• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابو ذر غفاری رضیﷲعنہ کا ایک شخص ضمانت دینا

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
دو نوجوان حضرت عمررضیﷲعنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کھڑے ہوتے اور اس کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں :
’’اے امیر المومنین!یہ ہے وہ شخص جس نے ہمارے باپ کو قتل کیا۔‘‘
حضرت عمرؓ اُس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ واقعی تو نے ان نوجوانوں کے باپ کو قتل کیا؟

اس شخص نے جواب دیا:
’’امیر المو منین ؓان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہوا۔
میں نے منع کیا، وہ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے ماراجو سیدھا اس کے سر میں لگا۔ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔‘‘

حضرت عمرؓ نے فر مایا،
پھر تو قصاص دینا پڑے گا اور اس کی سزا تو موت ہے۔اس نے عرض کیا:
’’اے امیر المومنینؓ اس کے نام سے جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم ہیں،
مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جا نے دیجئے تاکہ میں انھیں بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔
ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں،
میں پھر واپس آجاؤں گا۔‘‘

سیدنا عمرؓ ارشاد فر ماتے ہیں کہ کون ہے جو تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا جاکے واپس بھی آئے گا؟
مجمع پر خاموشی چھا جاتی ہے،
کوئی بھی تو ایسا نہیں جو اس کے نام تک سے واقف ہو،
قبیلے، خیمے اور گھر کے بارے میں جاننا تو بہت دور کی با ت ہے۔
اس کی کون ضمانت دے؟
کیا یہ دس درہم کے ادھار،زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کامعاملہ ہے؟

نہیں، ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اُڑادیا جانا ہے۔
پھر ایسا کوئی بھی تو نہیں جو اللہ کی شریعت کی تنقید کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کرنے کھڑا ہو جائے؟
محفل میں موجود اصحاب ؓ پر خا موشی چھا گئی۔ صورتِ حال سے خود عمرؓ بھی متاثرہیں کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب ہی کو حیرت میں ڈال کے رکھ دیا۔
کیا واقعی اسے قتل کر کے اس کے بچوں کو بھوکامر نے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟
یا پھر اس کو بغیر ضمانت کے واپس جانے دیا جائے؟

حضرت عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ پھر سر اٹھا کے التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے اور فرماتے ہیں :’’معاف کر دو اس شخص کو۔‘‘
’’نہیں امیرالمومنین ؓ!
جس نے ہمارے باپ کو قتل کیاہم اسے معاف نہیں کر سکتے۔‘‘ نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجک کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ عمرؓ پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں،
’’اے لوگو!تم میں ہے کوئی جو اس کی ضمانت دے سکے؟‘‘

حضرت ابو ذر غفاری رضیﷲعنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہوتے اور فر ماتے ہیں
’’میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں :
’’ابوذرؓ اس نے قتل کیا ہے۔‘‘
’’چاہے قتل ہی کیا ہو۔‘‘ ابوذرؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمرؓ فر ماتے ہیں:
’’ ابو ذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کے نہ آیاتو مجھے تیری جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑے گا۔
‘‘ ابوذرؓ اپنے ٖفیصلے پر ڈٹے ہوئے فرماتے ہیں ’’اے امیر المومنینؓ!پھر اللہ مالک ہے۔‘‘

یوں سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کے وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے۔
تین راتوں کے بعد نماز عصر کے وقت شہر میں الصلاۃ الجامعہ کی منادی گونجتی ہے۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کے لئے بے چین ہیں۔
مجمع اللہ کی شریعت کو نافذ ہوتا دیکھنے جمع ہے۔ ابوذر ؓ بھی تشریف لاتے اور عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

’’کدھر ہے وہ آدمی؟
‘‘ عمر ؓ ابوذرؓ سے سوال کرتے ہیں۔
’’مجھے کچھ معلوم نہیں اے امیر المو منینؓ !‘‘ ابوذرؓ مختصر جواب دیتے اور آسمان کی جانب دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں جہاں سورج ڈوبنے کی جلدی میں ہے۔
محفل میں ہُو کا عالم ہے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتاکہ آج کیا ہونے جا رہا ہے۔
با لآخر مغرب سے کچھ لمحات قبل وہ شخص ہانپتا کانپتا آجاتا ہے۔
حضرت عمرؓ اس سے مخاطب ہو کے فر ماتے ہیں:’’اے شخص!اگر تو لوٹ کے نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا،
یہاں کو ئی نہ تو تیرا گھر جانتا تھااور نہ ہی کوئی تیرا ٹھکانا۔‘‘

