• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حد ہو گئی ! (قسط :۹)

شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
اطاعتِ رسول ﷺ

کوئی بھی انسان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتاجب تک وہ رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت نہ کرے ۔ کیونکہ رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت، اﷲ ہی کی پیروی ہے اور آپ ﷺ کی اتباع ہی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ جو سید المرسلین ﷺ کی اطاعت کرئے گا ، اﷲ تعالیٰ اس سے محبت کرئے گا اور گناہ بھی معاف فرما دے گا ۔ آپ ﷺ کی پیروی قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے واجب ہے ۔ اتحاد المسلمین ، صرف قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھامنے پر ہو گا ۔
قرآن و حدیث کے علاوہ کسی اور راستے پر یا کسی اور شخص کے پیچھے چلنے والا سراسر گمراہ ہے ۔ جو عمل نبی پاکﷺ کی سنت کے مطابق نہ ہو وہ قابل قبول نہیں اور بربادی کا باعث ہے ۔ جو شخص بھی رسول اﷲ ﷺ کی حدیث کا علم ہونے کے بعد کسی امام ، عالم یا ولی کی بات پر جما رہے ، وہ اﷲ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے ۔
بد قسمتی سے ! مسلمانوں نے جس طرح توحید کو چھوڑ کر شرک کو پسند کیا ، اسی طرح اطاعتِ رسول ﷺ کو ترک کر کے تقلید کو اپنا لیا ۔ امت مسلمہ میں فرقہ واریت اور شرک و بدعت کی وجہ صرف اور صرف تقلید ہے ۔ تقلید کی وجہ سے اتنی زیادہ فرقہ واریت پھیلی ہے کہ : ’’ ایک ہی امام کے مقلدوں نے کئی فرقے بنا رکھے ہیں اور ایک ، دوسرے کو کافر ، کافر کہتے ہیں ‘‘ ۔ مقلدین کا حال یہ ہے کہ : ’’ سید المرسلین ﷺ کی حدیث کو چھوڑ کر اماموں کے قول کو سینے سے لگاتے ہیں ، چاہے وہ نبی کریم ﷺ کی بات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ‘‘ ۔
اطاعت رسول ﷺ کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ جس نے رسول اﷲ ( ﷺ ) کی اطاعت کی اس نے دراصل اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کی ‘‘ ، ( النساء : ۸۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ نماز کی پابندی کرو ، زکوۃ ادا کرو اور رسول اﷲ ( ﷺ ) کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘ ، ( النور : ۵۶ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ کہہ دیجئے ! کہ اﷲ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو ، اگر یہ منہ پھیر لیں تو ( جان لیں کہ ) بے شک اﷲ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا ‘‘ ، ( العمران : ۳۲ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اے ایمان والو ! اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ( اتباع سے منہ موڑ کر ) اپنے اعمال ضائع نہ کرو ‘‘ ، ( محمد : ۳۳ ) ۔
مزید دیکھیے : ’’ ( العمران : ۳۱ ) ، ( العمران : ۱۳۲ ) ، ( النساء : ۱۳ ) ، ( النساء : ۵۹ ) ، ( النساء : ۶۴ تا ۶۵ ) ، ( النساء : ۶۹ ) ، ( المائدۃ : ۹۲ ) ، ( الانفال : ۲۰ ) ، ( الانفال : ۴۶ ) ، ( النور : ۴۷ تا ۴۸ ) ، ( النور : ۵۱ تا ۵۲ ) ، ( النور : ۵۴ ) ، ( الاحزاب : ۳۶ ) ، ( الاحزاب : ۷۱ ) ، ( الفتح : ۱۷ ) ، ( الحجرات : ۱۴ ) ، ( الحشر : ۷ ) اور ( التغابن : ۱۲ ) ۔
’’ عبدالرحمن ! تقلید تو واجب ہے اور قرآن مجید کی آیت سے ثابت ہے ، ضعیف آدمی بولا ۔ ‘‘
کونسی آیت میں ہے کہ : ’’ تقلید واجب ہے ‘‘ ۔ عبدالرحمن نے پوچھا ۔
بوڑھا شخص :
جس میں اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ اے ایمان والو ! اطاعت کرو اﷲ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( ﷺ ) کی اور اپنے آپ میں سے ’’ اولو الامر ‘‘ کی اطاعت کرو ‘‘۔ ’’ اولو الامر ‘‘ ، سے مراد امام ہیں امام ۔
