نسبت وفیصد
موجودہ ذخیرہ ٔحدیث، موسوعۃ الحدیث (انسائیکلوپیڈیا)کو دیکھیں تواحادیث کی نسبت یہ بنتی ہے:
قولی احادیث: 20فیصد
فعلی احادیث:70فیصد
باقی
احادیث:10فیصد
فوائد: اس تعریف و تقسیم سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
۱۔ آپ ﷺ کے اقوال کم تھے مگر اعمال یا کام زیادہ۔ ایک صحیح راہنما کی یہی صفت ہوا کرتی ہے کہ وہ کم گو ہوتا ہے مگر کام کرنے کا دھنی۔یہی اسوہ ٔحسنہ ہے۔
۲۔فعلی اور تقریری احادیث میں چونکہ الفاظ ،رسول اللہ ﷺکے نہیں ہوتے اس لئے صحابی ٔرسول کے الفاظ میں فہم ، تفقہ اور مقصدکو بغور دیکھا اور سندًا اسے چھانٹا جاتا ہے۔ یہ چھانٹی تحقیق کا جزوِ لاینفک ہے۔جسے علم الحدیث کہتے ہیں۔
۳۔ حدیث چونکہ سند اور متن سے مکمل ہوتی ہے اس لئے کسی خواب، القاء یااشارہ سے حدیث کی روایت یا اس کی تصحیح وتضعیف ثابت نہیں ہوتی۔ ایسی روایت لاعلمی اور جہل پر مبنی ہے۔موجودہ صحافت میں ۔۔۔خیال کیا جاتا ہے۔۔۔کہہ کر خبر کو بذریعہ میڈیا نشر کردیا جاتا ہے جو غیر مصدقہ ہوتی ہے اور معاشرے پر اس کے مضر اثرات سے ہر کوئی واقف ہے۔
۴۔ نسبت حدیث آگاہ کرتی ہے کہ حدیث صرف آپ ﷺ کے اقوال کا نام نہیں بلکہ آپ ﷺ کے افعال، تقریر اور صفات بھی اس میں شامل ہیں جو دوسری اقسام سے نسبتاً زیادہ ہیں۔
۵۔ ایک متن کی تین سو اسانید اگر ہوں تو ہر سند والی روایت ایک مستقل حدیث کہلائے گی۔
۶۔ سند والی حدیث کوہی محدثین یاد کرتے خواہ وہ ضعیف ہوتی یا صحیح۔ پھر اسے روایت کرتے اور اپنے نقدی الفاظ بھی پیش کردیتے۔انہوں نے بغیر سند والے متن کو حدیث نہیں کہا۔
۷۔ فقہاء کرام آپ ﷺ کی خَلْقِی اور خُلُقِی صفات کو حدیث کی تعریف میں شامل نہیں کرتے۔
۸۔ محدثین کرام حدیث سے عموماً وہ روایات مراد لیتے ہیں جو آپ ﷺ سے نبوت کے بعد روایت کی گئی ہوں۔یہی فقہ وشریعت ہے جو واجب ، تحریم، مندوب ومکروہ اور مباح کو بھی شامل ہے۔نیز طب سے متعلق احادیث بھی اس میں شامل ہیں۔رہی حدیث کھجور کی پیوند کاری والی تو آپ ﷺ نے انہیں دیکھ کرصرف یہ ارشاد فرمایا تھا:
مَا أَرَی ہٰذَا یُغْنِیْ شَیْئًا۔ میرا خیال نہیں کہ یہ کام انہیں کوئی فائدہ دے۔(صحیح مسلم)۔ مگر صحابہ اسے صحیح نہ سمجھ سکے بلکہ یہ سمجھا کہ شاید آپ ﷺ نے ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔پھر آپ ﷺ کے یہ ارشاد:
أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ فَمَا کَانَ مِنْ أَمْرِ دِیْنِکُمْ فَإِلَیََّّ۔ اپنے دنیاوی کام (پیوندکاری) سے متعلق تم زیادہ بہتر جانتے ہو مگر جو تمہارا دینی معاملہ ہو تواسے میرے پاس لے آؤ۔اس سے مراد عام قاعدہ نہیں۔ عقل میں یہ بات ہی نہیں آسکتی اور نہ ہی رسول محترم نے ایسا چاہا۔مگر کیا دنیاوی معاملہ کہہ کر کہیں عقائد، عبادات، معاملات، بیع وشراء، نکاح وطلاق، گفتگو، لباس اور طعام وشراب کے آداب اور عام اسلامی اخلاق سے جان چھڑانا مقصود تو نہیں؟نیزجب یہ حدیث عام معاملہ دنیا کے بارے میں ہے تو اسے خاص بنانے کی کیا دلیل ہے؟
۹۔ آپ ﷺ نے اپنے قول وعمل وغیرہ کو حدیث نام دیا۔اس اعتبار سے علم حدیث ، ایک معزز ومحترم علم ہے۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اسوہ حسنہ کہا اور اسی کو اختیار کرنے کی تاکید فرمائی۔ صحابۂ رسول نے بھی حدیث کا لفظ آپ ﷺ ہی کے لئے خاص کرلیاکیونکہ کلام اللہ کے بعد آپ ﷺ کی حدیث ہی علم ، تقوی، اور وعظ وابلاغ میں صداقت پر مبنی تھی اور سب کی احادیث پر فوقیت رکھتی تھی۔مزید یہ کہ نعمت دین کو پانے کے بعد اس کا اظہار کرنا بھی فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس دینی نعمت کے بارے میںحکم دیا:
{ وَأمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ}۔ اللہ کے رسول آپ اپنے رب کی نعمت کو بیان بھی کیجئے۔ یہی بیان نعمت، حدیث رسول ہی تو ہے۔ اس لئے لفظ حدیث خود ساختہ تعبیر نہیں ہے۔
۱۰۔اگرحدیث کے معاملہ میں محدثین اتنے محتاط ہیں کہ بغیر سند کے نہ حدیث قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اسے حدیث کہتے ہیں تو دیگر علماء کے بے سند اقوال کو قبول کرنے یا اسے صحیح قول تسلیم کرنے میں وہ کیونکر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
۱۱۔ رسول اکرم ﷺنے جھوٹ اور غلط بیانی کی سنگینی سے سبھی کو آگاہ کردیا تھا۔ اس لئے کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی کہ صحابۂ رسول نے ایمان لا کر ابتداء میں ہی یا بعد میں بھی کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ کر آپ ﷺ کی طرف منسوب کردی ہو۔اس لئے اپنے صحابہ کرام پرآپ ﷺ کو وثوق واعتماد تھا کہ جہاں یہ جاہلی دور کے اشعار، اونٹوں اور گھوڑوں کے نسب نامے تک یاد رکھتے ہیں وہاں میرے اقوال بھی ان کے حافظہ میں ثبت ہوجائیں گے ۔
۱۲۔کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے کے لئے حدیث ہی افتادہ پتھر ہے جس کے اندر ہیرے کی جوت نقادفقہاء محدثین دیکھ لیتے ہیں کہ کیا اس جام زریں میں جو بادہ معنی بھری ہوئی ہے وہ طبیعت اسلام اور مزاج نبوی کے مناسب ہے؟ یاذاتی یا شخصی رجحانات و اقوال کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش ہے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