• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کی صحت کے بارے میں رائے درکار ہے ؟

فیصل ناصر

مبتدی
شمولیت
نومبر 09، 2011
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
0
کئی احکام صرف سنت ہی میں موجود ہیں۔ قرآن میں ذکر ہی نہیں۔ مثلاً نماز جنازہ۔ اسی طرح حدیث کی ایک قسم حدیث قدسی اللہ تعالیٰ کے فرامین پر مشتمل ہے۔ اب یہ احادیث قرآن میں کیوں نہیں، حدیث ہی میں کیوں ہیں؟ تو بات یہ ہے کہ اللہ جو چاہے؟ مصلحت مل جائے تو بہت عمدہ ، نہ ملے تو اس کی جستجو کرنے سے کیا حاصل؟
یقینا آپ نے درست کہا
لیکن جب معاملات اختلافی بن جائیں تو مصلحت تلاش کرنا یا قانون کی روح کو سمجھنے کی ضرورت محسوس ہی ہوتی ہے
اگر آیت رجم موجود تھی تو اس کو منسوخ کیوں کیا گیا ؟
اور جب آیت منسوخ کردی گئی تو حکم کو کیوں جاری رکھا گیا ؟


اگر آپ اس کی کوئی مصلحت بیان کرستے ہیں تو اچھی بات ہے ورنہ جانے دیجئے کبھی فرصت ہوئی تو اس پر میرے ذہن میں موجود شبہات کو واضح کرنے کی کوشش کرونگا
زیادہ لکھنا میرے لئے ایک مشکل کام ہے

میرا خیال میں کہ رجم کی آیت منسوخ کرنے کے بعد اس کا حکم باقی رکھنے کی حکمت جاننے سے زیادہ آپ کو اعتراض اس حدیث پر ہے جس میں یہ کہا گیا ہے؟؟؟

بھائی! اگر میں غلط ہوں تو میری اصلاح کردیں!

پہلے یہ واضح ہونا چاہئے کہ کیا آپ ان احادیث مبارکہ کو تسلیم کرتے ہیں جن میں رجم کی آیت کی تلاوت کے نسخ اور اس کے حکم باقی رکھنے کا ذکر ہے؟؟؟
بھائی انس صاحب
پہلی بات تو یہ کے آپ کو کسی مسلمان پر بد گمان نہیں ہونا چاہئے
جب میں نے آپ سے کہا کے میں "مصلحت یا حکمت "جاننے کی خواہش رکھتا ہوں تو اس پر یقین کرنا چاہئے

ایک حدیث میں نے پڑھی ہے جسکا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے " کوئی کسی کے دل میں نہیں جھانک سکتا "
اور میں اس حدیث مبارکہ کو بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتا ہوں

رہ گئی میری پیش کردہ حدیث تو جناب اس کے لئے ہی تو میں نے آپ سے سوال کیا ہے ؟
چنانچہ اس کو تسلیم کرنے یا نا کرنے کا سوال قبل از وقت ہے
اگر میں مطمئن ہوتا تو آپ کے پاس حاضری کی کیا ضرورت تھی ؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یقیناً آپ نے درست کہا

لیکن جب معاملات اختلافی بن جائیں تو مصلحت تلاش کرنا یا قانون کی روح کو سمجھنے کی ضرورت محسوس ہی ہوتی ہے ۔
’اختلافی معاملات‘ کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، نہ کہ ان پر شک کرتے ہوئے مصلحت تلاش کرنے کا۔ اگر آپ کو مثلاً علم غیب، غیر اللہ سے استعانت اور سماعِ موتیٰ وغیرو وغیرہ سے متعلّق اختلاف پیدا ہو جائے اور ان کا صریح حل قرآن پاک کی آیات میں موجود ہو، تو کیا ایسی صورت میں ان آیات کریمہ کی نسبت اللہ کی طرف مشکوک ٹھہرا کر مصلحت تلاش کرنے پر زور دینا چاہئے؟؟!!

