• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حروف سبعہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب : 9
حروف سبعہ

تعریف:
اس سے مراد قرآن کریم کی قراءت کا وہ انداز ہے جس میں لفظ کو پڑھنے کی سات مختلف صورتیں پیدا ہوں۔ اسے حروف سبعہ کہا جاتا ہے۔یعنی قرآن مجید کے بعض حروف کی ادائیگی اگر قریشی لہجہ میں مشکل ہو تو بصورت مجبوری اسے کسی اور عربی لہجے میں یوں ادا کیا جائے کہ حروف بدل جائیں مگر معنی نہ بدلے ۔

سبعہ حروف کی دلیل:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس آیت{فاقرؤوا ما تیسر منہ } پر یہی عنوان باندھ کر حروف سبعہ کی دلیل یہ حدیث دی ہے:
إِنَّ ہَذَا الْقُرآنَ أُنْزِلَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ۔
یہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے تو جو بھی تمہیں آسان لگے اسے پڑھو۔
امام ابن حجرؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
حدیث میں جو آسانی مراد ہے وہ آسانی آیت والی نہیں۔کیونکہ آیت میں آسانی سے مراد اس کی قلت وکثرت ہے۔ اور حدیث میں آسانی سے مراد وہ ہے جو قاری قرآن کو مستحضر یعنی یاد ہو۔ اس طرح آیت میں کمیت اورحدیث میں کیفیت مراد ہے۔ (فتح الباری ۱۳؍۶۴۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سیدناعمر فاروقؓ فرماتے ہیں:
میں نے عہد رسالت میں ہشام بن حکیمؓ کو سورۃ فرقان تلاوت کرتے ہوئے سنا۔وہ اسے بہت سے حروف پر پڑھتے جارہے تھے جو آپ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میں نے نماز ہی میں ان کی خبر لینا چاہی۔ بمشکل صبر سے کام لیا یہاں تک کہ انہوں نے سلام پھیرا۔ پھر میں نے انہیں ان کی چادرمیں لپیٹا اور پوچھا : یہ سورت آپ کو کس نے پڑھائی جو میں نے ابھی آپ سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے۔ میں نے کہا: آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ بخدا رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھی یہ سورۃ پڑھائی مگر اس طرح نہیں جس طرح میں نے آپ سے سنی۔ یہ کہتے ہوئے میں ان کو زبردستی بارگاہ نبوی ﷺ میں لے گیا اور عرض کی : میں نے ان سے سورہ فرقان ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنی ہے جو آپ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائی ۔ آپﷺ نے فرمایا: "عمر انہیں چھوڑ دو"۔ ہشام: اسے پڑھو۔ ہشام نے سورت اسی قراء ت پر پڑھی جو میں نے ان سے سنی تھی۔ آپﷺنے فرمایا:یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: عمر! تم پڑھو ۔ میں نے اسی قراءت میں اسے پڑھا جس میں آپ نے مجھے پڑھائی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے۔بے شک یہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ جیسے آسانی ہو پڑھ لیا کرو۔(متفق علیہ)

راوی کہتے ہیں:
ایک دفعہ سیدنا عثمانؓ نے منبر پر فرمایا:
جس شخص نے رسول اکرم ﷺ کی یہ حدیث سنی ہو کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ میں اسے قسم دیتا ہوں کہ کھڑا ہو کر اس کی شہادت دے۔ یہ سن کر بے شمار صحابہ کرامؓ شہادت کے لئے کھڑے ہوئے۔ سیدناعثمانؓ نے فرمایا: میں بھی ان کے ساتھ شہادت دیتا ہوں۔(مسند ابی یعلی: مسند عثمان)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک بار رسول اکرم ﷺ جبریل علیہ السلام سے ملے اور فرمایا: جبریل! مجھے امی قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ان میں بوڑھے مرد اور عورتیں بھی ہیں اور بچے بچیاں بھی۔ کوئی ایسا بھی ہے جس نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ جبریل امین نے فرمایا: اے محمد! قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔(سنن ترمذی:۲۹۴۴)

