• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حرام اجزاء سے بنی دوا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک محترم بھائی نے پوچھا ہے:

السّلام علیکم
علماء سے سوال:
(ا) کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کردہ جاندار کےگوشت یا دیگر اجزاء وغیرہ سے بنی دوا استعمال کرنا درست ھے؟
(ب) کیا یہ استعمال کسی جان لیوا بیماری کے لاحق ھو جانے کے بعد درست ھے' یا جان لیوا بیماری کے لاحق ھونے سے پہلے حفظِ ما تقدم کے طور پر بھی استعمال کی جاسکتی ھے؟
(ج) اگر بیماری جان لیوا نہ ھو تو اس صورت میں ایسی دوا کے استعمال کے بارے میں کیا حکم ھے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک محترم بھائی نے پوچھا ہے:

السّلام علیکم
علماء سے سوال:
(ا) کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کردہ جاندار کےگوشت یا دیگر اجزاء وغیرہ سے بنی دوا استعمال کرنا درست ھے؟
(ب) کیا یہ استعمال کسی جان لیوا بیماری کے لاحق ھو جانے کے بعد درست ھے' یا جان لیوا بیماری کے لاحق ھونے سے پہلے حفظِ ما تقدم کے طور پر بھی استعمال کی جاسکتی ھے؟
(ج) اگر بیماری جان لیوا نہ ھو تو اس صورت میں ایسی دوا کے استعمال کے بارے میں کیا حکم ھے؟
جواب :
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شرعاً حرام اور نجس اشیاء سے علاج اصلاً منع اور حرام ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ، وَجَعَلَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً فَتَدَاوَوْا وَلَا تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ» (سنن ابی داود ،الطب ، 3874 )
سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے بیماری اور دوا (علاج) دونوں اتارا ہے اور ہر بیماری کی ایک دوا پیدا کی ہے لہٰذا تم دوا کرو لیکن حرام سے دوا نہ کرو“۔
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ ذَكَرَ طَارِقُ بْنُ سُوَيْدٍ أَوْ سُوَيْدُ بْنُ طَارِقٍ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَمْرِ، فَنَهَاهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فَنَهَاهُ، فَقَالَ لَهُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّهَا دَوَاءٌ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا، وَلَكِنَّهَا دَاءٌ» سنن ابی داود ، سنن ابن ماجہ/الطب ۲۷ (۳۵۰۰)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الأشربة ۳ (۱۹۸۴)، سنن الترمذی/الطب ۸ (۲۰۴۶)، مسند احمد (۴/۳۱۱، ۵/۲۹۳)، سنن الدارمی/الأشربة )
جناب وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، طارق بن سوید یا سوید بن طارق نے ذکر کیا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں منع فرمایا، انہوں نے پھر پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پھر منع فرمایا تو انہوں نے آپ سے کہا: اللہ کے نبی! وہ تو دوا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں بلکہ بیماری ہے“
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
عن أبي هريرة، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدواء الخبيث»
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجس یا حرام دوا سے منع فرمایا ہے "
سنن الترمذی/الطب ۷ (۲۰۴۵)، سنن ابن ماجہ/الطب ۱۱ (۳۴۵۹)، و أخرجہ: مسند احمد​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ​
اسلئے ہر وہ دواء جس میں حرام یا نجس چیز ملی ہوئی ہو وہ دواء کھانا بھی حرام ہی ہوگا ،​
ہاں اگر اسی دواء سے صحت وزندگی بچ سکتی ہو ،اور اس کا کوئی حلال و پاکیزہ قائم مقام یعنی متبادل نہ مل سکے تو بحالت اضطرار اس حرام سے مرکب دواء کو استعمال کرنا جائز ہوگا۔​
جیسا کہ قرآن کریم ارشاد باری تعالی ہے :​
( وقد فصل لكم ما حرم عليكم إلا ما اضطررتم إليه) [الأنعام:119]
حالانکہ جو کچھ اس نے تم پر حرام کیا ہے اسے تمہارے لیے تفصیلاً بیان کردیا ہے الا یہ کہ تم (کوئی حرام چیز کھانے پر) مجبور ہوجاؤ (جب تم کو سخت ضرورت پڑجائے تو حلال ہے )
اور اس بات کیلئے مستند معالج ، ڈاکٹر کی رائے معتبر ہو گی ، کہ اس ممنوعہ اجزاء پر مشتمل دواء کا حلال اشیاء میں کوئی متبادل نہیں ۔
درج ذیل فتوی میں اس نوعیت کاا شرعی حکم بتایا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
المعالجة بشحم الخنزير وذلك عبر الدبر . هل هو حرام أم حلال؟
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:

فالأصل في التداوي بالمحرمات والنجاسات الحرمة، لعموم الأدلة في ذلك، كقوله صلى الله عليه وسلم: " إن الله أنزل الداء والدواء، وجعل لكل داء دواء، فتداووا ولا تداووا بحرام" رواه أبو داود، وقول أبي هريرة رضي الله عنه " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدواء الخبيث" رواه أحمد وأبو داود والترمذي. لكن عند الضرورة يجوز التداوي بها، والدليل على ذلك: الأدلة العامة على إباحة المحرم للمضطر، كقول الله سبحانه ( وقد فصل لكم ما حرم عليكم إلا ما اضطررتم إليه) [الأنعام:119] ففي هذه الآية وغيرها دليل على إباحة تناول المحرمات عند الاضطرار.
قال العز بن عبد السلام رحمه الله ( جاز التداوي بالنجاسات إذا لم يجد طاهراً يقوم مقامها، لأن مصلحة العافية والسلامة أكمل من مصلحة اجتناب النجاسة) انتهى من قواعد الأحكام.
ويستثنى من المحرمات الخمر فإنه لا يجوز التداوي بها حتى عند الضرورة ، للأحاديث الخاصة التي نهت عن التداوي بها، وبينت أنها داء، وليست بدواء كقول النبي صلى الله عليه وسلم في الخمر " إنه ليس بدواء ولكنه داء " رواه مسلم .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية في الفتاوى الكبرى (3/5): وليس هذا مثل أكل المضطر الميتة، فإن ذلك يحصل به المقصود قطعاً، وليس له عنه عوض، والأكل منها واجب، فمن اضطر إلى الميتة، ولم يأكل حتى مات دخل النار، وهنا لا يعلم حصول الشفاء، ولا يتعين هذا الدواء، بل الله تعالى يعافي العبد بأسباب متعددة، والتداوي ليس بواجب عند جمهور العلماء، ولا يقاس هذا بهذا.

وإنما يجوز ذلك إذا كان المتداوي عارفاً بالطب، يعرف أنه لا يقوم غير هذا مقامه، أو أخبره بذلك طبيب موثوق بخبرته.
وعليه: فإنه لا يجوز المعالجة بشحم الخنزير كما لا يجوز التداوي بأي جزء من أجزائه لأي سبب، لأن الخنزير نجس العين، وكل ما يخرج منه من مائعات وغيرها نجس، إلا إذا كان هناك ضرورة للعلاج به. بشرط أن لا يوجد من الأدوية المباحة ما يقوم مقامه، وأن يخبرك طبيب ثقة أن هذا الدواء نافع لهذا المرض، وأنه لا يوجد له بديل مباح. والله أعلم.

فتوی اسلام ویب
 
Top