• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

*حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے امتیازات:*

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
*افروز عالم ذکراللہ سلفی ،گلری, ممبئی*
*(قسط اول:01)*

*الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان الى' يوم الدين أما بعد:*

*صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ نفوس قدسیہ ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد کوئی بھی ان کے مقام ومرتبہ میں ان کا سہیم و شریک نہیں۔*
*ہر سچا مسلمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ دل و جان سے محبت کرتا ہے اور ان کی تعظیم و تکریم ایمان کا حصہ سمجھتا ہے۔*
*اس لیے کہ یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے ایمان کی پختگی اور ان کے عمل و اخلاص کی گواہی دی ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چاہتوں اور محبتوں سے نوازا ہے۔*

*یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا*
*ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں*

*انہیں نفوس قدسیہ میں ایک "ہستی سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی تھی۔ ان کے مقام ومرتبہ اور ان کے خصوصی امتیازات اسی طرح آپ کے خصوصی وعمومی فضائل ومناقب احادیث کی روشنی میں مثلاً آپ کی عفت و پاکدامنی،اسلام اور ہجرت حبشہ،ذوالنورین،ذوالہجرتین،کثرت سے انفاق فی سبیل اللہ،صلح حدیبیہ کے موقع پر سفیر،امت میں سب سے زیادہ حیادار شخص،ایک مصحف پر پوری امت کو اکھٹا کرنا،صبروتحمل،کثرت سے غلام آزاد کرنا،حکومت کی تعمیر وترقی میں اقتصادی تعاون،فتوحات، وغیرہ کو اجاگر کرنے اور ان سے اپنی عقیدت و محبت کے اظہار میں ہم نے اس اہم موضوع پر کچھ لکھنے کی جسارت کی ہے ۔*
*احادیث کو ان کے مصادر اصلیہ سے تخریج کی ہے اور صحیح حدیثوں کے بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے اور غریب الفاظ کی حاشیہ میں تشریح بھی کر دیا ہوں۔*
*مزید حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت اور آپ کے گھر کا محاصرہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے آپ کا دفاع،اور اس سے آپ رضی اللہ عنہ کے انکار کو بیان کرنے کی کوشش تفصیل سے ذکر کی ہے۔*
*قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے موقف اور ان کے اقوال کو بقدر تفصیل واضح کیا ہے۔*
*اور آپ کے ازواج و اولاد کا شجرہ بھی ہم نے پیش کی ہے۔*
*اہل سنت والجماعت کے منھج کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ قدیم وجدید مصادر علمیہ سے اس موضوع" حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے امتیازات" کو زینت بخشی ہے۔*

*یقیناً آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی تاریخ امت کا روشن صفحہ ہے۔اپنی جان کی خاطر امت میں فتنہ نہ ہونے دیا اور جام شہادت نوش کر لیا اور اپنی جان دے کر آپ نے مسلمانوں کی جانیں بچا لیں۔*
*اس مصیبت کا اثر مسلمانوں پر بہت گہرا پڑا،ان کے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،ان کی زبانیں آپ کی مدح و ثنا میں لگ گئیں،ان کے لئے رحمت کی دعا کرنے لگے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان کے حق میں دعا کریں" وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ " (الحشر:10)*

*جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر*
*جب وقت شہادت آتا ہے،دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں*

*اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری اس کوشش کو شرف قبولیت سے نوازے اور آپ کی محبت ہمارے دلوں میں جاگزیں فرمائے( آمین ).*

*خلیفہ سوم امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آپ کا نام و نسب اس طرح ہے :*

*نام ونسب :*
*عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب ۔(1)*

*آپ کا تعلق بنو امیہ سے تھاوہ قریش قبیلہ سے ہی تعلق رکھتے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا سلسلۂ نسب آپ کے پردادا عبدمناف سے مل جاتا ہے۔(2)*

*آپ کی والدہ کا نام اروی' بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمش ہے اور آپ کی نانی کا نام ام حکیم البیضاء بنت عبدالمطلب تھا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی تھیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کی جڑواں بہن تھیں،اس طرح عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی کے نواسے تھے۔(3)*

