• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت خضر علیہ السلام اور بچے کا قتل۔۔۔۔۔اور ملالے پر حملے پر اس سے دلیل پکڑنا کیسا ہے؟؟؟

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم ۔

ملالہ پر ہونے والے حملے ، پر ٹی ٹی پی کی جانب سے پیش کردہ کا تحقیق جائزہ!!

سوال::
السلام علیکم محترم شیخ
قرآن مجید میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو قتل کر دیا تھا ۔ کیا اس واقعے کو دلیل بنا کر آج کسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ مناسب سمجھے تو کسی بچے کو قتل کر دے؟
بعض مسلمانوں نے کہا کہ حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ ہمارے لئے دلیل نہیں ۔ اس کو بنیاد بنا کر آج کل کسی مسلم بچے کا قتل جائز نہیں ۔ تو دلیل دینے والوں نے کہا یہ قرآن میں ہے اور آپ قرآن کا انکار کر رہے ہیں ۔ کیا اس کو قرآن کا انکار کہنا درست ہے ؟
شریعت میں بلوغت کی حد کیا ہے ؟ ۱۴ سال کی عمر کا بچہ یا بچی بالغ ہوں گے یا نابالغ ؟

جواب::: از الشیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ
خضر علیہ السلام نے دو وجوہات کی بناء پر اس بچہ کو قتل کیا تھا
۱۔ اللہ کا حکم تھا اس خاص بچہ سے متعلق
۲۔ وہ بچہ انتہائی خطرناک تھا حتى کہ خدشہ تھا کہ اسکی وجہ سے اسکے والدین بھی کافر ہو جائیں گے ۔
وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا (80) فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا (81)

جبکہ یہ دونوں صورتیں آج پیدا ہی نہیں ھوسکتیں !!
کیونکہ
یہ دونوں کام وحی پر موقوف ہیں اور آج وحی بند ہے !


۲۔ نہیں اسے انکار قرآن سے تعبیر کرنا درست نہیں ۔

۳۔ بلوغت کی حد بچوں میں احتلام یا بالوں کا اگنا ہے ۔ اور بچیوں میں حیض کا آنا ہے ۔
۱۴ سال کی عمر میں بچوں کو قتال کی اجازت نہیں ملتی تھی ۔ ۱۵ سالہ بچوں کو اجازت دے دی جاتی تھی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پندرہ سالہ بچوں کو بالغ متصور کیا جاتا تھا الا کہ اس سے قبل علامات بلوغت ظاہر ہو جائیں ۔
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ اردو مجلس فورم
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ خیرا عبداللہ بھائی۔
یہ تو واضح ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ کی جانب سے خاص علم عطا ہوا تھا جس کی مدد سے انہوں نے جان لیا کہ یہ بچہ مستقبل میں کیسے کام کرے گا اور اللہ نے ہی اسے قتل کرنے کا حکم بذریعہ وحی دیا۔یہ تو ہوا خاص واقعہ۔

جبکہ دوسری جانب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے رہنے والوں سے پتھر کھا کر بھی ان کے حق میں بددعا نہیں کرتے کہ شاید ان کی اولاد میں سے لوگ ایمان لے آئیں۔

تحریک طالبان پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ انہیں کوئی علمی قیادت بھی میسر نہیں۔ ایسے عجیب و غریب دلائل سے مسلمان کے قتل جیسے بڑے واقعہ کو سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں کہ عام شخص بھی حیران رہ جائے۔ علمائے کرام کو تو اس معاملے میں ضرور عوام الناس پر واضح کرنا چاہئے کہ اس واقعہ کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ اور میڈیا کے تحت ملالہ کے جتنے قصور گنوائے گئے ہیں، کیا وہ اس کو مرتد ٹھہرا کر قتل کر دینے کو کافی ہیں؟
ایسے معاملات میں علمائے کرام کی خاموشی بھی ایک بہت بڑا جرم معلوم ہوتی ہے۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم
میں نے اس موضوع پر جو کہنا تھا ، سو کہہ دیا ، اللہ خوب جانتا ہے سچ کیا اور جھوٹ کیا!!!
باقی ملالہ اور اس کے قاتل کا معاملہ اللہ کے سپرد۔۔۔۔۔۔۔قیامت کے دن تو بہت سے معمہ حل ہونے ہیں یہ بھی سہی!

میں نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ، اور میں نے کوشش کی ، میں اس مسئلہ میں پورے انصاف کے ساتھ موقف پیش کروں اور کسی بھی قسم کے جھوٹ کی آمیزش سے بچوں۔۔۔۔اب کسی کو برا لگا ہوگا، کسی کو پسند آیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔

جن کو برا لگا ،
انکو صرف اتنا کہوں گا کہ بھائی میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمانوں کے لئے کثرت کے ساتھ وسعت رکھتا ہوں ، اور میں نے کوشش کی ، میں اس مسئلہ میں پورے انصاف کے ساتھ موقف پیش کروں اور کسی بھی قسم کے جھوٹ کی آمیزش سے بچوں،،،،،اور اللہ میرے ارادے سے خوب واقف تھا۔
میں ان تمام بھائیوں سے دلی معافی چاہتا ہوں ، جن کو میری رائے سے برا محسوس ہوا یا جن کے ساتھ میں دوران گفتگو کچھ سختی کر گیا۔
امید ہے سب بھائی ، اپنے دلوں میں سے میرے بارے بغض و کینہ رفع کر دیں گے، کیوں کہ میں تو کر دیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
اور وہ بھائی ، جو میری رائے سے متفق ہوئے اور میرے موقف کی پذیرائی کی، میں
انکا تہہ دل سے مشکور ہوں۔
آپ بھائیوں کے بغیر میں شاید اپنے موقف کو پوری طرح پیش نہ کر پاتا ، کیوں کہ کئی موقعوں پر آپ کی مدد نے مجھے کافی رہنمائی دی۔
اللہ آپ سے راضی ہو !
آخر میں وہ بھائی جو اوپر والوں دونوں قسم کے بھائیوں میں نہیں تھے یا جو میری یا طرفین کی اصلاح کے لئے محنت کرتے نظر آئے ۔۔
اللہ انکا یہ کار خیر قبول فرمائے اور انکو بہترین بدلہ عطا فرمائے ۔۔۔ آمین

اللہ ہمیں معاف فرمائے اور خاتمہ بالایمان فرمائے اور جنت الفردوس میں یکجا کر دے۔ آمین

وسلام ::: عبداللہ عبدل​
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
یہ تو واضح ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ کی جانب سے خاص علم عطا ہوا تھا جس کی مدد سے انہوں نے جان لیا کہ یہ بچہ مستقبل میں کیسے کام کرے گا اور اللہ نے ہی اسے قتل کرنے کا حکم بذریعہ وحی دیا۔یہ تو ہوا خاص واقعہ۔
جتنے بھی احکام اترے ہیں بذریعہ وحی ہی اترے ہیں تو کیا سب کو خاص واقعہ کہہ کر رد کردیا جائے گا؟ میرے بھائی یہاں سے اصول لیا گیا ہے کہ جب کسی کے بار ے میں معلوم ہوجائے یہ اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے یا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔
خضر علیہ السلام کو تو خاص علم سے معلوم ہوگیا ۔ اب اگر کسی کو عام علم سے معلوم ہوجائے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے گی کہ فلاں بن یا بنت فلاں کفار کا مددگار اوراسلام کا دشمن ہے توکیا وہ ایسے شخص کو معاف کرنے کا اختیا ر رکھتا ہے ؟؟

جبکہ دوسری جانب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے رہنے والوں سے پتھر کھا کر بھی ان کے حق میں بددعا نہیں کرتے کہ شاید ان کی اولاد میں سے لوگ ایمان لے آئیں۔
سبحان اللہ ۔ اب یہاں آپ کیوں نہیں کہتے کہ یہ خاص واقعہ ہے ؟؟؟ جب کہ دیگر موقعوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار کے لیئے بددعا کرنا ثابت ہے ۔

تحریک طالبان پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ انہیں کوئی علمی قیادت بھی میسر نہیں۔
جناب کے نزدیک علمی قیادت کیا ہے ۔ کیا پاکستان میں جناب کے نزدیک اس وقت کوئی علمی قیادت موجود ہے ؟؟؟

ایسے عجیب و غریب دلائل سے مسلمان کے قتل جیسے بڑے واقعہ کو سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں کہ عام شخص بھی حیران رہ جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میڈیا کے تحت ملالہ کے جتنے قصور گنوائے گئے ہیں، کیا وہ اس کو مرتد ٹھہرا کر قتل کر دینے کو کافی ہیں؟
ملا لہ کا جرم یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کے نام پر فرعونِ وقت امریکہ کی بپا کردہ صلیبی جنگ میں، نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرح، اپنی زبان اور قلم سے امریکہ کے لئے ہراول سپاہی کا کردار ادا کرہی تھی۔ ملالہ کا باپ بھی اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ اس نے بھی نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والوں کے خلاف جرگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر کوئی اس حقیقت کا انکاری ہے تو اس کا ثبوت ملالہ کے حق میں طوفان بپا کرنے والے الیکٹرانک میڈیا سے ہی مل جائے گا۔
قرآن و سنت سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص بھی شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کا ساتھ دے، چاہے وہ زبان وقلم کے ذریعے ہو یا پھر لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے ہو، وہ بااتفاق امت ”کافر ومرتد“ قرار پاتا ہے۔ اس کے جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم یہود نصاریٰ جیسے کافروں کا ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة : 51]

”اے اہل ایمان! یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا“۔

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’فَقَالَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لِلْمُؤْمِنِينَ: فَكُونُوا أَنْتُمْ أَيْضًا بَعْضُكُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ, وَلِلْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ حَرْبًا كَمَا هُمْ لَكُمْحَرْبٌ,وَبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَوْلِيَاءُ‘‘۔(تفسیر الطبری:۶/۶۷۲،۷۷۲)

’’اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حمایتی، مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودی اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا‘‘۔

