• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت آدم علیہ السلام

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
آدم علیہ الصلاۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔(ابن حبان)
جب اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں اور ابلیس سے کہا: میں کھنکھناتے ہوئے سیاہ اور سڑے ہوئے گارے سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔ جب میں اسے ٹھیک طرح سے بنا کر مناسب شکل دے دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ (الحجر: ۲۹۔۲۸۔و اعراف: ۱۲۔۱۱)
الغرض اللہ نے پوری زمین سے ایک مٹھی مٹی لی یہی وجہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں کوئی گورا ہے، کوئی کالا ہے، کوئی سانوالا ہے، کوئی نرم ہے ، کوئی سخت ہے،، کوئی ناپاک ہے اور کوئی پاک ہے۔ (ترمذی، ابو داؤد)
پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے خلاصے سے گارا تیار کیا۔ (مؤمنون:۱۲)
جب گارا سیاہ اور بدبودار ہوگیا اور اس سے کھن کھن کی آواز آنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا۔ (ص:۷۵۔حجر: ۲۸)

پھر اللہ نے پتلے کو کچھ عرسہ کے لئے ویسے ہی چھوڑ دیا جب ابلیس نے اسے دیکھا تو اس کے گرد چکر لگانے لگا اور اس کو بغور دیکھتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ پتلا اندر سے خالی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ آدم اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے۔ (مسلم)

پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن عصر کے بعد اس پتلے کو زندہ انسان بن جانے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی وہ پتلا زندہ انسان بن گیا۔ (آل عمران: ۵۹۔ اور صحیح مسلم)
جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی انہوں نے اللہ کے حکم سے الحمدللہ کہا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔اللہ تم پر رحم کرے۔ (ابن حبان)
پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا جاؤان فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ کیا کہتے ہیں جو کچھ وہ کہیں وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: "السلام علیکم "فرشتوں نے جواب دیا "وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" (بخاری)

جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتے اللہ کے حکم کے مطابق آدم کے سامنے سجدہ میں گر پڑے لیکن ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (اعراف:۱۱۔۱۲)

ابلیس کی حقیقت
ابلیس جنات میں سے ہے اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے(الا ابلیس کان من الجن)مگر ابلیس جنات میں سے تھا۔ ( کھف: ۵۰)
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا اور فرشتے نور سے پیدا ہوئے۔ (مسلم)
تیسری بات یہ ہے کہ ابلیس کی اولاد ہے(افتتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی) (کھف: ۵۰)
جبکہ فرشتوں میں تناسل کا سلسلہ نہیں ہے۔

اسی طرح ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ تکبر کیا، جب کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ایسے مکرم بندہ ہیں کہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ شیطان جب فرشتوں میں نہیں تو اسے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟ جواب یہ ہے:
کہ اسے اپنے علم، اجتھاد اور عبادت کی وجہ سے آسمان میں ایک بلند مقام حاصل تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر مسح کیا مسح کرتے ہی ہر روح جو ان کی اولاد میں قیامت تک پیدا ہونے والی تھی نکل پڑی۔ پھر ان روحوں کو آدم کے سامنے پیش کیا آدم علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب! یہ کون لوگ ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے ۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا ان کو اس کی آنکھوں کے درمیان جو نور تھا وہ بہت پسند آیا کہنے لگے اے میرے رب! یہ کون ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تمہاری اولاد کی آخری جماعتوں میں ایک شخص ہے۔ جس کا نام داؤد ہے۔ آدم نے پوچھا: اے میرے رب! تو نے اس کی عمر کتنی رکھی ہے؟ اللہ نے فرمایا:۶۰ سال آدم نے عرض کیا اے میرے رب میری عمر سے اس کی عمر میں ۴۰سال بڑھا دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسا کر دیا اور اس پر گواہ بھی ٹھہرا دیا۔

