میں مکتوب ہونے، زبانوں سے پڑھے جانے اور کانوں سے سنے جانے کو اور یہ سب حدوث کی علامات میں سے ہیں یقینی طور پر تو مصنف نے اپنے قول سے جواب کی طرف اشارہ کیا اور وہ یعنی قرآن جو اللہ کا کلام ہے ہمارے مصاحف میں مکتوب ہے کلام الہٰی پر دلالت کرنے والے ھروف کی صورتوں اور کتابت کی شکلوں کے واسطہ سے ہمارے دلوں میں محفوظ ہے خزانہ خیال میں جمع شدہ الفاظ کے واسطے سے، ہماری زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اس کے قابل تلفظ اور قابل سماع حروف کے واسطہ سے، ہمارے کانوں سے سنا جاتا ہے انہی (قابل تلفظ اور قابل سماع حروف) کے واسطہ سے ان میں حلول کرنے والا نہیں یعنی ان سب باتوں کے باوجود نہ تو وہ مصاحف میں حلول کئے ہوئے ہیں اور نہ قلوب میں اور نہ زبانوں میں اور نہ کانوں میں بلکہ وہ ایک قدیم معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے اس کا تلفظ ہوتا ہے اس پر دلالت کرنے والے نظم کے روسط سے، اس کو سنا جاتا ہے خیال میں جمع شدہ نظم کے توسط سے اس کو حفظ کیا جاتا ہے، اس پر دلالت کرنے والے حروف کے لئے وضع کردہ اشکال ونقوش کے واسطہ سے اس کو لکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 296 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

ولما كان دليل الأحكام الشرعية هو اللفظ دون المعنی القديم – عرفه أئمة الأصول بالمكتوب في المصاحف المنقول بالتواتر، وجعلوا اسما للنظم والمعنی جميعا، أي للنظم من حيث الدلالة علی المعنی، لا لمجرد المعنی. وأما الكلام القديم الذي هو صفة الله تعالیٰ، فذهب الأشعري إلی أنه يجوز أن يسمعه، ومنعه الأستاذ أبو إسحاق الأسفرائيني، وهو اختيار الشيخ أبي منصور الماتريدي. فمعني قوله ﴿حَتَّی يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ﴾: ما يدل عليه، كما يقال: سمعت علم فلان. فموسی عليه السلام سمع صوتاً دالاً علی كلام الله تعالیٰ، لكن لما كان بلا واسطة الكتاب والملك خصّ باسم الكليم.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 165 - 167 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور جب احکام شرعیہ کی دلیل وہ لفظ ہے نہ کہ معنی قدیم۔ ائمہ اسول نے اس (قرآن) کی تعریف کی ہے '' المكتوب في المصاحف المنقول بالتواتر '' کے ساتھ اور ان (ائمہ اصول) نےاس (قرآن) کو نظم اور معنی دونوں کا نام قرار دیا ہے، یعنی نظم کا معنی پر دلالت کرنے کی حیثیت سے نہ کہ محض معنی کی وجہ سے۔ اور بہر حال کلام قدیم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ پس اشعری اس بات کی طرف گئے ہیں اس (کلام نفسی) کا سننا ممکن ہے اور اس کا أستاذ ابو اسحٰق اسفرائنی نے انکار کیا ہے اور یہی شیخ أبو منصور ماتریدی رحمہ اللہ کا پسندیدہ ﴿یعنی اختیار کردہ﴾(مذہب) ہے پس باری تعالیٰ کے قول '' حَتّٰی يَسْمَعَ كَلَام اللهِ''کا معنی یہ ہے کہ وہ الفاظ سن لئے جو اس (کلام نفسی) پر دلالت کرنے والے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے '' سَمِعْتُ عِلْمَ فُلَانٍ '' ( کہ میں نے فلاں کے علم کو سنا) تو موسی علیہ السلام نے ایک آواز سنی تھی جو کلام اللہ پر دال تھی لیکن جب وہ کتاب اور فرشتے کے واسطے کے بغیر تھی تو کلیم اللہ کے نام سے خاص کردیئے گئے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 244 – 245 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور جبکہ احکام شرعیہ کی دلیل صرف لفظ ہے نہ کہ معنیٰ قدیم، تو ائمہ أصول نے ''مكتوب في المصاحف المنقول بالتواتر'' کے لفظ سے اس کی تعریف کی۔ اور اس نظم اور معنیٰ دونوں کا نام قرار دیا یعنی نظم کا (نام قرار دیا) معنیٰ پر دلالت کرنے کی حیثیت سے نہ کہ صرف معنیٰ کا۔ رہا کلامِ قدیم جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے تو اشعری کا مذہب یہ ہے کہ اس کو سننا ممکن ہے اور استاد أبو اسحٰق نے اس کا انکار کیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد
حتی یسمع كلام الله کے معنیٰ ہیں کہ وہ الفاظ سن لئے جو کلام اللہ پر دلالت کرنے والے والے ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے فلاں کا علم سُنا تو موسیٰ علیہ السلام نے وہ آواز سنی جو اللہ تعالیٰ کے کلام پر دلالت کرنے والی تھی۔ لیکن چونکہ یہ سننا کتاب اور فرشتہ کے واسطہ کے بغیر تھا، اس لئے کلیم کا نام ان ہی کے ساتھ مخصوص ہوا۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 253 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور جبکہ احکامِ شرعیہ کی دلیل سرف لفظ ہے نہ کہ معنیٰ قدیم تو متعرف کی قرآن کی ائمہ اسول نے مکتوب فی المصاحف منقول بالتواتر کے ساتھ اور انہوں نے اس کو (قرآن) نظم اور معنی دونوں کا نام قرار دیا، یعنی نظم کا دلالت کرنے کی حثیت سے معنیٰ پر نہ محض معنیٰ کا، اور بہر حال کلام قدیم جو اللہ تعالیٰ کی سفت ہے تو گئے ہیں اشعری اس بات کی جانب کہ جائز ہے اس کو سن لیا جائے اور أستاذ أبو اسحٰق اسفرائنی نے اس کا انکار کیا ہے اور یہی شیخ أبو منصور ماتریدی رحمہ اللہ کا مختار ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرمان '' حتیٰ يسمع کلام اللہ'' کے معنی ''يسمع ما يدلُّ عليہ'' ہیں (یعنی ایسی آواز سننا جو کلام اللہ پر دال ہو) جیسے کہا جاتا ہے میں نے فلاں کے علم کو سنا، تو موسیٰ علیہ السلام نے ایک آواز سنی تھی جو اللہ کے کلام پر دال تھی لیکن جبکہ وہ کتاب اور فرشتہ کے واسطہ کے بغیر تھی تو ان کو کلیم اللہ کے نام سے خاص کردیا گیا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 288 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور جب احکام شرعیہ کی دلیل صرف لفظ ہے نہ کی معنی قدیم، تو ائمہ اصول نے ''المكتوب فی المصاحف المنقول بالتواتر'' کے لفظ سے اس کی تعریف کی اور اس کو نظم اور معنی دونوں کا نام قرار دیا یعنی نظم کا (نام قرار دیا) معنی پر دلالت کرنے کی حیثیت سے نہ کہ صرف معنی کا۔ رہا کلام قدیم جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے تو اشعری کا مذہب یہ ہے کہ اس کو سننا ممکن ہے اور أستاذ أبو اسحٰق نے اس کا انکار کیا ہے۔ اور یہ ابو منصور کا مختار مذہب ہے۔ پس اللہ تعالی کے ارشاد '' حتیٰ يسمع كلام الله'' کے معنی ہیں کہ وہ الفاظ سن لئے جو کلام اللہ پر دلالت کرنے والے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے فلاں کا علم سُنا تو موسیٰ علیہ السلام نے وہ آواز سنی جو اللہ تعالیٰ کے کلام پر دلالت کرنے والی تھی لیکن چونکہ یہ سننا کتاب اور فرشتہ کے واسطے کے بغیر تھا اس لئے کلیم کا نام ان ہی کے ساتھ مخصوص ہوا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 298 - 299 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

فإن قيل: لو كان كلام الله تعالیٰ حقيقة في المعني القديم، مجازاً في النظم المؤلف يصح نفيه عنه، بأن يقال: ليس النظم امنزل امعجز المفصل ألی السور والآيات كلام الله تعالی، والإجماع علی خلافه.