*ولادت:*

*صحیح قول کے مطابق سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت نبوی سے 47/ برس قبل مکہ میں پیدا ہوئے۔(4)*
*ان کے والد عفان بن ابی العاص مکہ کے معروف اور دولت مند تاجر تھے تجارت کے لئے مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے کہ راستے ہی میں ان کا انتقال ہوگیا،انھوں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے لیے وافر مقدار میں مال چھوڑی۔(5)*

*کنیت :*

*حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی کنیت جاہلیت میں ابوعمرو تھی،لیکن جب اسلام لائے اور حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی ہوئی تو حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے عبداللہ پیدا ہوئے اس وقت آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہوگئی،جب عبداللہ چھ سال کے ہوئے تو ایک مرغ نے ان کی دونوں آنکھوں میں چونچ مار دی جس کی وجہ سے عبداللہ بیمار ہوکر جمادی الاولی' 4/ہجری میں انتقال کرگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی،حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان کی قبر میں اترے۔(6)*

*لقب :*

*حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذی النورین (دو نور والے) کے لقب سے ملقب کیا گیا تھا۔*
*اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا یکے بعد دیگرے آپ کی زوجیت میں رہیں پہلے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شادی تین 3/ہجری حضرت ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ، یہ نو 9/ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فوت ہوگئیں،ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔*
*حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اس خصوصیت میں شریک نہیں کہ اس نے کسی نبی کی دو بیٹیوں سے شادی کی ہو ۔(7)*

*اخلاق و عادات:*
*حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عمدہ اخلاق و خصائل کے حامل تھے،اچھی خصلتیں آپ کی شان تھیں،امت کے اندر سب سے زیادہ حیادار شخص تھے ۔(8)*
*آپ نہ طویل القامت (لمبے) تھے نہ قصیر القامت(پست قد) آپ گندم گوں رنگ کے تھے,آپ پر کچھ چیچک کا اثر بھی تھا،آپ کی داڑھی بڑی تھی اور جسم کے جوڑ بند بھی بڑے بڑے تھے،دونوں کندھوں کے درمیان کا حصہ بھی بڑا تھا۔*
*آپ کے سر کے بال بہت تھے مگر بعد میں سر کے اگلے حصے کے بال اڑ گئے تھے۔آپ نے دانتوں کو سونے سے مضبوط بنوایا ہوا تھا اور بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور قیمتی و خوبصورت لباس زیب تن کرتے تھے،آپ بڑے حیادار تھے۔(9)*

*آپ رقیق القلب اور لوگوں سے خوش گفتاری اور شیریں کلام سے پیش آتے تھے،شفقت کا آپ پر بہت غلبہ تھا۔(10)*

*آپ کی نرمی اور لوگوں سے خوش کلامی آپ کو انہیں اذیت دینے اور سخت گیری اختیار کرنے سے اس حد تک روکتی تھیں جہاں تک آپ اس کی استطاعت رکھتے تھے۔(11)*

*اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے تھے۔*
*شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قریش مکہ کے اندر سب سے محبوب ترین انسان تھے،قریش آپ کی عزت و تکریم کرتے تھے۔*
*عرب کی عورتیں اپنے بچوں کو نچاتیں اور یہ کہتی تھیں۔*

*"أحبك والرحمن حبَّ قريش لعثمان ."(12)*

*میں تجھ سے اور رحمان سے محبت کرتی ہوں*
*ایسے ہی جیسے قریش کی محبت عثمان سے*

*حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حیاء کی وجہ سے حدیث بیان کرنے سے ڈرتے تھے ۔*
*"الطبقات الکبریٰ" میں امام ابن سعد رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن حاتم رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:*
*" کہ میں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مکمل اور صحیح حدیث بیان کرتے نہیں دیکھا مگر وہ حدیث کے بیان کرنے سے ڈرتے تھے"۔*
*حدیث کے متعلق ان کے اس خوف کی وجہ سے ان سے گفتگو اور لمبا جھگڑا چھوڑ دیا جاتا تھا اور جب وہ کسی امر کا التزام کرلیتے تو اس پر اصرار کرتے اور ان کو اس امر سے روکنا مشکل ہوجاتا وہ اپنی رائے پر بہت اصرار کرتے تھے۔(13)*

