• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ !!!

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
وفات
آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں 22! جمادی الاخری 13ھ میں وفات پائی، اُ س وقت آپ کی عمرتریسٹھ سال کی تھی ۔ آپ کو حجره ٴمبارک کے اندر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپہلومیں دفن کیا گیا۔
خط کشیدہ الفاظ کی وضاحت فرما دیں کہ ایسا کیوں کیا گیا. یہ کسی نے اعتراض کیا ھے.
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا امام الانبیاء ﷺ کے پہلو میں دفن ہونا اللہ کی طرف سے مقدر تھا ،
مؤطا امام مالک میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک خواب مروی ہے ، جس کی تصدیق سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی کی تھی ؛
أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: «رأيت ثلاثة أقمار سقطن في حجرتي» فقصصت رؤياي على أبي بكر الصديق، قالت: «فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ودفن في بيتها» ، قال لها أبو بكر هذا أحد أقمارك وهو خيرها "
ام المومنین عائشہ صدیقہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے حجرے میں تین چاند گر پڑے ،
سو میں نے اس خواب کو ابوبکر صدیق سے بیان کیا ،
سیدہ فرماتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور حضرت عائشہ کے حجرہ میں دفن ہو چکے ،
تو جناب ابوبکر نے کہا کہ ان تین چاندوں میں سے ایک چاند آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور یہ تینوں چاندوں میں بہتر ہیں ۔
مؤطا میں تو یہ روایت مرسل ہے ، یحی بن سعیدؒ نے سیدہ عائشہ کا زمانہ نہیں پایا ، لیکن امام عبد البر کی ’’ التمہید ‘‘ میں یہ موصولاً صحیح سند سے موجود ہے ،لکھتے ہیں :
((ورواه قتيبة بن سعيد عن مالك عن يحيى بن سعيد عن سعيد ابن المسيب عن عائشة أنها قالت رأيت ثلاثة أقمار سقطن في حجري وساقه ))
اور یہی روایت امام طبرانی کی المعجم الکبیر میں بھی صحیح سند سے موجود ہے ؛
عن يحيى بن سعيد عن أيوب عن نافع عن ابن عمر أو محمد بن سيرين عن عائشة أنها قالت : رأيت كأن ثلاثة أقمار سقطن في
حجرتي فقال أبو بكر : إن صدقت رؤياك دفن في بيتك خير أهل الأرض ثلاثة . فلما مات النبي صلى الله عليه وآله
وسلم قال لها أبو بكر : خير أقمارك يا عائشة . ودفن في بيتها أبو بكر وعمر .
رواه الطبراني في الكبير وهذا سياقه والأوسط عن عائشة من غير شك ورجاله الكبير رجال الصحيح . ( 11776 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر جناب ابوبکر الصدیق ؓ نے یہ وصیت بھی کی تھی کہ :
وقد أوصى أن تغسله زوجه أسماء بنت عميس، وأن يدفن بجانب رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وكان آخر ما تكلم به الصديق في هذه الدنيا قول الله تعالى: {تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ" (3) [يوسف: 101]
کہ میری زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ مجھے غسل دیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے ،
اور آخری بات جو آپ کی زبان مبارک سے نکلی وہ یہ تھی :
’’ یا اللہ مجھے ایک مسلم کی حالت میں موت دینا ،اور صالحین کے زمرہ میں شامل فرمانا ‘‘
(الانشراح ورفع الضيق في سيرة أبي بكر الصديق )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رجلان قد خلقا لنصر محمد ... بدمي ونفسي ذانك الرجلان
فهما اللذان تظاهرا لنبينا ... في نصره وهما له صهران
بنتاهما أسنى نساء نبينا ... وهما له بالوحي صاحبتان
أبواهما أسنى صحابة أحمد ... يا حبذا الأبوان والبنتان
 
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
82
ایک دیوبندی بھائی کل یعنی گذشتہ جمعہ کو بیان کر رہے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مر جاؤں تو میرا جنازہ نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی قبر کے سامنے رکھ دینا اور اجازت مانگنا اگر اجازت مل گئی تو مجھے وہاں دفنا دینا ۔ چنانچہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ کا جنازہ مقبرے کے سامنے رکھ دیا گیا ، اور دروازہ اپنے آپ کھل گیا اس کا مطلب یہ تھا کہ اجازت مل گئی پھر آپ رضی اللہ عنہ کو وہیں دفنا دیا گیا ۔۔۔ کیا یہ واقع صحیح ہے ؟
@ اسحاق سلفی بھائی
@ خضر حیات بھائی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مر جاؤں تو میرا جنازہ نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی قبر کے سامنے رکھ دینا اور اجازت مانگنا اگر اجازت مل گئی تو مجھے وہاں دفنا دینا ۔ چنانچہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ کا جنازہ مقبرے کے سامنے رکھ دیا گیا ، اور دروازہ اپنے آپ کھل گیا اس کا مطلب یہ تھا کہ اجازت مل گئی پھر آپ رضی اللہ عنہ کو وہیں دفنا دیا گیا ۔۔۔ کیا یہ واقع صحیح ہے ؟
محترم بھائی یہ قصہ امام أبو بكر محمد بن الحسين الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360 ھ) نے اپنی کتاب " الشریعہ " میں بغیر کسی سند کے ( صیغہ تمریض کے ساتھ ) یعنی "بیان کیا جاتا ہے " کے الفاظ سے لکھا ہے ،(قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ )

اور مشہور مؤرخ علامہ ابن عساکر (المتوفى: 571 ھ)نے " تاریخ دمشق " میں بالاسناد نقل کیا ہے ،
تاریخ دمشق سے سند کے ساتھ درج ذیل ہے :
أنبأنا أبو علي محمد بن محمد بن عبد العزيز بن المهدي وأخبرنا عنه أبو طاهر إبراهيم بن الحسن بن طاهر الحموي عنه أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقي سنة سبع وثلاثين وأربع مائة نا عمر بن محمد الزيات نا عبد الله بن الصقر نا الحسن بن موسى نا محمد بن عبد الله الطحان حدثني أبو طاهر المقدسي عن عبد الجليل المزني عن حبة العرني عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من يأذن إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر مستأذن فرأيت الباب قد تفتح وسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق " ( تاریخ دمشق ، جلد 30 ، صفحہ 437 )
ترجمہ :
جناب علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے اپنے سرہانے بٹھا کر مجھے فرمایا اے علی ! کہ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے غسل وغیرہ دے کر روضہ رسول کے سامنے رکھ دینا اور اجازت طلب کرنا ، تو اگر درازہ کھول دیا جائے ، تو مجھے اندر لے جانا ، بصورت دیگر مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان لے جانا ،
جناب علی فرماتے ہیں کہ ( وصیت کے مطابق ) انہیں غسل ،کفن دینے کے بعد ہم انہیں لے کر روزہ شریفہ کے پاس پہنچے اور سب سے پہلے میں عرض کی ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ ابوبکر ہیں جو آپ کی اجازت کے طلب گار ہیں ،
تو میں نے دیکھا کہ دروازہ کھل گیا ، اور کہنے والے کا کہنا سنا کہ محب کو حبیب کے پاس پہنچا دو ، کیونکہ آقا اس محب کی (ملاقات ) کے مشتاق ہیں ۔ "
امام ابن عساکر یہ روایت نقل کرکے فرماتے ہیں :
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول
والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس "

یہ روایت منکر ہے ، اور اس کے دو راوی موسی بن محمد اور عبدالجلیل مجھول ہیں ،
اور ثابت بات یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر کو انکی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس نے غسل دیا تھا ( نہ کہ جناب علی نے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ایک دیوبندی بھائی کل یعنی گذشتہ جمعہ کو بیان کر رہے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مر جاؤں تو میرا جنازہ نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی قبر کے سامنے رکھ دینا اور اجازت مانگنا اگر اجازت مل گئی تو مجھے وہاں دفنا دینا ۔ چنانچہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ کا جنازہ مقبرے کے سامنے رکھ دیا گیا ، اور دروازہ اپنے آپ کھل گیا اس کا مطلب یہ تھا کہ اجازت مل گئی پھر آپ رضی اللہ عنہ کو وہیں دفنا دیا گیا ۔۔۔ کیا یہ واقع صحیح ہے ؟
@ اسحاق سلفی بھائی
@ خضر حیات بھائی
اس سوال کے تعلق سے ایک تھریڈ پہلے سے بھی موجود ہے :
کیا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تدفین کے وقت قبر نبوی سے اجازت طلب کی گئی ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جناب ابوبکر الصدیق ؓ نے یہ وصیت کی تھی کہ :
وقد أوصى أن تغسله زوجه أسماء بنت عميس، وأن يدفن بجانب رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وكان آخر ما تكلم به الصديق في هذه الدنيا قول الله تعالى: {تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ" (3) [يوسف: 101]
کہ میری زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ مجھے غسل دیں ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے ،

اور آخری بات جو آپ کی زبان مبارک سے نکلی وہ یہ تھی :
’’ یا اللہ مجھے ایک مسلم کی حالت میں موت دینا ،اور صالحین کے زمرہ میں شامل فرمانا ‘‘
(الانشراح ورفع الضيق في سيرة أبي بكر الصديق )
 
Top