مشہور مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ المائدۃ کی آیت51 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ) أَيْ يَعْضُدْهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ (فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) بَيَّنَ تَعَالَى أَنَّ حُكْمَهُ كَحُكْمِهِمْ‘‘ (تفسیر القرطبی:ج۶ص۷۱۲)

’’اللہ تعالیٰ کے فرمان (جو کوئی تم میں سے اُن کو دوست بنائے) کا مطلب ہے کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے خلاف کافروں کو قوت، طاقت اور ہر طرح کی (لاجسٹک) مدد فراہم کرتا ہے تو (تو وہ اُن ہی میں سے ہے) یعنی وہ انہی میں سے شمارکیا جائے گا۔ گویا اللہ رب العزت نے بڑی وضاحت سے فرمادیا ہے کہ اس کے ساتھ وہی رویہ برتا جائے گا جو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ برتا جائے گا‘‘۔

چنانچہ مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:

((قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ مُشْرِكٌ مِثْلُهُمْ لِأَنَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))

’’جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا، اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔‘‘(تفسیر القرطبی:۸/۳۹-۴۹، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۹۲۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

((مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ، فَهُوَ مِنْهُمْ، وَمِنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ بِهِ)) (کنز العمال،ج: ۹،ص:۲۲،رقم:۵۳۷۴۲۔ مسند ابی یعلٰی،نصب الرایہ:۴/۶۴۳)

’’جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکر ان) تعداد بڑھائے وہ اُن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے‘‘۔

دوسری طرف شریعت کے احکامات کا استہزاء اور مذاق اڑانے والوں کا حکم بھی سن لیجئے:

{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ} (التوبة: 65-66)

’’اور اگر آپ ان (مذاق اڑانے والوں) سے پوچھیں کہ کیا باتیں کررہے تھے؟ تو کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہوتی ہے۔ بہانے نہ بناؤ، تم فی الواقع ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو‘‘۔

امام النووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا ہے کہ:

’’أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى الْعَمَلِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَتَحْرِيمِ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ إِذَا لَمْ يُقَاتِلُوا فَإِنْ قَاتَلُوا قَالَ جَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ يُقْتَلُونَ ‘‘ (شرح النووی،ج۶،ص۸۸۱ نمبر:۰۸۲۳)

’’علماء کا اس حدیث پر عمل کرنے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کی حرمت پر اس صورت میں اجماع ہے کہ اگر وہ لڑائی نہ لڑیں۔ اگر وہ بھی لڑیں تو جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس صورت میں اُنہیں قتل کیا جائیگا‘‘۔

آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

’’ وكذلك كل من لم يكن من أهل القتال لا يحل قتله إلا إذا قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك. وتأمل قوله ” قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك “‘‘ (شرح النووی علی مسلم ۷/۴۲۳)

’’اسی طرح ہر اُس شخص کا قتل کرنا حلال نہیں جو لڑائی کے اہل لوگوں میں سے نہ ہو ماسوائے اس کے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دے کر اور (دشمن کی) اطاعت کرکے اور لڑائی پر دشمن کو برانگیختہ کرکے اور اسی قسم کے کسی دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے‘‘۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ میں فرمایا کہ:

’’وأما من لم يكن من أهل الممانعة والمقاتلة كالنساء والصبيان والراهب والشيخ الكبير والأعمى والزمن ونحوهم فلا يقتل عند جمهور العلماء؛ إلا أن يقاتل بقوله أو فعله وإن كان بعضهم يرى إباحة قتل الجميع لمجرد الكفر؛ إلا النساء والصبيان؛ لكونهم مالا للمسلمين. والأول هو الصواب‘‘ (السیاسۃ الشرعیۃ ص:۲۳۱۔۳۳۱)

’’رہے وہ لوگ کہ جو جنگجوؤں اور لڑنے والوں میں شمار نہیں ہوتے جیسے عورتیں اور بچے اور راہب (پادری) اور بوڑھا شیخ اور دائمی نابینا اور ان جیسے دوسرے، تو جمہور علماء کے نزدیک اُنہیں قتل نہیں کیا جائے گا ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یافعل کیساتھ لڑتے ہیں‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درید بن الصمۃ کو قتل کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے، حالانکہ اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی یا اس سے زیادہ تھی، اس لئے کے اُسے ہوازن قبیلے کے لشکر میں رائے دینے کے لئے لایا گیا تھا۔

اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید تحریر فرماتے ہیں:

’’وَالْمُحَارَبَۃُ نَوْعَانِ: مُحَارَبَۃٌ بِالْیَدِ ، وَ مُحَارَبَۃٌ بِاللِّسَانِ . اِلٰی قَوْلِہٖ رَحِمَہُ اللّٰہِ : وَ کَذَلِکَ الْاِفْسَادُ قَدْ یَکُونُ بِالْیَدِ وَ قَدْ یَکُوْنَ بِاللِّسَانِ ، وَمَا یُفْسِدُہُ اللِّسَانُ مِنَ الْأَدْیَانِ أَضْعَافٌ مَا تُفْسِدُہُ الْیَدُ ۔‘‘ (الصارم المسلول:۵۸۳)