*سخاوت یہ آپ کا معمول تھا۔*
*اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں کثرت سے مال خرچ کرتے تھے۔*
*اللہ تعالیٰ نے آپ کو مال و دولت سے نوازا تھا اسلام اور اہل اسلام کو آپ نے اپنے مال سے خوب فائدہ پہونچایا۔*
*دین کی سربلندی کے لئے جیش عسرۃ (غزوۂ تبوک) میں اتنا مال خرچ کیا جتنا کسی نے بھی خرچ نہیں کیا ۔(14)*

*آپ کے اندر صبروتحمل بھی تھا ،ضبط و تحمل جو آپ سے ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے،آپ کا اخلاق کریمانہ تھا کہ آپ نے اپنے قتل کے آگے خونریزی کی اجازت نہ دی۔(15)*

*حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر تقریباً سات سو مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے انہیں مدافعت میں لڑنے سے روک دیا ۔(16)*

*عفت و پاکدامنی:*

*حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قریش مکہ کے درمیان زندگی گزاری جو کہ بتوں کی پرستش کرتے تھے لیکن شرک،وثنیت کی گندگی و خباثت سے اپنے آپ کو دور رکھا۔*
*ابن سعد رحمہ اللہ نے اپنی طبقات اور حافظ عساکر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں بسند صحیح ذکر کیا ہے۔*
*حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہتے " ما زنیت فی جاھلیۃ ولا فی الاسلام" زمانہ جاہلیت میں نہ تو میں زنا کا مرتکب ہوا اور نہ ہی اسلام میں*(17)*
*عقلمند اور باحیا آدمی تھے،امارت و سرداری کے سلسلے میں نہ تو جاہلیت اور نہ ہی اسلام میں جھگڑا کیا، اور نہ ہی آپ نے کبھی اپنی خواہش اس سلسلے میں ظاہر کی، آپ کی طبیعت ان تمام باتوں سے الگ تھی ۔(18)*
*لیکن ان سب چیزوں کے باوجود وہ مسلمانوں کے امیر ہوئے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اسی طرح شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔* (19)*

*اسلام اور ہجرت حبشہ:*

*حضرت عثمان رضی اللہ چونتیس برس کی عمر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تحریک پر اسلام قبول کیا ۔ اسلام قبول کرنے میں ان کا چوتھا نمبر تھا. (20)*
*آپ سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق،سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم اسلام لا چکے تھے۔(21)*

*حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوشش سے آپ نے اسلام قبول کیا حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسلام لائے۔آپ سابقین اولین میں سے ہیں جن لوگوں نے دین کی خاطر جانفشانی کی اور دین اسلام کی مدد کے لئے کھڑے ہوئے ان میں آپ کو سبقت لے جانے کا شرف حاصل ہوا۔(22)*

*آپ نے اسلام کی خاطر کافی قربانی پیش کی جب اسلام لائے تو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے ان کو رسیوں میں جکڑ دیا ،اور کہنے لگا : کیا تم اس نئے دین کو اپنے باپ دادا کے دین پر ترجیح دیتے ہو ؟*
*اللہ تعالیٰ کی قسم!*
*میں تمہیں اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک تم اس دین کو نہیں چھوڑ دیتے ۔*
*حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا جواب صاحب عزیمت واستقلال شخص کا جواب تھا،*
*آپ نے فرمایا: چچا جان تم جو چاہو کرلو ،اللہ کی قسم! میں کبھی اس دین کو چھوڑنے والا نہیں ۔*
*جب آپ کے چچا نے ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ دیکھی اور آپ اسلام پر ثابت قدم رہے اور یہ دیکھا کہ باپ دادا کے دین کو ماننے والا نہیں تو آپ کا راستہ چھوڑ دیا۔(23)*

