• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث وحی ہے

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
حدیث وحی ہے
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
دین کی اساس اور بنیاد وحی پر ہے ، وحی قرآن و حدیث کا نام ہے ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
(وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ٭ اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی)(النجم : ٣۔٤)
''آپ خواہش سے نہیں بولتے ، وہ تو وحی ہوتی ہے جو آپ کی طرف کی جاتی ہے ۔''
آیت کا عموم بتاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دین کے بارے میں تمام باتیں وحی ہیں ۔
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ (م٤٥٦ھ)لکھتے ہیں :
''اس آیت سے معلوم ہوا کہ وحی دو قسموں پر مشتمل ہے ۔''(الاحکام فی اصول الاحکام : ١/١٠٨)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَ الْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ(البقرۃ : ٢٣١)
''اللہ کی نعمت کو یاد کریں اوراسے بھی یاد کریں جو اللہ نے کتاب و سنت کی صورت آپ پر نازل کی، اس کے ذریعے آپ کو نصیحت کرتا ہے۔''
مطلب یہ کہ اللہ کی اس نعمت کو بطور ِ خاص یاد کرو کہ اس نے آپ کی طرف ہدایت اور روشن نشانیوں کے ساتھ رسول بھیجا اورکتاب و سنت کی صورت میں وحی اتاری ، وہ اس وحی کے ذریعہ اچھائی اور بھلائی کا حکم دیتاہے ، حرام اور ناجائز کاموں سے منع کرتا ہے اور حرام کاموں کے ارتکاب پر وعید سنا کر وعظ کرتا ہے ، حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے یہاں حکمت سے مراد سنت لی ہے ۔(تفسیر ابن کثیر : ١/٥٦٤)
نیز فرمایا :
(وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الْحِکْمَۃِ )(الاحزاب : ٣٤)
''اللہ کا شکر کریں کہ آپ کے گھر میں کتاب و حکمت کی تلاوت ہوتی ہے۔''
امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں حکمت سے مراد سنت ہے۔
(السنۃ لمحمد بن نصر المروزی : ١١٢ ، وسندہ، صحیح)
امام شافعی رحمہ اللہ (م٢٠٤ھ)فرماتے ہیں :
'' میں نے قرآن کے ایک عالم سے سنا، کہ حکمت سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، ان کی یہ بات درست ہے ، واللہ اعلم ! کیونکہ قرآن کے ذکر کے بعد حکمت کا بیان ہے ، اور اللہ نے ان پر جو احسان کیا کہ اس نے کتاب و حکمت کے ساتھ انہیں تعلیم دی، اس کا ذکر کیا ہے۔ لہذا یہ کہنا اللہ نے جائز نہیں رکھا کہ حکمت سنت کے علاوہ کچھ ہے۔''(الرسالۃ للشافعی : ص ٧٨)
امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ (م٢٩٤ھ)فرماتے ہیں :
''علماء نے تفسیر کی ہے کہ یہاں حکمت سے مراد سنت ہی ہے ، اللہ نے کتاب کو ذکر کیا، پھر فرمایا ، اور حکمت ، چنانچہ دونوں کے درمیان واؤ سے فاصلہ کیا ، معلوم ہوا کہ حکمت کتاب کے علاوہ چیز ہے ،وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہی بیان ہے جو قرآن میں موجود نہیں ، اگر اس طرح نہ ہو تو مطلب یوں ہوا کہ اللہ نے کتاب اور کتاب نازل کی اور یہ بات (فصاحت و بلاغت کے اعتبارسے )بعید ہے ۔''(السنۃ : ص ١١٥)
یہاں حکمت سے مراد سنت ہے ، اللہ نے اسے کتاب کے ساتھ نازل فرمایا ہے ، معلوم ہوا کہ حدیث بھی اللہ کی طرف سے ہے ، یعنی وحی ہے ۔
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : (اِِنْ اَتَّبِعُ اِِلَّا مَا یُوحٰی اِِلَیَّ)(الاحفاف : ٩)