’’جنگ دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) ہاتھ سے جنگ (۲) زبان سے جنگ (امام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں) کبھی کبھار تو اس میں ہاتھ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھاراس میں زبان کا دخل ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو فساد دینوں اور مذہبوں کی طرف سے زبان کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ہاتھ کے ساتھ پھیلا نا ممکن ہے۔‘‘

یہ ہے شرعی حکم ہے ان لوگوں کا کہ جو جنگ میں کفار کی کسی بھی طرح اعانت کرتے ہیں چاہے وہ معصوم الدم یعنی عورتیں، بچے، بوڑھے ہی کیوں نہ ہوں۔

ایسے معاملات میں علمائے کرام کی خاموشی بھی ایک بہت بڑا جرم معلوم ہوتی ہے۔
ایسے معاملات میں علمائے کرام کی خاموشی واقعی ایک بہت بڑا جرم معلوم ہوتی ہے۔ وگرنہ آپ طالبان کے موقف کی تردید کے لئے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بجائے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بجائے ضرور قران و حدیث سے دلائل دیتے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
جواب::: از الشیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ


جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ اردو مجلس فورم
بھئی یہ شیخ رفیق طاہر صاحب کون ہیں ۔ ان کا ذرا تعارف کروادیں۔۔۔ ایسا استفتا پہلی دفعہ دیکھنے کو ملا ہے جس میں کسی کی قرآنی آیت سے لی گئی دلیل کو اپنی عقل سے رد کیا گیا ہے ۔ نہ جواب میں قرآن کی آیت نہ حدیث نبوی نہ سلف صالحین میں سے کسی کی بیان کردہ تشریح ۔
موصوف فرماتے ہیں ۔۔ جبکہ یہ دونوں صورتیں آج پیدا ہی نہیں ھوسکتیں !!
کیونکہ
یہ دونوں کام وحی پر موقوف ہیں اور آج وحی بند ہے !

پہلے تو جناب یہ ثابت کریں کہ خضر علیہ السلام پر وحی آتی تھی کیونکہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا خضر علیہ السلام نبی تھی کہ نہیں؟ کیونکہ بعض کے نزدیک ان کو خاص قسم کا علم عطا کیا گیا تھا اور بعض ان کی نبوت کے قائل ہیں۔
چلئے خضر علیہ السلام کو تو وحی یا خاص علم سے معلوم ہوگیا کہ یہ لڑکا آنے والے وقت میں اپنے مومن ماں باپ کو کفر میں مبتلا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے تو اس کو اللہ کے حکم سے قتل کردیا ۔ اب اگر کسی کو عام علم سے یہ واضح معلوم ہوجائے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ فلاں بن یا بنت فلاں کفار کا مددگار اوراسلام کا دشمن ہے توکیا وہ ایسے شخص کو معاف کرنے کا اختیا ر رکھتا ہے یا پھر ایسے شخص کو قتل کیا جائے گا ؟؟
موخر الذکر کے دلائل اوپر پیش کر دیئے ہیں سلف کے فہم کی روشنی میں۔۔۔ ملاحظہ فرما لیں اور اگر سلف میں سے کوئی اس رائے کا قائل ہو کہ ایسے شخص کو قتل نہیں کیا جائے گا تو وہ براہ کرم وہ رائے بمع دلیل نقل کردیں ۔
پھر فرماتے ہیں کہ:
۲۔ نہیں اسے انکار قرآن سے تعبیر کرنا درست نہیں ۔

اسے انکار قرآن سے تعبیر کرنا اسوقت درست نہیں جب دوسری طرف سے بھی اس کے مقابل قرآن یا حدیث سے دلیل دی گئی ہو۔ جب بلادلیل رد کیا جائے تو انکار قرآن ہی کہا جائے گا۔ واللہ اعلم
جہاں تک بلوغت کا تعلق ہے تو وہ عموماََ دس سے پندرہ سال کی عمر کے درمیان حاصل ہو جاتی ہے جبکہ دس سال کی عمر سے پہلے بھی کسی کا بالغ ہوجانا انوکھی بات نہیں ۔ راجا صاحب کی پوسٹ کے جواب میں جو دلائل ذکر کیئے گئے ہیں ان کو پڑھ لیں تو بلوغت کی بحث میں جانے کی ضرورت ہیں نہیں رہے گی۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ،
بھائیو، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔
ہمارے لیے حجت ان کا عمل ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جتنے بھی احکام اترے ہیں بذریعہ وحی ہی اترے ہیں تو کیا سب کو خاص واقعہ کہہ کر رد کردیا جائے گا؟ میرے بھائی یہاں سے اصول لیا گیا ہے کہ جب کسی کے بار ے میں معلوم ہوجائے یہ اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے یا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔
خضر علیہ السلام کو تو خاص علم سے معلوم ہوگیا ۔ اب اگر کسی کو عام علم سے معلوم ہوجائے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے گی کہ فلاں بن یا بنت فلاں کفار کا مددگار اوراسلام کا دشمن ہے توکیا وہ ایسے شخص کو معاف کرنے کا اختیا ر رکھتا ہے ؟؟


