• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حروفِ سبعہ پرقرآن کا نزول اور تدریجی نزول کی حکمتیں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حروفِ سبعہ پرقرآن کا نزول اور تدریجی نزول کی حکمتیں

ابو البیان محمد سعید اَحمد مجددی﷫​
لفظ نزول کا معنی ہے: ’’نقل الشيء من الأعلی إلی الأسفل‘‘ یعنی کسی چیز کا اُوپر سے نیچے اُترنا ۔
یہ نزول اگر دفعۃً واحدۃً (یکبارگی ) ہو تو إنزال کہلاتا ہے۔ اگر تدریجا (آہستہ آہستہ) ہو تو تنزیل کہلاتا ہے۔
قرآن حکیم کا نزول یکبارگی بھی ہوا ہے اور تدریجا بھی ۔ قرآن ، اللہ تعالی کا کلام ہے جو اَزل سے لوح محفوظ میں موجود ہے۔ پھر وہاں سے باقتضائے حکمت ایز دی مختلف مراتب نزول سے گزرتا ہوا قلب محمدﷺ پر جلوہ گر ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تنزلاتِ قرآن
پہلا تنزل: اولاً دائرہ اَصل اورمر تبہ وجوب سے لوح محفوظ میں نازل ہوا جیسا کہ فرمایا :
’’بَلْ ہُوَ قُرْئَانٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ‘‘ (البروج:۲۱،۲۲) ’’بلکہ یہ قرآن مجید لوح محفوظ میں ‘‘ پھر وہاں سے الفاظ ومعانی کی صورت میں اس کا نزول ہوا۔
دوسرا تنزل: لوح محفوظ سے آسمان دنیا (بیت العزت) میں نازل ہوا۔
(١) ’’إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ‘‘ (القدر:۱)
(٢) ’’إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ ‘‘ (الدخان:۳) میں اس کی صراحت موجود ہے۔
بیت العزت ، کعبہ شریف کے محاذات میں آسمان پر ملائکہ کی عبادت گاہ ہے۔ یہ نزول (یکبارگی) لیلۃ القدر میں ہوا۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜سے مروی ہے:
’’أنزل القرآن جملۃ إلی السمآء الدنیا في لیلۃ القدر۔‘‘ (سنن الکبریٰ للنسائي: ۱۱۳۰۸)
تیسرا نزول: بیت العزت سے بواسطہ جبرائیل اَمین﷤حضور سرور عالمﷺکے قلب اَقدس پر نازل ہوا جس کی دلیل یہ اِرشاد ربانی ہے: ’’نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الأَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ … الخ‘‘ (الشعراء: ۱۹۳،۱۹۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تدریجی نزول کی حکمتیں
قرآن مجید سرور کائنات ﷺپر ایک ہی مرتبہ پورے کا پورا نازل نہیں ہوا بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے تقریباً تیئس سال کے عرصہ میں اُتارا گیا۔
بعض اَوقات ایک چھوٹی سی آیت یا اس کا کوئی ایک جزو نازل ہوتا اور بعض اَوقات کئی کئی آیتیں بیک وقت نازل ہو جاتیں۔ مثلاً قرآن کا سب سے مختصر حصہ جو مستقل طور پر نازل ہوا وہ ’’غَیْرُ أُوْلی الضَّرَرِ‘‘ (النساء:۹۵) ہے جو ایک لمبی آیت کا جزو ہے اور دوسری طرف پوری سورۃالانعام ایک ہی بار نازل ہوئی ہے۔
پورے قرآن کو ایک ہی نازل کر نے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے کیوں نازل کیا گیا ؟ اس کی مندرجہ ذیل حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی حکمت
یک دم پورا قرآن نازل ہونے کی صورت میں تمام اَحکام قرآنیہ کی تعمیل وپابندی ہر مسلمان پر فوراً لازم ہو جاتی اور یہ شریعت محمدیہ ﷺ کی ان حکیمانہ مصلحتوں کے خلاف ہو جاتا جو اس میں ملحوظ رکھی گئی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری حکمت
قریش مکہ کی طرف سے سرور عالمﷺ کو روزانہ نئی اَذیتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں اس لیے بار بار آیاتِ قرآنیہ کا نازل ہونا آپﷺکے دل مبارک کی تقویت کاسبب بنتا تھا۔ جس سے ان اَذیتوں کا مقابلہ آسان ہو جاتا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری حکمت
قرآن کا اَکثر حصہ لوگوں کے مختلف سوالات اور ان کے جوابات او رمختلف واقعات پر مشتمل ہے لہٰذا ان آیات کا نزول اِنہی اَوقات میں زیادہ مناسب تھا جن میں وہ سوالات کیے گئے تھے یا جب کہ وہ واقعات وحالات رونما ہوئے تھے۔ اس طریقہ سے اہل اِسلام کے جذبۂ اِستقامت اور بصیرت وہدایت میں اِضافہ ہوتا رہتا تھا اور قرآن کی حقانیت پر اور زیادہ یقین ہو جاتا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی حکمت
اُمت کے اُمی (ناخواندہ) ہونے کی بنا پر یہی مناسب تھا کہ قرآن تدریجی مراحل میں نازل کیا جاتا تاکہ حفظ قرآن اور فہم قرآن ، اُمت پر آسان ہو جائے نیز عادات جاہلیہ ایک ایک کر کے دور ہو جائیں اور عبادات کی عادات ، فطری طریقہ سے ان کے قلب ونظر میں جگہ پکڑ لیں۔واﷲ أعلم بالصّواب۔