یہ احادیث تین صورتیں پیش کرتی ہیں:
۱۔ جبریل امین اور آپ ﷺ کے درمیان مکالمہ۔
۲۔ قراء ت میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف اور اپنے اختلاف کو ختم کرنے کے لئے ان کا رسول اکرم ﷺ کو حکم بنانا۔
۳۔آپ ﷺ کی یہ خبر کہ قرآن جس حرف میں چاہو پڑھ لو۔

ان احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن سبعہ حروف پر نازل ہوا ہے۔متفق علیہ حدیث ہونے کے ناطے حروف سبعہ کی حقیقت میں کسی بھی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس لئے امام ابوعبید القاسم بن سلامؒ نے سبعہ حروف والی حدیث کومتواتر قرار دیا ہے۔حافظ ابن الجزریؒ نے بھی اس کی تمام اسانید کا تتبع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث کوسیدنا عمر بن خطابؓ، ہشام بن حکیمؓ، عبد الرحمن بن عوفؓ، ابی بن کعبؓ، عبد اللہ بن مسعودؓ، معاذ بن جبلؓ، ابوہریرہؓ، عبد اللہ بن عباسؓ، ابوسعید خدریؓ، حذیفہ بن یمانؓ، ابوبکرہؓ، عمرو بن العاصؓ، زید بن ارقمؓ، انس بن مالکؓ، سمرہ بن جندبؓ، عمر بن ابی سلمہؓ، ابوجہیمؓ، ابوطلحہ انصاریؓ اور ام ایوب انصاریہؓ جیسے صحابہ کرام نے روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مقصد سبعہ حروف:
احادیث تو بہت ہی زیادہ ہیں۔ قرآن کو سبعہ حروف پر نازل کرنے کا مقصدامت کے لئے آسانی پیدا کرنا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
مجھے جبریل امین نے قرآن مجید ایک حرف کے مطابق پڑھایا، میں ان سے مزید حروف کی درخواست کرتا رہا اور وہ بھی (اللہ تعالی کے حکم سے) مجھے مزید اجازت دیتے رہے یہاں تک کہ وہ سات حروف تک رک گئے۔(مسلم: ۱۹۰۲)

اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن شہاب ؒزہری فرماتے ہیں:
بَلَغَنِیْ أَنَّ تِلْکَ السَّبْعَۃَ الأَحْرُفَ إِنَّمَا ہِیَ فِی الأمْرِ الَّذِی یَکُونُ وَاحِداً، لاَ یَخْتَلِفُ فِی حَلالٍ وَلَا حَرَامِ۔
مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ سبعہ حروف وہ ہیں جو کسی معاملے میں ایک ہی حکم دیتے ہوں۔ جو حلال وحرام میں اختلاف نہیں کرتے۔

ایک بار رسو ل اللہ ﷺ بنو غفار کے تالاب کے پاس تھے کہ جبرائیل ؑ آگئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپ ﷺ کی امت قرآن کو ایک ہی حرف پر پڑھے۔ آپﷺ نے فرمایا:میں اللہ سے معافی اور مغفرت مانگتاہوں میری امت میں اس کی طاقت نہیں ہے۔ پھر وہ دوسری بار آئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپﷺ کی امت قرآن کو دو حرفوں پر پڑھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اللہ سے معافی اور مغفرت مانگتاہوں میری امت میں اس کی طاقت نہیں ہے۔پھر وہ تیسری بار آئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو حکم دیا ہے کہ آپﷺ کی امت قرآن کوتین حرفوں پر پڑھے۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا:میں اللہ سے معافی اور مغفرت مانگتاہوں میری امت میں اس کی طاقت نہیں ہے۔پھر وہ چوتھی بار آئے اور فرمایا:اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو حکم دیا ہے کہ آپﷺ کی امت قرآن کو سات حرفوں پر پڑھے۔ پس جس حرف پر وہ پڑھے گی ان کی وہ قراء ت درست ہو گی۔ (صحیح مسلم: ۱۹۰۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وجوہات:
ابن الجزری اس ضمن میں لکھتے ہیں:

٭…سات حروف پر نزول قرآن کامقصد یہ تھا کہ امت کے لئے تخفیف ہو۔ یہ آسانی امت کی فضیلت و عظمت کی وجہ سے عطا کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں یہ دعائے رسول کی قبولیت کا اثر بھی تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء سابقین کو اپنی اپنی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا جاتا تھا۔ مگر رسو ل اللہ ﷺؐ کو تمام سرخ و سیاہ اور عرب و عجم کی طرف مبعوث کیا گیا تھا۔ قرآن عربوں کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ ان کی بولی میں بڑا فرق تھا۔ان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ اپنی بولی کے علاوہ دوسروں کی زبان بولیں۔ بلکہ عربوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سکھانے سے بھی دوسروں کی زبان نہیں سیکھ سکتے تھے"۔(مناہل العرفان ۱؍۱۲۹)

٭… قریشی لہجہ سے متعدد قبائل کو مانوس کرنے ، ان کی لسانی عصبیت کو ختم کرنے اور قرآن کریم کے قریب لانے کے لئے تدریج وترویج کا عمل ہی مثبت نتائج دکھا سکتا تھا جس کے لئے یہ آسمانی ہدایت دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ عرب قبائل کو قرآن کے بعض حروف کوانہی کے لہجے میں پڑھنے کی اجازت مل جائے۔

٭…جبریل امین خود ان حروف کو لے کر آپ ﷺ پر اترے اور ان تمام کو پڑھا بھی گئے ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو یہ حروف پڑھائے اور لوگوں نے بھی ان حروف کو آپ ﷺ سے پڑھا۔ کیا یہ معجزہ نہیں؟

٭…قرآن ایک حرف پرہو یا سات حرف پر یہ سب اللہ عزوجل کی طرف سے نازل ہوئے ہیں رسول ﷺ نے تو اس میں صرف ابلاغ کا کردار ادا کیا ہے۔اور امانت ادا کرکے رسالت کا فریضہ بخوبی نبھایا۔

٭… اس سے مراد یہ نہیں کہ قرآن کا ہر لفظ سات طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے بلکہ اس سے مراد کہ قرآن کریم اپنے دامن میں وسعت لئے اس شرط پر اترا ہے کہ اختلاف کی صورتیں ان سات سے زائد نہ ہونے پائیں۔خواہ ایک لفظ کی ادائیگی میں کتنا ہی تنوع پیدا ہوجائے یا خواہ ایک ہی کلمہ کی قراء ت اور اس کے مختلف طریقوں کی بھی بھرمار ہوجائے۔

