• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کی شرح مطلوب ہے؟

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس حدیث کی شرح مطلوب ہے اس میں کچھ باتیں مجھے سمجھ نہیں،سلف صالحین نے اس حدیث سے کیا مراد لیا ہے اس کی مکمل وضاحت چاہیئے۔ @اسحاق سلفی
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَتَانِي اللَّيْلَةَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ: فِي الْمَنَامِ؛ فَقَالَ: يَامُحَمَّدُ! هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لا، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، أَوْ قَالَ فِي نَحْرِي؛ فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ فِي الْكَفَّارَاتِ وَالْكَفَّارَاتُ الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَى الأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوئِ فِي الْمَكَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِذَا صَلَّيْتَ فَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً؛ فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ إِفْشَائُ السَّلامِ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَالصَّلاَةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ ذَكَرُوا بَيْنَ أَبِي قِلابَةَ وَبَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ رَجُلا، وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۱۷) (صحیح)

۳۲۳۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرا بزرگ وبرتر رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا- مجھے خیال پڑتاہے کہ آپ نے فرمایا:'' -خواب میں- رب کریم نے کہا: اے محمد! کیا تمہیں معلوم ہے کہ ملا ٔ اعلی (اونچے مرتبے والے فرشتے) کس بات پر آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں''،آپﷺ نے فرمایا:'' میں نے کہاکہ میں نہیں جانتا تو اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، یا اپنے سینے میں یا (نحری)کہا، (ہاتھ کندھے پررکھنے کے بعد) آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ میں جان گیا، رب کریم نے کہا: اے محمد! کیاتم جانتے ہو ملا ٔ اعلی میں کس بات پر جھگڑا ہورہاہے، (بحث وتکرار ہورہی ہے) ؟ میں نے کہا: ہاں، کفارات گناہوں کو مٹادینے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟) (فرمایا:'')کفارات یہ ہیں: (۱) صلاۃ کے بعد مسجد میں بیٹھ کر دوسری صلاۃ کا انتظار کرنا، (۲) پیروں سے چل کر صلاۃ باجماعت کے لیے مسجد میں جانا، (۳) ناگواری کے باوجود باقاعدگی سے وضوکرنا، جو ایسا کرے گا بھلائی کی زندگی گزارے گا، اور بھلائی کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک وصاف ہوجائے گا جس طرح وہ اس دن پاک وصاف تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا، رب کریم کہے گا: اے محمد! جب تم صلاۃ پڑھ چکو تو کہو :'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ '' ۱؎ آپ نے فرمایا:'' درجات بلند کرنے والی چیزیں (۱) سلام کو پھیلانا عام کرنا ہے، (۲) (محتاج ومسکین) کو کھانا کھلانا ہے، (۳) رات کو تہجدپڑھنا ہے کہ جب لوگ سورہے ہوں ''
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیر محترم.
میں بھی جاننا چاہوں گا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس حدیث کی شرح مطلوب ہے اس میں کچھ باتیں مجھے سمجھ نہیں،سلف صالحین نے اس حدیث سے کیا مراد لیا ہے اس کی مکمل وضاحت چاہیئے۔ @اسحاق سلفی
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَتَانِي اللَّيْلَةَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ: فِي الْمَنَامِ؛ فَقَالَ: يَامُحَمَّدُ! هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لا، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، أَوْ قَالَ فِي نَحْرِي؛ فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ فِي الْكَفَّارَاتِ وَالْكَفَّارَاتُ الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَى الأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوئِ فِي الْمَكَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِذَا صَلَّيْتَ فَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً؛ فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ إِفْشَائُ السَّلامِ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَالصَّلاَةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ ذَكَرُوا بَيْنَ أَبِي قِلابَةَ وَبَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ رَجُلا، وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۱۷) (صحیح)

