• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسن خاتمہ اس کے وسائل وعلامات نیزسوء خاتمہ پرتنبیہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حسن خاتمہ
اس کے وسائل وعلامات نیزسوء خاتمہ پرتنبیہ

تالیف​
ڈاکٹرعبد اللہ بن محمد المطلق

اردو ترجمہ
خورشید احمد عبد الجلیل
مراجعہ
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی رحمت ہرچیزکومحیط ہٍے اورجس نے ہرچیزکوشمارکررکھا ہے ,اپنے بندوں میں سے جس پرچا ہا رحم فرمایا اوردنیا میں ان کیلئے وہ سامان مہیا کردئے جن کے ذریعہ آخرت میں ان کے درجات بلند ہوں,توان لوگوں نے اس کی فرمانبرداری پرمداومت کی اوراس کی عبادت میں جدوجہد کی,اگران کوخوشحالی پہنچی توشکریہ اداکیا توان کیلئے بہترہوا,اوراگران کوکوئی تکلیف پہنچی توصبرکیا اوران لوگوں کےزمرے میں آگئے جن کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: { إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ} (سورة الزمر:10)
"صبرکرنے والوں کوانکا پوراپورا بے شماراجردیا جاتا ہے "-
اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد صلى اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اوراسکے رسول ہیں جوسارے جہاں کیلئے رحمت بناکربھیجےگئے ,اللہ تعالى آپ پراورآپ کے آل واصحاب پررحمت وسلامتی نازل فرمائے-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس دنیا میں انسان کی عمرہی اسکا حصہ ہے ,اگراس نے آخرت میں فائدہ دینے والے امورکے لئے عمرکا صحیح استعمال کیا تواپنی تجارت میں کامیاب ہے,اوراگراس نے عمرکومعصیت اوربرے کاموں میں استعمال کیا اوراسی برے خاتمہ پراس نے اللہ سے ملاقات کی تووہ خائب وخاسرہے,کتنی حسرتیں زمین کے نیچے دفن ہوگئیں !عقلمند وہی شخص ہے جواللہ کے محاسبہ کرنے سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرلے اورقبل اسکے کہ اسکے گناہ اس کی ہلاکت وبربادی کا سبب بنیں وہ اپنے گناہوں سے ڈرجائے ,ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"مومن اپنے گنا ہوں کوایسا سمجھتا ہے گویا کہ وہ کسی پہاڑکے نیچے بیٹھا ہو اورڈررہا ہوکہ وہ اس پرٹوٹ پڑے"(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
کتنے لوگ ایسے ہیں جوکسی صغیرہ گناہ پرمصررہے یہاں تک کہ وہ اس سے مانوس ہوگئےاوروہ گناہ ان پرآسان ہوگیا,کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ جس کی نافرمانی کررہے ہیں وہ ذات کتنی عظیم ہے ,نتیجہ یہ ہوا کہ یہی گناہ ان کے سوء خاتمہ کا سبب بنا ,حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم لوگ بہت سے ایسے کام کرتے ہوجوتمہاری نگاہ میں بال سے زیادہ ہلکے ہیں,لیکن رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم ان کوہلاک کردینے والے گناہ شمارکرتے تھے –اللہ تعالى نے اپنی کتاب قرآن مجید میں تمام مومنوں کوحسن خاتمہ کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے ,چنانچہ فرمایا:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ} (سورة آل عمران :102)
"اے ایمان والو!اللہ تعالی سے ڈروجتنا اس سے ڈرنا چاہئے ,اوردیکھومرتے دم تک مسلمان ہی رہنا"-
اورفرمایا :
{وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ} (سورة الحجر:99)
"اوراپنے رب کی عبادت کرتےرہویہاں تک کہ تم کوموت آجائے"-
