• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عبدالله بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنه اور بدعت حسنہ- اس قول کی تحقیق درکار ہے

bhatti

مبتدی
شمولیت
جنوری 03، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
11
..
حضرت اعرج روایت کرتے ہیں حضرت عبدالله بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنه سے نماز چاشت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا بدعت ہے اور اچھی بدعت ہے۔۔
سند صحیح۔
(فتح الباری ٣ /٥٢


 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
چاشت کی نماز کے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ویسے ہی ہے ، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کے متعلق فرمایا تھا ۔
جس طرح تراویح کی نماز پڑھنا بھی ثابت تھا ، باجماعت پڑھنا بھی ثابت تھا ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مداومت اس لیے نہ فرمائی ، تاکہ امت پر فرض نہ کردی جائیں ، چنانچہ اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب صحابہ کرام نے باجماعت اس کے پڑھانے کا مواظبت کے ساتھ اہتمام کیا ، تو اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک اچھا اقدام قرار دیا ۔
اسی طرح حضور سے چاشت کی فضیلت ثابت ہے ، اسی طرح نماز پڑھنا بھی ثابت ہے ، لیکن حضور نے اس پر ہمیشگی نہیں فرمائی ، تاکہ مسلمانوں پر فرض نہ ہوجائے ، بعد میں مسلمانوں نے اس کا اہتمام کرنا شروع کردیا ، تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس اچھے اقدام کو دیکھ کر اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔ واللہ اعلم ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
چاشت کی نماز کے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ویسے ہی ہے ، جیسے
اس جواب پر @عامر عدنان بھائی نے سوال کیا ہے کہ :
شیخ محترم یہ جو جواب شیخ خضر حیات حفظہ اللہ نے دیا ہے بخاری کی روایت نمبر ۱۷۷۵ پر عمر رضی اللہ عنہ نے اشراق کی نماز کو بدعت کہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ نے جو جواب دیا ہے ائمہ دین سے اگر اس روایت کے متعلق اقوال مل جائیں کہ بدعت سے مراد کیا بیان کیا ہے ائمہ دین نے اور خاص طور پر حنفی علماء نے تو میرے لئے مفید رہے گا میری مدد کریں ۔
جزاک اللہ خیرا
اس کا مفصل جواب تو شیخ محترم @خضر حیات صاحب دیں گے ،
تاہم نماز ضحیٰ (اشراق ) کے متعلق سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے قول کے متعلق علامہ مبشراحمد ربانی لکھتے ہیں :
" نماز چاشت صحیح احادیث سے ثابت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام ہانی رضی اللہ عنہا سے یہ نماز مروی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی پابندی کی وصیت بھی فرمائی۔
[صحيح بخاري، كتاب التهجد، باب صلوةالضحي فى الحضر : 1178]


↰ مگر اس وصیت کے باوصف سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کو بدعت کہتے ہیں ( اس کی وجہ ذیل میں آرہی ہے ) جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ مجاہؒد کہتے ہیں۔
دخلت انا وعروة بن الزبير المسجد فإذا عبد الله بن عمر رضي الله عنهما جالس إلى حجرة عائشة وإذا ناس يصلون في المسجد صلاة الضحى قال : فسالناه عن صلاتهم فقال : بدعة

’’ میں اور عروہ ابن زبیر (رضی اللہ عنہما ) دونوں مسجد میں داخل ہوئے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ کے پاس بیٹھے تھے اور اس وقت کچھ لوگ مسجد میں نماز چاشت پڑھ رہے تھے۔ ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کی اس نماز کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے کہا: ’’ یہ بدعت ہے “۔ [ صحيح بخاري، كتاب العمر ة : باب كم اعتمر النبى صلى الله عليه وسلم : 1775، صحيح مسلم : 3037]
↰ جب کہ یہ نماز متعدد اسانید صحیحہ سے مروی ہے جیسا کہ اوپر صحیح بخاری کے حوالے سے گزر چکا ہے۔ مقام غور ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے بدعت کیوں کہا: ؟ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا دستور نہیں تھا۔ چنانچہ :
◈ امام نووی رحمہ الله نے شرح مسلم میں لکھا ہے :
مراده ان اظهارها والاجتماع لها بدعة لا ان صلوة الضحي بدعة وقد سبقت المسئلة فى كتاب الصلوة

’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مراد یہ تھی کہ نماز چاشت کو مسجد میں ظاہر کر کے پڑھنا اور اس کے لیے اجتماع و اہتمام کرنا بدعت ہے نہ کہ نماز چاشت بدعت ہے۔ “

◈ امام ابوبکر محمد بن ولید الطرطوشی (المتوفى: 520ھ)لکھتے ہیں :
محمله عندي على احد وجهين انهم كانوا يصلونها جماعة اما انها يصلونها معا او فذاذا على هيئة النوافل فى اعقاب الفرائض۔
’’ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کی اس نماز کو تو اس لیے بدعت قرار دیا کہ وہ اسے باجماعت پڑھ رہے تھے یا اس لیے کہ اکیلے اکیلے اس طرح پڑھ رہے تھے جیسے فرائض کے بعد ایک ہی وقت میں تمام نمازی سنن رواتب پڑھا کرتے ہیں۔ “ [كتاب الحوادث والبدع 44]
https://archive.org/details/waq18289/page/n43
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ مبشر ربانی کے اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ضحیٰ کو بدعت نہیں کہا ،
بلکہ اس کی خاص کیفیت یعنی باہتمام پڑھنے اور باجماعت پڑھنے کو بدعت کہا ہے ،
بلفظ دگر : ثابت شدہ عبادت کی کیفیت و ھیئت میں اگر کمی ،بیشی کی جائے تو وہ بدعت کہلائے گی ۔
 
Last edited:
Top