فرمانِ باری ہے:
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيۡرٞ وَأَحۡسَنُ تَأۡوِيلًا ٥٩ ﴾ ... النساء
کہ ’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے۔‘‘

بھائی انس صاحب
پہلی بات تو یہ کے آپ کو کسی مسلمان پر بد گمان نہیں ہونا چاہئے
جب میں نے آپ سے کہا کے میں "مصلحت یا حکمت "جاننے کی خواہش رکھتا ہوں تو اس پر یقین کرنا چاہئے

ایک حدیث میں نے پڑھی ہے جسکا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے " کوئی کسی کے دل میں نہیں جھانک سکتا "
اور میں اس حدیث مبارکہ کو بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتا ہوں

رہ گئی میری پیش کردہ حدیث تو جناب اس کے لئے ہی تو میں نے آپ سے سوال کیا ہے ؟
چنانچہ اس کو تسلیم کرنے یا نا کرنے کا سوال قبل از وقت ہے
اگر میں مطمئن ہوتا تو آپ کے پاس حاضری کی کیا ضرورت تھی ؟
محترم بھائی! میں نے ہرگز بد گمانی نہیں کی، اپنا ایک ’متردّد‘ (دوٹوک نہیں) خیال پیش کیا تھا، اور ساتھ ہی کہا تھا کہ اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کردیں۔

اللہ آپ کو خوش رکھے کہ آپ نے عنایت کرتے ہوئے میرے خیال کی تصدیق کردی اور تردّد کو ختم کر دیا کہ جب تک آپ کو حکمت سمجھ نہیں آئے گی اس حدیث مبارکہ کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا قبل از وقت ہے،

گویا جب آپ کو مصلحت بتائی جائے گی اور وہ آپ کے ذہن کے مطابق بھی ہوگی تو آپ اس حدیث مبارکہ کو شرفِ قبولیت سے نوازیں گے ورنہ نہیں؟؟

اب آپ ہی بتائیے کہ میرا یہ خیال غلط تھا یا صحیح؟

ایک حدیث میں نے پڑھی ہے جسکا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے " کوئی کسی کے دل میں نہیں جھانک سکتا "
اور میں اس حدیث مبارکہ کو بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتا ہوں

رہ گئی میری پیش کردہ حدیث تو جناب اس کے لئے ہی تو میں نے آپ سے سوال کیا ہے ؟
چنانچہ اس کو تسلیم کرنے یا نا کرنے کا سوال قبل از وقت ہے
اگر میں مطمئن ہوتا تو آپ کے پاس حاضری کی کیا ضرورت تھی ؟
محترم بھائی! کوئی بھی دنیاوی یا دینی واقعہ یا بات کو معلوم کرنے کے ہمارے پاس دو ہی ذریعے ہیں:

1. خود مشاہدہ کر لیں۔

2. اگر خود مشاہدہ نہ کر سکیں تو ہمیں کوئی اس کی خبر دے دے۔

فرمانِ باری ہے:
﴿ فَمَكَثَ غَيۡرَ بَعِيدٖ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمۡ تُحِطۡ بِهِۦ وَجِئۡتُكَ مِن سَبَإِۢ بِنَبَإٖ يَقِينٍ ٢٢ ﴾ ... النمل
کہ ’’کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اُس (ہدہد) نے آ کر (سلیمان﷤ سے) کہا کہ میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں میں ملک سَبا کے متعلّق ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔‘‘

ہدہد نے تو ان کا خود مشاہدہ کیا تھا، سیدنا سلیمان﷤ نے نہیں کیا تھا، تو ہدہد نے کہا کہ میں آپ کو بالکل صحیح خبر دے رہا ہوں (جو جھوٹ نہیں) تو سیدنا سلیمان﷤ کو خبر کے ذریعے سبا کے حالات معلوم ہوئے۔

اب خبر لانے والا فاسق یا جھوٹا بھی ہو سکتا ہے، تو اس خبر کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسی لئے سیدنا سلیمان﷤ نے فرمایا تھا:
﴿ قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقۡتَ أَمۡ كُنتَ مِنَ ٱلۡكَٰذِبِينَ ٢٧ ﴾ ... النمل
کہ ’’سلیمان نے کہا، اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔‘‘