٭…پیارے رسول ﷺ کی دعائے رعایت کو بھی شرف قبولیت بخشا کہ جبریل امین آپ ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکَ أَنْ تَفْرَأَ الْقُرْآنَ عَلَی حَرْفٍ۔
اللہ تعالی آپ کو حکم دیتے ہیں کہ قرآن کریم کو ایک حرف پر پڑھئے۔آپ ﷺ نے فرمایا:
أَسْأَلُ اللّٰہَ مُعَافَاتِہِ وَمَعُونَتِہِ، إِنَّ أُمَّتِی لَا تُطِیْقُ ذَلِکَ۔
میں اللہ تعالی سے اس کے عفو درگذر کا خواستگار ہوں اور اس کی مدد کا بھی۔ میری امت اس کی ہمت نہیں رکھتی۔آپ مسلسل یہی سوال کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے سات حروف کی رعایت دے دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حروف سبعہ سے مراد:
علماء نے لکھا ہے : لفظ حرف:
یا تو حرف ہجاء کو کہتے ہیں یا پھر لغت کو۔ جیسے حرف قریش، یا حرف ہذیل۔ مراد لغت قریش یا لغت ہذیل۔اسی طرح اس سے مراد شے کا کنارہ، اس کی دھار، یا پہلو بھی ہے۔حدیث میں ہے:
فَجَائَ عُصْفُوْرٌ فَوَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِیْنَۃِ فَنَقَرَ نَقْرَۃً۔۔
ایک چڑیا آئی اور وہ سفینہ کے کنارے پر بیٹھ گئی تو اس نے چونچ سے ایک سوراخ کھودا۔
قرآن کریم میں بھی اسی معنی میں یہ حرف مستعمل ہوا ہے: {ومن الناس من یعبد اللہ علی حرف} لوگوں میں کچھ اللہ کی عبادت پہلو پر کرتے ہیں۔ یعنی خوش ہوئے تو بھول گئے ۔تکلیف ہوئی تو یاد آئی۔
حرف:
قراء ت کی ایک قسم کو بھی کہتے ہیں جیسے: حرف ابن مسعود یعنی ان کی قراء ت۔رہا لفظ سبعۃ: یہ عدد ہے جو چھ اور آٹھ کے درمیان ہوتا ہے۔مگر عربی میں کبھی اس کی اکائیوں سے مراد مبالغہ بھی ہوتا ہے۔ ستر کا لفظ دہائیوں میں اور سات سو کا لفظ سینکڑوں میں مبالغہ کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عرب قبائل لکھنے پڑھنے کے عادی نہیں تھے قرآن جب سنتے تو بھلا لگتا مگر اپنے عادی لہجے سے نکل کر اسے ویسے ہی پڑھنا جو لغت قریش کا لہجہ تھا ان کے لئے ناممکن اور مشکل تھا۔ نیز اس دور کی کتابت میں لفظ کی شکل تو ایک تھی مگر اسے پڑھنے کے متعدد امکانات تھے۔ اس لئے حروف سبعہ کے تعین کے لئے کہ وہ کیا ہے؟ علماء کے اس پر تقریباً ۳۵اقوال ہیں۔ جو سب ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور سبھی کا احتمال بھی ہے۔اس لئے ہر ایک نے اس کے معنی ومراد بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔بلکہ اس موضوع پر کتب بھی لکھی ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس حدیث پر ایک بہترین شرح ہے جو مطبوع ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہشام بن حکیم اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی قراء ت ایک دوسرے سے مختلف تھی۔دونوں قریشی تھے۔ دونوں کی عربی لغت بھی قریش کی زبان تھی۔ قرآن کریم بھی لغت قریش میں نازل ہوا پھر ان دونوں میں اختلاف کیا تھا؟ جسے
ہَکَذَا أُنْزِلَتْ اور إِنَّمَا أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ
کہہ کر ختم کیا گیا۔نیز اس حدیث کی تائید میں متعدداحادیث اور بھی ہیں نیز یہ حدیث کتب صحاح وسنن میں موجود ہے۔ دوسرے قبائل اپنے لہجات کے ساتھ تو قریشی لہجہ اپنانے کے محتاج رہے مگر خود قریشیوں میں قراء ت کا اختلاف ہے؟ اس کا کیا کیاجائے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علماء نے ان احادیث کو رد کرنے کی بجائے سوچ بچار کے دروازے کھلے رکھے اور سبعہ حروف کے مختلف مفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جنہیں ہم ہم چار گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔پہلا گروہ دو رائے رکھتا ہے:

پہلی رائے:
یہ حدیث مشکل اور متشابہ میں سے ہے۔ اس لئے اس کا معنی نہیں جانا جاسکتا۔اس لئے کہ حرف ایک مشترک لفظ ہے جس کے متعدد معانی ہیں اس وجہ سے حدیث میں اس کاکوئی معنی متعین نہیں کیا جاسکتا۔اس کا جواب یہی ہے کہ متشابہ اسے کہتے ہیں جو مخفی ہو۔ نیز آپ کو جب سبعہ حروف میں قرآن کریم کو پڑھنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے امت کو یہی حکم دیا اور امت نے اسے پڑھا آپ نے اس اختلاف کو سننے کے باوجود فرمایا:
اسی طرح قرآن کی یہ آیت اتری۔
اس لئے یہ مشکل ہے نہ متشابہ۔

دوسری رائے:
سات سے مراد حقیقی سات نہیں بلکہ یہ ایک رمزیہ بات ہے جس سے یہ اشارہ کیا جاتا ہے کہ یہ قرآن اپنی لغت، بیان، معانی اور اعجاز میں کامل ترین ہے۔یہ خیال بھی درست نہیں اس لئے کہ حدیث رسول میں سات ہی مراد ہے۔دیکھئے حدیث ابن عباسؓ: میں آپ سے مزید مانگتا تو آپ مجھے وہ بھی اضافۃً عطا کردیتے۔پھر حدیث ابیؓ میں: اللہ تعالی آپ ﷺ کو حکم فرماتے ہیں کہ آپ کی امت قرآن کو ایک حرف پر پڑھے۔ اسی طرح دو حرف پر، تین پر اور پھر سات پر ۔ یہ سب سات عدد ہی ہے نہ کہ رمز۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا گروہ:
اس کا خیال ہے کہ حروف سبعہ کا تعلق معانی سے ہے نہ کہ الفاظ سے۔پھر ان کے متعدد اقوال ہیں۔مثلاً:

۱۔ سات حروف سے مراد یہ سات معانی ہیں: امر، زجر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔
۲۔ بلکہ یہ مراد ہیں: وعد ووعید، حلال وحرام، مواعظ، امثال اور احتجاج۔
۳۔ نہیں بلکہ محکم، متشابہ، ناسخ ومنسوخ، عموم وخصوص، قصص وغیرہ مراد ہیں۔

ابن عطیۃ ان اقوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ بہت ہی کمزور دلیل ہے کیونکہ یہ سات معانی احرف نہیں ہیں نیز یہ بھی اجماع ہے کہ ان حروف کے معانی میں اتنی وسعت نہیں کہ وہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کریں۔اور نہ ہی ان معانی میں یہ حروف کوئی تبدیلی کرسکتے ہیں۔(تفسیر ابن عطیہ ۱؍۳۵) ابن قتیبہ کہتے ہیں: اس حدیث میں اس قسم کے معانی بتانے کی کوئی تک ہی نہیں۔(تأویل مشکل القرآن: ۲۶) ۔الماوردی کہتے ہیں: یہ بات ہی غلط ہے آپ ﷺ نے ان حروف میں ہر حرف پر قراء ت کرنے کا اورایک حرف کو دوسرے حرف سے تبدیل کرنے کا بھی اشارہ دیاہے۔اہل اسلام کا اجماع ہے کہ کسی آیت کو دوسری آیت میں احکام کی طرح بدلنا حرام ہے۔(البرہان للزرکشی ۱؍۲۱۷)۔

