• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حد ہو گئی ! (قسط :۷)

شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
عبادات میں شرک

اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے سامنے بے حس و حرکت ، با ادب ہاتھ باندہ کر کھڑے ہونا ، رکوع اور سجدہ کرنا ۔ کسی قبر پر قیام کرنا ، مجاور بن کر بیٹھنا یا طواف کرنا ۔ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی سے دعا مانگنا یا انہیں دعا میں وسیلہ بنانا ، فریاد کرنا اور پناہ طلب کرنا ۔ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام کا جانور ذبح کرنا ، نذرو نیاز دینا ، منت ماننا ، چڑھاوا چڑھانا یا کسی اور پر توکل کرنا ’’ شرک فی العبادات ‘‘ ، کہلاتا ہے ۔ زبانی ، مالی اور جسمانی عبادات صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ نے خالص اپنی عبادت کا حکم دیا ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ اور ( اے محمد ﷺ ! ) ہم نے تجھ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ‘‘ ، ( الانبیاء : ۲۵ ) ۔ اور فرمایا : ’’ آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اﷲ ہی کے لئے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۶۲ ) ۔ مزید فرمایا : ’’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو ! ) صرف اﷲ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودان باطلہ سے بچو ‘‘ ، ( النحل : ۳۶ ) ۔
( ۲ )
قیام ، رکوع اور سجدہ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص درمیان والی نماز ( عصر ) کی اور اﷲ تعالیٰ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۳۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف ، قیام ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ‘‘ ، ( الحج : ۲۶ )۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے لئے رسول اﷲ ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ اسے برا مانتے تھے ‘‘ ، ( ترمذی : ۲۵۵۸ ) ۔ دوسری حدیث میں ہے ، سیدنا معاویہؓ روایت کرتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا : ’’ جسے لوگوں کا اس کے سامنے تصویروں کی طرح ( بے حس و حرکت اور با ادب ) کھڑے رہنا پسند ہو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ تلاش کر لے ‘‘ ، ( ترمذی : ۲۵۵۹ ) ۔
رکوع و سجود کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اے ایمان والو ! رکوع کرو ، سجدہ کرو اور عبادت کرو اپنے پروردگار کی اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ‘‘ ، ( الحج : ۷۷ ) ۔ اور الرحمن فرماتے ہیں : ’’ تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اﷲ کو کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے ، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے تو ‘‘ ، ( حم السجدۃ : ۳۷ ) ۔
سیدنا قیس بن سعدؓ کہتے ہیں کہ میں حیرہ ( یمن کا شہر ) آیا ، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا : ’’ رسول اﷲ ﷺ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے ‘‘ ۔ میں جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ : ’’ میں حیرہ شہر کے لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اﷲ کے رسول ! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ بتاؤ ! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے ، تو اسے بھی سجدہ کرو گے ؟ ‘‘ میں نے کہا : ’’ نہیں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ پھر اب بھی مجھے سجدہ نہ کرو ، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر خاوندوں کا بڑا حق رکھا ہے ‘‘ ، (ابو داؤد : ۲۱۴۰ ) ۔
ہمارے معاشرے میں قیام ، رکوع اور سجدہ جیسی شرک آمیز رسم کتنی عام ہے ۔ اسکول میں اساتذہ کی آمد پر طلبہ کا کھڑا ہونا اور لوگوں کا کسی لیڈر یا افسر کے ظہور پر قیام ۔ پیروں کے سامنے مریدوں کا کھڑاہونا، جھکنا اورسجدہ کرنا۔ بزرگوں کی قبروں پرقیام ، رکوع اور سجدے۔
( ۳ )
قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا ( یعنی اعتکاف ) یا طواف کرنا جائز نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام )اور اسماعیل ( علیہ السلام ) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۲۵ ) ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف ، قیام ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ‘‘ ، ( الحج : ۲۶ )۔