اسی طرح فرمانِ باری ہے:
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِن جَآءَكُمۡ فَاسِقُۢ بِنَبَإٖ فَتَبَيَّنُوٓاْ أَن تُصِيبُواْ قَوۡمَۢا بِجَهَٰلَةٖ فَتُصۡبِحُواْ عَلَىٰ مَا فَعَلۡتُمۡ نَٰدِمِينَ ٦ ﴾ ... الحجرات
کہ ’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اہم معاملات کو بغیر تحقیق کے قبول کرنے سے اور ان کی تصدیق وتکذیب سے منع فرمایا ہے اور استنباط کرنے والے علماء کی طرف انہیں لوٹانے کا حکم دیا ہے:
﴿ وَإِذَا جَآءَهُمۡ أَمۡرٞ مِّنَ ٱلۡأَمۡنِ أَوِ ٱلۡخَوۡفِ أَذَاعُواْ بِهِۦۖ وَلَوۡ رَدُّوهُ إِلَى ٱلرَّسُولِ وَإِلَىٰٓ أُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنۡهُمۡ لَعَلِمَهُ ٱلَّذِينَ يَسۡتَنۢبِطُونَهُۥ مِنۡهُمۡۗ وَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ لَٱتَّبَعۡتُمُ ٱلشَّيۡطَٰنَ إِلَّا قَلِيلٗا ٨٣ ﴾ ... النساء
کہ ’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ (استنباط) کرسکیں تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔‘‘

محترم بھائی! آپ نے اپنے درج بالا اقتباس میں ایک حدیث مبارکہ کو بغیر کسی سند کے قبول کر لیا اور دوسری کو بغیر کسی تحقیق کے (مصلحت معلوم نہ ہونے پر) تسلیم نہیں کیا۔ یہ رویّہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔

فرمانِ باری ہے:
﴿ وَيَقُولُونَ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَبِٱلرَّسُولِ وَأَطَعۡنَا ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٞ مِّنۡهُم مِّنۢ بَعۡدِ ذَٰلِكَۚ وَمَآ أُوْلَٰٓئِكَ بِٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٤٧ وَإِذَا دُعُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ إِذَا فَرِيقٞ مِّنۡهُم مُّعۡرِضُونَ ٤٨ وَإِن يَكُن لَّهُمُ ٱلۡحَقُّ يَأۡتُوٓاْ إِلَيۡهِ مُذۡعِنِينَ ٤٩ أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ٱرۡتَابُوٓاْ أَمۡ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ ٱللَّهُ عَلَيۡهِمۡ وَرَسُولُهُۥۚ بَلۡ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ ٥٠ إِنَّمَا كَانَ قَوۡلَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ إِذَا دُعُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ أَن يَقُولُواْ سَمِعۡنَا وَأَطَعۡنَاۚ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ ٥١ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَخۡشَ ٱللَّهَ وَيَتَّقۡهِ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَآئِزُونَ ٥٢ ﴾ ... النور
کہ ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسولؐ پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں (47) جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف، تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے (48) البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسول کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آ جاتے ہیں (49) کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں (50) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلا ئے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں (51)‘‘
 

فیصل ناصر

مبتدی
شمولیت
نومبر 09، 2011
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
0
’اختلافی معاملات‘ کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، نہ کہ ان پر شک کرتے ہوئے مصلحت تلاش کرنے کا۔ اگر آپ کو مثلاً علم غیب، غیر اللہ سے استعانت اور سماعِ موتیٰ وغیرو وغیرہ سے متعلّق اختلاف پیدا ہو جائے اور ان کا صریح حل قرآن پاک کی آیات میں موجود ہو، تو کیا ایسی صورت میں ان آیات کریمہ کی نسبت اللہ کی طرف مشکوک ٹھہرا کر مصلحت تلاش کرنے پر زور دینا چاہئے؟؟!!
بھائی انس صاحب
کیوں مجھے گناہ گار کرتے ہیں بھائی

موجودہ صورتحال میں ایک ایسا اختلاف سامنے ایا ہے جس کا صریح حل قرآن پاک کی آیات میں موجود نہیں ہے

کیا رجم کی کوئی آیت قرآن پاک میں موجود ہے ؟؟ یا پھر ہمیں منسوخ شدہ آیات کو بھی قرآنی آیات سمجھنا چاہئے اور ان پر عمل کرنا چاہئے ؟


گویا جب آپ کو مصلحت بتائی جائے گی اور وہ آپ کے ذہن کے مطابق بھی ہوگی تو آپ اس حدیث مبارکہ کو شرفِ قبولیت سے نوازیں گے ورنہ نہیں؟؟
بھائی میرے
میں نے آپ سے عرض کیا تھا کے کچھ مباحث کے دوران ایک حدیث کو مشکوک ٹھیرایا گیا
لہذا میرے ذہن میں بھی اس بارے کچھ شبہات پیدا ہوئے
اب میں اس کی تصدیق کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوا
تو آپ نے مجھے ہی مشکوک ٹھیرانا شروع کردیا اور قرآنی آیات ثبت کرکے مجھے "منافق " تک کہہ دیا