عبدالرحمن ، مسکراتے ہوئے :
بابا جی ! پہلی بات : ’’ اولو الامر سے مراد بعض کے نزدیک امرا و حکام اور بعض کے نزدیک علما و فقہا ہیں ‘‘ ، ( تفسیر احسن البیان ) ۔
دوسری بات : ’’ چلو میں کچھ دیر کے لئے آپ کی بات مان لیتا ہوں اس سے مراد امام ہیں ‘‘ ۔ لیکن آپ نے آیت کا اگلا حصہ پڑھا ہی نہیں جس میں تقلید کا رد ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اے ایمان والو ! اطاعت کرو اﷲ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( ﷺ ) کی اور تم میں سے اولوالامر کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ ، اﷲ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف ، اگر تمہیں اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور ثواب کے لحاظ سے بھی اچھا ہے ‘‘ ، ( النساء : ۵۹ ) ۔
اس آیت کے دوسرے حصے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : ’’ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ ، اﷲ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف ‘‘ ۔ میں ایک مثال دیکر بات کو واضح کرتا ہوں کہ : ’’ امام ابو حنیفہ ؒ رفع الیدین نہیں کرتے تھے ‘‘ ۔ جبکہ : ’’ امام مالک ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام احمد ابن حنبل ؒ رفع الیدین کرتے تھے ‘‘ ۔ اختلاف پیدا ہو گیا کہ : ’’ تین امام رفع الیدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتا ‘‘ ۔ اختلاف میں اﷲ اور رسول ﷲ ﷺ کے طرف جانا چاہیے یعنی قرآن و حدیث سے تنازعہ ختم کرنا چاہیے ۔ پھر آپ کیوں تقلید پر ہی جمے رہتے ہیں ؟ کیوں احادیث پڑھ کر رفع الیدین نہیں کرتے ؟
بوڑھا شخص ، بڑے سنجیدہ انداز میں:
چاروں امام حق پر ہیں ، سب کے پاس اپنی اپنی دلیل ہو گئی ۔
عبدالرحمن :
اپنی ، اپنی دلیل کا کیا مطلب ہے ؟ مسلمان کے لیے تو حجت صرف کتاب و سنت ہے ۔ جس کی بات قرآن و حدیث کے مطابق ہو گی صرف وہ حق پر ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ ایک بندہ پنسل کو پنسل کہتا ہے ، دوسرا پنسل کو مسواک کہتا ہے ۔ تیسرا آدمی پنسل کو چابی کہتا ، چوتھا پنسل کو پائپ ( Pipe) کہتا ہے ۔ دلیلیں بھی چاروں ہی دیں گے کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں لیکن صحیح وہ ہو گا جو پنسل کو پنسل کہتا ہے ۔ آپ کیوں نہیں چاروں اماموں کے اقوال کو کتاب و سنت کے ترازو سے ماپتے ؟ کیوں سیدالمرسلین ﷺ سے نفرت کرتے ہو ؟ ضعیف آدمی غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے :
ارے خناس ! ہم نفرت کرتے ہیں ؟ اوخبیث ! ہم بغض رکھتے ہیں ؟ تم کیا جانو ! عشق کیا ہوتا ہے ۔ تم تو شیطان ہو شیطان ۔ تم کو کیا معلوم مصطفی ﷺ کی قدر ، ہم نے آقا ؑ کی عظمت کو پہنچانا ہے ۔ اچھا تو ہی بتا ہم کیسے نفرت کرتے ہیں ؟
عبدالرحمن ، بردباری ( Tolerance) کا مظاہرہ کرتے ہوئے :
’’ اگر میں آپ کو حدیث پڑھ کر سناؤں کہ نبی پاک ﷺ نماز میں رفع الیدین کرتے تھے ، تو کیا آپ حدیث پر عمل کریں گے یا مجھ سے نفرت کریں گے ؟ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’ میں تجھ سے نفرت کروں گا کیونکہ تم مجھے میرے امام کے طریقے سے ہٹانا چاہتے ہو۔ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ امام کا قول نہ چھوڑو چاہیے کتاب و سنت سے ٹکرا جائے ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ آپ ، مجھ سے نفرت حدیث کی وجہ سے کریں گے اور حدیث بات ہے رسول اﷲ ﷺ کی ۔ کسی کی بات سے عداوت ، اس انسان سے نفرت کے مترادف ہے ۔نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں اگر موسیٰ ؑ کی بات بھی آ جائے تو بھی ہم ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ آپ امام کے قول کو قرآن و حدیث پر ترجیح دے رہے ہو ، افلا تعقلون؟ ‘‘