۳۲۳۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرا بزرگ وبرتر رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا- مجھے خیال پڑتاہے کہ آپ نے فرمایا:'' -خواب میں- رب کریم نے کہا: اے محمد! کیا تمہیں معلوم ہے کہ ملا ٔ اعلی (اونچے مرتبے والے فرشتے) کس بات پر آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں''،آپﷺ نے فرمایا:'' میں نے کہاکہ میں نہیں جانتا تو اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، یا اپنے سینے میں یا (نحری)کہا، (ہاتھ کندھے پررکھنے کے بعد) آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ میں جان گیا، رب کریم نے کہا: اے محمد! کیاتم جانتے ہو ملا ٔ اعلی میں کس بات پر جھگڑا ہورہاہے، (بحث وتکرار ہورہی ہے) ؟ میں نے کہا: ہاں، کفارات گناہوں کو مٹادینے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟) (فرمایا:'')کفارات یہ ہیں: (۱) صلاۃ کے بعد مسجد میں بیٹھ کر دوسری صلاۃ کا انتظار کرنا، (۲) پیروں سے چل کر صلاۃ باجماعت کے لیے مسجد میں جانا، (۳) ناگواری کے باوجود باقاعدگی سے وضوکرنا، جو ایسا کرے گا بھلائی کی زندگی گزارے گا، اور بھلائی کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک وصاف ہوجائے گا جس طرح وہ اس دن پاک وصاف تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا، رب کریم کہے گا: اے محمد! جب تم صلاۃ پڑھ چکو تو کہو :'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ '' ۱؎ آپ نے فرمایا:'' درجات بلند کرنے والی چیزیں (۱) سلام کو پھیلانا عام کرنا ہے، (۲) (محتاج ومسکین) کو کھانا کھلانا ہے، (۳) رات کو تہجدپڑھنا ہے کہ جب لوگ سورہے ہوں ''
اس حدیث شریف میں اللہ سبحانہ وتعالی کی صفت ( المجيء) یعنی ’’ آنا ، تشریف لانا ) مذکور ہے ، اور اللہ کی صفات کے متعلق اہل حق کا مذہب ہے کہ ان کی کیفیت میں پڑے بغیراور کوئی تشبیہ اور تاویل کیئے بغیر ، جیسے وارد ہوں ویسے مان لیا جائے ، اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ کی مثل کوئی نہیں ،اس کی تمام صفات بے مثال بے نظیر ہیں
ومذهب السلف في مثل هذا الحديث من أحاديث الصفات إمراره كما جاء من غير تكييف ولا تشبيه ولا تعطيل ولا تأويل، والإيمان به واجب، مع اعتقاد أن الله ليس كمثله شيء وهو السميع البصير.
( فتاوى اللجنة الدائمة . الجزء رقم : 3، الصفحة رقم: 285)

اور علامہ محمد بن عبد الرحمن الخميس
اعتقاد أهل السنة شرح أصحاب الحديث
میں لکھتے ہیں :