محترم بھائی! آپ نے اپنے درج بالا اقتباس میں ایک حدیث مبارکہ کو بغیر کسی سند کے قبول کر لیا اور دوسری کو بغیر کسی تحقیق کے (مصلحت معلوم نہ ہونے پر) تسلیم نہیں کیا۔ یہ رویّہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جناب دین کسی حد تک ہم کم ذہنوں کا بھی ہے
اگر کوئی صاحب یہ کہیں کے" اللہ ایک ہے " تو اس کے لئے کسی تصیدق کی ضرورت نہیں ہے
میرا دل خود ہی اس کی تصدیق کردیتا ہے
یہی مثال میری درج کی ہوئی حدیث کے مفہوم پر بھی صادق آتی ہے
ایک حدیث میں نے پڑھی ہے جسکا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے " کوئی کسی کے دل میں نہیں جھانک سکتا "
اور میں اس حدیث مبارکہ کو بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتا ہوں
کیا آپ اوپر درج کئے ہوئے مفہوم حدیث سے صرف اس لئے انکار کرسکتے ہیں کے اس کی "سند " یا" صحت " درست نہیں ؟؟

بھائی اللہ آپکو جزائے خیر دے
یہ الفاظ کی پکڑم پکڑائی کا کھیل مجھے نہیں آتا
شاید اس کھیل ماہر کو "عالم" کہا جاتا ہے

محترم بھائیوں
میں نے شروع میں عرض کیا تھا
کے اپنے ذہن کے کچھ شبہات میں لے کر انہیں دور کرنے یہاں آگیا ہوں نا میرا کوئی ایجنڈہ ہے اور نا کوئی پلان
اور اس کی وجہ بھی یہ تھی ایک محترم " شکاری صاحب" پاک نیٹ پر تشریف لائے تھے اور انہوں نے فرمایا تھا کے "محدث فورم " پر علماء پائے جاتے ہیں جو آپ کے سب شبہات دور کردیں گے
لیکن
یہاں تو میری اپنی شخصیت " مشکوک " بنا دی گئی :)

خیر سے اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کی علمی قابلیت میں اور اضافہ فرمائے

ابھی مجھے ایسا کوئی "فورم" ( صرف انٹر نیٹ کے فورم نہیں بلکہ معاشرے میں موجود دیگر انسٹیٹیوٹ بھی ) نہیں ملا جہاں دین سے خلوص رکھنے والے میرے جیسے بھائیوں کے ذہن میں ڈالے گئے شبہات کا ازالہ کیا جاتا ہو

وسلام
فیصل ناصر
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
تو پھر ہم اس حدیث سے کیا عقیدہ لیں ؟ اگر یہ حسن ہے
اسں کی شرح مطلوب ہے
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ!
اس بات کو ضرور ذہن میں رکھیں کہ اس حدیث میں کہیں بھی یہ ذکر ہی نہیں کہ جو آیات اس صحیفہ پر جو آیات لکھیں ہوئی تھیں وہ اگر منسوخ نہ تھیں، تو وہ کسی صحابی کو یاد نہ تھیں یا کسی اور کے پاس لکھی ہوئی نہ تھی، اور وہ اس طرح ضائع ہوئیں۔ ایسی کوئی بات اس حدیث میں نہیں۔ اب اگر کسی کے گھر میں اللہ نہ کرے آگ لگ جائے، اور قرآن کا مصحف جل جائے، تو کیا قرآن ضائع ہو جائے گا؟ نہیں ہر گز نہیں!
اسی طرح اس حدیث سے یہ قطعی ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن کی وہ آیات جو منسوخ نہیں وہ ضائع ہوئیں ہیں۔


ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
’اختلافی معاملات‘ کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، نہ کہ ان پر شک کرتے ہوئے مصلحت تلاش کرنے کا۔ اگر آپ کو مثلاً علم غیب، غیر اللہ سے استعانت اور سماعِ موتیٰ وغیرو وغیرہ سے متعلّق اختلاف پیدا ہو جائے اور ان کا صریح حل قرآن پاک کی آیات میں موجود ہو، تو کیا ایسی صورت میں ان آیات کریمہ کی نسبت اللہ کی طرف مشکوک ٹھہرا کر مصلحت تلاش کرنے پر زور دینا چاہئے؟؟!!
بھائی انس صاحب
کیوں مجھے گناہ گار کرتے ہیں بھائی
موجودہ صورتحال میں ایک ایسا اختلاف سامنے ایا ہے جس کا صریح حل قرآن پاک کی آیات میں موجود نہیں ہے
کیا رجم کی کوئی آیت قرآن پاک میں موجود ہے ؟؟ یا پھر ہمیں منسوخ شدہ آیات کو بھی قرآنی آیات سمجھنا چاہئے اور ان پر عمل کرنا چاہئے ؟
عزیز بھائی! سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ فلاں بات اللہ تعالیٰ کی ہے، یا رسولِ کریمﷺ کی ہے یا نہیں؟؟؟

اگر ہے تو وہ دین ہے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
اور اگر نہیں تو پھر اس کی دینی حیثیت نہیں ہوتی کہ اس پر عمل کرنے پر زور دیا جائے۔

جب یہ ثابت ہوجائے کہ فلاں بات قرآن یا حدیث ہے تو ثابت ہونے کے بعد اس کے بارے میں شک کرنا بالکل غیر عقلی بات ہے، اور کم از کم ایک مسلمان کا یہ کام نہیں ہو سکتا۔

ہونا ہو یہ چاہئے تھا کہ رجم والی احادیث مبارکہ کے بارے میں پہلے یہ طے کر لیا جائے کہ وہ حدیث رسولﷺ بھی ہیں یا نہیں۔
اگر نہیں تو ان کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔
اور اگر وہ حدیث ثابت ہوچکی ہیں اور پوری امت انہیں حدیث تسلیم کرتی ہے تو پھر حکمت کے نام پر ان کے بارے میں شک کرنا نہایت غیر مناسب بات ہے۔

یہی بات میں نے اپنے اوپر دئیے ہوئے اقتباس سے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ بات طے ہوچکی ہے کہ آج ہمارے سامنے دو گتوں کے درمیان اللہ کی کلام موجود ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جس سے ہمارا علم غیب، غیر اللہ سے استعانت اور سماعِ موتیٰ وغیرو پر اختلاف ہے، جب اسے ان مخصوص عقیدوں کے بارے میں موجود آیات قرآنی پیش کی جائیں تو وہ ان پر - حکمت تلاش کرنے کے نام پر - شکوک وشبہات شروع کر دے تو یہ ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہوگا۔
ہاں البتہ یہ ضرور ڈسکس کیا جا سکتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ نہیں بلکہ یہ ہے۔
جب یہ بات ثابت ہو جائے کہ وہ بات اللہ یا رسول کی ہے، تب پھر آگے اس پر عمل کی بات آتی ہے۔

محترم بھائی! میں تو آپ کو گناہ نہیں کر رہا، جو کچھ کر رہے ہیں اپنے بارے میں، وہ آپ خود ہی کر رہے ہیں۔
جہاں تک آپ کا فرمانا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ایک ایسا اختلاف (یعنی رجم) سامنے آیا ہے جس کا صریح حل قرآن پاک کی آیات میں موجود نہیں ہے

تو میں عرض کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کوئی شے ناقص نہیں چھوڑی: ﴿ مَّا فَرَّ‌طْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ﴾ ... الأنعام: 38

سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریمﷺ نے رجم کیا یا نہیں؟؟؟
کیا ہے اور بالکل کیا ہے جو صحیح بخاری ومسلم کی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔

جب یہ ثابت ہے کہ نبی کریمﷺ نے رجم فرمایا تو ہمارے لئے قرآن کریم کا صریح حکم موجود ہے:
﴿ فَلَا وَرَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ‌ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَ‌جًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾ ... النساء: 65
کہ ’’نہیں، اے محمد (ﷺ)، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔‘‘

جب یہ طے ہوگیا کہ رجم کرنا نبی کریمﷺ کا فیصلہ ہے تو قرآن کی صریح آیت کریمہ کے مطابق لوگ اس وقت تک مؤمن ہی نہیں ہو سکتے جب تک وہ نبی کریمﷺ کے فیصلوں (جن میں رجم بھی شامل ہے) کو تسلیم نہ کریں اور صرف یہی نہیں، بلکہ اس فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کسی قسم کا کوئی انقباض یا تنگی بھی محسوس نہ کریں۔