نبی پاک ﷺ کی کثیر التعداد احادیث سے ثابت ہے کہ اتباع سنت ہی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جس نے میری اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اﷲ کی نافرمانی کی ‘‘ ، ( بخاری : ۷۱۳۷ ) ۔ اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں تمہارے لئے دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم ان کے بعد گمراہ نہ ہو سکو گے ، ایک تو اﷲ کی کتاب ہے اور دوسری میری سنت ، دونوں دنیا سے جانے کے بعد مجھے حوض پر ملیں گے ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : ۳۲۲ ) ۔
صحابہ کرامؓ نے بھی تقلید کا رد ہی کیا ہے ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا : ’’ سنت وہ ہے جو اﷲ اوراس کا رسول ﷺ مقرر کرے ۔ رائے کی خطا کو امت کے لیے سنت نہ بنا دو ۔ رائے والے حدیث کے دشمن ہیں ، ان پر اس کا حفظ مشکل ہو پڑا تو انہوں نے ( لوگوں کو ) رائے سے تباہ کیا۔ دینی مسائل میں رائے لگانے سے بچتے رہو ۔ اہل رائے ، حدیثوں کے دشمن ہیں ان سے حدیثیں یاد نہیں ہوتیں تو پھر اپنی رائے سے فتوے دیتے ہیں جو حدیثوں کے خلاف ہوتے ہیں ۔ پس ان سے بلکل علیحدہ رہنا اور انہیں بھی اپنے پاس نہ پھٹکنے دینا ‘‘ ، ( اعلام الموقعین ، ص : ۵۴ تا ۵۵ ) ۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں : ’’ تمہارے علماء مر جائیں گے پھر لوگ جاہلوں کو امام بنا لیں گے جو امور دین میں رائے ، قیاس لگائیں گے ‘‘ ، (اعلام الموقعین ، ص : ۵۵ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’ جس نے ایسی رائے نکالی جو نہ کتاب اﷲ میں ہو اور نہ سنت رسول ﷺ ( یعنی حدیث ) میں ، میں نہیں کہہ سکتا کہ اﷲ کے ہاں اس کا کیا حال ہو گا ؟ دین تو صرف قرآن و حدیث میں ہی ہے ‘‘ ، (اعلام الموقعین ، ص : ۵۶ ) ۔ ضعیف آدمی سے ایک بار پھر صبر نہ ہو سکا اور اچانک بول پڑا :
’’ لوگو ! یہ غیر مقلد ہے اور فرقہ واریت پھیلا رہا ہے ۔ تم لوگ اپنے اپنے کام پر جاؤ ، اسے تو کوئی کام نہیں ۔ تم کماؤ گے نہیں تو کھاؤ گے کہاں سے ، اپنے بیوی ، بچوں کا خیال نہیں ہے کیا ؟ ‘‘ عبدالرحمٰن کی بائیں سمت موجود لڑکے نے کہا :
یہ تو فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں لیکن جب ہماری مسجد کا مولوی لاؤڈ اسپیکر میں گالیاں دیتا ، بازاری اور گندی زبان استعمال کرتا ہے اس وقت تو آپ نہیں کہتے کہ : ’’ یہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے‘‘ ۔ دوسری بات : ’’ ہم نے ساری زندگی کام ہی کیا ہے ، آج اگر اﷲ کی رضا اور رحمت کے لیے ورک ( Work) نہ بھی کریں گے تو بھی ہم بہت خوش ہیں ‘‘ ۔ انکل ، میں بھی فرقہ واریت اور تقلید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں بلال نے دھیمی آواز میں کہا :
عبدالرحمن ، مسکراتے ہوئے :
’’ آپ ضرور فرمائیں ! ‘‘
بلال :
بابا جی ! جو کتاب و سنت سے سمجھائے وہ فرقہ واریت نہیں بلکہ جو قرآن و حدیث کے علاوہ کسی شخص ، کتاب یا جگہ کی طرف بلائے وہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے ۔ مثلاََ : ’’ لاہور سے پانچ آدمی سفر پر روانہ ہوئے ہیں جنہوں نے کراچی جانا ہے ۔ پتوکی پہنچ کر ایک ، اسلام آباد کا رخ کر لیتا ہے اور دوسرا ، چھانگا مانگا کی طرف چل پڑتا ہے ۔ تیسرا ، قصور کی جانب مڑ جاتا ہے اور چوتھا، سیالکوٹ کو جانا چاہتا ہے ۔ پانچواں ، کراچی کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ پانچوں ہی نے ایک ، دوسرے کو بھی کہا ہے کہ : ’’ میرے ساتھ آ جاؤ ، میں کراچی جا رہا ہوں ‘‘ ۔ اب اصل شاہرہ کی جانب یعنی کراچی کی طرف بلانے والا فرقہ واریت نہیں پھیلا رہا کیونکہ وہ صحیح راستے کی طرف ان کی رہنمائی کر رہا ہے ۔ باقی چاروں فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں کیونکہ وہ ایسی شاہرہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جس پر جتنی مرضی محنت سے سفر کر لیں اصل منزل ( یعنی کراچی ) سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے ۔