آدمی نے جواب دیا:
’’امیر المو منینؓ!اللہ کی قسم،
بات آپ کی نہیں، اس ذات کی ہے جو سب ظاہر وپوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے۔
دیکھ لیجئے، میں آگیا ہوں،اپنے بچوں کو چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کے ،جہاں نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان،میں قتل کیے جانے کے لئے حاضر ہوں۔مجھے بس یہ ڈر تھاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے، اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفا ہی اٹھ گیا۔‘‘

سیدنا عمرؓ نے حضرت ابو ذر غفا ری ؓکی طرف رخ کر کے پوچھا:
’’آپؓ نے کس بنا پر اس شخص کی ضمانت دی تھی؟‘‘ حضرت ابو ذرؓ نے فر مایا:’’اے عمرؓ! مجھے اس بات کا ڈر تھاکہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے، اب لوگوں میں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔ ‘‘

حضرت عمرؓ ایک لمحے کے لئے رکے اور پھر نوجوانوں سے پوچھاکہ اب کیا کہتے ہو؟
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا:
’’اے امیر المومنینؓ!ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں،
ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو و در گذر ہی اٹھ گیا۔‘‘
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
دو نوجوان حضرت عمررضیﷲعنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کھڑے ہوتے اور اس کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں :
’’اے امیر المومنین!یہ ہے وہ شخص جس نے ہمارے باپ کو قتل کیا۔‘‘
حضرت عمرؓ اُس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ واقعی تو نے ان نوجوانوں کے باپ کو قتل کیا؟
اس شخص نے جواب دیا:
’’امیر المو منین ؓان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہوا۔
میں نے منع کیا، وہ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے ماراجو سیدھا اس کے سر میں لگا۔ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فر مایا،
پھر تو قصاص دینا پڑے گا اور اس کی سزا تو موت ہے۔اس نے عرض کیا:
’’اے امیر المومنینؓ اس کے نام سے جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم ہیں،
مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جا نے دیجئے تاکہ میں انھیں بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔
ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں،
میں پھر واپس آجاؤں گا۔‘‘
سیدنا عمرؓ ارشاد فر ماتے ہیں کہ کون ہے جو تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا جاکے واپس بھی آئے گا؟
مجمع پر خاموشی چھا جاتی ہے،
کوئی بھی تو ایسا نہیں جو اس کے نام تک سے واقف ہو،
قبیلے، خیمے اور گھر کے بارے میں جاننا تو بہت دور کی با ت ہے۔
اس کی کون ضمانت دے؟
کیا یہ دس درہم کے ادھار،زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کامعاملہ ہے؟
نہیں، ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اُڑادیا جانا ہے۔
پھر ایسا کوئی بھی تو نہیں جو اللہ کی شریعت کی تنقید کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کرنے کھڑا ہو جائے؟
محفل میں موجود اصحاب ؓ پر خا موشی چھا گئی۔ صورتِ حال سے خود عمرؓ بھی متاثرہیں کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب ہی کو حیرت میں ڈال کے رکھ دیا۔
کیا واقعی اسے قتل کر کے اس کے بچوں کو بھوکامر نے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟
یا پھر اس کو بغیر ضمانت کے واپس جانے دیا جائے؟
حضرت عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ پھر سر اٹھا کے التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے اور فرماتے ہیں :’’معاف کر دو اس شخص کو۔‘‘