سیدنا ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ اگر کوئی انگارے پر بیٹھے اور اس کے کپڑے جل جائیں اور اس کی کھال تک آگ پہنج جائے توبھی بہتر ہے اس سے کہ قبر پر بیٹھے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۲۴۸ ) ۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ نے منع فرمایا اس سے کہ قبروں کو پختہ کریں اور اس سے کہ اس پر بیٹھیں اور اس سے کہ ان پر گنبد بنائیں ‘‘ ، ( مسلم : ۲۲۴۵ ) ۔ اور سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ قیامت نہ قائم ہوگی یہاں تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کی پیٹھیں ذی الخلصہ کے گرد طواف نہ کرنے لگیں ۔ ذوالخلصہ ایک بت تھا جس کو دوس جاہلیت کے زمانہ میں تبالہ میں پوجا کرتے تھے ‘‘ ، ( مسلم : ۷۲۹۸ ) ۔انکل ! میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ، بلال ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے بولا ۔
’’ بیٹا ! بتاؤ ، عبدالرحمن اظہار مسرت کرتے ہوئے ۔ ‘‘
بلال :
’’ انکل ! میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا کہ ہمارے ملک میں بھی بہت سے لوگ قبر کے گرد طواف کر رہے تھے ۔ جیسے حج ہوتا ہے ویسے ہی کر رہے تھے ۔ میں جھوٹ نہیں بولتا ۔جس کو یقین نہیں آتا ، وہ ’’ یوٹیوب ‘‘ ، پر دیکھ سکتا ہے ۔ بس ! آپ تلاش کریں : Lal Shahbaz Kalandar Ki Dargah Ka Hajj۔ ‘‘
عبدالرحمن بے چینی کے عالم میں بولا :
امت مسلمہ ، شرک میں اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ : ’’ مشرکین مکہ بھی اس حد تک نہیں گئے تھے ‘‘ ۔ عورتیں قبروں پر جا کر اعتکاف کرتی ہیں ۔ لوگ مٹی چاٹتے اور مرد و زن مخلوط رقص کرتے ہیں ۔ ناچنے والی عورتوں نے خیمے لگائے ہوتے ہیں ، جن میں دن ، رات زنا کاری کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ جوا ، ڈانس اور میوزک سر عام چلتا ہے ۔ فحاشی کے پودے کو پانی دیا جاتا ہے ۔ عوام الناس نے میلوں پے جانا اور قبروں کو سجدے کرنا ہی دین سمجھ لیا ہے ۔
( ۴ )
لوگو ! اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام کا جانور ذبح کرنا ، چڑھاوا چڑھانا، نذرو نیاز دینا اور منت ماننا بھی شرک ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ تم پر مردہ اور ( بہا ہوا ) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے نام کر دی جائے ، حرام ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۷۳ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جو اﷲ کے نام پر ذبح نہ کیے گئے ہوں اور یہ کام نا فرمانی کا ہے اور یقیناًشیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناًتم مشرک ہو جاؤ گے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۲۱ )۔
حضرت طارق بن شہابؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایک آدمی صرف مکھی کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور دوسرا جہنم میں ‘‘ ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! وہ کیسے ؟ ‘‘ ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ دو آدمی ایک قبیلے کے پاس سے گزرے ، اس قبیلے کا ایک بت تھا جس پر چڑھاوا چڑھائے بغیر کوئی آدمی وہاں سے نہیں گزر سکتا تھا‘‘ ۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص سے کہا گیا کہ : ’’ اس بت پر چڑھاوا چڑھاؤ ‘‘ ۔ اس نے کہا کہ : ’’ میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں‘‘ ۔ قبیلے کے لوگوں نے کہا : ’’ تمہیں چڑھاوا ضرور چڑھانا ہو گا خواہ مکھی ہی پکڑ کر چڑھا�ؤ ‘‘۔ مسافر نے مکھی پکڑی اور بت کی نذر کر دی لوگوں نے اسے جانے دیا اور وہ جہنم میں داخل ہو گیا ۔ قبیلے کے لوگوں نے دوسرے آدمی سے کہا : ’’ تم بھی کوئی چیز بت کی نذر کرو ‘‘ ۔ اس نے کہا : ’’ میں اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کا چڑھاوا نہیں چڑھاؤں گا ‘‘ ۔ لوگوں نے اسے قتل کر دیا ’’ وہ جنت میں چلا گیا ‘‘ ( احمد ) ، (Kitab At-Tauhid,CHAPTER:10 ) ۔
امیر المومنین حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اﷲ لعنت کرے اس پر جو لعنت کرے اپنے باپ پر اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو جانور ذبح کرے اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لیے اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو پناہ دے کسی بدعتی کو اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو زمین کی حدیں تبدیل کرے ‘‘ ، ( مسلم : ۵۱۲۴ ) ۔