بابا جی ! آپ نے کہا یہ غیر مقلد ہے ۔ آپ اسے اطاعت رسول ﷺ کرنے والا کیوں نہیں کہتے ؟ مقلد کا الٹ غیر مقلد نہیں ، متبع سنت ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ رات کا متضاد دن ہوتا ہے ، غیر دن نہیں ۔ شام کا الٹ صبح ہوتا ہے ، غیر صبح نہیں ۔ سردی کا متضاد گرمی ہوتا ہے ، غیر گرمی نہیں ۔
تقلید کے متعلق میں ، آپ سے کچھ سوال پوچھتا ہوں کہ : ’’ کیا اماموں نے کسی کی تقلید کی ، کیا اماموں نے تقلید پر خود کتابیں لکھیں یا کہا کہ حدیث مصطفی ﷺ کو چھوڑ کر ہمارے اقوال کو ترجیح دو اور کیا اماموں کی تقلید نبی پاک ﷺ کی اتباع سے بہتر ہے ؟ اﷲ کا دین کون لے کر آئے ، امام ؒ یا رسول اﷲ ﷺ ، کیا دین امام کے فتوے کا نام ہے یا وحی الہی کا ؟ صحابہ کرامؓ نے اماموں کی تقلید کی یا اتباع رسول ﷺ ؟ ایک مسلمان کو کس کی پیروی کرنی چاہیے ، رسول اﷲ ﷺ کی یا اماموں کی ؟ تقلید نے مسلمانوں کو متحد کیا ہے یا تقسیم ؟ کامیابی اماموں کی تقلید میں ہے یا اتباع رسول ﷺ میں ؟ قرآن و حدیث زیادہ ضروری ہے یا بزرگوں کے اقوال ؟ قیامت کے دن اﷲ کس کو انعام سے نوازے گا ، جس نے نبی کریم ﷺ کی حدیث کو چھوڑ کر اماموں کے اقوال کو فوقیت دی یا جس نے اماموں کے اقوال کو ترک کر کے نبی پاک ﷺ کی حدیث کی ترجیح دی ؟ عبدالرحمن نے خوشی سے بلال کو گلے سے لگا لیا اور کہا :
’’ جزاک اﷲ خیر‘‘ ، اور اپنی بات جاری کی :
ائمہ اربعہ نے بھی تقلید کی مذمت ہی کی ہے ۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا ہے کہ : ’’ جو شخص میری دلیل سے واقف نہ ہو ۔ اس کو لائق نہیں کہ میرے کلام کا فتویٰ دے ‘‘ ، ( حقیقۃ الفقہ : ۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : ’’ جب صحیح حدیث مل جائے پس وہی میرا مذہب ہے ‘‘ ، ( حقیقۃ الفقہ : ۷ ۸ ) ۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا : ’’ اگر آپ نے کچھ کہا اور کتاب اﷲ ( قرآن ) کے مخالف ہو ؟ ‘‘ جواب دیا کہ : ’’ میرا قول جو کتاب اﷲ کے مقابلہ میں ہو ترک کرو ‘‘ ۔ اس نے پھر پوچھا کہ : ’’ اگر رسول اﷲ ﷺ کی خبر ( حدیث ) کے خلاف ہو تو ؟ ‘‘ جواب دیا کہ : ’’ میرا قول جو رسول اﷲ ﷺ کے مقابلہ میں ہو ترک کرو ‘‘ ۔ اس نے پھر پوچھا کہ : ’’ اگر صحابہؓ کے قول کے مخالف ہو ؟ ‘‘ جواب دیا کہ : ’’ میرا قول صحابہؓ کے مقابلہ میں ترک کرو ‘‘ ، ( حقیقۃ الفقہ : ۶ ۸) ۔
امام مالک ؒ فرمایا کرتے تھے : ’’ میں ایک انسان ہی تو ہوں صحیح بات بھی کہہ دیتا ہوں اور غیر صحیح بھی ، پس میری باتوں کو دیکھو ، پرکھو جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب و سنت کے مطابق نہ ہو اسے چھوڑ دو ‘‘ ، ( اعلام الموقعین : ۶۶ ) ۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : ’’ جب میں کوئی مسئلہ کہوں اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے خلاف ہو ۔ تو جو مسئلہ نبی پاک ﷺ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے وہی اولیٰ ہے ۔ پس میری تقلید مت کرو ‘‘ ، (حقیقۃ الفقہ : ۹۲ ) ۔ اور امام احمد ؒ فرماتے تھے کہ : ’’ اپنا علم اسی جگہ سے لو جہاں سے امام لیتے ہیں اور تقلید پر قناعت نہ کرو کیونکہ یہ اندھا پن ہے سمجھ میں ‘‘ ، (حقیقۃ الفقہ : ۹۷ ) ۔
( جاری ہے )
 
Top