مشرکین مکہ کے اس اعتراض (قرآن تدریجاکیوں اترا؟) کا جواب قرآن حکیم نے ان الفاظ میں دیا۔
’’ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْئَانُ جُمْلَۃً وٰحِدَۃً کَذٰلِکَ لِنُثَبِِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا ‘‘(الفرقان:۳۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حروفِ سبعہ پر قرآن کا نزول
صحیح بخاری ، کتاب فضائل قرآن کی ایک حدیث میں سرور عالم ﷺکا ارشاد ہے۔
’’إِنَّ ہٰذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَئُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ‘‘ (صحیح بخاری :۴۹۹۲)
’’ تحقیق یہ قرآن سات حروف پر نازل کیاگیا ہے پس پڑھو اس میں سے اس طریقے پر جو تمہارے لیے آسان ہو ۔‘‘
اس حدیث میں سات حروف پر قرآن کے نازل ہونے سے کیا مراد ہے؟
علماء مفسرین ومحققین کا اس میں شدید اِختلاف ہے اور یہ مسئلہ علوم قرآنیہ میں مشکل ترین مسئلہ شمار کیا جاتاہے۔ علامہ ابن عربی﷫ نے اس مسئلہ میں پینتیس اَقوال نقل کیے ہیں۔ ( الزرکشي البرہان في علوم القرآن:۱؍۲۱۲)
مذکورہ بالا حدیث ، علماء کے نزدیک معنی کے اعتبار سے متواتر ہے جیسا کہ مشہور محدث امام ابوعبید قاسم بن سلام ﷫ اور معروف امام علامہ ابن الجزری﷫ نے اس کے تواتر کی تصریح فرمائی ہے اور یہ واقعہ بھی متعدد محدثین نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان﷜نے منبر نبوی علی صاحبہا الصلوٰت پر اِعلان فرمایا کہ وہ تمام حضرات کھڑے ہو جائیں جنہوں نے بزبان رسالت مآب 1سے یہ (مذکورہ) حدیث سنی ہے چنانچہ اس پر صحابہ کرام﷢ کی اتنی بڑی جماعت کھڑی ہو گئی جس کوشمار نہ کیا جاسکا۔ ( النشر في القراء ات العشرلابن الجزري)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سات حروف پر قرآن پڑھنے کی اِجازت کا فلسفہ
سات حروف پر قرآن پڑھنے کی اِجازت کا اصل فلسفہ اُمت محمدیہﷺ کے لئے تلاوت میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے اس اُمت کو یہ سہولت عطا فرمائی ہے تاکہ جوشخص ایک طریقہ سے کوئی لفظ نہیں پڑھ سکتا تو دوسرے طریقے سے پڑھ لینے پر قادر ہو جائے۔ چنانچہ اس اَمر کی وضاحت صحیح مسلم شریف کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس کے راوی حضرت اُبی بن کعب﷜ہیں سرور عالمﷺبنو غفار کے تالاب کے پاس تھے آپ کے پاس حضرت جبرائیل﷤ حاضر ہوئے او رکہا کہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کی اُمت قرآن کو ایک حرف پر پڑھے آپ نے فرمایا میں اللہ تعالی سے معافی اوربخشش مانگتا ہوں میری اُمت یہ طاقت نہیں رکھتی پھر جبریل﷤ دوبارہ حاضر ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالی آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ کی اُمت قرآن کودو حرفوں پر پڑھے۔ آپ نے فرمایا میں اللہ تعالی سے معافی اور بخشش مانگتا ہوں میری اُمت میں اس قدر طاقت نہیں ہے پھر وہ تیسری مرتبہ آئے اور کہا کہ اللہ تعالی نے آپ کی اُمت کو تین حروف پر قرآن پڑھنے کا حکم دیا ہے آپ نے معافی اور مغفرت طلب کی کہ میری اُمت اس کی طاقت نہیں حتی کہ
ثم جائہ الرابعۃ فقال: ’’إِنَّ اﷲَ یَأْمُرُکَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُکَ الْقُرْآنَ عَلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَأَیُّمَا حَرْفٍ قَرَؤُوْا عَلَیْہِ فَقَدْ أَصَابُوْا‘‘۔ (صحیح مسلم: ۱۹۰۶)
پھر وہ چوتھی بار آئے او رعرض کیا کہ اللہ تعالی نے آپ کوحکم دیا ہے کہ آپ کی اُمت قرآن حکیم کو سات حرفوں پر پڑھے پس وہ جس حرف پر بھی پڑھیں گے ان کی قراء ت درست ہو گی ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قولِ راجح
ہمارے علماء محققین کے نزدیک’ قرآن کے سات حروف‘ کی سب سے بہتر تشریح یہ ہے کہ حدیث پاک میں حروف کے اختلاف سے مراد قراء توں کا اختلاف ہے یعنی قرآن پاک کی جو قراء تیں اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئی ہیں ان میں جوباہمی اختلافات پائے جاتے ہیں وہ سات قسموں پر مشتمل ہیں اور یہ قول سب سے پہلے حضرت امام مالک﷫ کی طرف منسوب ہے۔
 
Top