سبحان اللہ ۔ اب یہاں آپ کیوں نہیں کہتے کہ یہ خاص واقعہ ہے ؟؟؟ جب کہ دیگر موقعوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار کے لیئے بددعا کرنا ثابت ہے ۔



جناب کے نزدیک علمی قیادت کیا ہے ۔ کیا پاکستان میں جناب کے نزدیک اس وقت کوئی علمی قیادت موجود ہے ؟؟؟



ملا لہ کا جرم یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کے نام پر فرعونِ وقت امریکہ کی بپا کردہ صلیبی جنگ میں، نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرح، اپنی زبان اور قلم سے امریکہ کے لئے ہراول سپاہی کا کردار ادا کرہی تھی۔ ملالہ کا باپ بھی اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ اس نے بھی نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والوں کے خلاف جرگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر کوئی اس حقیقت کا انکاری ہے تو اس کا ثبوت ملالہ کے حق میں طوفان بپا کرنے والے الیکٹرانک میڈیا سے ہی مل جائے گا۔
قرآن و سنت سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص بھی شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کا ساتھ دے، چاہے وہ زبان وقلم کے ذریعے ہو یا پھر لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے ہو، وہ بااتفاق امت ”کافر ومرتد“ قرار پاتا ہے۔ اس کے جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم یہود نصاریٰ جیسے کافروں کا ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة : 51]

”اے اہل ایمان! یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا“۔

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’فَقَالَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لِلْمُؤْمِنِينَ: فَكُونُوا أَنْتُمْ أَيْضًا بَعْضُكُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ, وَلِلْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ حَرْبًا كَمَا هُمْ لَكُمْحَرْبٌ,وَبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَوْلِيَاءُ‘‘۔(تفسیر الطبری:۶/۶۷۲،۷۷۲)

’’اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حمایتی، مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودی اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا‘‘۔

مشہور مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ المائدۃ کی آیت51 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ) أَيْ يَعْضُدْهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ (فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) بَيَّنَ تَعَالَى أَنَّ حُكْمَهُ كَحُكْمِهِمْ‘‘ (تفسیر القرطبی:ج۶ص۷۱۲)

’’اللہ تعالیٰ کے فرمان (جو کوئی تم میں سے اُن کو دوست بنائے) کا مطلب ہے کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے خلاف کافروں کو قوت، طاقت اور ہر طرح کی (لاجسٹک) مدد فراہم کرتا ہے تو (تو وہ اُن ہی میں سے ہے) یعنی وہ انہی میں سے شمارکیا جائے گا۔ گویا اللہ رب العزت نے بڑی وضاحت سے فرمادیا ہے کہ اس کے ساتھ وہی رویہ برتا جائے گا جو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ برتا جائے گا‘‘۔

چنانچہ مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:

((قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ مُشْرِكٌ مِثْلُهُمْ لِأَنَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))

’’جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا، اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔‘‘(تفسیر القرطبی:۸/۳۹-۴۹، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۹۲۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

((مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ، فَهُوَ مِنْهُمْ، وَمِنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ بِهِ)) (کنز العمال،ج: ۹،ص:۲۲،رقم:۵۳۷۴۲۔ مسند ابی یعلٰی،نصب الرایہ:۴/۶۴۳)

’’جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکر ان) تعداد بڑھائے وہ اُن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے‘‘۔

دوسری طرف شریعت کے احکامات کا استہزاء اور مذاق اڑانے والوں کا حکم بھی سن لیجئے:

{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ} (التوبة: 65-66)

’’اور اگر آپ ان (مذاق اڑانے والوں) سے پوچھیں کہ کیا باتیں کررہے تھے؟ تو کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہوتی ہے۔ بہانے نہ بناؤ، تم فی الواقع ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو‘‘۔

امام النووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا ہے کہ:

’’أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى الْعَمَلِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَتَحْرِيمِ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ إِذَا لَمْ يُقَاتِلُوا فَإِنْ قَاتَلُوا قَالَ جَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ يُقْتَلُونَ ‘‘ (شرح النووی،ج۶،ص۸۸۱ نمبر:۰۸۲۳)

’’علماء کا اس حدیث پر عمل کرنے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کی حرمت پر اس صورت میں اجماع ہے کہ اگر وہ لڑائی نہ لڑیں۔ اگر وہ بھی لڑیں تو جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس صورت میں اُنہیں قتل کیا جائیگا‘‘۔

آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

’’ وكذلك كل من لم يكن من أهل القتال لا يحل قتله إلا إذا قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك. وتأمل قوله ” قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك “‘‘ (شرح النووی علی مسلم ۷/۴۲۳)

’’اسی طرح ہر اُس شخص کا قتل کرنا حلال نہیں جو لڑائی کے اہل لوگوں میں سے نہ ہو ماسوائے اس کے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دے کر اور (دشمن کی) اطاعت کرکے اور لڑائی پر دشمن کو برانگیختہ کرکے اور اسی قسم کے کسی دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے‘‘۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ میں فرمایا کہ:

’’وأما من لم يكن من أهل الممانعة والمقاتلة كالنساء والصبيان والراهب والشيخ الكبير والأعمى والزمن ونحوهم فلا يقتل عند جمهور العلماء؛ إلا أن يقاتل بقوله أو فعله وإن كان بعضهم يرى إباحة قتل الجميع لمجرد الكفر؛ إلا النساء والصبيان؛ لكونهم مالا للمسلمين. والأول هو الصواب‘‘ (السیاسۃ الشرعیۃ ص:۲۳۱۔۳۳۱)

’’رہے وہ لوگ کہ جو جنگجوؤں اور لڑنے والوں میں شمار نہیں ہوتے جیسے عورتیں اور بچے اور راہب (پادری) اور بوڑھا شیخ اور دائمی نابینا اور ان جیسے دوسرے، تو جمہور علماء کے نزدیک اُنہیں قتل نہیں کیا جائے گا ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یافعل کیساتھ لڑتے ہیں‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درید بن الصمۃ کو قتل کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے، حالانکہ اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی یا اس سے زیادہ تھی، اس لئے کے اُسے ہوازن قبیلے کے لشکر میں رائے دینے کے لئے لایا گیا تھا۔

اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید تحریر فرماتے ہیں:

’’وَالْمُحَارَبَۃُ نَوْعَانِ: مُحَارَبَۃٌ بِالْیَدِ ، وَ مُحَارَبَۃٌ بِاللِّسَانِ . اِلٰی قَوْلِہٖ رَحِمَہُ اللّٰہِ : وَ کَذَلِکَ الْاِفْسَادُ قَدْ یَکُونُ بِالْیَدِ وَ قَدْ یَکُوْنَ بِاللِّسَانِ ، وَمَا یُفْسِدُہُ اللِّسَانُ مِنَ الْأَدْیَانِ أَضْعَافٌ مَا تُفْسِدُہُ الْیَدُ ۔‘‘ (الصارم المسلول:۵۸۳)

’’جنگ دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) ہاتھ سے جنگ (۲) زبان سے جنگ (امام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں) کبھی کبھار تو اس میں ہاتھ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھاراس میں زبان کا دخل ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو فساد دینوں اور مذہبوں کی طرف سے زبان کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ہاتھ کے ساتھ پھیلا نا ممکن ہے۔‘‘

یہ ہے شرعی حکم ہے ان لوگوں کا کہ جو جنگ میں کفار کی کسی بھی طرح اعانت کرتے ہیں چاہے وہ معصوم الدم یعنی عورتیں، بچے، بوڑھے ہی کیوں نہ ہوں۔


ایسے معاملات میں علمائے کرام کی خاموشی واقعی ایک بہت بڑا جرم معلوم ہوتی ہے۔ وگرنہ آپ طالبان کے موقف کی تردید کے لئے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بجائے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بجائے ضرور قران و حدیث سے دلائل دیتے۔
جزاک الله خیر بھائی-

میرے بھی یہی خیالات ہیں - اور میں بھی کچھ ایسا ہی لکھنا چاہتا تھا - لیکن آپ بازی لے گئے -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جتنے بھی احکام اترے ہیں بذریعہ وحی ہی اترے ہیں تو کیا سب کو خاص واقعہ کہہ کر رد کردیا جائے گا؟ میرے بھائی یہاں سے اصول لیا گیا ہے کہ جب کسی کے بار ے میں معلوم ہوجائے یہ اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے یا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔
خضر علیہ السلام کو تو خاص علم سے معلوم ہوگیا ۔ اب اگر کسی کو عام علم سے معلوم ہوجائے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے گی کہ فلاں بن یا بنت فلاں کفار کا مددگار اوراسلام کا دشمن ہے توکیا وہ ایسے شخص کو معاف کرنے کا اختیا ر رکھتا ہے ؟؟
احکام بے شک بذریعہ وحی ہی اترتے ہیں۔لیکن معجزات سے اور خصوصی واقعات سے عمومی دلیل پکڑنا تو بریلوی طرز فکر ہے۔
آپ نے تو کئی قدم آگے بڑھ کر اسلام کو نقصان پہنچانے کا "ارادہ" رکھنے والے پر بھی قتل کا فتویٰ لگا دیا۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔
خیر، جب عام علم سے معلوم ہوا کہ یہ شخص اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے تو اس علم کی صداقت اور قطعیت جانچنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس کے لئے عدالت، گواہ، قاضی وغیرہ ہوتے ہیں، یا بس دجالی میڈیا میں دیکھ سن کر کسی کے بھی قتل کا پروانہ جاری کر دیا جاتا ہے؟
مجھے لگتا ہے کہ طالبان وہی ہیں جنہیں علمائے اسلام خوارج کہتے آئے ہیں۔ اب اس عام علم کی بنیاد پر میں احادیث اور آیات ان پر چسپاں کر کے انہیں قتل کرنے نکل جاؤں؟
جرم اپنی جگہ، لیکن جرم کی سزا دینے کا اختیار بھی تو فقط ریاست ہی کو ہے۔

