• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابوحفص عمر بن خطاب قرشی عدوی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 3679
حدثنا حجاج بن منهال،‏‏‏‏ حدثنا عبد العزيز الماجشون،‏‏‏‏ حدثنا محمد بن المنكدر،‏‏‏‏ عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ رأيتني دخلت الجنة،‏‏‏‏ فإذا أنا بالرميصاء امرأة أبي طلحة وسمعت خشفة،‏‏‏‏ فقلت من هذا فقال هذا بلال‏.‏ ورأيت قصرا بفنائه جارية،‏‏‏‏ فقلت لمن هذا فقال لعمر‏.‏ فأردت أن أدخله فأنظر إليه،‏‏‏‏ فذكرت غيرتك ‏"‏‏.‏ فقال عمر بأمي وأبي يا رسول الله أعليك أغار

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز ماجشون نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن منکدر نے بیان کیا، اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں (خواب میں) جنت میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی بیوی رمیصاء کو دیکھا اور میں نے قدموں کی آواز سنی تو میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ بتایاگیا کہ یہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں اور میں نے ایک محل دیکھا اس کے سامنے ایک عورت تھی، میں نے پوچھا یہ کس کا محل ہے؟ تو بتایا کہ یہ عمر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ میرے دل میں آیا کہ اندر داخل ہو کر اسے دیکھوں، لیکن مجھے عمر کی غیرت یاد آئی (اور اس لیے اندر داخل نہیں ہوا) اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔

حدیث نمبر: 3680
حدثنا سعيد بن أبي مريم،‏‏‏‏ أخبرنا الليث،‏‏‏‏ قال حدثني عقيل،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ قال أخبرني سعيد بن المسيب،‏‏‏‏ أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ قال ‏"‏ بينا أنا نائم رأيتني في الجنة،‏‏‏‏ فإذا امرأة تتوضأ إلى جانب قصر،‏‏‏‏ فقلت لمن هذا القصر قالوا لعمر فذكرت غيرته فوليت مدبرا ‏"‏‏.‏ فبكى وقال أعليك أغار يا رسول الله

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں جنت دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک عورت ایک محل کے کنارے وضو کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ تو فرشتوں نے جواب دیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا۔ پھر مجھے ان کی غیرت و حمیت یاد آئی اور میں وہیں سے لوٹ آیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رودیئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر بھی غیرت کروں گا؟

حدیث نمبر: 3681
حدثني محمد بن الصلت أبو جعفر الكوفي،‏‏‏‏ حدثنا ابن المبارك،‏‏‏‏ عن يونس،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ قال أخبرني حمزة،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ بينا أنا نائم شربت ـ يعني اللبن ـ حتى أنظر إلى الري يجري في ظفري أو في أظفاري،‏‏‏‏ ثم ناولت عمر ‏"‏‏.‏ فقالوا فما أولته قال ‏"‏ العلم ‏"‏‏.‏

مجھ سے ابوجعفر محمد بن صلت کوفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو حمزہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا کہ میں دودھ کی سیرابی دیکھنے لگا جو میرے ناخن یا ناخنوں پربہ رہی ہے، پھر میں نے پیالہ عمر کو دے دیا، صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے۔

حدیث نمبر: 3682
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير،‏‏‏‏ حدثنا محمد بن بشر،‏‏‏‏ حدثنا عبيد الله،‏‏‏‏ قال حدثني أبو بكر بن سالم،‏‏‏‏ عن سالم،‏‏‏‏ عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أريت في المنام أني أنزع بدلو بكرة على قليب،‏‏‏‏ فجاء أبو بكر فنزع ذنوبا أو ذنوبين نزعا ضعيفا،‏‏‏‏ والله يغفر له،‏‏‏‏ ثم جاء عمر بن الخطاب فاستحالت غربا،‏‏‏‏ فلم أر عبقريا يفري فريه حتى روي الناس وضربوا بعطن ‏"‏‏.‏ قال ابن جبير العبقري عتاق الزرابي‏.‏ وقال يحيى الزرابي الطنافس لها خمل رقيق ‏ {‏ مبثوثة‏}‏ كثيرة‏.‏

ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوبکر بن سالم نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنویں سے ایک اچھا بڑا ڈول کھینچ رہا ہوں، جس پر ”لکڑی کا چرخ“ لگا ہوا ہے، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے بھی ایک یا دو ڈول کھینچے مگر کمزوری کے ساتھ اور اللہ ان کی مغفرت کرے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ہاتھ میں وہ ڈول ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کرگیا۔ میں نے ان جیسا مضبوط اور باعظمت شخص نہیں دیکھا جو اتنی مضبوطی کے ساتھ کام کرسکتاہو۔ انہوں نے اتنا کھینچا کہ لوگ سیراب ہو گئے اور اپنے اونٹوں کو پلا کر ان کے ٹھکانوں پر لے گئے۔ ابن جبیر نے کہا کہ عبقری کا معنی عمدہ اور زرابی اور عبقری سردار کو بھی کہتے ہیں (حدیث میں عبقری سے یہی مراد ہے) یحییٰ بن زیاد فری نے کہا، زرابی ان بچھونوں کو کہتے ہیں جن کے حاشیے باریک، پھیلے ہوئے بہت کثرت سے ہوتے ہیں۔

حدیث نمبر: 3683
حدثنا علي بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا يعقوب بن إبراهيم،‏‏‏‏ قال حدثني أبي،‏‏‏‏ عن صالح،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ أخبرني عبد الحميد،‏‏‏‏ أن محمد بن سعد،‏‏‏‏ أخبره أن أباه قال ح حدثني عبد العزيز بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا إبراهيم بن سعد،‏‏‏‏ عن صالح،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد،‏‏‏‏ عن محمد بن سعد بن أبي وقاص،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ قال استأذن عمر بن الخطاب على رسول الله صلى الله عليه وسلم،‏‏‏‏ وعنده نسوة من قريش يكلمنه ويستكثرنه،‏‏‏‏ عالية أصواتهن على صوته فلما استأذن عمر بن الخطاب قمن فبادرن الحجاب فأذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل عمر ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك،‏‏‏‏ فقال عمر أضحك الله سنك يا رسول الله‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي فلما سمعن صوتك ابتدرن الحجاب ‏"‏‏.‏ فقال عمر فأنت أحق أن يهبن يا رسول الله‏.‏ ثم قال عمر يا عدوات أنفسهن،‏‏‏‏ أتهبنني ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن نعم،‏‏‏‏ أنت أفظ وأغلظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إيها يا ابن الخطاب والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان سالكا فجا قط إلا سلك فجا غير فجك ‏"‏‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھ کو عبدالحمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں محمد بن سعد بن ابی وقاص نے خبر دی اور ان سے ان کے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید نے، ان سے محمد بن سعدبن ابی وقاص نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں (امہات المومین میں سے) بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور آپ کی آوازپر اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان و نفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کر رہی تھیں، جوں ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہو کر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور وہ داخل ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پرہنسی آ رہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن تمہاری آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ڈرنا تو انہیں آپ سے چاہیے تھا۔ پھرانہوں نے (عورتوں سے) کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں، عورتوں نے کہا کہ ہاں، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔


حدیث نمبر: 3684
حدثنا محمد بن المثنى،‏‏‏‏ حدثنا يحيى،‏‏‏‏ عن إسماعيل،‏‏‏‏ حدثنا قيس،‏‏‏‏ قال قال عبد الله ما زلنا أعزة منذ أسلم عمر‏.‏

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد پھر ہمیں ہمیشہ عزت حاصل رہی۔

حدیث نمبر: 3685
حدثنا عبدان،‏‏‏‏ أخبرنا عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا عمر بن سعيد،‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ أنه سمع ابن عباس،‏‏‏‏ يقول وضع عمر على سريره،‏‏‏‏ فتكنفه الناس يدعون ويصلون قبل أن يرفع،‏‏‏‏ وأنا فيهم،‏‏‏‏ فلم يرعني إلا رجل آخذ منكبي،‏‏‏‏ فإذا علي فترحم على عمر،‏‏‏‏ وقال ما خلفت أحدا أحب إلى أن ألقى الله بمثل عمله منك،‏‏‏‏ وايم الله،‏‏‏‏ إن كنت لأظن أن يجعلك الله مع صاحبيك،‏‏‏‏ وحسبت أني كنت كثيرا أسمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول ذهبت أنا وأبو بكر وعمر،‏‏‏‏ ودخلت أنا وأبو بكر وعمر،‏‏‏‏ وخرجت أنا وأبو بكر وعمر‏.‏