لہذا تقوی اورعبادت کا حکم موت آنے تک برقرارہے تاکہ بندہ حسن خاتمہ کی سعادت سےبہرہ مند ہو,نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ اپنی زندگی کا ایک لمبہ عرصہ فرمانبرداری کرتے اورگنا ہوں سے دوررہتے ہیں,لیکن وفات سے کچھ پہلے گناہ اورمعصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جوانکے برے خاتمہ کا سبب بن جاتا ہے,اللہ کے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"بےشک آدمی جنتیوں والا عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اسکے اورجنت کے درمیان صرف ایک گزکا فاصلہ رہ جاتا ہے ,پھرکتاب اس پرغالب آجاتی ہے اوروہ جہنمیوں کا عمل کرنے لگتا ہے اورجہنم میں داخل ہوجاتا ہے"(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے کہ ایک مسلمان نے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں بڑی بہادری دکھائی ,صحابہ کرام کو اسکا کارنامہ بڑا اچھا لگا اورکہ پڑے کہ آج فلاں کی طرح ہم میں سے کسی نے دلیری نہیں دکھائی,رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لیکن سن لو!وہ جہنمی ہے,توبعض صحابہ نے کہا:اگروہ جہنمی ہے توہم میں سے جنتی کون ہے؟ قوم میں سے ایک آدمی نے کہا :میں اسکے پیچھے جارہا ہوں اوردیکھتا ہوں کہ وہ کیا کرتا ہے ,چنانچہ یہ صحابی اس کے پیچھے نکلے ,وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ آدمی شدید زخمی ہوا اورمرنے کی جلد ی کی,چنانچہ اس نے اپنی تلوارزمین پررکھی اوراسکی دھاراپنے سینہ پررکھا ,پھراپنا پورا بوجھ اس پرڈال کراپنے آپ کوقتل کرڈالا,یہ صحابی رسول صلى اللہ علیہ وسلم کےپاس واپس آئے اورکہا :میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں,رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ کیا ؟کہا کہ جس آدمی کے بارے میں آپ نے ابھی ابھی جہنمی فرمایا تھا اورلوگوں پریہ بات گراں گزری تومیں نے کہا کہ میں تم لوگوں کواسکی اطلاع دوں گا,چنانچہ میں اسکی تلاش میں نکلا,دیکھا وہ سخت زخمی تھا تواسنےمرنے میں جلدی کی ,تلوارکے دستہ کوزمین پررکھا اوراسکی دھارکواپنے دونوں چھاتیوں کے درمیان ,پھراس پراپنا پورا بوجھ ڈال کراپنے آپ کوقتل کرڈالا,اس وقت اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"آدمی لوگوں کی نگاہ میں جنتیوں والا کام کرتا ہے حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے,اورایک شخص لوگوں کی نگاہ میں جہنمیوں والا کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے"
اوربعض روایات میں یہ اضافہ ہے :" اعمال کا دارومدارخاتمہ پرہے"(صحیح بخاری وصحیح مسلم)-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے مؤمن بندوں کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ ان کے اندرایک ساتھ اللہ کا خوف اورحسن عمل دونوں پایا جاتا ہے,
چنانچہ فرمایا:
{إِنَّ الَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ وَالَّذِينَ هُم بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ أُوْلَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ} (سورة المؤمنون:57- 06)
"یقیناً جولوگ اپنےرب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں ,اورجواپنے رب کی آیتوں پرایمان رکھتے ہیں,اورجواپنےرب کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کرتے ,اورجولوگ دیتے ہیں جوکچھ دیتے ہیں اوران کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنےوالے ہیں,یہی لوگ ہیں جوجلدی جلدی بھلائیاں حاصل کررہے ہیں اوریہی ہیں جوان کی طرف دوڑجانے والے ہیں"-
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہی حالت تھی ,امام احمد نے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا:"کاش کہ میں کسی مومن بندے کے پہلومیں ایک بال ہوتا- آپ رضی اللہ عنہ اپنی زبان کوپکڑکرکہتے تھے کہ اسی نے مجھ کومختلف گھاٹ پراتاراہے"-