وأيضاً المعجز المتحدي به هو كلام الله تعالیٰ حقيقة، مع القطع بأن ذلك إنما يتصور في النظم المؤلف المفصل إلی السور؛ إذ لا معني لمعارضة الصفة القديمة، قلنا: التحقيق أن كلام الله تعالیٰ اسم مشترك بين الكلام النفسي القديم، ومعنی الإضافة: كونه صفة له تعالیٰ، وبين اللفظي الحادث لمؤلف من السور والآيات، ومعنی الإضافة: أنه مخلوق الله تعالیٰ ليس من تأليفات المخلوقين، فلا يصح النفي أصلاً، ولا يكون الإعجاز والتحدي إلا في كلام الله تعالیٰ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 168 - 169 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
پس اگر کہا جائے کہ کلام اللہ معنی قدیم میں حقیقت ہے نظم مؤلف میں مجاز ہے تو کلام کی نفی اس (نظم مؤلف) سے صحیح ہوتی بایں طور پر کہا جائے کہ نازل شدہ الفاظ جو معجزہ ہیں سورتوں اور آیات کی طرف تقسیم کئے گئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے ہیں حالانکہ اجماع اس کے خلاف ہے۔ اور نیز معجز اور متحدّی بہ (جس کے ساتھ چیلنج کیا گیا ہے) وہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس بات کے یقینی ہونے کے باوجود یہ (چیلنج) متصور ہو سکتا ہے اس نظم مؤلف ميں جو سورتوں کی طرف تقسیم کیا گیا ہے اس لئے کہ صفت قدیمہ کے ساتھ معارضہ کا کوئی معنی نہیں، تو ہم جواب دیں گے کہ (لفظ) کلام اللہ ایسا اسم مشترک ہے جو کلام نفسی کے درمیان اور (اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی کلام کی) اضافت کا معنی اس کا (کلام کا) اللہ تعالیٰ کی سفت ہونا ہے اور اس کلام لفظی حادث کے درمیان جو سورتوں اور آیات سے مرکب ہے اور (اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف کلام کی) اضافت کا معنی یہ ہے کہ یہ کلام (کلام) اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، مخلوق بندوں کی تالیف میں سے نہیں ہے پس بالکل نفی کرنا صحیح نہ ہو گی اور اعجاز اور چیلنج نہیں ہوگا مگر اللہ تعالی کی کلام میں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 247 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
پھر اگر اعتراض کیا جائے کہ اگر لفظِ کلام اللہ معنی قدیم یعنی کلام ِ نفسی کے معنی میں حقیقت اور نظم مؤلف کے معنی میں مجاز ہوتا تو اس سے یعنی نظم مؤلف سے کلام اللہ کی نفی صحیح ہوتی، بایں طور پر کہا جاتا کہ یہ نازل شدہ نظم وعبارت جو معجزہ ہے اور آیات اور سورتوں میں بٹی ہوئی ہے کلام اللہ نہیں ہے۔ حالانکہ اجماع اس کے برخلاف پر ہے۔ نیز معجزہ اور متحدّیٰ بہ حقیقی کلام اللہ ہے۔ اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ یہ (اعجاز اور تحدّی) اسی نظم مؤلف ہی میں متصور ہے، جو سورتوں پر تقسیم ہے کیونکہ صفت قدیمہ سے معارضہ کرنے کا کوئی مطلب نہیں۔ ہم جواب دیں گے کہ (لفظ) کلام اللہ ایسا اسم ہے جو مشترک ہے کلام نفسی قدیم کے درمیان، اور (اس صورت میں اللہ کی طرف کلام کی) اضافت کا معنیٰ کلام کا اللہ کی صفت ہونا ہے۔ اور اس کلامِ لفظی حادث کے درمیان جو سورتوں اور آیتوں سے مرکب ہے۔ اور (اِس صورت میں اللہ کی طرف کلام کی) اضافت کا معنی یہ ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے مخلوق بندوں کی تالیف میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا نفی ہر گز صحیح نہ ہوگی۔ اور اعجاز وتحدّی صرف کلام اللہ میں ہوگی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 255 – 256 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