(صفة المجيء) * ويقرون أن الله سبحانه يجيء يوم القيامة كما قال: {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا}
اللہ کی صفت ’’ مجيء ‘‘ بھی ہے اور اہل حدیث اقرار کرتے ہیں اللہ تعالی روز محشر آئے گا، جیسا کہ خود اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ : آپ کا پروردگار آئے گا اس حال میں کہ فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے ‘‘
الشرح: مجيء الله للفصل بين عباده يوم القيامة ثابت بالكتاب والسنة، قال تعالى: {هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ}
وقال النبي صلى الله عليه وسلم في حديث طويل: «حتى إذا لم يبق إلا من يعبد الله أتاهم رب العالمين» (1) متفق عليه.
فيجب إثباته له من غير تحريف ولا تعطيل ولا تكييف ولا تمثيل، وهو مجيء حقيقي يليق بالله تعالى، وهذا ما قرره شيخ الإسلام أبو عثمان الصابوني حيث قال: (وكذلك يثبتون ما أنزله الله - عز اسمه - في كتابه من ذكر المجيء والإتيان المذكورين في قوله عز وجل: {هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ}
(اعتقاد أهل السنة شرح أصحاب الحديث )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اور اس حدیث کو سمجھنے کیلئے مزید دو نکات کو سامنے رکھیں :
(۱) یہ خواب کا واقعہ ہے کیونکہ اس حدیث کے شروع میں ہے :
اني قمت من الليل فتوضات وصليت ما قدر لي فنعست في صلاتي حتى استثقلت فإذا انا بربي تبارك وتعالى
میں رات میں اٹھا، وضو کیا، (تہجد کی) نماز پڑھی جتنی بھی میرے نام لکھی گئی تھی، پھر میں نماز میں اونگھنے لگا یہاں تک کہ مجھے گہری نیند آ گئی، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے بزرگ و برتر رب کے ساتھ ہوں ‘‘
شرح مشکاۃ میں علامہ الطیبی ؒ لکھتے ہیں :
(هذا الحديث مستند إلي رؤيا رأها رسول الله صلى الله عليه وسلم ‘‘یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے ایک خواب کابیان ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲) علامہ الطیبی ؒ مزید لکھتے :
’’ قوله: ((في أحسن صورة)) ((نه)): الصورة ترد في كلام العرب علي ظاهرها، وعلي معنى حقيقة الشيء وهيئاته، وعلي معنى صفتيه يقال: صورة الفعل كذا، وصورة الأمر كذا وكذا، أي صفته ‘‘
یعنی کلام عرب میں لفظ ’’ صورۃ ‘‘ کسی چیز کے ظاہر کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔اسی طرح کسی کسی چیز کی حقیقت ،اور ہیٓت کیلئے بھی مستعمل ہے ،
اور اس چیز کی صفات کیلئے بولا جاتا ہے ،جیسے کہا جاتا ہے :فلاں معاملہ کی یہ صورت ہے ۔یعنی ’’ یہ صفت ہے ‘‘انتہی
مطلب یہ کہ لفظ صورت سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے ۔کیونکہ ایک تو یہ خواب کا بیان ہے ۔دوسرے یہ کہ ’’ صفت ‘‘ کے معنی میں ہے ۔یعنی میں نے اپنے رب کو
بہترین صفت میں دیکھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ الطیبی شرح مشکاۃ میں لکھتے ہیں :
قوله: ((فعلمت ما في السماء والأرض)) يدل علي أن وصول ذلك الفيض صار سبباً لعلمه، ثم استشهد بالآية، والمعنى أنه تعالي كما أرى إبراهيم (عليه الصلاة والسلام) ملكوت السموات والأرض،
کہ جناب رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانا کہ : (ہاتھ کندھے پررکھنے کے بعد) آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ میں جان گیا ‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ فیض۔۔۔ علم کا سبب بنا ،اور اس حقیقت پر بطور شاہد نبی کریم ﷺ نے سورہ انعام کی وہ آیت ذکر فرمائی جس اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو زمین و آسمان کی سلطنت دکھانے خبر دی :
اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا نظام سلطنت دکھا رہے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔
اور كتاب التوحيد لابن خزیمہ ؒ میں اس جگہ الفاظ یہ ہیں :
قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ، فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ
اور شیخ علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ ’’ مرعاۃ المفاتیح ‘‘ میں لکھتے ہیں :
اعلم أنه قد استدل بعض القبوريين في هذا الزمان بقوله: فعلمت ما في السموات والأرض، على ما ابتدعوا واعتقدوا من أن الله تعالى قد خص نبينا محمداً - صلى الله عليه وسلم - من بين الأنبياء بعلم جميع ما كان من بدء الخلق وما هو كائن إلى يوم القيامة إلى أن يدخل أهل الجنة الجنة وأهل النار النار، فكان علمه - صلى الله عليه وسلم - عند هؤلاء محيطاً بجميع الأشياء حقائقها وعوارضها وصفاتها إحاطةً تامةً كليةً بتعليم الله تعالى وإلهامه، كما أنه تعالى أحاط بكل شيء علماً‘‘
یعنی جان لیجیئے کہ دور حاضر کے بعض قبر پرست اس حدیث میں موجود جملہ : (آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ میں جان گیا ) سے اپنے خود ساختہ عقیدہ پر استدلال کرتے ہیں کہ تمام انبیاء میں ہمارے نبی ﷺ کو تمام علم غیب عطا کردیا ہے ، جو تمام اشیاء کے حقائق و عوارض و صفات کو محیط ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے فرماتے ہیں :
وهذا كما تراه مخالف للعقل والنقل من النصوص الصريحة من كتاب الله وسنة رسوله، وتصريحات السلف الصالح من الصحابة والتابعين والمحدثين، وفقهاء المذاهب الأربعة، وغيرهم. قالوا في وجه الاستدلال: أن لفظه "ما" في الحديث للعموم الاستغراق فتعم جميع الممكنات من الموجودات، والمعدومات وذوات العقول، وغيرها بل تشتمل الواجبات والممتنعات أيضاً. قلت: استدلالهم هذا مخدوش من وجوه بل باطل، الأول: أن لفظة "ما" في أصل الوضع لغير ذوى العقول عند المحققين فيخرج من مفهومها ذوات العقول كما يدل عليه قصة ابن الزبعري في قوله تعالى: {إنكم وما تعبدون من دون الله حصب جهنم} [98:21] وعلى هذا فلا تكون الرواية دليلاً على كون علمه - صلى الله عليه وسلم - محيطاً بجميع الأشياء إحاطة كلية. والثاني: أن من ذهب إلى كونها شاملة لذوى العقول وهم الأكثر من علماء الأصول قد صرحوا بأنها إنما تشمل صفات من يعقل فقط لا ذواتهم، أعنى أن ذوات من يعقل خارجة من مفهومها عندهم أيضاً بحسب أصل الوضع، فلا تشملها إلا بقرينة ولا قرينة ههنا تدل على ذلك، بل الأمر بالعكس كما سيأتي، فبطل بذلك دعوى العلم الكلي له - صلى الله عليه وسلم -. والثالث: أن قوله: في السموات والأرض، في الحديث يدل على أن المراد بلفظه "ما" إنما هي الممكنات فقط لا الواجبات والممتنعات، وذلك لأن تقدير الكلام: فعلمت ما هو كائن، أو ثابت، أو متحقق، أو موجود، أو حاصل، أو مستقر، أو حادث في السموات والأرض. وهذا إنما هو شأن الممكن بالإمكان الخاص لا الواجب والممتنع، وهذا يبطل دعوى القبوريين بكون علمه عليه السلام كليا محيطا بجميع الأشياء.
اور یہ عقیدہ جیسا آپ جانتے ہیں عقل اور قرآن و حدیث کی واضح نصوص کے ، اور صحابہ کرام و تابعین اور ائمہ مجتہدین کی تصریحات کے صریحا خلاف ہے ،
 
Top