پھر جب آدم کی عمر مکمل ہو گئی تو اللہ نے ان کی طرف ملک الموت کو بھیجا تو آدم نے کہا کیا میرے عمر سے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ملک الموت نے کہا: کیا آپ نے یہ چالیس سال اپنے بیٹے داؤد علیہ السلام کو ہبہ نہیں کیے تھے۔ آدم علیہ السلام نے انکار کر دیا لہٰذا ٓپ کی اولاد بھی انکاری ہے اور آدم بھول گئے لہٰذا آپ کی اولاد بھی نسیان کا شکار ہوگئی۔ (ترمذی، نسائی، ابن حبان، حاکم)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے نکلنے والی اولاد سے میدان عرفات میں عہد لیا۔
اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوق پیدا کرنی تھی ان کو آدم کے آگے چیونٹیوں کی طرح پھیلا دیا پھر ان سے بالمشافہ گفتگو فرمائی(الست برکم قالوابلی۔۔۔۔۔) (اعراف: ۱۷۲۔۱۷۳)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ آدم ان سے سکون حاصل کریں۔ (اعراف: ۱۸۹:بخاری)
پھر اللہ نے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا۔ (اعراف: ۱۹)
آدم جمعہ کے دن جنت میں داخل ہوئے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا تم اپنی بیوی کے ساتھ اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھاؤگے۔ اور یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے۔الغرض یہاں تم بڑے عیش و آرام سے رہو گے۔ (بقرہ: ۳۵۔طہ:۱۷۔۱۸۔۱۹)

آدم اور ان کی زوجہ جنت میں بڑے آرام سے رہ رہے تھے لیکن ابلیس ان کے پیچھے لگا ہوا تھا اس نے آدم سے کہا اے آدم ! میں تمہیں ایسا درخت نہ بتاؤں کہ جس کو کھا کر تم کو ایسی سلطنت مل جائے جس میں کبھی ضعف نہ آنے پائے۔ (طہ:۱۲۰)
اور ایک دن ان سے کہنے لگا تمہارے رب نے جو تمہیں اس درخت سے منع کیا ہے صرف اس لئے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ زندہ رہو اور پھر قسم کھا کر کہا میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ (اعراف: ۲۰۔۲۱)
الغرض اللہ تعالیٰ نے جو عہد آدم علیہ السلام سے لیا تھا آدم اسے بھول گئے اور ابلیس نے بالآخر ان کو ورغلا ہی دیا۔ (طہ:۱۱۵۔اعراف:۲۲)
آدم علیہ السلام کی زوجہ مطہرۃ سیدہ حواہ نے پہلے درخت سے کھایا اور آدم علیہ السلام کو ترغیب دی۔بالآخر دونوں نے درخت سے کھا لیا۔

اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر حواہ نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ خیانت نہ کرتی۔ (بخاری، مسلم)
درخت سے کھانا ہی تھا کہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر انہوں نے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے شروع کر دیئے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں پکار کر فرمایا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا۔ اور میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا۔ (اعراف: ۲۲)
اللہ تعالیٰ نے آدم کو طویل القامت پیدا کیا تھا سر میں بال گھنے تھے۔ جب انہوں نے اس درخت سے کھا لیا تو ان کا لباس علیحدہ ہوگیا۔ ان کا ستر نظر آنے لگا وہ بھاگے تو ایک درخت نے ان کے بال پکڑ لئے وہ اس سے جھگڑنے لگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم ! مجھ سے بھاگتے ہو۔ آدم نے عرض کیا: تجھ سے شرم آتی ہے۔ اس نافرمانی کی وجہ سے۔ (حاکم ،ابن سعد)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہاں سے اتر کر نیچے چلے جاؤ اب تمہیں کچھ عرصے کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اٹھانا ہے۔ (بقرۃ: ۳۶)
پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ ہی کے دن انہیں زمین پر اترنے کا حکم دیا اور اسی دن وہ زمین پر اتار دئے گئے۔ (نسائی، ابو داؤد، ابن حبان)