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دوچیزوں سے بہت زیادہ ڈرتے تھے :لمبی آرزو اورنفس کی پیروی فرمایا:لمبی آرزو آخرت کوبھلادیتی ہے اورنفس کی پیروی حق سے روک دیتی ہے – اورفرمایا :دنیا پیٹھ پھیرکربھاگ رہی ہے اورآخرت تیزی کے ساتھ آگے بڑھی چلی آرہی ہے ,اوران میں سے ہرایک کی اولاد ہیں,توتم آخرت کی اولاد بنواوردنیا کی اولاد نہ بنو,کیونکہ آج کام ہے اورحساب نہیں ,اورکل حساب ہوگا کام نہیں"-
ناگہانی موت اسلام میں قابل مذمت ہے کیونکہ وہ انسان کواچانک اپنے چنگل میں لے لیتی ہے اوراسے مہلت نہیں دیتی , اوربسا اوقات وہ معصیت میں گرفتارہوتا ہے تواسکا خاتمہ بھی معصیت پرہوتا ہے-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سلف صالحین برے خاتمہ سےبہت زیادہ ڈرا کرتے تھے,سہل تستری فرماتے ہیں کہ سچے لوگ ہرقدم پربرے خاتمہ سے ڈراکرتے ہیں ,اوریہی وہ لوگ ہیں جن کی اللہ نے تعریف بیان کی ہے ,فرمایا:
(وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ) المؤمنون : 60)
"ان کے دل کپکپاتے ہیں "-
اسلئے بندے کوچاہئے کہ ہرلمحہ سوء خاتمہ سے ڈرتا رہے کیونکہ خوف ہی عمل کا باعث ہے ,جیسا کہ اللہ کے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"جوشخص ڈراوہ چلا اورجو چلاوہ منزل کوپھنچ گیا,سن لو!اللہ کا سامان مہنگا ہے,سن لو!اللہ کا سامان جنت ہے"(سنن ترمذی)-
جب آدمی کی وفات قریب ہوتواسے چاہئے کہ اب امید کا پہلو غالب رکھے اوراللہ کی ملاقات کا مشتاق ہوجائے,کیونکہ جواللہ سے ملاقات کا خواہش مند ہو تواللہ بھی اس سے ملنے کا خواہش مند ہوگا,نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی بھی شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو"(صحیح مسلم)
لیکن بہت سے جاہل مسلمان اللہ کی وسیع رحمت اوراسکی بخشش ومغفرت پربھروسہ کرکےبیٹھ گئے اورگناہوں میں بے لگام ہوگئے اوربرائیوں سے بازنہیں آئے,بلکہ اللہ تعالى کے مذکورہ بالا صفات کوجان لینے کے بعد انہوں نے اسی کوگناہوں پرمصررہنے کا سب سے بڑا بہانہ بنا لیا,حالانکہ یہ ایک کھلی غلطی اورمہلک استدلال ہے ,کیونکہ اللہ تعالى جس طرح بخشنے والا ,رحم کرنے والا ہے ,اسی طرح سخت عذاب دینے والا ہے ,جیسا کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہوں میں اس نے اس بات کی صراحت کی ہے,فرمایا:
{نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَ أَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمَ } (سورة الحجر: 49-50) "
میرے بندوں کوخبرکردوکہ میں بہت ہی بخشنے والا اوربڑاہی مہربان ہوں ,اورساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت ہی دردناک ہیں"-
اورفرمایا:
{حم تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ} (سورة غافر: 3-1)
"اس کتاب کا نازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جوغالب اوردانا ہے ,گناہ بخشنے والا اورتوبہ قبول فرمانے والا ,سخت عذاب والا ہے"-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
معروف کرخی کہتے ہیں کہ تمہارا اس شخص کی رحمت کا امید رکھناجس کی تم اطاعت نہ کرو رسوائی اورحماقت میں داخل ہے-اوربعض علماء نے کہا ہے کہ "جس نے دنیا میں تین درہم کی چوری کے جرم میں تمہارے جسم کا ایک عضوکاٹ دیا اس سےتم مامون نہ رہو کہ آخرت کی سزا اسی جیسی ہوگی" –
ایک مسلمان کوچاہئے کہ لوگوں کے قرض اوران کے مظالم سے چھٹکارا حاصل کرلینے کا حریص ہو,کیونکہ اگربندے کا اسکے بھائی کے پاس کچھ بھی باقی رہ جائے گاتووہ قیامت کے دن اس سے ضرورمطالبہ کرے گا,اگراس کے پاس نیکیاں ہوں گی توان میں سے لے لیا جائیگا,اوراگراسکے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی توقرض خواہ کی برائیاں لے کراس پرڈالدی جائیں گی,رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"مومن کی روح اسکے قرض کے ساتھ معلق ہوتی ہے یہاں تک کہ اسے اداکردیا جائے"-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوء خاتمہ کے اسباب