*یہاں یہ بات واضح ہوئی کہ آپ کے چچا اس حکمت کو سمجھ گئے اور یہ جان لیا کہ عثمان کو دھمکی دینا بے فائدہ ہے۔*
*قافلہ توحید کے شہشواروں میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔اس کی وجہ سے قریش کا غصہ بھی بڑھتا چلا گیا،رؤسائے قریش نے سوچا کہ جلدی سے جمنے سے پہلے اس جڑ کو اکھاڑ دیں،اس تنے کو مضبوط ہونے سے پہلے ختم کردیں ،مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا،دن و رات دونوں کالے نظر آنے لگے مشرکین مسلمانوں کو کمزور کرنے لگے اور ان پر اپنا غضب ڈھانے لگے،ان کے ظلم و ستم و زیادتی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا مکہ کی سرزمین گواہی دے رہی ہے جو کچھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو تکلیفیں پہونچی، حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ لوگوں کو ان کے مالکوں کی طرف سے آزمائشیں پہونچی اور کمزوروں کو مختلف قسم کا ظلم سہنا پڑا، مسلمانوں نے ان آزمائشوں پر صبر کیا جب معاملہ حد سے تجاوز کر گیا،صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا،تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے دین کو لے کر اللہ کی زمین میں کہیں اور چلے جائیں اور انہیں حکم دیا کہ حبشہ کے علاقے کی طرف چلے جائیں وہاں ایک بادشاہ ہے جو کسی پر ظلم نہیں کرتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس حالت سے آسانی پیدا کردے جس حالت پر تم ابھی ہو ۔*
*سب سے پہلے جو لوگ حبشہ کی طرف گئے وہ گیارہ مسلمان تھے جن میں مرد اور عورتیں بھی شامل تھیں۔*
*اللہ تعالیٰ کی راہ میں گھر بار چھوڑنے والے اس پہلے گروہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ محترمہ سیدۃ رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھیں ۔*
*یہ ہجرت نہ تو تکلیف سے بھاگنے اور نہ ہی عذاب و سزا مسلط ہونے کی وجہ سے تھی بلکہ قیامت کے دن اللہ تعالی کے خوف کی وجہ سے تھا۔*
*اللہ تعالیٰ کا فرمان" أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا" (24)*
*کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادۃ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے ؟*

*قریش نے ان کو ایذاء رسانی کا نشانہ اس لیے بھی بنایا اس لیے کہ ان کی شخصیت ان میں ممتاز تھی ۔*
*اللہ تعالیٰ نے فرمایا: " {الم ،أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ " (25)*
*کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے۔*

*حبشہ سے مکہ واپسی :*

*ایام گزرتے گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ثابت قدم رہے ،اپنے عقیدے کو مضبوط کیے ہوئے تھے،حبشہ میں کچھ مدت گزارنے کے بعد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اہلیہ سمیت مکہ واپس آگئے۔ اس دوران مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اجازت مل چکی تھی چنانچہ آپ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی۔*
*مدینہ منورہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بھائی اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ان کا رشتہ مؤاخات قائم کیا۔یہ مجبور و مقہور مسلمان تھے جو سب کچھ لٹا کر صرف ایمان بچاکر مدینہ آگئے تھے۔(26)*

*حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں :*

*کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہر ایک الگ الگ خصوصیت رکھتا تھا۔*
*حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی حکمت کی وجہ سے مشہور تھے مرتدین کے مقابلے میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا لشکر آپ نے بھیجا تھا منکرین ختم نبوت اور منکرین زکاۃ کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑی۔*
*حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے نفس واہل پر سختی کی وجہ سے مشہور ہوئے ،تند مزاجی وسخت گوئی بھی آپ کے مشہور اوصاف میں سے تھی۔*
*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنی فوجی مہارت کی وجہ سے مشہور ہوئے۔*
*حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی سخاوت کی وجہ سے مشہور ہوئے، بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا غزوۂ تبوک کے موقع پر بے حد فیاضی سے کام لیا جسے "جیش العسرۃ" کے نام سے جانا گیا(27)*
*صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر بناکر مکہ بھیجا۔(28)*

*افسوس کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کا شوق پورا کرنے والوں سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی محفوظ نہیں رہے،بلکہ کتنے ایسے اہل سنت کا دم بھرنے والے ہیں جن کی تنقید کا پہلا ہدف حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔*
*حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سابقین اولین میں ہونے کے علاوہ کتنی بشارتیں ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنتی اپنی رضا و خوشنودی کا ذکر فرمایا ہے مگر اس کے باوجود اعتراض کرنے والوں کی کیفیت " فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا"(29)*
*ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مرض کو اور بڑھا دیا۔*

*در حقیقت ان مبارک ہستیوں نے اسلام اور نبی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے تن، من،دھن سب کی بازی لگا دی اور فدائیت کی ایسی مثال قائم کردی جس کی تاقیامت نظیر ملنی مشکل کیا بلکہ ناممکن اورمحال ہے۔*

*اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری اس کوشش کو شرف قبولیت سے نوازے اور آپ رضی اللہ عنہ وارضاہ کی محبت ہمارے دلوں میں پیوست و جاگزیں فرمائے اور ان ہی کے نقشِ قدم پر ایمان و عمل صالح کی توفیق بخشے( آمین یارب العالمین واللہ الموفق والھادی الی الصراط المستقیم ).*

*______________________________________________*

*حوالہ جات:*
*(1) الاصابۃ لابن حجر العسقلانی ج:2/ص:462,الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج:3,/ص: 39,الاستیعاب ج:3/ص:544, اسد الغابہ،ج:3/ص:376, التاریخ الصغیر ج:1,ص:58/, التاریخ الکبیر,ج:6,ص:219/, تذکرۃ الحفاظ ج:1,ص:08,/, التقریب ج:2,ص:12/۔تھذیب الأسماء واللغات ج:01,ص:321/. تہذیب التہذیب ج:07,ص:142/.شذرات الذہب ج:01,ص:10/. الکامل فی التاریخ ج:01,ص:46/۔السیرۃ النبویہ لابن ہشام،ج:01،ص:25/۔کتاب الشریعۃ الآجری الشافعی،ص:675,*

*(2) الاصابۃ لابن حجر العسقلانی ج:2/ص:462,،الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج:3,/ص: 40, تاریخ الخلفاء ج:01,ص:147/،کتاب الشریعۃ الآجری الشافعی،ص:675،*

*(3) تاریخ الخلفاء ج:01,ص:147/،*
*(4) الاصابۃ لابن حجر العسقلانی ج:2/ص:462,*
*(5)اعلام المسلمین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ،ص:11,*
*(6) الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج:3,/ص: 39,*
*(7)الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج:3,/ص: 41,*
*(8) رواہ الترمذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،باب مناقب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ،3791/،و رواہ النسأئی فی فضائل الصحابہ:182_183,والطحاوی فی مشکل الآثار،حدیث:808/,وابن حبان،ح:7131,/ وصححہ الألبانی رحمہ اللہ*
*(9) اتمام الوفاء فی سیرۃ الخلفاء،ص:176,/ تاریخ الخلفاء،ص: 150/*
*(10) صفۃ الصفوۃ،ص:131,*
*(11) حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم،ج:01,ص:56,الزھد للأمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ،ج:02,ص:39,*
*(12) تاریخ دمشق ترجمہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ،رقم:245)موسوعة التاريخ الإسلامي، (1 /618)*
*(13) الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج:3,/ص: 41,*
*(14)تاریخ الخلفاء ج:01,ص:150/,اعلام المسلمین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ،ص:11,*
*(15)اعلام المسلمین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ،ص:11,*
*(16) البدایہ والنہایہ لابن کثیر،ج:07,ص: 88,/*
*(17)رواہ الترمذی،کتاب ابواب الفتن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،باب ما جاء لا یحل دم امرئ مسلم الا باحدی' ثلاث،حدیث نمبر:2158,/ وصححہ الألبانی رحمہ اللہ،فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ،حدیث نمبر:755,باسناد صحیح،*
*(18)فتنۃ مقتل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ،ص:59,*
*(19))رواہ الترمذی،کتاب ابواب الفتن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر: 2158,/وصححہ الألبانی رحمہ اللہ فی صحیح سنن الترمذی،حدیث نمبر:2158",*
*(20) الخلفاء الراشدین،ص:182/,*
*(21)تاریخ الخلفاء ج:01,ص:150/*
*(22)الاصابۃ لابن حجر العسقلانی ج:2/ص:462,*
*(23)الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج:3,/ص: 40/, تاریخ الخلفاء الراشدون،ص:93/,جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین،ص:303,/*
*(24)سورۃ النساء،آیت نمبر:97,/*
*(25)سورۃ العنکبوت،آیت نمبر:02,/*
*(26)اعلام المسلمین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ،ص:13,/*
*(27) فتح الباری شرح صحیح البخاری،ج:04,ص:54,/*
*(28) التاریخ الاسلامی،ج:83,ص:55,/*
*(29)سورہ بقرۃ،آیت نمبر: 10,*

*afrozgulri@gmail.com*
*06/04/2020*

Sent from my Redmi Note 7S using Tapatalk
 
Top