مسائل
(۱) اللہ تعالیٰ نے اس درخت کا تعین نہیں کیا جس سے آدم کو منع کیا گیا تھا، اور تعین میں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ضرور بیان فرما دیتا۔
اور قرآن کی تفسیر کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کے مبھم مقامات کا تعین اس وقت تک نہ کرے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح صریح حدیث نہ مل جائے۔
(۲) آدم علیہ السلام کتنی مدت جنت میں رہے اور ان کی اولاد جنت میں ہوئی یا نہیں ان کے متعلق صحیح معلومات ثابت نہیں ہیں۔
(۳) آدم علیہ السلام کی اولادمیں شادی طریقہ۔
تاریخ میں نقل ہے کہ حواء کے ہاں ہر حمل سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک حمل سے پیدا ہونے والا لڑکا دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے شادی کرتا تھا۔
(۴) اس جنت کی حقیقت جس میں آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی تھے اس جنت سے مراد وہ جنت ہے جو آسمان میں ہے۔
حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ جنت کے قریب ہو جائیں گے تو آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے کہیں گے : اے ہمارے باپ! ہمارے لئے جنت کو کھلوا دو، تو آدم علیہ السلام کہیں گے تم کو اس جنت سے صرف تمہارے باپ کی غلطی نے نکالا تھا۔(مسلم)

آدم علیہ السلام کی توبہ
آدم علیہ السلام اپنی زوجہ کے ساتھ زمین پر آگئے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو مندرجہ ذیل دعائیہ کلمات سکھائے:"ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین"۔ (اعراف: ۲۳)
ان دونوں نے ان دعائیہ کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز ان کی توبہ قبول فرمائی۔ (بقرۃ:۲۷، اعراف:۲۳، النسائی)
جب آدم علیہ السلام زمین پر رہنے لگے تو پھر اللہ نے ان کے لئے عمدہ لباس کا انتظام فرمایا۔ (اعراف :۲۶)
اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو عزت و کرامت سے سر فراز فرمایا۔ بحرو بر میں ان کی نقل و حرکت کے لئے سواریاں مہیا کیں اور ان کے لئے پاکیزہ کھانوں کا انتظام فرمایا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری عطا فرمائی۔ (اسراء:۷)

آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ
آدم علیہ السلام کی اولاد بہت ہوئی ان میں سے دو نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کی اللہ نے ایک کی قربانی قبول فرمائی دوسرے کی نہیں، جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی اپنے بھائی سے کہنے لگا میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔
بھائی نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تو متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے ،تم میں تقویٰ نہیں ہے۔ اس لئے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اس میں میرا کیا قصور ہے۔بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا، قتل کرنے کے بعد سمجھ نہیں آیا کہ اپنے مقتول بھائی کی لاش کا کیا کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین پر اتر کر زمین کو کریدنے لگا قاتل بھائی نے کوے سے سیکھا کہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔ پھر اپنے اس فعل پر بہت نادم ہوا اور افسوس کیا۔ (مائدہ: ۲۸تا ۳۱)
قاتل کا نام قابیل تھا۔
مقتول کا نام ہابیل تھا۔
قابیل پہلا شخص ہےجس نے بنی آدم میں قتل کو جار ی کیا۔ (بخاری)
آدم علیہ السلام بہت روئے اس قتل پر اور افسوس کیا۔

آدم علیہ السلام کی وفات
آدم علیہ السلام کی عمر اللہ تعالیٰ نے ہزار سال رکھی تھی۔ آدم نے چالیس سال اپنی عمر میں سے داؤد علیہ السلام کو ہبہ کیےتھے۔
جب آدم علیہ السلام کی عمر پوری ہو گئی تو ملک الموت ان کے پاس آیا آدم علیہ السلام نے کہا کیا میری عمر کے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ ملک الموت نے کہاآپ نے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم نے انکار کیا ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے وہ بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے۔(ترمذی)
بہر حال اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال کر دی اور داؤد علیہ السلام کی عمر ۱۰۰ سال کر دی۔ (ابو داؤد)
ہابیل کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السللام کو ایک بیٹا دیا انہوں نے ان کا نام شیث علیہ السلام رکھا۔
اور اپنی وفات سے پہلے شیث علیہ السلام کو وصیت کی۔ جب فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی روح قبض کر لی۔ فرشتے اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لے کر آئے تھے۔ پھر فرشتوں نے انہیں غسل دیا، کفن پہنایا، اور نماز جنازہ پڑھی، قبر کھودی اور لحد میں دفن کیا۔پھر کہا اے بنی آدم یہ ہے تکفین و تدفین وغیرہ کا طریقہ۔ (حاکم ،طبرانی کبیر)
آدم علیہ السلام کا انتقال جمعہ کے روز ہوا۔ (ابن خزیمہ)
دفن کی جگہ نا معلوم ہے۔
آدم علیہ السلام کے انتقال کے بعد سیدہ حواء کا انتقال ہوگیا۔
آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ (بخاری)
آدم علیہ السلام کی نافرمانی
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گئے۔ (طہ: ۲۱)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے بحث کی کہ آپ نے لوگوں کو اپنی غلطی ۔گناہ۔ کے سبب سے جنت سے نکلوایا اور انہیں بد بخت بنایا۔
آدم علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام !اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور کلام کرنے کے لئے چنا اور آپ مجھے ایک ایسے معاملےمیں ملامت کر رہے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے قبل لکھ دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم علیہ السلام دلیل کے ذریعہ موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔ (بخاری ۔ مسلم)