خلاصہ یہی ہے کہ احادیث رسول میں جو تاکید اور اجازت ہے وہ اختلاف قراء ت کی ہے نہ کہ معانی کی۔اس لئے کہ صحابہ میں جب اختلاف ہوا تو آپ ﷺ نے ان میں ہر ایک کی قراء ت کو سنا اور سب کی آپ ﷺ نے تصویب فرمائی۔اگر ان میں سے کسی کی قراء ت تحریم کا مفہوم دیتی اور دوسرے کی تحلیل کا تو کسی کے پاس حق نہ ہوتا بلکہ حلال وحرام کی صورت میں ان میں ایک مصیب ہوتااور دوسرا غلط۔ اس لئے کہ حلال وحرام اکٹھے نہیں ہوسکتے ورنہ قرآن پاک میں تناقض ہوتا۔
اصل حکمت یہی تھی کہ سبعہ حروف کے ذریعے امت کو آسانی ورحمت سے نوازا جائے۔ان مذکورہ معانی کو مراد لینے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مزید یہ کہ یہ الفاظ ومعانی تو قرآن پاک میں موجود ہیں پھر یہ معانی سبعہ حروف سے نکالنا بھی کہاں تک درست ہے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسرا گروہ:
احرف سبعہ سے مراد وہ صورتیں ہیں جن سے کلمات قرآنیہ میں تغایر اور اختلاف واقع ہوتا ہے اور جن سے گریز نہیں کیا جاسکتا ۔جوبالاتفاق سات ہیں۔ ایسے حروف یا الفاظ جن میں اختلاف کی سات صورتیں ہوں مگر قراء ت کا خط ایک ہی ہو۔ امام ابن قتیبہؒ، امام رازیؒ، نے یہی معنی لکھا ہے اور ابن الجزریؒ نے بھی اسی مفہوم کو پسند کیا ہے۔یہ صورتیں درج ذیل ہیں:

٭۔ اسماء کے واحد، تثنیہ، جمع یا ان کے مذکر ومؤنث ہونے میں اختلاف۔ جیسے: {وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُونَ} (المؤمنون:۸)
اسے أمانَتِہم واحد بھی پڑھا گیا ہے۔واحد کا لفظ بیک وقت ایک ہی ذمہ داری کو نبھانے پر زور دیتا ہے۔یا {لا یقبل} کو {لا تقبل} پڑھنا۔

٭ افعال کی صرفی تبدیلی کا ہوجانا مثلاً: امر کوماضی بنادینا جیسے: {فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْْنَ أَسْفَارِنَا۔۔۔} (سبا:۱۹) یہاں اسے بَاعَدَ بھی پڑھا گیا۔ ایک اورقراءت میں بعِّد بھی۔جس میں معنوی شدت آگئی۔یا اعراب کی مختلف صورت کا واقع ہوجانا جیسے: {وَلاَ یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَلاَ شَہِیْدٌ۔۔۔} (البقرۃ:۲۸۲) اسے یُضارُّ بھی پڑھا گیا۔

٭ پچھلی آیت پر عطف کرکے کچھ لفظوں کی کمی ہوجانا جیسے: { وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُنثَیں} (لیل:۳) اسے وما خلق کے بغیر صرف والذکرِ والأنثی پڑھا گیا۔یا{فإن اللہ ہو الغنی الحمید} کو بغیر ہو کے پڑھنا۔

٭ مختلف قبائلی لہجات کا قریشی لہجے سے فتحہ ، امالہ، تفخیم، ترقیق، اظہار وادغام کا اختلاف مثلاً:
{ہَلْ أتَاکَ حَدِیْثُ مُوسَی } (النازعات:۱۵) اس میں لفظ أتٰی اور موسٰی کو فتح کے علاوہ، امالہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا۔

تبصرہ:
ان صورتوں پر اگر غور کریں تو یہ بھی وجوہ قراء ات کا اختلاف ہے ان سے سبعہ حروف کی وضاحت نہیں ہوتی۔نہ ہی یہ سبعہ حروف کی دلیل ہیں۔اس رائے یا قول کے داعی سبعہ حروف کی وجوہات کے تعین پر مختلف ہیں جیسا کہ مثالوں سے پتہ چلتا ہے۔قراء ات شاذہ ومنکرہ وضعیفہ کو سبعہ حروف کی مثالیں یا دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ بہرحال یہ رخصت وتیسیر تھی تاکہ امت پر قرآن کی قراء ت مشکل نہ ہواور ایک زبان یا لہجے سے دوسری زبان ولہجے کی طرف منتقل ہونا ان کے لئے دشوار نہ ہو۔
 
Top