''میں صرف وحی کا پیرو ہوں۔''
وحی سے مراد قرآن و حدیث ہے اللہ کا فرمان ہے :
(وَیُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ)(البقرۃ : ١٢٩، آل عمران : ١٦٤، الجمعۃ : ٢)
'' آپ انہیں کتاب وسنت کی تعلیم دیتے ہیں ۔''
معلوم ہوا کہ وضو سے لے کر جہاد تک ہر عبادت کا طریقہ اور اس کے احکام ومسائل اللہ کی وحی سے ہیں ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و افعال و احوال وحی ہیں ۔
حدیث وحی ہے
قرآن و حدیث کی حفاظت اللہ نے کی ہے :
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ' لَحٰفِظُوْنَ)(الحجر : ٩)
''اسے ہم نے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔''
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فرامین اللہ کی حفاظت سے محفوظ ہیں، ہمیں ضمانت دے دی گئی ہے کہ اس میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی ، لہٰذ ا وہ ساری کی ساری ہم تک پہنچ گئی ہے اور ہمیشہ کے لیے ہم پر اللہ کی حجت قائم ہوگئی ہے ۔''(الاحکام لابن حزم : ١/١١٠)
قرآن و حدیث دونوں ذکر ہیں ، قرآن میں خطبہ جمعہ کو بھی ذکر کہا گیا ہے ،فرمان باری تعالیٰ ہے :
(یااََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ)(الجمعۃ : ٩)
''اہل ایمان!جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اہتمام سے اللہ کے ذکر کی طرف آؤ۔''
قرآن نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کو ذکر کہا ہے اور نبی کریم صلی اللہ کا خطبہ حدیث تھا، لہذا قرآن و حدیث دونوں ذکر ہیں۔سیدنا ابو بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
''رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما تشریف لائے ، وہ سرخ قمیصیں پہنے ہوئے چل رہے تھے اور گر رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور انہیںاٹھا کر سامنے بٹھا دیا ، پھر فرمایا ، اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے :
(اِِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ)(التغابن : ١٥)''آپ کے مال اور اولاد فتنہ ہیں۔''
میں نے ان بچوں کودیکھا ، وہ چل رہے ہیں اور گر رہے ہیں تو صبر نہ کر سکا ،میں نے حدیث ختم کر کے انہیں اٹھا لیا ۔''(مسند الامام احمد : ٥/٣٥٤، وسندہ، حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ (٣٧٧٤)نے ''حسن غریب '' اور امام ابن خزیمہ (١٤٥٦، ١٨٠١١، ١٨٠٢)و امام ابن حبان (٦٠٣٨، ٦٠٣٩)رحمہمااللہ نے ''صحیح '' کہا ہے ، امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے امام مسلم کی شرط پر ''صحیح '' قرار دیا ہے ۔
حدیث تا قیامت رہے گی
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ)(الاحزاب : ٢١)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی آپ کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کی زندگی اللہ کی مراد کے موافق ہے، اسی لئے تو اسے نمونہ بنایا گیا ہے اور لازم ہے کہ یہ نمونہ تاقیامت محفوظ رہے۔
قرآن و حدیث وحی ہیں اور قیامت تک رہیں گی ، حق حق کے معارض نہیں ہوسکتا۔یا د رہے کہ قرآن و حدیث کی بعض نصوص میں ظاہری تعارض ہے ، نفسِ امر اور حقیقت میں تعارض نہیں ، جس طرح قرآنِ کریم کی بعض آیات بینات ظاہری طور پر باہم متعارض ہیں ، جبکہ حقیقت میںتعارض نہیں ، جب قرآن کا ظاہری تعارض رفع ہو سکتا ہے ، تو احادیث کا باہم تعارض یا قرآن سے تعارض بھی رفع ہو سکتاہےْ