راجا نے کہا ہے:
ایسے عجیب و غریب دلائل سے مسلمان کے قتل جیسے بڑے واقعہ کو سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں کہ عام شخص بھی حیران رہ جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میڈیا کے تحت ملالہ کے جتنے قصور گنوائے گئے ہیں، کیا وہ اس کو مرتد ٹھہرا کر قتل کر دینے کو کافی ہیں؟
ملا لہ کا جرم یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کے نام پر فرعونِ وقت امریکہ کی بپا کردہ صلیبی جنگ میں، نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرح، اپنی زبان اور قلم سے امریکہ کے لئے ہراول سپاہی کا کردار ادا کرہی تھی۔ ملالہ کا باپ بھی اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ اس نے بھی نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والوں کے خلاف جرگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر کوئی اس حقیقت کا انکاری ہے تو اس کا ثبوت ملالہ کے حق میں طوفان بپا کرنے والے الیکٹرانک میڈیا سے ہی مل جائے گا۔
قرآن و سنت سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص بھی شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کا ساتھ دے، چاہے وہ زبان وقلم کے ذریعے ہو یا پھر لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے ہو، وہ بااتفاق امت ”کافر ومرتد“ قرار پاتا ہے۔ اس کے جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم یہود نصاریٰ جیسے کافروں کا ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف؟؟؟؟ یا خوارج کے خلاف؟
ریاست کے اندر ریاست بنانے والے مجرموں، دہشت گردوں، لٹیروں، اور قبائلی عصبیت کے علمبرداروں کے خلاف کچھ کہنا لکھنا کب سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے مترادف ہو گیا؟

اچھا چلیں چھوڑیں یہ بتا دیں کہ یہ شریعت کا نفاذ کرنے والے شہریار محسود گروپ ہے یا خان سید گروپ؟ سجنا گروپ یہ تو آپس ہی میں دست و گریباں ہیں؟ ان کی امریکہ سے جنگ بھی نفاذ شریعت سے زیادہ، خون گرم رکھنے کا اک بہانہ والی بات ہے۔ورنہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد یوں اقتدار کے لئے لڑ نے مرنے پر تیار نہ ہو جاتے۔
آج کراچی ائرپورٹ والے واقعے میں کم سے کم بیس عام شہریوں کو مار دیا گیا ہے۔ کیا یہ لوگ بھی آپ کی جنگ میں شریک تھے یا بس پوائنٹ اسکور کرنے کا ذریعہ؟
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
احکام بے شک بذریعہ وحی ہی اترتے ہیں۔لیکن معجزات سے اور خصوصی واقعات سے عمومی دلیل پکڑنا تو بریلوی طرز فکر ہے۔
۱۔کیا خضر علیہ السلام کا بچے کو قتل کرنا معجزہ تھا ؟ قرآن اور حدیث سے ثبوت پیش کریں ۔
۲۔ خضر علیہ السلام کے واقعے سے عموی دلیل کب پکڑی گئی ہے؟ ایک تو یہ صرف ملالہ کے واقعے میں ہوا ۔ دوسرے یہ ملالہ پر حملے لئے جو دیگر دلائل ذکر کیے گئے ہیں وہ تو خاص واقعہ سے نہیں لئے گئے ۔ کیا آپ کی بہن ملالہ نے اپنے اوپر ہونے والے حملے سے قبل ان دو باتوں کی تردید کی تھی ؟
۱۔ برقعہ پتھر کے دور کی یادگار ہے ۔ (معاذاللہ)
۲۔ داڑھی کو دیکھ کر فرعون یا د آتا ہے ۔ (معاذاللہ)
کیا درج بالا باتیں طالبان کے خلاف تھیں یا اسلام کے خلاف ؟

آپ نے تو کئی قدم آگے بڑھ کر اسلام کو نقصان پہنچانے کا "ارادہ" رکھنے والے پر بھی قتل کا فتویٰ لگا دیا۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔
اب جو چیز آپ کے علم میں نہ وہ آپ کو کئی قدم آگے ہی لگے گی۔۔ یہ میرا فتوٰی نہیں ہے علمائے کرام سے مسئلہ پوچھ لیں بات واضح ہوجائےگی۔ کیاخیرالقرون اور بعد کے دور میں ایسے واقعات ثابت نہیں کہ کسی کا اسلام کو نقصان پہنچانے کا ارادہ معلوم ہونے پر اس کو قتل کیا گیا ہو یا اس سے قتال کیا گیا ہو؟