حدیث شفاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ لوگ محشر کے دن آدم علیہ السلام کے پاس آکر کہیں گے۔ اے آدم ! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور آپ میں روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور جنت کو آپ کا ٹھکانا بنایا کیا آپ اپنے رب کے پاس ہمارے سفارشی نہیں بنیں گے۔
آدم علیہ السلام ارشاد فرمائیں گے آج میرے رب کو اس قدر شدید غصہ آیا ہوا ہے کہ اتنا غصہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ ہی بعد میں آئے گا۔اس نے مجھے درخت کے کھانے سے منع کیا تھا۔ میں نے نا فرمانی کی اس لئے میرے علاوہ نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، مجھے تو آج اپنی جان کی فکر ہے۔ (بخاری )
 

fareedchohan66

مبتدی
شمولیت
اپریل 05، 2015
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
6
گناھوں کی ریزر #استغفار و #سچی_توبہ

اللہ رب العزت گناہوں کی آلودگی و پلیدگی میں لتھڑی انسانیت پر احسان عظیم کرتے ھوئے اپنی عظیم رحمت کا اعلان فرماتے ھیں
کہ

إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا

اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے

(سوره الفرقان، 70،71)


توبہ و استغفار میں ایسی طاقت ھے اور پسندیدہ ترین عمل ھے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی بڑے سے بڑے پاپیوں پر بھی اپنی رحمت کا سایہ کر دیتا ھے،
دنیا میں ھماری بڑی سے بڑی خوشی کی کیفیت سے بھی بڑھ کر اللہ رب العزت کو اپنے بندے کی معافی مانگنے پر خوشی ھوتی ھے،
استغفار کی رغبت دیتے ھوئے اللہ سبحانہ و تعالٰی قرآن مجید میں ارشادات فرما رھے ھیں کہ اے بندو

غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ لَااِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ
[غافر:۳]
’’اللہ تعالیٰ گناہ کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول فرمانے والاسخت عذاب والا انعام و قدرت والاہے،اس کے سوا کوئی معبودنہیں اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَاْلاِبْکَارِ
[غافر:۵۵]

’’پس اے نبی! توصبرکر اللہ کا وعدہ بلاشک وشبہ سچا ہی ہے،تو اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہ اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہ۔ ‘‘

تیسری جگہ فرمایا:
وَاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْراً رَّحِیْماً
[النسائ:۱۰۶]

’’اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو!بے شک اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا ،مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘

چوتھی جگہ فرمایا:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّاباً
[النصر:۳]

’’تو اپنے رب کی تسبیح کر حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ،بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘

یہ عظیم الشان آیات استغفار اور اس پر مداومت کی دعوت دیتی ہیں۔

استغفار کے فوائد:

٭استغفار کرنے سے انسان کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں جن کو انسان شمار بھی نہیں کر سکتا،لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس ان گناہوں کا پورا پورا ریکارڈ ہوتا ہے،جبکہ انسان بھول جاتا ہے۔

٭ظاہراً وباطناً خضوع وخشوع کا حصول ،کیونکہ جب انسان دل سے عاجزی کا اظہار کرتا ہے تب جا کر وہ توبہ کرتا ہے۔

