• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حرف اول پروفیسر عبدالجبار شاکر

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بسم اللہ الرحمن الرحیم
http://forum.mohaddis.com/threads/تفسیر-السراج-البیان-از-قلم-محمد-حنیف-ندوی-رحمہ-اللہ.12975/
حرف اوّل
انسان کو جس شر ف کے باعث مخلوقاتِ عالم میں مسجودِ ملائک ٹھہرایاگیا، وہ علم الاشیاء کا امتیاز ہے اگر یہی انسان علم الوحی کا حامل وعامل بن جائے تو اس میں نیابتِ الہیہ اور خلیفۃاللہ فی الارض کی تمام ترصفات پیدا ہو جاتی ہیں۔ علوم انسانی کی انتہاؤں سے بھی بہت آگے علم الوحی کے علم خالص اور علم الہدایت کی ابتدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی حضرت انسان کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ وتسویہ کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم تک ۳۱۵ صحائف نازل کیے مگر آج قرآن مجید کے علاوہ تمام صحف سماوی کے متن معدوم ومفقود ہو چکے ہیں حتیٰ کہ بعض صحائف جن زبانوں میں اتارے گئے وہ زبانیں صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہیں، یوں انسانی ہدایت کا واحدذریعہ قرآن مجید علم الوحی کا وہ صحیفہ ہے جو اپنے متن اور تشریح وتفسیر کے ساتھ آج ہمارے پاس موجود ہے۔

تہذیب جدید نے علوم وفنون کے انبار لگادیے ہیں مگر ان میں سے قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جو اپنے نام کی نسبت سے منفرد اوریگانہ ہے۔ یہ کتاب جس کے معنی بار بار اور مسلسل پڑھے جانے کے ہیں، ایک اطلاع کے مطابق جزائر فجی میں سب سے پہلے صبح طلوع ہوتی ہے اور پھر دن کا یہ سفر آسٹریلیا، انڈونیشیا، برصغیر پاک وہند، ایران وترکی، افریقہ اور پھر امریکہ میں جاکرختم ہو جاتا ہے، یوں چوبیس گھنٹے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آتا کہ جس میں اس قرآن حکیم کی تلاوت کسی نہ کسی شکل میں جاری نہ ہو۔

قرآن مجید میں نبوت ورسالت کے فرائض ثلاثہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق تلاوت آیات، تزکیۂ نفوس اور تعلیم کتاب وحکمت وہ بنیادی ذمہ داری ہے جو کسی پیغمبر کو تفویض کی جاتی ہے، اگر ان تین فرائض کے حوالے سے قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو تعلیم وتربیت ،تزکیہ وطہارت کا ایک عجیب روح پروراور ایمان افروز منظر سامنے آتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں دار ارقم ہویامدینہ منورہ میں ریاض الجنہ کے قریب صُفہ کا چبوترہ، یہ دونوں مقامات قرآن خوانی ، قرآن فہمی
اور قرآن شناسی کے اولین مراکز تھے۔ آج دنیا بھر میں تحفیظ قرآن، قرأت قرآن اور تدریس وتعلیم قرآن کے جو لاکھوں مراکز کام کررہے ہیں اصلاً ان ہی مقامات کی صدائے بازگشت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے اولین مفسر تھے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے تلمیذ تھے جنھوں نے قرآن مجید کے اسباق اور اس کی تعلیمات کو آپ ﷺ سے سیکھا اور جانا۔ ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ نے اس فن میں امتیاز اور افتخار بخشا ہے۔ طبقات المفسرین کا پہلا طبقہ ایسے ہی صحابہ رضی اللہ عنہ پر مشتمل ہے اس کے بعد مختلف ادوار میں تفسیر وتراجم، حواشی وتعلیقات اور احکام وشرائع کے علاوہ قرآن کے علمی، ادبی، تاریخی،عمرانی، قانونی، دستوری اور معاشی پہلوؤں پر بہت گراں قدر کتابیں لکھی گئی ہیں،یوں اس ایک کتاب سے تاریخ میں کتاب خانے تیار ہوتے چلے گئے ۔

اصول تفسیر اور علوم القرآن پر لکھی گئی کتابوں پر توجہ کیجیے تو آپ کو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ایسی شان اورقدر تاریخ علوم انسانی میں کسی دوسری کتاب کو میسر نہیں اور نہ آسکے گی۔ مختلف زبانوں میں آج تک قرآن مجید کے ہزاروں تراجم اور تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ قرآن مجید کے اولین جزوی مترجم تو خود حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ(م۳۵ھ) ہیں۔ جن کے بعد اب دنیا کی ایک سو بیس زبانوںمیں قرآن مجید کے مکمل تراجم ملتے ہیں اور کچھ زبانوں میں جزوی تراجم بھی موجود ہیں۔ راقم کے کتب خانے’’ بیت الحکمت‘‘ لاہور میں قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں ستر مکمل اور کچھ نامکمل تراجم موجود ہیں ۔ ان زبانوں میں اردو زبان کو ایک عجیب امتیاز حاصل ہے کہ اس کا پہلا ترجمہ شاہ رفیع الدین دہلویؒ نے ۱۸۰۵ ء میں کیا اور پھر ان کے برادر گرامی شاہ عبدالقادر دہلویؒ نے بے مثال اوربامحاورہ اردوترجمہ کیا۔ ان کے بعد گزشتہ دو سو سال میں اردو زبان میں قرآن مجید کے ایک ہزار سے زائد تراجم طبع ہو چکے ہیں۔ یہ اعزاز دنیا کی کسی دوسری زبان کو حاصل نہیں کہ اتنی مختصر مدت میں تراجم کی اتنی بڑی تعداد شائع ہوئی ہو۔