پیارے بھائی! اب آپ ہی بتائیے کہ رجم قرآن پاک کا صریح فیصلہ ہے یا نہیں؟؟؟

گویا جب آپ کو مصلحت بتائی جائے گی اور وہ آپ کے ذہن کے مطابق بھی ہوگی تو آپ اس حدیث مبارکہ کو شرفِ قبولیت سے نوازیں گے ورنہ نہیں؟؟
بھائی میرے
میں نے آپ سے عرض کیا تھا کے کچھ مباحث کے دوران ایک حدیث کو مشکوک ٹھیرایا گیا
لہذا میرے ذہن میں بھی اس بارے کچھ شبہات پیدا ہوئے
اب میں اس کی تصدیق کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوا
تو آپ نے مجھے ہی مشکوک ٹھیرانا شروع کردیا اور قرآنی آیات ثبت کرکے مجھے "منافق " تک کہہ دیا۔
عزیز بھائی! یہی تو وضاحت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ حکمت یا سمجھ نہ آنے کی بناء طے شدہ حدیث مبارکہ کو مشکوک نہ کریں۔
البتہ سند کے حوالے سے اگر آپ کو اس کے حدیث (نبی کا فیصلہ) ہی ہونے پر اعتراض ہے تو وجۂ اعتراض ذکر کریں...
کیونکہ اگر سند کے لحاظ سے یہ احادیث صحیح ہیں تو گویا یہ ثابت ہے کہ یہ نبی کریمﷺ کا حکم ہے، تو نبی کریم ﷺ کے حکم کو حکمت یا سمجھ نہ آنے کی بناء پر مشکوک ٹھہرانا بہت بڑا گناہ ہے۔

جہاں تک آپ کا کہنا ہے کہ میں نے آپ کو ’منافق‘ کہا ہے، تو میرے عزیز بھائی! میں نے ایسا کچھ نہیں کہا، آپ دوبارہ میرا اقتباس پڑھ لیں، میں نے تو لکھا تھا:
محترم بھائی! آپ نے اپنے درج بالا اقتباس میں ایک حدیث مبارکہ کو بغیر کسی سند کے قبول کر لیا اور دوسری کو بغیر کسی تحقیق کے (مصلحت معلوم نہ ہونے پر) تسلیم نہیں کیا۔ یہ رویّہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اور آیت کریمہ سے میں نے قرآن وحدیث کے متعلّق مؤمنوں کا رویہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے (طے شدہ) حکم پر سمعنا واطعنا کہتے ہیں۔ ان کا رویہ ایسا نہیں ہوتا کہ جس بات کو نہ چایا نہ مانا اور جو اپنے مطلب کی بات ہوئی وہ مان لی۔

محترم بھائی! آپ نے اپنے درج بالا اقتباس میں ایک حدیث مبارکہ کو بغیر کسی سند کے قبول کر لیا اور دوسری کو بغیر کسی تحقیق کے (مصلحت معلوم نہ ہونے پر) تسلیم نہیں کیا۔ یہ رویّہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جناب دین کسی حد تک ہم کم ذہنوں کا بھی ہے
اگر کوئی صاحب یہ کہیں کے" اللہ ایک ہے " تو اس کے لئے کسی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے
میرا دل خود ہی اس کی تصدیق کردیتا ہے
یہی مثال میری درج کی ہوئی حدیث کے مفہوم پر بھی صادق آتی ہے
ایک حدیث میں نے پڑھی ہے جسکا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے " کوئی کسی کے دل میں نہیں جھانک سکتا "
اور میں اس حدیث مبارکہ کو بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتا ہوں
کیا آپ اوپر درج کئے ہوئے مفہوم حدیث سے صرف اس لئے انکار کرسکتے ہیں کے اس کی "سند " یا" صحت " درست نہیں ؟؟

بھائی اللہ آپکو جزائے خیر دے
یہ الفاظ کی پکڑم پکڑائی کا کھیل مجھے نہیں آتا
شاید اس کھیل ماہر کو "عالم" کہا جاتا ہے۔
محترم بھائی! آپ نے پھر خلطِ مبحث کر دیا۔
کسی بات کا صحیح ہونا بالکل الگ بات ہے اور کسی بات کا وحی (قرآن وحدیث) ہونا الگ بات ہے۔