( ۵ )
لوگوں کے چہروں سے معلوم ہو رہا تھا کہ ان کے دل کتاب و سنت کے پانی سے سیراب ہو رہے ہیں ۔ہمارے دلوں کی آبیاری کیسے نہ ہو ، ہم میں اکثر دل ایسے تھے جنہیں تعصب کی بنا پر قرآن و حدیث کی تعلیمات سے محروم کر دیا گیا ۔ ہم میں ایسے لوگ بھی تھے جنہیں کتاب و سنت کے نام پر شرک و بدعت جیسی گھناؤنی ( Filthy) تعلیم دی گئی ۔ ایسے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں قرآن و حدیث کی بجائے ’’ ہیر رانجھا ‘‘ ، تھما دی گئی ۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہیں بزرگوں کی لکھی ہوئی ، قصوں و کہانیوں پر مبنی کتابوں میں ہی قید کر دیا گیا اور کہا گیا کتاب و سنت کا فہم ممکن نہیں ۔ ضعیف آدمی ، پھر غصے سے بولا :
’’ بس کرو ! عبدالرحمن ، تم تو ہمیں مشرکین مکہ سے بھی برا کہہ رہے ہو ۔ میں مانتا ہوں، ہم میں سے جاہل لوگوں نے ہمیں بدنام کر وا دیا ہے ۔جو پیروں کے پاؤں چومتے اور رکوع و سجدہ کرتے ہیں ۔ جو قبروں کا طواف کرتے اور مجاور بن کر بیٹھتے ہیں ۔ کچھ عورتیں بھی وہاں بیٹھتی اور اولاد مانگتی ہیں ۔ ناچ ، گانا اور بے حیائی بھی ہوتی ہے ۔ لیکن میں تو صرف اﷲ کے پیاروں کو وسیلہ بناتا ہوں ۔ کیونکہ ، اﷲ ہماری سنتا نہیں اور ان کی موڑتا نہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن نے ’’ ما قدروا اﷲ حق قدرہ ! ‘‘ ، پڑھتے ہوئے کہا :
بابا جی ! یہ کہنا کہ : ’’ اﷲ تعالیٰ ہماری سنتا نہیں اور ان کی موڑتا نہیں ‘‘ ، کتاب اﷲ کے خلاف ہے ۔کیونکہ اﷲ پاک ، قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ’’ اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘ ، ( المومن : ۶۰ ) ۔ اور الرحمن مزید فرماتے ہیں : ’’ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کھبی وہ مجھے پکارے ، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں ، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۶ ) ۔
دوسری بات ، نبی پاک ﷺ کے دور کے مشرک بھی یہی کہتے تھے کہ ہم بزرگوں کے بت بنا کر عبادت نہیں کرتے بلکہ یہ اﷲ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ اور یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے (پکارتے ) ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اﷲ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اﷲ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اﷲ تعالیٰ کو معلوم نہیں ( یعنی اﷲ کو تو اس بات کا علم نہیں کہ اس کی بارگاہ میں کوئی سفارشی بھی ہے ؟ ) ، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ، وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے ‘‘ ، ( یونس : ۱۸ ) ۔ اور اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ خبردار ! اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے خالص عبادت کرنا اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں ( اور کہتے ہیں ) کہ ہم ان کی عبادت ( پکارا ) صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ( بزرگ ) اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں ، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ اﷲ کرے گا ۔ جھوٹے اور ناشکرے ( لوگوں ) کو اﷲ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا ‘‘ ، ( الزمر : ۳ ) ۔
اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش بھی نہیں کر سکتا ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ کیا ان لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوا ( اوروں کو ) سفارشی مقرر کر رکھا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے ! کہ گو وہ کچھ اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں ‘‘ ، ( الزمر : ۴۳ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا ، تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی مدد گار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ‘‘ ، ( السجدۃ : ۴ ) ۔ اور تیسرے مقام پر ہے : ’’ وہ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب وماہتاب ( Sun and Moon) کو اسی نے کام میں لگا دیا ہے ۔ ہرا یک میعاد معین پر چل رہا ہے ۔ یہی ہے اﷲ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے ۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔ اگر تم ان ( سفارشیوں ) کو پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر ( بالفرض ) سن بھی لیں تو دعا و التجا کو قبول نہ کرسکیں گے اور روز قیامت تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر دیں گے ۔ آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ‘‘ ، ( فاطر : ۱۳ تا ۱۴ ) ۔