٭نبی کریم ﷺ کی اقتداء اور پیروی،کیونکہ نبی کریمﷺ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔

٭گناہوں سے بچنے اور اطاعت کرنے میں کوتاہی کا اعتراف،کیونکہ جب انسان اپنی کوتاہی کا اعتراف کر لیتا ہے تب وہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرتا ہے اورنیک اعمال کر کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کوشش کرتا ہے۔

٭استغفار دل کی سلامتی اور صفائی کا ذریعہ ہے۔کیونکہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((ان العبد اذا أخطا خطیئۃ نکتت فی قلبہ نکتۃ سوداء ،فان ھو نزع واستغفر وتاب،صقل قلبہ))[رواہ الترمذی]
’’جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے،اگر انسان اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس پر توبہ واستغفار کرے تو اس کے دل کودھو کر چمکا دیا جاتا ہے۔‘‘

سید الاستغفار :

حضرت شداد بن اوس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص یقین کامل کے ساتھ صبح کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی دن شام سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا،اسی طرح جو شخص یقین کامل کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی رات صبح سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔
سید الاستغفار یہ ہے:
((اللھم أنت ربی لاالہ الا أنت،خلقتنی وأنا عبدک ،وأنا علی عھدک ووعدک مااستطعت،أعوذبک من شر ما صنعت ، أبوء لک بنعمتک علی وأبوء بذنبی ،فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا أنت))[رواہ مسلم]

’’اے اللہ تو ہی میرا رب ہے ، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوںجس قدرطاقت رکھتا ہوں،میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوںاور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔‘‘
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
آدم علیہ الصلاۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔(ابن حبان)
جب اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں اور ابلیس سے کہا: میں کھنکھناتے ہوئے سیاہ اور سڑے ہوئے گارے سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔ جب میں اسے ٹھیک طرح سے بنا کر مناسب شکل دے دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ (الحجر: ۲۹۔۲۸۔و اعراف: ۱۲۔۱۱)
الغرض اللہ نے پوری زمین سے ایک مٹھی مٹی لی یہی وجہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں کوئی گورا ہے، کوئی کالا ہے، کوئی سانوالا ہے، کوئی نرم ہے ، کوئی سخت ہے،، کوئی ناپاک ہے اور کوئی پاک ہے۔ (ترمذی، ابو داؤد)
پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے خلاصے سے گارا تیار کیا۔ (مؤمنون:۱۲)
جب گارا سیاہ اور بدبودار ہوگیا اور اس سے کھن کھن کی آواز آنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا۔ (ص:۷۵۔حجر: ۲۸)

پھر اللہ نے پتلے کو کچھ عرسہ کے لئے ویسے ہی چھوڑ دیا جب ابلیس نے اسے دیکھا تو اس کے گرد چکر لگانے لگا اور اس کو بغور دیکھتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ پتلا اندر سے خالی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ آدم اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے۔ (مسلم)

پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن عصر کے بعد اس پتلے کو زندہ انسان بن جانے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی وہ پتلا زندہ انسان بن گیا۔ (آل عمران: ۵۹۔ اور صحیح مسلم)
جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی انہوں نے اللہ کے حکم سے الحمدللہ کہا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔اللہ تم پر رحم کرے۔ (ابن حبان)
پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا جاؤان فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ کیا کہتے ہیں جو کچھ وہ کہیں وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: "السلام علیکم "فرشتوں نے جواب دیا "وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" (بخاری)

جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتے اللہ کے حکم کے مطابق آدم کے سامنے سجدہ میں گر پڑے لیکن ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (اعراف:۱۱۔۱۲)

ابلیس کی حقیقت
ابلیس جنات میں سے ہے اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے(الا ابلیس کان من الجن)مگر ابلیس جنات میں سے تھا۔ ( کھف: ۵۰)
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا اور فرشتے نور سے پیدا ہوئے۔ (مسلم)
تیسری بات یہ ہے کہ ابلیس کی اولاد ہے(افتتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی) (کھف: ۵۰)
جبکہ فرشتوں میں تناسل کا سلسلہ نہیں ہے۔