ہم اس وقت اللہ تعالیٰ کی کلام اور رسول کریمﷺ کی احادیث مبارکہ کی بات کر رہے ہیں۔
اپنی اوپر کی پوسٹ میں، میں نے تفصیل سے یہ عرض کیا تھا کہ مشاہدہ کے علاوہ علم کا ذریعہ صرف اور صرف خبر ہے۔ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کو جو قرآن کریم واحادیث مبارکہ سنائیں، انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا، لہٰذا یقین کر لیا۔ ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کے پاس اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے خبر جس کی تصدیق یا تکذیب کیلئے سند ہوتی ہے، کہ متصل ہے یا نہیں۔ یا اس سند میں موجود راوی ثقہ ہیں یا ضعیف، وغیرہ وغیرہ؟؟

کوئی بھی بات اس وقت تک قرآن یا حدیث نہیں ہو سکتی جب تک اسے صحیح خبر کے ذریعے ثابت نہ کر دیا جائے۔

جبکہ آپ کا کہنا ہے کہ
ایک حدیث میں نے پڑھی ہے جسکا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے " کوئی کسی کے دل میں نہیں جھانک سکتا "
اور میں اس حدیث مبارکہ کو بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتا ہوں
اگر آپ اسے بغیر کسی صحت اور سند کے تسلیم کرتے ہیں تو ازراہ کرم اسے حدیث کا نام نہ دیں۔

کیا میں آپ سے پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آپ درج ذیل باتوں کو بغیر صحت یا سند کے حدیث سمجھتے ہیں یا نہیں:

لولاك لما خلقت الأفلاك
علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
میرے بعد میری امت میں ائمہ اربعہ (ابو حنیفہ، مالک، شافعی، احمد﷭) آئیں گے۔
وغیرہ وغیرہ

آپ نے پوچھا کہ
کیا آپ اوپر درج کئے ہوئے مفہوم حدیث سے صرف اس لئے انکار کرسکتے ہیں کے اس کی "سند " یا" صحت " درست نہیں ؟؟
جی بھائی! اگر اس کی سند موجود ہی نہ ہو یا ہو لیکن درست نہ ہو تو میں اسے کبھی نبی کریمﷺ کی حدیث تسلیم نہ کروں گا۔
البتہ نبی کریمﷺ کی طرف نسبت کیے بغیر یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟ یہ ایک بالکل الگ مسئلہ ہے۔

جہاں تک آپ کا کہنا ہے کہ
یہ الفاظ کی پکڑم پکڑائی کا کھیل مجھے نہیں آتا
شاید اس کھیل ماہر کو "عالم" کہا جاتا ہے۔
تو میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ...
علماء انبیائے کرام﷩ کے وارث ہیں اور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
« من سلك طريقا يطلب فيه علما ، سلك الله به طريقا من طرق الجنة ، وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا بما يصنع ، وإن العالم ليستغفر له من في السموات ، ومن في الأرض ، والحيتان في جوف الماء ، وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب ، وإن العلماء ورثة الأنبياء ، وإن الأنبياء ، لم يورثوا دينارا ، ولا درهما ، إنما ورثوا العلم ، فمن أخذه أخذ بحظ وافر » ... صحيح الجامع: 6297
کہ ’’جو بندہ علم حاصل کرنے کے راستے پر نکلتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں پر چلا دیتے ہیں۔ اور فرشتے طالبعلم کے اعمال پر خوش ہوتے ہوئے اس کے قدموں تلے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ اور عالم کیلئے زمین وآسمان میں موجود ہر شے استغفار کرتی ہے حتیٰ کہ سمندر کے پیٹ میں موجود مچھلیاں بھی۔ اور عالم کی فضیلت عابد پر (نہ کہ عام دنیا دار پر) ایسے ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر۔ اور بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اور یقیناً انبیائے کرام﷩ نے درہم ودینار نہیں بلکہ علم کی وراثت چھوڑی ہے، تو جو اسے (علم کو) حاصل کر لے، اس نے بہت ہی عظیم شے پالی۔‘‘
نیز فرمایا:
« فضل العالم على العابد ، كفضلي على أدناكم . ثم قال رسول الله : إن الله و ملائكته و أهل السماوات و الأرض حتى النملة في جحرها ، و حتى الحوت ، ليصلون على معلمي الناس الخير » ... صحيح الترغيب: 81
کہ ’’عالم کی فضلیت عابد (ایسے نیک شخص پر جو دن کو روزہ اور راتوں کو قیام میں گزارتا ہوں) پر ایسے ہے جیسے میری (نبی کریمﷺ کی) فضیلت تمہارے ادنیٰ شخص پر۔‘‘ مزید فرمایا کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے اور اہل سماء وزمین حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں، یہ سب لوگوں کو خیر سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔‘‘

خیر سے اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کی علمی قابلیت میں اور اضافہ فرمائے۔
آمین یا رب العٰلمین!

