• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کی تحقیق درکار ہے!

abu khuzaima

رکن
شمولیت
جون 28، 2016
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
46
السلام علیکم؛ براہ کرم اس روایت کی تحقیق بتا دیں جس میں مروی ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت و رحم کرتا ہے۔



Sent from my SM-G920F using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم؛
براہ کرم اس روایت کی تحقیق بتا دیں جس میں مروی ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت و رحم کرتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
بہت تلاش و تفتیش کے باوجود ایسی کوئی روایت نہ ملی ، جس میں ہو کہ :
اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت و رحم کرتا ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ بات اپنی جگہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ :

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمتوں کی کوئی حد اور حساب نہیں ،صرف ستر ماؤں کی محبت و رحمت کیا ،اللہ کی محبت ورحمت تو عالم وجود میں تمام ماؤں کی محبت و رحمت سے بڑھ کر ہے ؛

قرآن وحدیث میں بار بار اللہ کی صفات ۔۔ الرحمن الرحیم۔۔۔ بڑا مہربان ، نہایت رحم کرنے والا
رحمن و رحیم دونوں الفاظ رحمت سے مشتق ہیں اور اللہ کی صفت ہیں۔ رحمن مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بےانتہا مہربان۔ اس میں جوش رحمت کا پہلو غالب ہے ،اور اس کی یہ رحمت نہایت وسیع اور ہمہ گیر ہے جن سے انسانوں کا کوئی گروہ یا مخصوص فرقہ یا مخصوص قوم نہیں بلکہ پوری نوع انسانی فیضیاب ہو رہی ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات اور پوری کائنات پر اس کی رحمت چھائی ہوئی ہے اور ہمہ گیر رحمت کے اس مفہوم کے پیش نظر یہ نام اللہ کے لیے خاص ہے اور الرحمن کے نام سے اسی کو پکارا جاتا ہے گویا اس لفظ کی حیثیت اسم علم کی سی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن کو نمایاں کرنے کے لیے الرحیم کا اضافہ نہایت موزوں ہوا۔
رحیم اس صفت ہے اور اس پہلو کو ظاہر کرتی ہے کہ اس کی رحمت مستقل اور دائمی ہے، اس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ انسان کی تخلیق نہ صرف اس کی رحمت کے جوش میں آنے سے ہوئی بلکہ وہ اس پر برابر اپنی رحمت کی بارش کر رہا ہے اور جو لوگ اس کے راستہ پر چلیں گے انہیں وہ ابدی طور پر اپنی رحمت سے نوازے گا۔

سورۃ فاتحہ میں اس کی صفت ۔۔ رب العالمین ۔۔ کے ساتھ ۔۔ الرحمن الرحیم ۔۔ لانے کا مقصد
اس بات کا اظہار ہے کہ تمام جہانوں کی ربوبیت عامہ کے تقاضے صرف اسی صورت میں پورے ہوسکتے ہیں جب ان عالمین کا پروردگار رحمن بھی ہو اور رحیم بھی ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ رحمن اور رحیم نہ ہوتا تو یہ دنیا کبھی آباد نہ رہ سکتی بلکہ کب کی فنا ہوچکی ہوتی۔

قرآن مجید میں رب کریم کا ارشاد ہے :
قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (سورۃ الاعراف 156)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنا عذاب اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے ،تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
توضیح :
یہ اس کی وسعت رحمت ہی ہے کہ دنیا میں صالح و فاسق اور مومن و کافر دونوں ہی اس کی رحمت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔

اسی لئے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ
اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو،

اور حدیث میں آتا ہے '

عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ، فَمِنْهَا رَحْمَةٌ بِهَا يَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ بَيْنَهُمْ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ»،سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی ایک سو رحمتیں ہیں۔ یہ اس کی ایک رحمت ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اس نے اپنی نناوے 99رحمتیں روز محشر کیلئے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)

اور صحیح حدیث میں اللہ کی رحمت کے متعلق ارشاد پیغمبرﷺ ہے


عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبْيِ قَدْ تَحْلُبُ ثَدْيَهَا تَسْقِي، إِذَا وَجَدَتْ صَبِيًّا فِي السَّبْيِ أَخَذَتْهُ، فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتُرَوْنَ هَذِهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِي النَّارِ» قُلْنَا: لاَ، وَهِيَ تَقْدِرُ عَلَى أَنْ لاَ تَطْرَحَهُ، فَقَالَ: «لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا»