’’نہیں امیرالمومنین ؓ!
جس نے ہمارے باپ کو قتل کیاہم اسے معاف نہیں کر سکتے۔‘‘ نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجک کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ عمرؓ پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں،
’’اے لوگو!تم میں ہے کوئی جو اس کی ضمانت دے سکے؟‘‘
حضرت ابو ذر غفاری رضیﷲعنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہوتے اور فر ماتے ہیں
’’میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں :
’’ابوذرؓ اس نے قتل کیا ہے۔‘‘
’’چاہے قتل ہی کیا ہو۔‘‘ ابوذرؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمرؓ فر ماتے ہیں:
’’ ابو ذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کے نہ آیاتو مجھے تیری جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑے گا۔
‘‘ ابوذرؓ اپنے ٖفیصلے پر ڈٹے ہوئے فرماتے ہیں ’’اے امیر المومنینؓ!پھر اللہ مالک ہے۔‘‘
یوں سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کے وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے۔
تین راتوں کے بعد نماز عصر کے وقت شہر میں الصلاۃ الجامعہ کی منادی گونجتی ہے۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کے لئے بے چین ہیں۔
مجمع اللہ کی شریعت کو نافذ ہوتا دیکھنے جمع ہے۔ ابوذر ؓ بھی تشریف لاتے اور عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
’’کدھر ہے وہ آدمی؟
‘‘ عمر ؓ ابوذرؓ سے سوال کرتے ہیں۔
’’مجھے کچھ معلوم نہیں اے امیر المو منینؓ !‘‘ ابوذرؓ مختصر جواب دیتے اور آسمان کی جانب دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں جہاں سورج ڈوبنے کی جلدی میں ہے۔
محفل میں ہُو کا عالم ہے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتاکہ آج کیا ہونے جا رہا ہے۔
با لآخر مغرب سے کچھ لمحات قبل وہ شخص ہانپتا کانپتا آجاتا ہے۔
حضرت عمرؓ اس سے مخاطب ہو کے فر ماتے ہیں:’’اے شخص!اگر تو لوٹ کے نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا،
یہاں کو ئی نہ تو تیرا گھر جانتا تھااور نہ ہی کوئی تیرا ٹھکانا۔‘‘
آدمی نے جواب دیا:
’’امیر المو منینؓ!اللہ کی قسم،
بات آپ کی نہیں، اس ذات کی ہے جو سب ظاہر وپوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے۔
دیکھ لیجئے، میں آگیا ہوں،اپنے بچوں کو چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کے ،جہاں نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان،میں قتل کیے جانے کے لئے حاضر ہوں۔مجھے بس یہ ڈر تھاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے، اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفا ہی اٹھ گیا۔‘‘
سیدنا عمرؓ نے حضرت ابو ذر غفا ری ؓکی طرف رخ کر کے پوچھا:
’’آپؓ نے کس بنا پر اس شخص کی ضمانت دی تھی؟‘‘ حضرت ابو ذرؓ نے فر مایا:’’اے عمرؓ! مجھے اس بات کا ڈر تھاکہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے، اب لوگوں میں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔ ‘‘
حضرت عمرؓ ایک لمحے کے لئے رکے اور پھر نوجوانوں سے پوچھاکہ اب کیا کہتے ہو؟
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا:
’’اے امیر المومنینؓ!ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں،
ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو و در گذر ہی اٹھ گیا۔‘‘
یہ واقع درست ہے یا نہیں۔
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
یہ واقع درست ہے یا نہیں۔
یہ واقعہ بالکل ثابت نہیں ،
