• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث وسنت کی دعوت کیوں؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث وسنت کی دعوت کیوں؟

قرآن وسنت کو تھامنا اور اقوال رجال کو ترک کرنا۔یہی دو اہم مسائل ہیں جن کی طرف اسلاف دعوت دیتے آئے ہیں۔ کیونکہ:

۱۔ حدیث رسول، قرآن فہمی ، عقائد اور دیگر شرعی مسائل میں خطأ اور غلطی میں واقع ہونے سے بچنے کا نام ہے نیز ضلالت وگمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے سے اور فتنہ انگیزی کرنے سے محفوظ رہنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا: لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔(مستدرک:۹۳، جامع بیان العلم ۲؍۲۴) مگر لوگوں کی آراء اور علماء کے اجتہاد کو یہ مقام حاصل نہیں۔ اسی لئے امام مالکؒ فرمایا کرتے:
إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُخْطِئُ وَأُصِیْبُ، فَانْظُرُوْا فِیْ رَأیِیْ فَکُلُّ مَا وَافَقَ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ فَخُذُوْا بِہِ ، وَکُلُّ مَا لَمْ یُوَافِقِ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ فَاتْرُکُوْہُ۔ میں ایک انسان ہوں مجھ سے غلطی بھی ہوتی ہے اور درستگی بھی۔ میری رائے میں ذرا غور کرلیا کرو۔ جو کتاب وسنت کے موافق ہو اسے لے لو اور جو کتاب وسنت کے موافق نہ ہو اسے ترک کردو۔
امام شریح القاضی فرمایا کرتے:
إِنَّ السُّنَّۃَ سَبَقَتْ قِیَاسَکُمْ، فَاتَّبِعُوْا وَلاَ تَبْتَدِعُوْا ، فَإِنَّکُمْ لَنْ تَضِلُّوْا مَا أخَذْتُمْ بِالأَثَرِ۔ سنت تمہارے قیاس سے سبقت لے چکی ہے اس کی پیروی کرو اور نئے خیالات یا نظریات مت دو۔ یقیناً تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے اگر تم اثر (حدیث) کو تھام لو۔

۲۔ یہ بات متفق علیہ ہے کہ حدیث ایک پختہ اور ناقابل تردید حجت ہے بخلاف آرائے رجال کے جنہیں سلف صالحین اور دیگر محققین نے حجت تو درکنا ر بلکہ صرف رائے ہی سمجھا۔ امام احمدؒ بن حنبل فرماتے ہیں:
رَأْیُ الأَوْزَاعِیِّ وَرَأْیُ مِالِکٍ وَرَأْیُ أَبِی حَنِیْفَۃَ کُلُّہُ رَأْیٌ، وَہُوَ عِنْدِیْ سَوَائٌ، وَإِنَّمَا الْحُجَّۃُ فِی الآثَارِ۔ امام اوزاعی کی رائے ہو یا امام مالک کی یاامام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کی۔ سبھی میرے نزدیک مساوی حیثیت رکھتی ہیں۔ حجت اور دلیل تو احادیث ہی ہیں۔

۳۔ کوئی طالب علم صحیح فقیہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ حدیث کی تعلیم حاصل نہ کرلے۔یہی حدیث تو ہے جو قرآن کریم کے بعد اسے فقاہت کا اہل بناتی ہے کیونکہ جب نص اسے عاجز کردے توپھر اس نے نئے مسائل کا استنباط کرنا ہے اور صحیح قیاس بھی۔ایسا فقیہ، حدیث کی معرفت کے بعد پھر ایسی خطا کا مرتکب نہیں ہوتا جیسا کہ حدیث سے ایک جاہل مرتکب ہوتا ہے۔مثلاً فرع کا قیاس فرع پر، یا ضد کا قیاس ضد پر ۔ یا نص کے باوجود قیاس کرنا۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
إِنَّ أَصَحَّ النَّاسِ قِیَاساً أَہْلُ الْحَدِیْثِ، وَکُلَّمَا کَانَ الرَّجُلُ إِلَی الْحَدِیْثِ أَقْرَبُ کاَنَ قِیَاسُہُ أَصَحُّ، وَکُلَّمَا کَانَ عَنِ الْحَدِیْثِ أَبْعَدُ کَانَ قِیَاسُہُ أَفْسَدُ۔ صحیح ترین قیاس کرنے میں سب سے زیادہ قابل لوگ محدثین کرام ہی ہیں آدمی جتنا بھی حدیث کے قریب ہوگا اس کا قیاس اتنا ہی صحیح ترین ہوگا۔ اور جتنا بھی حدیث سے دور ہوگا اس کا قیاس اتنا ہی فاسد و خراب ہوگا۔