مشروع وسیلہ کی تین قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم : ’’ اﷲ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات کا وسیلہ ‘‘ ۔ دوسری قسم : ’’ مومن کا اﷲ پاک سے اپنے اعمال صالحہ کے ذریعے وسیلہ ‘‘ ۔ تیسری قسم : ’’ کسی زندہ مومن بھائی کی دعا کے ذریعے وسیلہ ۔ ‘‘
اﷲ تعالیٰ کے پیارے ناموں کے وسیلہ سے دعا کی جائے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور اﷲ کے اچھے اچھے نام ہیں ، سو ان ناموں سے اس کو پکارو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اے میرے پروردگار ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے اور مجھے اپنی رحمت کے وسیلے سے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما ‘‘ ، ( النمل : ۱۹ ) ۔
عمل صالح کا وسیلہ بھی قرآن سے ثابت ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ جو لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لا چکے اس لئے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ‘‘ ، ( العمران : ۱۶ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اے ہمارے پالنے والے معبود ! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول (ﷺ ) کی اتباع کی ، پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے ‘‘ ، ( العمران : ۵۳ ) ۔ اور تیسرے مقام پر ہے : ’’ اے ہمارے رب ! ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا با آواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا ہے کہ لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ ، پس ہم ایمان لائے ۔ یا الٰہی ! اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر ‘‘ ، ( العمران : ۱۹۳ ) ۔
کسی زندہ نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ بھی جائز ہے ۔ جب رسول اﷲ ﷺ زندہ تھے ، اس وقت مسلمان نبی پاک ﷺ کو دعا کا کہا کرتے تھے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے بھی امت سے اپنے لئے دعا مانگنے کی درخواست کی تھی ۔ مثلاََ : سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ’’ جب مؤذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو موذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اس کے بعد اﷲ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہے جو اﷲ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا اور جو کوئی میرے لیے ( اﷲ سے ) وسیلہ طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی ‘‘ ، ( مسلم : ۸۴۹ ) ۔ ضعیف آدمی ، بڑے سنجیدہ انداز میں بولا :
عبدالرحمن ! میرا خیال ہے کہ تم وہ حدیث بھول گئے ہو جس میں ہے کہ جس وقت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو حضرت آدم ؑ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ : ’’ اے اﷲ ! میں حضور اکرم ﷺ کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے ‘‘ ۔ تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اے آدم میری تمام مخلوق میں جس کا وسیلہ تو نے دیا ہے مجھے بہت ہی زیادہ محبوب ہے ۔ اگر محبوب ( ﷺ ) نہ ہوتے تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
پہلی بات : ’’ اس روایت کو ہر محدث نے موضوع ( گھڑی ہوئی ) بتایا ہے ۔ اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی ہے اور اس پر یہ حکم لگایا گیا ہے ‘‘ ، ( میزان الاعتدال ، جلد : ۲ ، صفحہ : ۱۰۶ ) ، ( وسیلہ کا شرک ) ۔
دوسری بات قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ آدم ؑ کی توبہ کی قبولیت کے سلسلہ میں یوں فرماتا ہے : ’’ ( حضرت ) آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۳۷ ) ۔ وہ دعا جو اﷲ پاک نے سکھائی اور جس کے ذریعہ توبہ قبول فرمائی ، قرآن میں ہی ہے اور وہ یہ ہے : ’’ دونوں ( آدم ؑ و حوا ) نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ‘‘ ، (الاعراف : ۲۳ ) ۔
تیسری بات اس روایت میں کائنات کے پیدا کرنے کی وجہ نبی پاک ﷺ کو کہا گیا ہے جبکہ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ‘‘ ، ( الذاریات : ۵۶ ) ۔
( جاری ہے )
 
Top