قرآن و حدیث کی نصوص میں تعارض کے اسباب
1 قرآن وحدیث کی نصوص میں عام و خاص ، مطلق و مقید اور استثنا ء ہے ، سرسری نظر سے دیکھیں تو تعارض نظر آتا ہے، حقیقت میں تعارض نہیں ہوتا۔
2 قرآن کا حکم عام ہوتا ہے ، حدیث اس میں تخصیص کر رہی ہوتی ہے یا قرآن کے عام حکم سے حدیث ایک چیز کو مستثنیٰ کر دیتی ہے، اسی طرح قرآن کے اطلاق کی حدیث تقیید بھی کر تی ہے ۔
3 قرآن و حدیث کی نصوص میںظاہری تعارض کا ایک سبب لغت ِ عرب سے ناواقفیت ہے ۔
4 ایک راوی مکمل روایت بیان کرتا ہے ، دوسرا مختصر ، تیسرا بعض حصہ بیان کرتا ہے ، بعض بیان نہیں کرتا، بعض اوقات ایک راوی کے الفاظ کو قرآن کے مخالف سمجھ لیا جاتا ہے، حالاں کہ تمام احادیث کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ تعارض خود بخود ختم ہوجاتاہے۔
5 راوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کا جواب نقل کرتا ہے ، لیکن سوال ذکر نہیں کرتا ، جب کہ سوال سے حقیقت واضح ہوتی ہے ۔
6 آیت ناسخ اور حدیث منسوخ یا بسا اوقات حدیث ناسخ اور آیت منسوخ ہوتی ہے ، جب یہ معلوم ہو جائے تو قرآن و حدیث کا ظاہری تعارض رفع ہو جاتاہے ۔
تفصیل کے لیے امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب الرّسالۃ (ص : ٥٢، ٥٣، ٢١٣، ٢١٥) ملاحظہ فرمائیں ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''جب بھی ہم دیکھتے کہ دو احادیث میں تعارض آرہا ہے تو ہم اس کی مکمل چھان بین کرتے، تو رفع تعارض کی کوئی صورت مل ہی جاتی۔''(الرسالۃ : ص ٢١٦)
نیز فرماتے ہیں :
''یہ بھی جاننا چاہیے کہ اللہ اور رسول کے احکام معارض نہیں ہوتے ، بلکہ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔''
(الرسالۃ : ١٧٣)
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''ہم نے جو کہا ہے کہ قرآنِ کریم اور نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال میں کوئی تعارض نہیں ، اس کی تصدیق اللہ کا یہ فرمان کرتا ہے ۔
(وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ٭ اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی)(النجم : ٣۔٤٤)''وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے ، بلکہ وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے ۔''(الاحکام : ٢/٢٠٤)
قرآن وحدیث میں تعارض کی مثال
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ)(المائدۃ : ٣)''آپ پر مردار حرام ہے۔''
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
''ایک بکری مر گئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالکسے فرمایا ،آپ نے اس کی کھال کیوں نہیں اتار لی کہ ، اسے دباغت دے کر فائدہ اٹھاتے ۔''
(سنن ترمذی : ١٧٢٧، وقال : حسن صحیح ، وصححہ ابو عوانہ : ٤٢٣ ، وسندہ، صحیح)
قرآن کا حکم مردار کے جمیع اجزاء کو شامل ہے ، حدیث نے اسے کھانے کے ساتھ خاص کر دیا ہے ، یعنی حلال جانور جو مردار ہو جائے ، کھایا نہیں جا سکتا ، لیکن اس کے چمڑے کو رنگ کر فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ )(النساء : ١١)
''اللہ آپ کی اولاد بارے آپ کو حکم دیتا ہے۔''
یہ آیت عام ہے ، تخصیص حدیث نے کر دی۔
لا یرث المسلم الکافر ، ولا الکافر المسلم '
''مسلمان کا فرکا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا ۔''
(صحیح بخاری : ١/١٠٠١، ح : ٦٧٦٤ ، صحیح مسلم : ٢/٣٣ ، ١٦١٤)
 
Top