خیر، جب عام علم سے معلوم ہوا کہ یہ شخص اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے تو اس علم کی صداقت اور قطعیت جانچنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس کے لئے عدالت، گواہ، قاضی وغیرہ ہوتے ہیں، یا بس دجالی میڈیا میں دیکھ سن کر کسی کے بھی قتل کا پروانہ جاری کر دیا جاتا ہے؟
جیسے آپ کی عدالتوں نے ریمنڈ ڈیوس کو رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے بعد صداقت اور قطعیت جانچی۔ کون سی عدالت کی بات کر رہیں ہے ؟ کیا پاکستان میں کوئی ایسی عدالت ہے جو اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے؟
مجھے لگتا ہے کہ طالبان وہی ہیں جنہیں علمائے اسلام خوارج کہتے آئے ہیں۔ اب اس عام علم کی بنیاد پر میں احادیث اور آیات ان پر چسپاں کر کے انہیں قتل کرنے نکل جاؤں؟
ست بسم اللہ ۔ میدان بھی حاضر اور گھوڑا بھی۔ لیکن شاید ہمت کافقدان ہے کہ یا تو ٹانگیں لڑکھڑاہٹ کی وجہ سے ساتھ نہیں دیتی یا ہاتھوں پر کپکپی ہے ۔ یا پھر آپ قلم کے میدان بودے دلائل سے قسمت آزمائی کے خواہاں ہیں۔ لگے رہیں آپ جیسے قلم کاروں کی اشد ضرورت ہے حکومت کو بھی اور طالبان کو بھی۔

جرم اپنی جگہ، لیکن جرم کی سزا دینے کا اختیار بھی تو فقط ریاست ہی کو ہے۔
کون سی ریاست ؟ جو قاتلوں ، غداروں، ایجنٹوں سے بھری پڑی ہے۔ جو گستاخِ رسول کو شہید قرار دے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنائے اور ناموسِ رسالت کا دفاع کرنے والے دو دو مرتبہ انگریز کے قانون سے سزائے موت دے ؟ گستاخ کافرہ رمشا مسیح کو سزا کے بجائے سرکاری پروٹوکول دے اور امام مسجد کو ذلیل کر پابند سلاسل کرے۔ مسجدوں مدرسوں میں گھس کر معصوم بچوں اور عورتوں کو فاسفورس سے جلاڈالے ؟ وہ ریاست جہاں اللہ کا قانون اپنے نفاذ کے لئے دو تین سو شرابی زانیوں (الاماشااللہ) کی پارلیمنٹ کا محتاج ہو ؟ جہاں 66 برس مسلمان شریعت کا مطالبہ کر رہے ہوں اسے اسلامی ریاست کہتے ہیں ؟
شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف؟؟؟؟ یا خوارج کے خلاف؟
ریاست کے اندر ریاست بنانے والے مجرموں، دہشت گردوں، لٹیروں، اور قبائلی عصبیت کے علمبرداروں کے خلاف کچھ کہنا لکھنا کب سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے مترادف ہو گیا؟
۱۔ برقعہ پتھر کے دور کی یادگار ہے ۔ (معاذاللہ)
۲۔ داڑھی کو دیکھ کر فرعون یا د آتا ہے ۔ (معاذاللہ)
کیا درج بالا باتیں دہشت گردوں، لٹیروں، اور قبائلی عصبیت کے علمبرداروں کے خلاف تھیں ؟

اچھا چلیں چھوڑیں یہ بتا دیں کہ یہ شریعت کا نفاذ کرنے والے شہریار محسود گروپ ہے یا خان سید گروپ؟ سجنا گروپ یہ تو آپس ہی میں دست و گریباں ہیں؟ ان کی امریکہ سے جنگ بھی نفاذ شریعت سے زیادہ، خون گرم رکھنے کا اک بہانہ والی بات ہے۔ورنہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد یوں اقتدار کے لئے لڑ نے مرنے پر تیار نہ ہو جاتے۔
یہ بات آپ کو اپنے ذرائع سے معلوم ہوئی یا آپ ہی بقول دجالی میڈیا کے ذرائع سے ؟
علی رضی اللہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ میں بھی جنگ ہوئی تھی ۔ اور دونوں علیحدہ حکومت چلاتے رہے ۔ کیا اس کے باوجود بھی دونوں جگہ اسلامی قانون نافذ نہیں رہا؟

آج کراچی ائرپورٹ والے واقعے میں کم سے کم بیس عام شہریوں کو مار دیا گیا ہے۔ کیا یہ لوگ بھی آپ کی جنگ میں شریک تھے یا بس پوائنٹ اسکور کرنے کا ذریعہ؟
سفید جھوٹ۔ ذرا سرکاری طور پر جاری ہونے والی ہلاک شدگان کی لسٹ پر غور کرلیں۔ کہ کتنے عام شہری مارے گئے ہیں۔
اسی دجالی میڈیا پر خوشنود علی خان نے کہا میڈیا اس واقعہ پر منافقت سے کام لیتا رہا اور قوم کو سچ سے بے خبر رکھا گیا ۔ حملہ آوروں کا ہدف ایک غیر ملکی کپمنی کا ہینگر تھا جس پر کوئی خاص سامان موجو د تھا جس کو تباہ کرنے میں حملہ آور کامیاب رہے ۔ اب وہ خاص سامان کیا تھا یہ خوشنود علی خان نے نہیں بتایا۔ تاہم آج کی ایک خبر کے مطابق تاحال مذکورہ مقام کی آگ مکمل طو رپر نہیں بجھائی جاسکی جسکی وجہ کوئی خاص کیمیکل کا وہاں موجود ہونا بتایا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
 
Top