(صحیح البخاری 5999 ،وأخرجه مسلم في التوبة باب في سعة رحمة الله تعالى وأنها سبقت غضبه رقم 2754 )
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت شیرخوار بچے والی تھی ، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی۔ ہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ہم نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہو گی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احادیث مبارکہ میں ستر ماؤں کا ذکر نہیں آیا، ہاں یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کل رحمت کا ایک حصہ مخلوق میں تقسیم کیا اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھے۔درج ذیل روایات میں واضح طور پر اس کا اعلان کیا گیا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الرَّحْمَةَ يَوْمَ خَلَقَهَا مِائَةَ رَحْمَةٍ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعًا وَتِسْعِينَ رَحْمَةً، وَأَرْسَلَ فِي خَلْقِهِ كُلِّهِمْ رَحْمَةً وَاحِدَةً، فَلَوْ يَعْلَمُ الكَافِرُ بِكُلِّ الَّذِي عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الرَّحْمَةِ لَمْ يَيْئَسْ مِنَ الجَنَّةِ، وَلَوْ يَعْلَمُ المُؤْمِنُ بِكُلِّ الَّذِي عِنْدَ اللَّهِ مِنَ العَذَابِ لَمْ يَأْمَنْ مِنَ النَّارِ»
بخاري، الصحیح (6469 ) صحیح مسلم، رقم (2752)
سیدنا ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو جس دن بنایا تو اس کے سو حصے کئے اور اپنے پاس ان میں سے نناوے رکھے ۔ اس کے بعد تمام مخلوق کے لیے صرف ایک حصہ رحمت کا بھیجا ۔ پس اگر کافر کو وہ تمام رحم معلوم ہو جائے جو اللہ کے پاس ہے تو وہ جنت سے ناامید نہ ہو اور اگر مومن کو وہ تمام عذاب معلوم ہو جائیں جو اللہ کے پاس ہیں تو دوزخ سے کبھی بےخوف نہ ہو
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «جَعَلَ اللهُ الرَّحْمَةَ مِائَةَ جُزْءٍ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ وَأَنْزَلَ فِي الْأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا، فَمِنْ ذَلِكَ الْجُزْءِ تَتَرَاحَمُ الْخَلَائِقُ، حَتَّى تَرْفَعَ الدَّابَّةُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا، خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَهُ»

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کیے ہیں۔ چنانچہ ننانوے حصے اپنے پاس رکھ لیے اور ایک حصہ زمین پر نازل کیا۔ مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہ اسی ایک حصے سے ہے، یہاں تک کہ جانور اپنے بچے کو تکلیف پہنچنے کے ڈر سے اس کے اوپر سے جو اپنا کھرا اٹھائے وہ بھی اسی ایک حصے سے ہے۔

عَنْ أَبِیهِ عَنْ أَبِي هرَيرَة أَنَّ رَسُولَ اﷲ صلى الله عليه و سلم قَالَ خَلَقَ اﷲُ مِائَة رَحْمَة فَوَضَعَ وَاحِدَة بَیْنَ خَلْقِهِ وَخَبَأَ عِنْدَهُ مِائَة إِلَّا وَاحِدَ
مسلم، الصحیح، 4: 2108، رقم: 2752

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کی ہیں، ایک رحمت اس نے اپنی مخلوق میں رکھی اور ننانوے رحمتیں اس نے اپنے پاس رکھیں۔
عَنْ أَبِي هرَیْرَة عَنِ النَّبِيِ قَالَ إِنَّ لِلّٰهِ مِائَة رَحْمَة أَنْزَلَ مِنْها رَحْمَة وَاحِدَة بَیْنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ وَالْبَهائِمِ وَالْهوَامِّ فَبِها یَتَعَاطَفُونَ وَبِها یَتَرَاحَمُونَ وَبِها تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی وَلَدِها وَأَخَّرَ اﷲُ تِسْعًا وَتِسْعِینَ رَحْمَة یَرْحَمُ بِها عِبَادَهُ یَوْمَ الْقِیَامَة۔
مسلم، الصحیح، 4: 2108، رقم: 2752
أ
حمد بن حنبل، المسند، 2: 434، رقم: 9607، مؤسسة قرطبة مصر
ابن حبان، الصحیح، 14: 15، رقم: 6147، مؤسسة الرسالة بیروت
أبو یعلی، المسند، 11: 258، رقم: 6372، دار المأمون للتراث دمشق

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی للہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں اس نے ان میں سے ایک رحمت جن، انس، حیوانات اور حشرات الارض میں نازل کی جس سے وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں بچا رکھی ہیں، ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا‘‘۔

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲ صلى الله عليه و سلم إِنَّ اﷲَ خَلَقَ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِائَة رَحْمَة کُلُّ رَحْمَة طِبَاقَ مَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ فَجَعَلَ مِنْها فِي الْأَرْضِ رَحْمَة فَبِها تَعْطِفُ الْوَالِدَة عَلَی وَلَدِها وَالْوَحْشُ وَالطَّیْرُ بَعْضُها عَلَی بَعْضٍ فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَة أَکْمَلَها بِهذِهِ الرَّحْمَة۔
مسلم، الصحیح، 4: 2109، رقم: 2753

’’سیدنا سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے جس دن سمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اس دن اس نے سو رحمتیں پیدا کیں، ہر رحمت سمان اور زمین کے بھراؤ کے برابر ہے، اس نے ان میں سے ایک رحمت زمین پر نازل کی، اسی رحمت کی وجہ سے والدہ اپنی اولاد پر رحمت کرتی ہے اوردرندے اور پرندے ایک دوسرے پر رحمت کرتے ہیں، جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس رحمت کے ساتھ اپنی رحمتوں کو مکمل فرمائے گا‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top