اسی طرح ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ تکبر کیا، جب کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ایسے مکرم بندہ ہیں کہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ شیطان جب فرشتوں میں نہیں تو اسے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟ جواب یہ ہے:
کہ اسے اپنے علم، اجتھاد اور عبادت کی وجہ سے آسمان میں ایک بلند مقام حاصل تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر مسح کیا مسح کرتے ہی ہر روح جو ان کی اولاد میں قیامت تک پیدا ہونے والی تھی نکل پڑی۔ پھر ان روحوں کو آدم کے سامنے پیش کیا آدم علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب! یہ کون لوگ ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے ۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا ان کو اس کی آنکھوں کے درمیان جو نور تھا وہ بہت پسند آیا کہنے لگے اے میرے رب! یہ کون ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تمہاری اولاد کی آخری جماعتوں میں ایک شخص ہے۔ جس کا نام داؤد ہے۔ آدم نے پوچھا: اے میرے رب! تو نے اس کی عمر کتنی رکھی ہے؟ اللہ نے فرمایا:۶۰ سال آدم نے عرض کیا اے میرے رب میری عمر سے اس کی عمر میں ۴۰سال بڑھا دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسا کر دیا اور اس پر گواہ بھی ٹھہرا دیا۔

پھر جب آدم کی عمر مکمل ہو گئی تو اللہ نے ان کی طرف ملک الموت کو بھیجا تو آدم نے کہا کیا میرے عمر سے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ملک الموت نے کہا: کیا آپ نے یہ چالیس سال اپنے بیٹے داؤد علیہ السلام کو ہبہ نہیں کیے تھے۔ آدم علیہ السلام نے انکار کر دیا لہٰذا ٓپ کی اولاد بھی انکاری ہے اور آدم بھول گئے لہٰذا آپ کی اولاد بھی نسیان کا شکار ہوگئی۔ (ترمذی، نسائی، ابن حبان، حاکم)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے نکلنے والی اولاد سے میدان عرفات میں عہد لیا۔
اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوق پیدا کرنی تھی ان کو آدم کے آگے چیونٹیوں کی طرح پھیلا دیا پھر ان سے بالمشافہ گفتگو فرمائی(الست برکم قالوابلی۔۔۔۔۔) (اعراف: ۱۷۲۔۱۷۳)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ آدم ان سے سکون حاصل کریں۔ (اعراف: ۱۸۹:بخاری)
پھر اللہ نے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا۔ (اعراف: ۱۹)
آدم جمعہ کے دن جنت میں داخل ہوئے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا تم اپنی بیوی کے ساتھ اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھاؤگے۔ اور یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے۔الغرض یہاں تم بڑے عیش و آرام سے رہو گے۔ (بقرہ: ۳۵۔طہ:۱۷۔۱۸۔۱۹)

آدم اور ان کی زوجہ جنت میں بڑے آرام سے رہ رہے تھے لیکن ابلیس ان کے پیچھے لگا ہوا تھا اس نے آدم سے کہا اے آدم ! میں تمہیں ایسا درخت نہ بتاؤں کہ جس کو کھا کر تم کو ایسی سلطنت مل جائے جس میں کبھی ضعف نہ آنے پائے۔ (طہ:۱۲۰)
اور ایک دن ان سے کہنے لگا تمہارے رب نے جو تمہیں اس درخت سے منع کیا ہے صرف اس لئے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ زندہ رہو اور پھر قسم کھا کر کہا میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ (اعراف: ۲۰۔۲۱)
الغرض اللہ تعالیٰ نے جو عہد آدم علیہ السلام سے لیا تھا آدم اسے بھول گئے اور ابلیس نے بالآخر ان کو ورغلا ہی دیا۔ (طہ:۱۱۵۔اعراف:۲۲)
آدم علیہ السلام کی زوجہ مطہرۃ سیدہ حواہ نے پہلے درخت سے کھایا اور آدم علیہ السلام کو ترغیب دی۔بالآخر دونوں نے درخت سے کھا لیا۔

اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر حواہ نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ خیانت نہ کرتی۔ (بخاری، مسلم)
درخت سے کھانا ہی تھا کہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر انہوں نے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے شروع کر دیئے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں پکار کر فرمایا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا۔ اور میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا۔ (اعراف: ۲۲)
اللہ تعالیٰ نے آدم کو طویل القامت پیدا کیا تھا سر میں بال گھنے تھے۔ جب انہوں نے اس درخت سے کھا لیا تو ان کا لباس علیحدہ ہوگیا۔ ان کا ستر نظر آنے لگا وہ بھاگے تو ایک درخت نے ان کے بال پکڑ لئے وہ اس سے جھگڑنے لگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم ! مجھ سے بھاگتے ہو۔ آدم نے عرض کیا: تجھ سے شرم آتی ہے۔ اس نافرمانی کی وجہ سے۔ (حاکم ،ابن سعد)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہاں سے اتر کر نیچے چلے جاؤ اب تمہیں کچھ عرصے کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اٹھانا ہے۔ (بقرۃ: ۳۶)
پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ ہی کے دن انہیں زمین پر اترنے کا حکم دیا اور اسی دن وہ زمین پر اتار دئے گئے۔ (نسائی، ابو داؤد، ابن حبان)

مسائل
(۱) اللہ تعالیٰ نے اس درخت کا تعین نہیں کیا جس سے آدم کو منع کیا گیا تھا، اور تعین میں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ضرور بیان فرما دیتا۔
اور قرآن کی تفسیر کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کے مبھم مقامات کا تعین اس وقت تک نہ کرے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح صریح حدیث نہ مل جائے۔
(۲) آدم علیہ السلام کتنی مدت جنت میں رہے اور ان کی اولاد جنت میں ہوئی یا نہیں ان کے متعلق صحیح معلومات ثابت نہیں ہیں۔
(۳) آدم علیہ السلام کی اولادمیں شادی طریقہ۔
تاریخ میں نقل ہے کہ حواء کے ہاں ہر حمل سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک حمل سے پیدا ہونے والا لڑکا دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے شادی کرتا تھا۔
(۴) اس جنت کی حقیقت جس میں آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی تھے اس جنت سے مراد وہ جنت ہے جو آسمان میں ہے۔
حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ جنت کے قریب ہو جائیں گے تو آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے کہیں گے : اے ہمارے باپ! ہمارے لئے جنت کو کھلوا دو، تو آدم علیہ السلام کہیں گے تم کو اس جنت سے صرف تمہارے باپ کی غلطی نے نکالا تھا۔(مسلم)

آدم علیہ السلام کی توبہ
آدم علیہ السلام اپنی زوجہ کے ساتھ زمین پر آگئے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو مندرجہ ذیل دعائیہ کلمات سکھائے:"ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین"۔ (اعراف: ۲۳)
ان دونوں نے ان دعائیہ کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز ان کی توبہ قبول فرمائی۔ (بقرۃ:۲۷، اعراف:۲۳، النسائی)
جب آدم علیہ السلام زمین پر رہنے لگے تو پھر اللہ نے ان کے لئے عمدہ لباس کا انتظام فرمایا۔ (اعراف :۲۶)
اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو عزت و کرامت سے سر فراز فرمایا۔ بحرو بر میں ان کی نقل و حرکت کے لئے سواریاں مہیا کیں اور ان کے لئے پاکیزہ کھانوں کا انتظام فرمایا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری عطا فرمائی۔ (اسراء:۷)

آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ
آدم علیہ السلام کی اولاد بہت ہوئی ان میں سے دو نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کی اللہ نے ایک کی قربانی قبول فرمائی دوسرے کی نہیں، جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی اپنے بھائی سے کہنے لگا میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔
بھائی نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تو متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے ،تم میں تقویٰ نہیں ہے۔ اس لئے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اس میں میرا کیا قصور ہے۔بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا، قتل کرنے کے بعد سمجھ نہیں آیا کہ اپنے مقتول بھائی کی لاش کا کیا کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین پر اتر کر زمین کو کریدنے لگا قاتل بھائی نے کوے سے سیکھا کہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔ پھر اپنے اس فعل پر بہت نادم ہوا اور افسوس کیا۔ (مائدہ: ۲۸تا ۳۱)
قاتل کا نام قابیل تھا۔
مقتول کا نام ہابیل تھا۔
قابیل پہلا شخص ہےجس نے بنی آدم میں قتل کو جار ی کیا۔ (بخاری)
آدم علیہ السلام بہت روئے اس قتل پر اور افسوس کیا۔