قرآن مجید حجاز کی سرزمین میں نازل ہوا ۔ اہل مصر نے اس کی قرأت اور لحن کو اَوجِ کمال تک پہنچادیا مگر قرآن فہمی کے دریچے برصغیر میں کھلے، یوں فن تفسیر میں برصغیر کے علمی کمالات ایک الگ دفتر کا تقاضا کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا سب سے پہلا ترجمہ بھی برصغیر میں سندھ میں ہوا جو فارسی زبان میں تھا اور اب مخدوم نوح کا یہ ترجمہ طبع شدہ ملتا ہے اس کے علاوہ برصغیر کی درجنوں زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم دستیاب ہیں ۔

قرآن مجید اگرچہ ابتداء خط حسیری میں لکھا گیا۔ پھر کوفی کی مختلف رسموں میں لکھا جاتا رہا۔ افریقہ میں خط مغربی کی شکل میں مقبول ہوا مگر برصغیر میںثلث، رقاع، محقق، ریحان،نستعلیق، نسخ، بہار اور متعدد تزئینی رسوم خط میں اسے لکھا گیا اور اب نسخ ہندی ہی اس کی مقبول ترین صورت ہے۔ اس کے لاکھوں نسخے دنیا بھر کے کتب خانوں ، عجائب گھروں اور انفرادی ذخائر میں موجود ہیں۔ اس فقیر کے نجی کتب خانے’’ بیت الحکمت‘‘ میں قرآن مجید اور تفاسیر کے ایک ہزار سے زائد مخطوطات موجود ہیں۔نیزقرآنیات پر تین ہزار کے قریب مطبوعات بھی اہل علم کے استفادے کے لیے موجود ہیں۔ صرف قرآنی لغت اور اشاریوں پر بیس کے قریب مطبوعات مجھے میسر آئی ہیں۔ اصول تفسیر میں ’ الفوزالکبیر‘ جیسی مختصر مگر جامع کتاب بھی شاہ ولی اللہ ؒ نے تحریر کی ہے جس کی افادیت اہل علم پر الم نشرح ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے ۱۷۳۹ ء میں قرآن مجید کا اسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اسی فارسی ترجمے کا ایک اور ترجمہ بھی ہو ا جو راقم کے کتب خانے میں نوادرات کی حیثیت سے موجود ہے۔ قرآن مجید کی جلد سازی، نقاشی، تذہیب کاری، اس کے طلائی اور لاجوردی شمسے، علامات آیات ورکوع، جد اول غرض کس کس پہلو سے عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کیے گیے ہیں۔

بیسویں صدی میں علم تفسیر پر جومتنوع اور متعدد چیزیں لکھی گئی ہیں، وہ لائق اعتنا ہیں۔ انھیں میں ایک مستند، لائق اعتماد اور معتبر کام ’’سراج البیان‘‘ ہے جس کے مفسر معروف عالم، فلسفی، متکلم اورعبقری مولانا محمد حنیف ندوی رحمہٗ اللہ ہیں۔

علم تفسیر کے طلبہ کو یہ نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ تفسیر اپنے لغوی مفاہیم میں کسی حقیقت پر پڑے ہوئے پردوں اور حجابات کو اٹھا دینے کا نام ہے اگر تفسیر سے ان پردوں اور حجابات میں اضافہ ہوتا چلا جائے تو یہ تفسیر نہیں بلکہ کچھ اور ہی بن جاتی ہے۔ بقول اقبالؔؒ
احکام ترے حق ہیں، مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پاژند
تفسیر ماثورہ کی بجائے تفسیر بالرائے کے مکتب نے قرآنی تعلیمات اور مطالب کو حد درجہ پراگندہ اور ژولیدہ بنادیا ہے۔ اب تو مقام حیرت نہیں بلکہ حدتاسف ہے کہ قرآن مجید کو احادیث صحیحہ کی نسبت عہد جاہلی کے ادبی نمونوں اور شعری مجموعوں کے حوالے سے سمجھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس جاہلانہ جدت وندرت پر تعریف وتحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں۔ العیاذ با اللہ۔

