سوء خاتمہ کے اسباب
اب ذیل میں ہم اختصارکے ساتھ سوء خاتمہ کے اسباب بیان کرتے ہیں:
1- توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرنا:
ہرمکلف پرواجب ہے کہ وہ ہرلمحہ اپنے تمام گناہوں سے اللہ تعالى سے توبہ کرے ,اللہ کا ارشاد ہے: {وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} (سورة النــور:31)
"اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کروتاکہ فلاح پاؤ"
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اگلے ,پچلھے سب گناہ بخش دئے گئے تھے لیکن اسکے باوجود آپ ایک دن میں سومرتبہ اللہ سے توبہ کرتے تھے ,حضرت اغرمزنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسو ل صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو,بے شک میں ایک دن میں سومرتبہ اللہ سے توبہ کرتا ہوں"(صحیح مسلم)
اورنبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"گناہوں سے توبہ کرنے والا شخص ایک بے گناہ کی طرح پاک ہوجاتا ہے " اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اوراسکی سند حسن ہے-
جن حیلوں کے ذریعہ ابلیس لوگوں کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے ان میں ایک کامیاب ترین حیلہ یہ ہے کہ وہ توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرواتا ہے,وہ گنہگارکووسوسہ دیتا ہے کہ وہ توبہ کرنے میں جلدی نہ کرے ,کیونکہ اسکے سامنے ایک لمبا زمانہ ہے,اگراسی وقت توبہ کرلیا اورپھرگناہوں کی طرف لوٹ گیا تودوبارہ اسکی توبہ قبول نہیں ہوگی اوروہ جہنمی ہوجائے گا,یااسکو یہ وسوسہ دلاتا ہے کہ جب وہ پچاس ساٹھ سال کی عمرکا ہوجائے توخالص توبہ کرلے,مسجد کولازم پکڑلےاورنیک کام زیادہ سے زیادہ کرے,لیکن ابھی وہ اپنی جوانی اورعمرکے حسین مرحلہ میں ہے,لہذا وہ اپنے نفس کوآزاد رکھے,اوراسی وقت سے اللہ کی اطاعت کا پابند ہوکرنفس کومشقت میں نہ ڈالے-
توبہ کے ٹال مٹول کے سلسلہ میں یہ ابلیس کے بعض حربے ہیں-
بعض سلف صالحین کا قول ہے کہ میں تم کوٹال مٹول سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ ابلیس کا سب سے بڑا لشکرہے,دانشمند مومن جواللہ کی محبت کی خاطراوربرے خاتمہ کے ڈرسے ہروقت گناہ سے توبہ کرتا ہے ,اورحد سے بڑہ جانے والا,ٹال مٹول کرنے والا جواپنی توبہ کومؤخرکردیتا ہے,ان دونوں کی مثال اس مسافرقوم کی ہے جوکسی بستی میں داخل ہوئی تودانش مند مومن نے جاکرمناسب زادراہ خریدا اورکوچ کرنے کی تیاری مکمل کرکے بیٹھ گیا,لیکن حد سے بڑھ جانے والا دوسراشخص ہردن یہی کہتا رہا کہ میں کل تیاری کروں گا,اسی اثناء میں امیرکارواں نے کوچ کرنے کا اعلان کردیا اوراسکے پاس کچھ بھی زادراہ نہیں-دنیا میں لوگوں کی یہی مثال ہے,دانش مندمومن کی جب بھی موت آتی ہے تووہ نادم نہیں ہوتا,مگرگنہگاراورعمل میں کوتاہی کرنے والا یہی کہتا ہے کہ اے میرے رب !مجھے دنیا کی طرف واپس کردے تاکہ میں چھوڑے ہوئے نیک کام کرلوں-