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم سے عمر بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو (شہادت کے بعد) ان کی چارپائی پررکھا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے (خدا سے) دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے، نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے، پھر انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور (ان کی نعش کو مخاطب کر کے) کہا، آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمناہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور خدا کی قسم مجھے تو (پہلے سے) یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا، میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ ”میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔“

حدیث نمبر: 3686
حدثنا مسدد،‏‏‏‏ حدثنا يزيد بن زريع،‏‏‏‏ حدثنا سعيد،‏‏‏‏ وقال،‏‏‏‏ لي خليفة حدثنا محمد بن سواء،‏‏‏‏ وكهمس بن المنهال،‏‏‏‏ قالا حدثنا سعيد،‏‏‏‏ عن قتادة،‏‏‏‏ عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال صعد النبي صلى الله عليه وسلم إلى أحد ومعه أبو بكر وعمر وعثمان فرجف بهم،‏‏‏‏ فضربه برجله،‏‏‏‏ قال ‏"‏ اثبت أحد فما عليك إلا نبي أو صديق أو شهيدان ‏"‏‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اور مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سواء اور کہمس بن منہال نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے تو آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے، پہاڑ لرزنے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں سے اسے مارا اور فرمایا: احد! ٹھہرارہ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔

حدیث نمبر: 3687
حدثنا يحيى بن سليمان،‏‏‏‏ قال حدثني ابن وهب،‏‏‏‏ قال حدثني عمر،‏‏‏‏ هو ابن محمد أن زيد بن أسلم،‏‏‏‏ حدثه عن أبيه،‏‏‏‏ قال سألني ابن عمر عن بعض،‏‏‏‏ شأنه ـ يعني عمر ـ فأخبرته‏.‏ فقال،‏‏‏‏ ما رأيت أحدا قط بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم من حين قبض كان أجد وأجود حتى انتهى من عمر بن الخطاب‏.‏

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے، جو میں نے انہیں بتادیئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے کسی شخص کودین میں اتنی زیادہ کوشش کرنے والا اور اتنا زیادہ سخی نہیں دیکھا اور یہ خصائل حضرت عمر بن خطاب پر ختم ہو گئے۔

حدیث نمبر: 3688
حدثنا سليمان بن حرب،‏‏‏‏ حدثنا حماد بن زيد،‏‏‏‏ عن ثابت،‏‏‏‏ عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن رجلا،‏‏‏‏ سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن الساعة،‏‏‏‏ فقال متى الساعة قال ‏"‏ وماذا أعددت لها ‏"‏‏.‏ قال لا شىء إلا أني أحب الله ورسوله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال ‏"‏ أنت مع من أحببت ‏"‏‏.‏ قال أنس فما فرحنا بشىء فرحنا بقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أنت مع من أحببت ‏"‏‏.‏ قال أنس فأنا أحب النبي صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر،‏‏‏‏ وأرجو أن أكون معهم بحبي إياهم،‏‏‏‏ وإن لم أعمل بمثل أعمالهم‏.‏

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب (ذوالخویصرہ یا ابوموسیٰ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے قیامت کے لیے تیاری کیا کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کچھ بھی نہیں، سوا اس کے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتاہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہو گا جن سے تمہیں محبت ہے۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی کسی بات سے بھی نہیں ہوئی جتنی آپ کی یہ حدیث سن کر ہوئی کہ ”تمہارا حشر انہیں کے ساتھ ہو گا جن سے تمہیں محبت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتاہوں اور ان سے اپنی اس محبت کی وجہ سے امید رکھتاہوں کہ میرا حشر انہیں کے ساتھ ہو گا، اگرچہ میں ان جیسے عمل نہ کر سکا۔

حدیث نمبر: 3689
حدثنا يحيى بن قزعة: حدثنا إبراهيم بن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سلمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لقد كان فيما كان قبلكم من الأمم ناس محدثون،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر). زاد زكرياء بن أبي زائدة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سلمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي هريرة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: (لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر).

ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں۔ زکریابن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھا من نبی ولا محدث

حدیث نمبر: 3690
حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ حدثنا الليث،‏‏‏‏ حدثنا عقيل،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ عن سعيد بن المسيب،‏‏‏‏ وأبي،‏‏‏‏ سلمة بن عبد الرحمن قالا سمعنا أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بينما راع في غنمه عدا الذئب فأخذ منها شاة،‏‏‏‏ فطلبها حتى استنقذها،‏‏‏‏ فالتفت إليه الذئب فقال له من لها يوم السبع،‏‏‏‏ ليس لها راع غيري‏"‏‏.‏ فقال الناس سبحان الله‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فإني أومن به وأبو بكر وعمر ‏"‏ وما ثم أبو بكر وعمر‏.

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ ہم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑئیے نے اس کی ایک بکری پکڑلی۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا۔ پھر بھیڑیا اس کی طرف متوجہ ہو کر بولا: درندوں کے دن اس کی حفاظت کرنے والا کون ہو گا؟ جب میرے سوا اس کا کوئی چرواہا نہ ہو گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر بول اٹھے: سبحان اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس واقعہ پر ایمان لایا اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما بھی۔ حالانکہ وہاں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما موجود نہیں تھے۔

حدیث نمبر: 3691
حدثنا يحيى بن بكير،‏‏‏‏ حدثنا الليث،‏‏‏‏ عن عقيل،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ قال أخبرني أبو أمامة بن سهل بن حنيف،‏‏‏‏ عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ بينا أنا نائم رأيت الناس عرضوا على وعليهم قمص،‏‏‏‏ فمنها ما يبلغ الثدى،‏‏‏‏ ومنها ما يبلغ دون ذلك،‏‏‏‏ وعرض على عمر وعليه قميص اجتره ‏"‏‏.‏ قالوا فما أولته يا رسول الله قال ‏"‏ الدين ‏"
‏‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، مجھ کو ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے خبر دی اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو قمیص پہنے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی قمیص صرف سینے تک تھی اور بعض کی اس سے بھی چھوٹی اور میرے سامنے عمر پیش کئے گئے تو وہ اتنی بڑی قمیص پہنے ہوئے تھے کہ چلتے ہوئے گھسٹتی تھی، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی تعبیر کیالی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین مراد ہے۔

حدیث نمبر: 3692
حدثنا الصلت بن محمد،‏‏‏‏ حدثنا إسماعيل بن إبراهيم،‏‏‏‏ حدثنا أيوب،‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ عن المسور بن مخرمة،‏‏‏‏ قال لما طعن عمر جعل يألم،‏‏‏‏ فقال له ابن عباس ـ وكأنه يجزعه ـ يا أمير المؤمنين،‏‏‏‏ ولئن كان ذاك لقد صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأحسنت صحبته،‏‏‏‏ ثم فارقته وهو عنك راض،‏‏‏‏ ثم صحبت أبا بكر فأحسنت صحبته،‏‏‏‏ ثم فارقته وهو عنك راض،‏‏‏‏ ثم صحبت صحبتهم فأحسنت صحبتهم،‏‏‏‏ ولئن فارقتهم لتفارقنهم وهم عنك راضون‏.‏ قال أما ما ذكرت من صحبة رسول الله صلى الله عليه وسلم ورضاه،‏‏‏‏ فإنما ذاك من من الله تعالى من به على،‏‏‏‏ وأما ما ذكرت من صحبة أبي بكر ورضاه،‏‏‏‏ فإنما ذاك من من الله جل ذكره من به على،‏‏‏‏ وأما ما ترى من جزعي،‏‏‏‏ فهو من أجلك وأجل أصحابك،‏‏‏‏ والله لو أن لي طلاع الأرض ذهبا لافتديت به من عذاب الله عز وجل قبل أن أراه‏. قال حماد بن زيد: حدثنا أيوب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عباس: دخلت على عمر: بهذا.

ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ نے بیان کیا کہ جب حضرت عمر زخمی کر دیئے گئے تو آپ نے بڑی بے چینی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ سے تسلی کے طور پر کہا کہ اے امیرالمؤمنین! آپ اس درجہ گھبراکیوں رہے ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا پورا حق ادا کیا اور پھر جب آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے خوش اور راضی تھے، اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ کی صحبت اٹھائی اور ان کی صحبت کا بھی آپ نے پورا حق ادا کیا اور جب جدا ہوئے تو وہ بھی آپ سے راضی اور خوش تھے۔ آخر میں مسلمانوں کی صحبت آپ کو حاصل رہی۔ ان کی صحبت کا بھی آپ نے پورا حق ادا کیا اور اگر آپ ان سے جدا ہوئے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہیں بھی آپ اپنے سے خوش اور راضی ہی چھوڑیں گے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! تم نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا وخوشی کا ذکر کیا ہے تو یقیناً یہ صرف اللہ تعالیٰ کا ایک فضل اور احسان ہے جو اس نے مجھ پر کیا ہے۔ اسی طرح جو تم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت اور ان کی خوشی کا ذکر کیا ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا مجھ پر فضل و احسان تھا۔ لیکن جو گھبراہٹ اور پریشانی مجھ پر تم طاری دیکھ رہے ہو وہ تمہاری وجہ سے اور تمہارے ساتھیوں کی فکر کی وجہ سے ہے۔ اور خدا کی قسم، اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سامنا کرنے سے پہلے اس کا فدیہ دے کر اس سے نجات کی کوشش کرتا، حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ میں عمر رضی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر آخر تک یہی حدیث بیان کی۔

حدیث نمبر: 3693
حدثنا يوسف بن موسى،‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ قال حدثني عثمان بن غياث،‏‏‏‏ حدثنا أبو عثمان النهدي،‏‏‏‏ عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في حائط من حيطان المدينة،‏‏‏‏ فجاء رجل فاستفتح،‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ افتح له وبشره بالجنة ‏"‏‏.‏ ففتحت له،‏‏‏‏ فإذا أبو بكر،‏‏‏‏ فبشرته بما قال النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله،‏‏‏‏ ثم جاء رجل فاستفتح،‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ افتح له وبشره بالجنة ‏"‏‏.‏ ففتحت له،‏‏‏‏ فإذا هو عمر،‏‏‏‏ فأخبرته بما قال النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله،‏‏‏‏ ثم استفتح رجل،‏‏‏‏ فقال لي ‏"‏ افتح له وبشره بالجنة على بلوى تصيبه ‏"‏‏.‏ فإذا عثمان،‏‏‏‏ فأخبرته بما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فحمد الله ثم قال الله المستعان‏.‏

ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عثمان بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا، اور ان سے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مدینہ کے ایک باغ (بئراریس) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ایک صاحب نے آ کر دروازہ کھلوایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو، میں نے دروازہ کھولا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے مطابق جنت کی خوشخبری سنائی تو انہوں نے اس پر اللہ کی حمد کی، پھر ایک اور صاحب آئے اور دروازہ کھلوایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بھی یہی فرمایا کہ دروازہ ان کے لیے کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو، میں نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، انہیں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اطلاع سنائی تو انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر ایک تیسرے اور صاحب نے دروازہ کھلوایا۔ ان کے لیے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو ان مصائب اور آزمائشوں کے بعد جن سے انہیں (دنیا میں) واسطہ پڑے گا۔ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ جب میں نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اطلاع دی تو انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔ (یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے)

حدیث نمبر: 3694
حدثنا يحيى بن سليمان،‏‏‏‏ قال حدثني ابن وهب،‏‏‏‏ قال أخبرني حيوة،‏‏‏‏ قال حدثني أبو عقيل،‏‏‏‏ زهرة بن معبد أنه سمع جده عبد الله بن هشام،‏‏‏‏ قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم وهو آخذ بيد عمر بن الخطاب‏.

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حیوہ بن شریح نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابوعقیل زہرہ بن معبد نے بیان کیا اور انہوں نے اپنے دادا حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ اس وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
 
Top