قرآن مجید کا فہم اگر محض لغت کا محتاج ہوتا تو حجاز کے کفار اور مشرکین میں سے کوئی ایک اس نورانیت سے محروم نہ رہتا۔ حق بات تو یہ ہے کہ تفسیر قرآن کا سب سے اہم اسلوب خود تفسیر القرآن بآیات القرآن ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات ایک دوسرے کا تتمہ اور تکملہ ہیں اور مختلف احکام ونصوص کی تشریح کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت برحق مگر اس کے احکامات وتعلیمات اس قدرسادہ ، سلیس اور عام فہم ہیں کہ ہر ذی عقل اور ہدایت کا طالب اسے صاف، واضح اور دو ٹوک انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ بعض مفسرین نے تفسیر قرآن کا جو اسلوب اختیار کیا یا تراشا ہے اس سے بھی جنگی قرآنی تعلیمات اور موضوعات ایک چیستان بن کر رہ گیے ہیں۔ ہمیں تسلیم ہے کہ تمدنی ارتقاء نے علوم جدیدہ کے افق بہت وسیع کردیے ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ روشن بھی ہوں۔ اس کج علمی کی روش کو کیا نام دیجیے کہ ہم علم الوحی کو علوم جدیدہ کی روشنی میں دیکھنے کے خوگر ہوئے ہیں حالاں کہ درست روش تو یہ ہے کہ علوم جدیدہ کا مطالعہ ومشاہدہ علم الوحی کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ علم الوحی سے استفادے کے بغیر روشنی کا تمدن تو میسر آسکتا ہے مگر تہذیب کی روشنی ہاتھ نہیں آتی ۔

بقول اقبالؒ
مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی​
مغرب کے خداوند درخشندہ فکزات​
وہ قوم فیضان سماوی سے ہو محروم​
حد اس کے کمالات کی ہے برق وبخارات​
(بال جبریل)​
بیسویں صدی میں برصغیر کے مفسرین کی تفسیروںمیں ’’سراج البیان‘‘ سراج التفسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں لغت عرب کے قرآنی محاورے کا التزام بھی ملے گا۔ ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم ان کے شاگرد حافظ عماد الدین ابن کثیر تینوں مسلم احیائے علوم کے اساطین ہیں جن کی قرآنی فکر کا امتزاج آپ کو اس تفسیر میں دکھائی دے گا۔ صاحب تفسیر مولانا محمد حنیف ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے عجیب وغریب امتیازات بخشے تھے۔ وہ مسلکاً اہل حدیث، مزاجاً فلسفی اور متکلم اور ادبی سطح پر شبلی و ابوالکلام کے دبستان کے فردتھے۔ ندوہ کی تعلیم اور ماحول نے ان کے اسلوب میں مؤرخانہ بصیرت،محدثانہ فقاہت اور ادیبانہ بلاغت پیدا کردی۔ یہی وہ علوم وفنون کی قدیم وجدید کلیدہے جس کے ذریعے انھوں نے تفسیر ی علوم کے مباحث کے قفل کھولے ہیں۔​
برصغیر میں پاکستان میں اس تفسیر کا ایڈیشن بہت مقبول ہے مگر مقام مسرت ہے کہ ہندوستان کی سرزمین سے اس کا نقش تازہ تدوین وطباعت کے مزیدحسن سے آراستہ ہو کرسامنے آرہا ہے۔ میرے لیے یہی سعادت کیا کم ہے کہ میں حرم کعبہ میں باب بلال میں بیٹھا ان سطور کو قلم بند کررہا ہوں۔ حق تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ وہ اس تفسیر کو عامۃ المسلمین کے لیے نافع اور علمائے دین کے لیے اصول تفسیر کے ایک مطلوبہ منہج کے تعارف کا ذریعہ بنائے۔ آمین​
مولانا جامع کمالات اور جامع اوصاف شخصیت تھے، ان کی ذہنی قابلیت اور دماغی کاوش اس تفسیر میں جس تناسب سے ڈھل گئی ہیں اس نے بیسویں صدی کے اردو ادب میں علم تفسیر کے ایک جداگانہ اور مخصوص اسلوب کی تشکیل کی ہے۔ تفسیری ادب میں ماثورہ روایات کے التزام کے ساتھ جدید مباحث کی تفہیم کے لیے یہ ایک قرآنی سوغات ہے جس سے ہمہ وقتی استفادہ ایک نعمت سے کم نہیں۔ حق تعالیٰ اس کاوش کو ان کی حسناتِ جاریہ میں شمار فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔​
۲۰؍ذی الحجہ ۱۴۲۷؁ھ العبدالمذنب

(مطابق ۱۱؍جنوری ۲۰۰۷جمعرات) پروفیسر عبدالجبار شاکر​
(نزیل مکہ)​
ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی​
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی​
اسلام آباد ،پاکستان​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا بھائی ۔
ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری اور پروفیسر عبد الجبار شاکر صاحب کی نگارشات کو ایک جگہ دیکھ کر یاد آیا کہ علم و فن کے ان دو سمندروں کی اس دنیا سے رخصتی کی خبریں اور اہل علم کے ان کے بارے میں تأثرات بھی چند سال پہلے اسی طرح ساتھ ساتھ ہی آئے تھے ۔
رحمہما اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
 
Top