ابھی مجھے ایسا کوئی "فورم" ( صرف انٹر نیٹ کے فورم نہیں بلکہ معاشرے میں موجود دیگر انسٹیٹیوٹ بھی ) نہیں ملا جہاں دین سے خلوص رکھنے والے میرے جیسے بھائیوں کے ذہن میں ڈالے گئے شبہات کا ازالہ کیا جاتا ہو۔
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ!

آخر میں، میں عرض کروں گا کہ اگر آپ کو رجم کی صحیح بخاری ومسلم کی احادیث مبارکہ کو کوئی علمی اعتراض ہو تو ضرور بیان کیجئے گا ...

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
آمین یا رب العٰلمین!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ انس بھائی جان۔ آپ نے بہت تحمل سے بھائی کو مفصل و مدلل طریقے سے سمجھایا ہے۔ امید ہے کہ فیصل بھائی بھی افہام و تفہیم کی غرض سے مزید گفت و شنید جاری رکھیں گے۔

فیصل بھائی،
میں ذاتی حیثیت میں آپ کو یقین دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ دین سے متعلق جو شکوک و شبہات بھی آپ کے دل میں ہیں، ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کو یہاں محدث فورم پر ان کے قابل اطمینان حل مل جائیں گے۔ لیکن ایک دوسرے کی ذہنی ساخت اور شکوک و شبہات کی درست نوعیت جانے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ہم یہاں کوشش کرتے ہیں کہ آج مختلف گروہوں میں پائے جانے والے اختلافات کو قرآن اور احادیث صحیحہ سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کو احادیث ہی پر اعتراض ہو تو پھر کسی بھی ضمنی موضوع پر بحث کا کبھی بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا جب تک آپ پر یہ حق بات روشن نہ ہو جائے کہ جس طرح قرآن دین کا اصولی ماخذ ہے، احادیث صحیحہ بھی اسی طرح بنیادی ماخذ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کے الفاظ ہی کی نہیں بلکہ اس کے معانی (یعنی حدیث ) کی بھی حفاظت کی ہے۔ ہمیں کچھ وقت دیں کہ ہم پہلے آپ کے بنیادی اشکالات کا جواب دے سکیں۔ پھر ضمنی مباحث جس قدر بھی ہوں گی ان پر بھی علیحدہ بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن اصولیات کو پہلے طے کر لینا ضروری ہے۔
مزید آپ ہماری کتب لائبریری سے استفادہ کریں، وہاں ان شاءاللہ ہر قابل ذکر موضوع پر آپ کو کئی کئی کتب مل جائیں گی۔ کیا معلوم کس مصنف کا انداز تحریر ایسا ہو جو آپ کے ذہن میں بیٹھ جائے۔
امید ہے کہ آپ ان گزارشات کا برا نہیں منائیں گے اور ہم سے تعاون کرتے ہوئے پہلے اصولی مباحث پر بات چیت کرنے پر تیار ہوں گے۔
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
جزاک اللہ خیراً
انس بھائی جان بہت مدلل اور بہترین انداز میں آپ نے اپنا مدعا پیش کیا۔
اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں مزید اضافہ فرمائے۔آمین
اور شاکر بھائی آپ کو بھی اللہ تعالیٰ جزائے خیر سے نوازے۔جوآپ نے فورم کا اُصول مباحثہ اتنی بہترین انداز میں پیش کیا۔
آخر میں فیصل بھائی سے ایک التماس:
یہ الفاظ کی پکڑم پکڑائی کا کھیل مجھے نہیں آتا
شاید اس کھیل ماہر کو "عالم" کہا جاتا ہے۔
آپ ایسے کلمات کے استعمال سے گریز کریں۔

جزاک اللہ خیراً
 
Top