آدم علیہ السلام کی وفات
آدم علیہ السلام کی عمر اللہ تعالیٰ نے ہزار سال رکھی تھی۔ آدم نے چالیس سال اپنی عمر میں سے داؤد علیہ السلام کو ہبہ کیےتھے۔
جب آدم علیہ السلام کی عمر پوری ہو گئی تو ملک الموت ان کے پاس آیا آدم علیہ السلام نے کہا کیا میری عمر کے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ ملک الموت نے کہاآپ نے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم نے انکار کیا ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے وہ بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے۔(ترمذی)
بہر حال اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال کر دی اور داؤد علیہ السلام کی عمر ۱۰۰ سال کر دی۔ (ابو داؤد)
ہابیل کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السللام کو ایک بیٹا دیا انہوں نے ان کا نام شیث علیہ السلام رکھا۔
اور اپنی وفات سے پہلے شیث علیہ السلام کو وصیت کی۔ جب فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی روح قبض کر لی۔ فرشتے اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لے کر آئے تھے۔ پھر فرشتوں نے انہیں غسل دیا، کفن پہنایا، اور نماز جنازہ پڑھی، قبر کھودی اور لحد میں دفن کیا۔پھر کہا اے بنی آدم یہ ہے تکفین و تدفین وغیرہ کا طریقہ۔ (حاکم ،طبرانی کبیر)
آدم علیہ السلام کا انتقال جمعہ کے روز ہوا۔ (ابن خزیمہ)
دفن کی جگہ نا معلوم ہے۔
آدم علیہ السلام کے انتقال کے بعد سیدہ حواء کا انتقال ہوگیا۔
آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ (بخاری)
آدم علیہ السلام کی نافرمانی
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گئے۔ (طہ: ۲۱)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے بحث کی کہ آپ نے لوگوں کو اپنی غلطی ۔گناہ۔ کے سبب سے جنت سے نکلوایا اور انہیں بد بخت بنایا۔
آدم علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام !اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور کلام کرنے کے لئے چنا اور آپ مجھے ایک ایسے معاملےمیں ملامت کر رہے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے قبل لکھ دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم علیہ السلام دلیل کے ذریعہ موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔ (بخاری ۔ مسلم)

حدیث شفاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ لوگ محشر کے دن آدم علیہ السلام کے پاس آکر کہیں گے۔ اے آدم ! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور آپ میں روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور جنت کو آپ کا ٹھکانا بنایا کیا آپ اپنے رب کے پاس ہمارے سفارشی نہیں بنیں گے۔
آدم علیہ السلام ارشاد فرمائیں گے آج میرے رب کو اس قدر شدید غصہ آیا ہوا ہے کہ اتنا غصہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ ہی بعد میں آئے گا۔اس نے مجھے درخت کے کھانے سے منع کیا تھا۔ میں نے نا فرمانی کی اس لئے میرے علاوہ نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، مجھے تو آج اپنی جان کی فکر ہے۔ (بخاری )
اب اس پر ملحدوں کےعتراض بھی سن لیں
1 حواء کو پسلی سے کیوں پیدا کیا ۔ علیحدہ سے عورت بھی بنائی جاسکتی تھئ
2 بھائی بہن کی شادی کیوں ہو۔علیحدہ سے عورت کا بھی انظام کیاجاسکتا تھا ۔اور
مسلمانوں کو ماموں کی اولاد کہتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ ہم تمھارے سے تو بہتر ہیں کم از کم بندر کی اولاد ہیں ماموں کی نہیں
3 اللہ کو تو پہلے ہی پتا تھا ۔کہ انہوں نے زمین پر جانا ہے ۔تو جنت میں کیوں بھجا
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
ماشاء اللہ.
جزاکم اللہ خیرا محترم جناب شاکر صاحب حفظہ اللہ
 
Top