یہ واقعہ محمد دیاب الاتلیدی (المتوفی بعد 1689 ء )نے اپنی کتاب «إعلام الناس بما وقع للبرامكة مع بني العباس» میں شرف الدين حسين بن ريان سے نقل کیا ہے ،لکھتے ہیں :
قال شرف الدين حسين بن ريان: أغرب ما سمعته من الأخبار، وأعجب ما نقلته عن الأخيار، ممن كان يحضر مجلس عمر ۔۔۔۔ الخ
محمد دیاب الاتلیدی جو (۱۱۰۰ ھ ) کو فوت ہوا ، اس نے اپنے سے چار سو سال پہلے کے راوی قاضی شرف الدین المتوفی سنة (702 ھ )
سے نقل کیا ، اور اس راوی یعنی قاضی شرف الدین نے اپنے سے سات سو سال پہلے کے دور صحابہ کا واقعہ نقل کیا ،
علامہ ابن حجر ؒ (الدرر الکامنہ ) میں لکھتے ہیں :
الْحُسَيْن بن سُلَيْمَان بن أبي الْحسن بن سُلَيْمَان بِن رَيَّان شرف الدّين الطَّائِي موقع الْإِنْشَاء بحلب ولد فِي شَوَّال سنة 702 وَكَانَ أَبوهُ نَاظر الدولة فَنَشَأَ هُوَ نَشأ حَسَنَة وتعانى الْآدَاب وَكَانَ صَادِق اللهجة حسن المجالسة رَقِيق الْحَاشِيَة ونظم زهر الرّبيع فِي البديع فِي سَبْعمِائة بَيت ونظم كتابا فِي أَحْكَام المواليد مَا كَانَ أغناه عَنهُ مَاتَ فِي سنة 770 ))
لہذا صدیوں پہلے کا واقعہ بارھویں صدی کا مصنف ۔۔ آٹھویں صدی ہجری کے راوی سے نقل کر رہا ہے ،
ایسے واقعہ کا کیا ثبوت ، اور اعتبار ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے مصنف کتاب ایک ادیب اور رائیٹر تھا ، کوئی دینی عالم یا محقق نہیں تھا
البیان سائیٹ پر اس کے تعارف میں لکھا ہے :
مؤلف كتاب «إعلام الناس بما وقع للبرامكة» هو: محمد بن دياب الاتليدي المتوفى سنة 1100 هجرية وهو أديب مؤرخ من إقليم منيه الخصيب بمصر. أما كتابه هذا. فقد جمع فيه طرائف أخبار الخلفاء ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.albayan.ae/paths/books/2010-11-06-1.301462
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
یہ واقعہ بالکل ثابت نہیں ،
یہ واقعہ محمد دیاب الاتلیدی (المتوفی بعد 1689 ء )نے اپنی کتاب «إعلام الناس بما وقع للبرامكة مع بني العباس» میں شرف الدين حسين بن ريان سے نقل کیا ہے ،لکھتے ہیں :
قال شرف الدين حسين بن ريان: أغرب ما سمعته من الأخبار، وأعجب ما نقلته عن الأخيار، ممن كان يحضر مجلس عمر ۔۔۔۔ الخ
محمد دیاب الاتلیدی جو (۱۱۰۰ ھ ) کو فوت ہوا ، اس نے اپنے سے چار سو سال پہلے کے راوی قاضی شرف الدین المتوفی سنة (702 ھ )
سے نقل کیا ، اور اس راوی یعنی قاضی شرف الدین نے اپنے سے سات سو سال پہلے کے دور صحابہ کا واقعہ نقل کیا ،
علامہ ابن حجر ؒ (الدرر الکامنہ ) میں لکھتے ہیں :
الْحُسَيْن بن سُلَيْمَان بن أبي الْحسن بن سُلَيْمَان بِن رَيَّان شرف الدّين الطَّائِي موقع الْإِنْشَاء بحلب ولد فِي شَوَّال سنة 702 وَكَانَ أَبوهُ نَاظر الدولة فَنَشَأَ هُوَ نَشأ حَسَنَة وتعانى الْآدَاب وَكَانَ صَادِق اللهجة حسن المجالسة رَقِيق الْحَاشِيَة ونظم زهر الرّبيع فِي البديع فِي سَبْعمِائة بَيت ونظم كتابا فِي أَحْكَام المواليد مَا كَانَ أغناه عَنهُ مَاتَ فِي سنة 770 ))
لہذا صدیوں پہلے کا واقعہ بارھویں صدی کا مصنف ۔۔ آٹھویں صدی ہجری کے راوی سے نقل کر رہا ہے ،
ایسے واقعہ کا کیا ثبوت ، اور اعتبار ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے مصنف کتاب ایک ادیب اور رائیٹر تھا ، کوئی دینی عالم یا محقق نہیں تھا
البیان سائیٹ پر اس کے تعارف میں لکھا ہے :
مؤلف كتاب «إعلام الناس بما وقع للبرامكة» هو: محمد بن دياب الاتليدي المتوفى سنة 1100 هجرية وهو أديب مؤرخ من إقليم منيه الخصيب بمصر. أما كتابه هذا. فقد جمع فيه طرائف أخبار الخلفاء ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.albayan.ae/paths/books/2010-11-06-1.301462
جزاک اللہ خیر
 
Top