پس اگر اعتراض کیا جائے کہ کلام اللہ معنی قدیم میں حقیقت ہے، نظم مؤلف میں مجاز تو صحیح ہوجائے گی کلام کی نفی اس سے (یعنی نظم مولف سے) اس طرح کہ کہا جائے کہ وہ نظم منزل جو معجز ہے سورتو ں اور آیات کی جانب جس کی تفصیل کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے حالانکہ اجماع اس کے خلاف ہے اور نیز جو متحدی یہ ہے وہ حقیقۃً اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس بات کے یقینی ہونے کے باوجود کہ یہ (تحدی وچیلنج) متسور ہو سکتا ہے نظم مؤلف میں جس کی تفصیل سورتوں کی جانب کی گئی ہے اس لئے کہ صفت قدیمہ کے ساتھ معارضہ کے کوئی معنیٰ نہیں۔ ہم جواب یہ دینگے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اسم مشترک ہے کلام نفسی قدیم کے درمیان۔ اور اضافت کے معنیٰ اس کا اللہ کی صفت ہونا ہے اور لفظی حادث کے درمیان جو مرکب ہے سورتوں اور آیات سے اور اضافت کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے مخلوقین کی تالیف میں سے نہیں ہے تو بالکلیہ نہیں صحیح ہوگی نفی اور اعجاز وتحدی نہ ہوگی مگر اللہ تعالیٰ کے کلام میں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 291 – 292 جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
پھر اگر اعتراض کیا جائے کہ اگر لفظ کلام اللہ معنی قدیم یعنی کلام نفسی کے معنی میں حقیقت اور نظم مولف کے معنی میں مجاز ہوتا تو اس سے (یعنی نظم مولف سے) کلام اللہ کی نفی صحیح ہوتی بایں طور پر کہ کہا جاتا ہے کہ یہ نازل شدہ نظم وعبارت جو معجزہ ہے اور آیات اور سورتوں میں بٹی ہوئی ہے کلام اللہ نہیں ہے حالانکہ اجماع اس کے خلاف پر ہے، نیز معجزہ اور متحدّی بہ حقیقی کلام اللہ ہے اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ یہ (اعجاز اور تحدّی) اس نظم مؤلف ہی میں متصور ہے جو سورتوں پر تقسیم ہے کیونکہ صفتِ قدیمہ سے معارضہ کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہم جواب دیں گے کہ (لفظ کلام اللہ ایسا اسم ہے جو مشترک ہے کلام نفسی قدیم کے درمیان اور (اس صورت مین اللہ کی طرف کلام کی ) اضافت کا معنی کلام اللہ کا صفت ہونا ہے اور اس کلام لفظی حادث کے درمیان جو سورتوں اور آیتوں سے مرکب ہے اور (اس صورت مین اللہ کی طرف کلام کی) اضافت کا معنی یہ ہے کہ یہ کلام، اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے مخلوق بندوں کی تالیفات مین سے نہیں ہے لہٰذا نفی ہر گز نہ ہوفی اور اعجاز و تحدی صرف کلام اللہ میں ہوی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
جس شخص کا اوڑھنا بچھونا ہی فقہ حنفیہ کا رد ہو تعصب کے سبب اس کی مت ماری جاتی ہے۔ وہ ساون کے اندھے کی مانند ہوتا ہے۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
حنفی حنیف بھائی! آپ کیوں ہر جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
لا مذہب کو کیا ہر جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ٹاسک ملا ہؤا ہے۔
مخالفت کرنے والا کبھی مخالف کی صحیح ترجمانی کرسکتا ہے؟
اگر کسی کی تحریر سیاق و سباق سے ہٹا کر لکھی جا ئے تو وہ ’’لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ‘‘ ہی پیش کرے گا ’’وَأَنْتُمْ سُكَارَى‘‘ چھوڑ دے گا۔
جناب سے گزارش ہے کہ جب کسی دوسرے کی تحریر کا اقتباس پیش کرو تو اس کا سکین پیج لگایا کرو اور اس تحریر کے آگے پیچھے کے صفحات بھی لگایا کرو۔
دھوکہ دہی اور فریب کاری سے امتِ مسلمہ میں فساد نہ پھیلاؤ۔
 
Top