اب ذیل میں ہم اختصارکے ساتھ سوء خاتمہ کے اسباب بیان کرتے ہیں:
1- توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرنا:
ہرمکلف پرواجب ہے کہ وہ ہرلمحہ اپنے تمام گناہوں سے اللہ تعالى سے توبہ کرے ,اللہ کا ارشاد ہے: {وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} (سورة النــور:31)
"اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کروتاکہ فلاح پاؤ"
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اگلے ,پچلھے سب گناہ بخش دئے گئے تھے لیکن اسکے باوجود آپ ایک دن میں سومرتبہ اللہ سے توبہ کرتے تھے ,حضرت اغرمزنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسو ل صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو,بے شک میں ایک دن میں سومرتبہ اللہ سے توبہ کرتا ہوں"(صحیح مسلم)
اورنبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"گناہوں سے توبہ کرنے والا شخص ایک بے گناہ کی طرح پاک ہوجاتا ہے " اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اوراسکی سند حسن ہے-
جن حیلوں کے ذریعہ ابلیس لوگوں کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے ان میں ایک کامیاب ترین حیلہ یہ ہے کہ وہ توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرواتا ہے,وہ گنہگارکووسوسہ دیتا ہے کہ وہ توبہ کرنے میں جلدی نہ کرے ,کیونکہ اسکے سامنے ایک لمبا زمانہ ہے,اگراسی وقت توبہ کرلیا اورپھرگناہوں کی طرف لوٹ گیا تودوبارہ اسکی توبہ قبول نہیں ہوگی اوروہ جہنمی ہوجائے گا,یااسکو یہ وسوسہ دلاتا ہے کہ جب وہ پچاس ساٹھ سال کی عمرکا ہوجائے توخالص توبہ کرلے,مسجد کولازم پکڑلےاورنیک کام زیادہ سے زیادہ کرے,لیکن ابھی وہ اپنی جوانی اورعمرکے حسین مرحلہ میں ہے,لہذا وہ اپنے نفس کوآزاد رکھے,اوراسی وقت سے اللہ کی اطاعت کا پابند ہوکرنفس کومشقت میں نہ ڈالے-
توبہ کے ٹال مٹول کے سلسلہ میں یہ ابلیس کے بعض حربے ہیں-
بعض سلف صالحین کا قول ہے کہ میں تم کوٹال مٹول سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ ابلیس کا سب سے بڑا لشکرہے,دانشمند مومن جواللہ کی محبت کی خاطراوربرے خاتمہ کے ڈرسے ہروقت گناہ سے توبہ کرتا ہے ,اورحد سے بڑہ جانے والا,ٹال مٹول کرنے والا جواپنی توبہ کومؤخرکردیتا ہے,ان دونوں کی مثال اس مسافرقوم کی ہے جوکسی بستی میں داخل ہوئی تودانش مند مومن نے جاکرمناسب زادراہ خریدا اورکوچ کرنے کی تیاری مکمل کرکے بیٹھ گیا,لیکن حد سے بڑھ جانے والا دوسراشخص ہردن یہی کہتا رہا کہ میں کل تیاری کروں گا,اسی اثناء میں امیرکارواں نے کوچ کرنے کا اعلان کردیا اوراسکے پاس کچھ بھی زادراہ نہیں-دنیا میں لوگوں کی یہی مثال ہے,دانش مندمومن کی جب بھی موت آتی ہے تووہ نادم نہیں ہوتا,مگرگنہگاراورعمل میں کوتاہی کرنے والا یہی کہتا ہے کہ اے میرے رب !مجھے دنیا کی طرف واپس کردے تاکہ میں چھوڑے ہوئے نیک کام کرلوں-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
2-لمبی آرزو:
لمبی آرزو بہت سے لوگوں کی بدبختی کا سبب ہے,شیطان جب کسی کوفریب ودھوکہ دینا چاہتا ہے تواس کے لئے یہ نقشہ پیش کرتا ہے کہ ابھی اسکے سامنے ایک لمبی عمراورایک لمبا عرصہ ہے,جسمیں وہ بڑی بڑی آرزوئیں کرتا ہے اوراس لمبے زمانے کوگزارنے اوران آرزؤں کی تکمیل کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردیتا ہے اورآخرت کوبھول جاتا ہے ,موت کویا د نہیں کرتا ,اوراگرکسی دن موت کویاد کرلیتا ہے تواس سے تنگ دل ہوجاتا ہے ,کیونکہ موت کی یاد اسکی لذتوں کواوراسکی خوش عیشی کومکدرکردیتی ہے ,رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے سختی کے ساتھ متنبہ کیا ہے ,فرمایا:
"دوچیزیں ہیں جن سے میں تمہارے بارے میں زیادہ ڈرتا ہوں :خواہشات کی پیروی اورلمبی آرزو,خواہشات کی پیروی حق سے روک دیتی ہے اورلمبی آرزووہ تودنیا کی محبت ہے "ابن ابی الدنیا نے اسے روایت کیا ہے-
انسان جب آخرت سے زیادہ دنیا سے محبت کرتا ہے تواسے آخرت پربھی ترجیح دیتا ہے ,اسکی زینت وخوبصورتی اوراسکی لذتوں میں پھنس جاتا ہے اوراللہ کی جواررحمت جنت میں اللہ کے انعام یافتہ بندوں ,انبیاء وصدیقین اورشہداء وصالحین کے ساتھ رہنے کیلئے آخرت میں اپنا ٹھکانہ نہیں بناتا-
لمبی آرزو نہ کرنے کے آثاریہ ہیں کہ بندہ نیک اعمال کی طرف سبقت کرے اورعمرکے اوقات کوغنیمت جانے ,کیونکہ سانسیں محدودہیں اوردن متعین ہیں,اورجوکچھ گزرجاتا ہے وہ ہرگزواپس نہیں آسکتا ,
اورراستے پرحق سے روکنے والی بے شمارمشکلات ہیں جنہیں رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے,ارشاد ہے:
"سات چیزوں کے آنے سے پہلے اعمال کی جلدی کرو:کیا تمہیں انتظارہے بھلادینے والی غربت کا,یاحد سے بڑھی ہوئی مالداری کا,یاہلاک کردینے والی بیماری کا,یا عقل ماردینے والے بڑھاپے کا,یادرگورکرنے والی موت کا,یادجال کا جوبدترین پوشیدہ شخص ہے جسکا انتظارکیا جارہا ہے,یا قیامت کا توقیامت سب سے زیادہ کڑوی اورخطرناک شے ہے"(سنن ترمذی)
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں کندھوں کوپکڑا اورفرمایا:
"دنیا میں اس طرح رہوگویاکہ تم ایک اجنبی ہویا مسافر"
ابن عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
"جب تم شام کرلو توصبح کا انتظارنہ کرو اورجب صبح کرلوتو شام کا انتظارنہ کرو اوراپنی صحت کے زمانہ میں اپنی بیماری کے لئے سامان تیارکرلو اوراپنی زندگی میں موت کے لئے"(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کی ان چیزوں کی طرف رہنمائی کی ہےجوان سے لمبی آرزؤں کودوراوردنیا کی حقیقت سے آگاہ کردیں, چنانچہ آپ نے یہ حکم دیا کہ موت کویاد کریں ,قبروں کی زیارت کریں ,مردوں کوغسل دیں,جنازہ کے ساتھ چلیں,مریضوں کی عیادت کریں اورصالحین سے ملاقات کیلئے جائیں,کیونکہ یہ ساری چیزیں دل کوغفلت سے بیدارکرتی ہیں اورپیش آنے والی حقیقت سے آگاہ کردیتی ہیں,تودل بھی اسکے لئے تیاری کرلیتا ہے,ذیل میں ہم مذکورہ بالا امورکی مختصروضاحت کرتے ہیں-
الف- یاد موت:
یاد موت انسان کودنیا سے بے رغبت اورآخرت کا خواہش مند بنادیتی ہے ,اسے نیک اعمال کے بارے میں پوری جدوجہد کرنے پرابھارتی اوردارفانی کے اندرحرام خواہشات کی طرف مائل ہونے سے روکتی ہے,حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لذتوں کوتوڑنے والی (موت) کوکثرت سے یاد کرو"(سنن ترمذی وسنن ابن ماجہ)
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے زیادہ چالاک اوربزرگ کون ہے؟ تورسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"موت کوسب سے زیادہ یادکرنے اوراسکے لئے سب سے زیادہ تیاری کرنے والے ,یہی سب سے زیادہ دانش مند لوگ ہیں جودنیاوی فضیلت اورآخرت کی کرامت سے بہرہ مند ہوئے "(سنن ابن ماجہ وابن ابی الدنیا)
پھرانسان مردوں کے بارے میں سوچے ,کیا وہ مضبوط جسم والے اورمال کے مالک نہیں تھے,حکم دیتے اورمنع کرتے تھے ,لیکن آج کیڑے ان کے جسم پرمسلط ہوکران کوبوسیدہ اوران کی ہڈیوں کوریزہ ریزہ کرچکے ہیں؟ پھروہ سوچے کہ کیا وہ موت سے بچ جائے گا یا اسے بھی عنقریب وہیں جانا ہے جہاں وہ لوگ جا چکے ہیں؟ پھروہ اس منزل کے لئے تیاری کرے اوراعمال صالحہ کا توشہ جمع کرلے ,کیونکہ یہی آخرت میں کام آنے والا سکہ ہے-
 
Top