۴۔ مسلمانوں میں خرافات وبدعات ومختلف نظریات کا اور باہمی فتنہ انگیزی کاخاتمہ صرف سنت کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔

۵۔آج ہر مسلمان جان چکا ہے کہ متحد ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا جائے و۔مگریہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم سنت رسول کی طرف رجوع کریں گے ۔

۶۔سنت کا مضبوطی سے تھامنا فرد کو یقین دلاتا ہے کہ یہ احکام یقینی ہیں بخلاف ان متعارض اقوال کے جو مختلف کتب فقہ میں ملتے ہیں۔جن سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں صحیح کون سا ہے اور غلط کون سا؟یہ سب ظنی ہیں۔اس لئے کوئی مفتی ان دو متعارض اقوال کو دیکھ کر یہ ضرور کہتا ہے کہ ایسا کرنا امام شافعی یاامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ایک قول کے مطابق جائز ہے اور ان کے دو عظیم شاگردوں کے قول کے مطابق ناجائز ہے۔دوسری طرف ایک صریح اور صحیح حدیث ان دو اقوال میں ایک کی حمایت کررہی ہوتی ہے۔مگر یہ مفتی صاحب اس صحیح سنت سے اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس سائل کو بجائے حدیث سے آگاہ کرنے کے یہ دو متعارض ا قوال بیان کرتا ہے اور کسی ایک کو وہ اشارۃً بھی غلط کہنے کی جرأت نہیں کرتا۔اس طرح وہ سائل کو حیرت کے غار میں دھکیل دیتا ہے۔بلکہ بعض مفتیان کرام تو دونوں متناقض اقوال کو دو محکم شریعت بنا کر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان کے لئے دونوں جائز ہیں چاہیں تو اس ایک قول پرعمل کریں یا چاہیں تو دوسرے قول پر بھی عمل ہوسکتا ہے۔بلکہ بعض شوافع تو یہ اجازت دیتے ہیں کہ جس قول پر معاوضہ زیادہ ملتا ہو اس کے مطابق ہی فتوی دے۔

۷۔ قرآن مجید میں قروء کی بابت فقہاء میں اختلاف ہے۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں اس سے مراد طہر ہے اور امام ابوحنیفہؒ اس سے مراد حیض لیتے ہیں۔فاتحہ کے مسئلہ میں امام شافعیؒ کہتے ہیں اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے کہ منع ہے۔اس قسم کے بہتیرے مسائل ہیں جن میں اختلاف ہے مگر حق ایک ہی ہے اور ایک ہی کے ساتھ رہتا ہے اور یہی اہل السنۃ کا عقیدہ ہے۔یا چاروں مذاہب کے حق ہونے کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ان کو غلطی پر بھی ایک اجر ملتا ہے کیونکہ ان کا اختلاف سلف کی روش پر ہے۔ بعینہ سنت کو ثابت کرنے میں بھی چاروں ائمہ کے حق پر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں ہر ایک کے تمام مسائل عین سنت کے مطابق ہیں اور حق ہیں۔ بلکہ اختلاف کی صورت میں ایک حق پر ہوگا اور دوسرا غلطی پر۔

۸۔ مسلکی اختلافات اپنی جگہ مگر مسالک اہل سنت میں کوئی مسلک ایسا نہیں جو حدیث یا سنت کا منکرہو۔بس اختلاف اس کے صحیح یا ضعیف ہونے میں ہے۔عموماً صحیح حدیث کو پاکر ایک مسلمان اپنی اصلاح کرلیتاہے۔ ہمارے اختلاف کا یہی حل ہے ۔ یہ نامناسب ہوگا کہ ہم اپنے اختلاف کا ثبوت حدیث رسول کو بنا کر پیش کریں۔ رہے اہل تشییع تو وہ بھی حدیث کو جو ان کے نزدیک صحیح ہے اسے مانتے تو ہیں۔ تو پھر ان اختلافات کو آڑ بناکر انکار حدیث کی گنجائش نکالنا سینہ زوری نہیں تو اور کیاہے!!!۔نومسلم بھی بہ آسانی اسلام کو سمجھ لیتا ہے اگر وسوسہ ڈالنے والا اس کے قریب نہ ہو۔ مگر شیطان نے تویہ کام کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اس لئے نو مسلم کو مسلم علماء یہی نسخہ بتاتے ہیں کہ وہ آخری دو قل کا وردبکثرت کیا کرے۔

٭٭٭٭٭​


حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top