• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسن رفاقت +

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْہُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ۝۰ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ فَعَلُوْا مَا يُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِيْتًا۝۶۶ۙ وَّاِذًا لَّاٰتَيْنٰھُمْ مِّنْ لَّدُنَّآاَجْرًا عَظِيْمًا۝۶۷ۙ وَّلَہَدَيْنٰھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا۝۶۸ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۝۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۝۶۹ۭ
اورہم انھیں اگرحکم دیتے کہ اپنے تئیں قتل کر ڈالو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو وہ (منافق) نہ کرتے مگرتھوڑے سے۔ اگر وہ کام کرتے جس کی ان کو نصیحت کی گئی ہے توان کے لیے بہتر ہوتا اور زیادہ ثابت رکھنے والا ہوتا دین میں۔(۶۶)اور اس صورت میں ہم انھیں بڑا ثواب دیتے۔۱؎(۶۷) اورانھیں راہِ راست دکھلاتے ۔(۶۸)اور جو کوئی اللہ کا اور رسول(ﷺ) کا تابعدار ہوا۔ سووہی لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا فضل کیا ہے (یعنی) نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہوں گے اوریہ عمدہ رفیق ہیں۔۲؎(۶۹)
۱؎ ان آیات میں نفاق وایمان کی نفسیات بیان فرمائی ہیں کہ منافق میدانِ جہاد میں سربکف نہیں نکل سکتے اورتثبت واستقلال کی نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ جہاد وقربانی موقوف ہے جذبۂ ایمان وایقان کی مضبوطی پر اور وہ دل جن میں ایمان کی شمع فروزاں کبھی روشن ہی نہیں ہوئی، کیوں کر ایثار و تضحیہ کے لیے آمادہ ہوسکتے ہیں۔ پس جہاد و ہجرت اور ایثار و قربانی معیار ہے ایمان کی گہرائیوں کا ۔جس درجہ کوئی نفس تزکیہ پرجوش اور مجاہد ہے اسی درجہ اس کا قلب ایمان کی نعمتوں سے مالا مال ہے اورجس قدر اس میں دون ہمتی اوربزدلی ہے وہ نفاق ہے ۔
حسن رفا قت

۲؎ آیت کے شان نزول میں متعدد واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔
(۱) ثوبان رضی اللہ عنہ کا اشتیاق رفاقت یعنی اس کا دریافت کرنا کہ حضور ﷺ کیا ہم بھی شرف زیارت سے اس وقت محظوظ ہو سکیں گے جب کہ آپ ﷺ کے لیے '' مقام محمود'' کی بلندیاں مختص ہوں گی؟ ثوبان رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے ایک ادنیٰ غلام تھے۔
(۲) چند انصار کا پوچھنا کہ ہم کیوں کر آپ ﷺ کی معیت ورفاقت حاصل کرسکتے ہیں؟
(۳) ایک محب رسول انصاری کا کہنا کہ حضور! ہم اس دنیا میں آپ ﷺ کی ادنیٰ سی مفارقت گوارا نہیں کر سکتے۔ قیامت کے دن کیا ہو گا۔ چہرہ انور سے اکتساب مسرت کا موقع کیوں کر ملے گا؟
(۴) عام مسلمانوں کا مطالبۂ رفاقت وصحبت۔
مقصد بہرحال یہ ہے کہ جذبۂ اطاعت سے سرشار مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں رفاقت ہی ایک گراں قیمت اعزاز ہے جو رب ودود کی طرف سے بخشا جائے گا۔ یعنی وہ لوگ جو '' صلحاء'' کے درجہ علیا تک نہیں پہنچے، بجز جذبۂ اطاعت وحب صلاح صلحاء کے رفیق ہوں گے اور وہ صلحاء جنہیں مرتبہ '' صدیقت'' حاصل نہیں ہوا ۔صرف شعار صدیقیت کی وجہ سے اللہ کے صدیقوں کے ساتھ ہوں گے اور وہ جو ''صدیق'' تو ہیں مگر جام شہادت نوش نہیں کیا، وہ شوق شہادت کی وجہ سے شہداء کی پرانوار محبت سے استفادہ کر سکیں گے اور وہ جو شہید ہیں، پر انبیاء کے مقام رفیع کو نہیں پایا، انبیاء کے زمرہ عالی قدر میں رہیں گے ۔
جس طرح ستارے ماہتاب کے جلو میں رہنے سے ماہتاب نہیں بن جاتے اسی طرح محض رفاقت انھیں ان درجات پر فائز نہیں کر سکتی اور جس طرح باوجود رفاقت وصحبت کے انجم تاباں اور مہر منیر میں ایک واضح فرق ہے ، اسی طرح ان مدارج میں ایک بین امتیاز باقی رہے گا۔یہاں اعطاء مدراج کا سوال نہیں، اعطاء رفاقت کا ذکر ہے ۔ یہی وجہ ہے پہلے انبیاء کا ذکر فرمایا ہے، حالانکہ اگر ذکر مراتب ومدارج کا ہوتا تو پہلے صلحاء کا ذکر چاہیے تھا اور حَسُنَ اُوْلٰٓئِکَ رَفِیْقًا کے معنی توہرگز ہرگز کسی سلسلے کے متحمل نہیں۔
 
Top