• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمرؓ سے منسوب ایک روایت،ایک کرامت۔۔کیا کہتے ہیں علماء کرام اس بارے میں

شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم قارئین ہم نے کئی مرتبہ یہ روایت سنی ہے جسے عمرؓ کی کرامت بھی کہتے ہیں کچھ لوگ۔۔مگر اس روایت کے صحیح یا ضعیف ہونے میں مختلف اقوال پڑھے ہیں میں نے وہ آپ سے بھی شئیر کرنا چاہتا ہوں۔
امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ، امام سیوطی نے جامع الاحادیث میں ، امام علی المتقی الہندی نے کنزل العمال میں ، اور امام ابن حجر عسقلانی نے الاصابۃ فی معرفۃ الصحابہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ‘ اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے؛ کنز العمال کا متن ملاحظہ کریں ؛
عن ابن عمر قال: وجه عمر جيشا وأمر عليهم رجلا يدعى سارية فبينما عمر يخطب يوما جعل ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، ثم قدم رسول الجيش فسأله عمر، فقال: يا أمير المؤمنين! لقينا عدونا فهزمنا، فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله، فقيل لعمر: إنك كنت تصيح بذلك. "ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم عق معا في الدلائل واللالكائي في السنة، كر، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن".
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو روانہ فرمایا: اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو اُس لشکر کا سپہ سالار بنایا ، ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے درمیان یہ نداء دی کہ یا ساریۃ الجبل ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا ۔ جب لشکر کی جانب سے قاصد آیاتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہاں کا حال دریافت کیا ؟ اُس نے کہا : ائے امیر المؤمنین ہم نے دشمن سے مقابلہ کیا تو وہ ہمیں شکست دے ہی چکے تھے کہ اچانک ہم نے ایک آواز سنی ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ پس ہم نے اپنی پیٹھ پہاڑ کی جانب کرلی تو اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دے دی ۔ عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی عرض کیا گیا کہ بیشک وہ آواز دینے والے آپ ہی تھے ۔
(دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر:2655)
(جامع الأحاديث للسيوطي،حرف الياء ،فسم الافعال،مسند عمر بن الخطاب، حديث نمبر:28657)
(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلي المتقي الهندي،حرف الفاء ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حديث نمبر:35788)
(الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف)
اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابة في معرفة الصحابة میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
ایک ویب سائٹ پر اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے اسکے دلائل بھی یہاں پیسٹ کررہا ہوں

اس بات سے تو ہر مسلمان متفق ہے کہ ہمارے دین کی بنیاد قرآن و سنت ہونی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صورت میں ہمیں ایک مکمل ضابطہ عطا کر دیا اور جہاں کہیں ہمیں کسی دینی یا دنیاوی مسایل میں مزید رہنمائی کی ضرورت پڑی وہاں نبی کا فرمان ہماری کے لیے موجود ہے۔ جہاں تک قران کا تعلق ہے اس کا اعجاز یہ ہے کہ اس میں قیامت تک کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اور نہ ہی کوئی اس جیسی کوئی سورت بنا سکا اور نہ ہی قیامت تک بنا سکے گا۔

جہاں تک احادیث کا سوال ہے تو احادیث کی جو کتابیں مستند سمجھی جاتی ہیں اور جن کے بارے آج تک کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکا کہ ان میں کسی ضعیف راوی سے احادیث روایت کی گئیں ہیں۔ جیسے مسلم، بخاری وغیرہ ۔ کچھ مصنفین نے اگر کوئی ضعیف روایت نقل کی تو اس کے بارے میں وضاحت بھی فرما دی کہ اس میں فلاں راوی ضعیف ہے۔ مگر کچھ نام نہاد علماء ایسے بھی گزرے جنہوں نے ہر جھوٹی سچی روایت کو بغیر تنقید کے اپنی کتب میں تحریر کر دیا اور۔ اور پھر یہ روایات امت مسلمہ میں انتشار کا سبب بنیں۔ بعد میں آنے والے بہت سے علماء نے ان روایات کا تعاقب کیا اور ضعیف روایات کو صحیح روایات سے الگ کیا۔ اسی طرح کی ایک مشہور روایت یہاں آپ سب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کے بارے میں کافی عرصہ پہلے پڑھا تھا۔ آج ایک رسالے میں اس کی تفصیل پڑھی جسے آپ سب کے ساتھ شیر کرتا ہوں۔

"ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا سالار ساریہ کو بنایا۔ ایک دن جمعہ کے خطبہ کے دوران انہوں نے یکایک یہ پکارنا شروع کر دیا (اے ساریہ پہاڑ- پہاڑ) اس طرح تین مرتبہ کہا۔ پھر اس لشکر کا پیغامبر مدینہ آیا۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنیین ہم لوگ شکست کھا گئے اور اس شکست کی حالت میں تھے کہ ہم نے یکایک ایک آواز سنی جس نے تین بار کہا کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف رخ کرو۔ ہم نے پشت پہاڑ سے لگا دی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دشمن کو شکست دیدی۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ ہی تو تھے جو اس طرح چیخے تھے۔ (رواہ البیہقی- مشکوہ)
اس ویب سائٹ کا لنک یہ ہے
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=9178

اس روایت کی علتیں : پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ نبی پاک کی وفات کے 400 سال بعد تک یہ واقعہ صحاح ستہ سمیت حدیث کی کسی قابل ذکر کتاب میں نہیں ملتا۔ راوی کے مطابق یہ واقعہ خطبہ جمعہ کے دوران پیش آیا۔ اور کتنی عجیب بات ہے کہ سوائے عبداللہ بن عمر کے کسی اور صحابی یہ تابعی نے اسے کہیں بھی روایت نہیں کیا۔ کتنے صحابہ اور تابعین اس خطبہ کے دوران وہاں موجود ہوں گے۔ اس واقعہ کو پانچویں صدی میں بیہقی نے اپنی کتاب دلایل النبوت میں اور پھر ابن مردویہ کے ذکر کیا۔

یہ روایت دو سندوں سے آئی ہے ۔ پہلی سند ( عن ابن وھب عن یحی بن ایوب عن ابن عجلان عن نافع عن ابن عمر) اابن عجلان راوی نافع سے روایت کرتا ہے اور اس محمد بن عجلان کے بارے میں امام عقیلی کہتے ہیں کہ یہ نافع کی روایتوں میں اضطراب کا شکار رہتا ہے ( تہذیب التہذیب ج 9 ص342

امام بخاری نے اس کا ذکر ضعفاء میں کیا ہے (خلاصہ تہذیب کمال للخزرجی 290) یحی القطان کہتے ہیں کہ نافع سے روایت میں یہ مضطرب ہے (میزان الاعتدال ج 3 ص 102) . امام مالک کہتے ہیں کہ ابن عجلان حدیث کے معاملات جاننے والا عالم نہیں تھا (میزان جلد 3 ص 102)۔

ابن عجلان کا شاگرد یحی بن ایوب المصری بھی جو اس روایت کا ایک فرد ہے سخت ضعیف راوی ہے۔ ابو حاتم کہتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھی تو جا سکتی ہے مگر اس سے حجت لانا روا نہیں۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں۔ ابن سعد کا کہنا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے۔ الدار قطنی کہتے ہیں کہ اس کی بعض روایتوں میں اضطراب ہے۔ امام احمد کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ عقیلی نے اس کو ضعفاء میں شمار کیا ہے۔

دوسری روایت کچھ ایسے ہے۔ (عن ابی بکر احمد بن موسی بن مردویہ قال حدثنا عبداللہ بن اسحق بن ابراھیم اخبرنا جعفر الصایغ حدثنا حسین بن محمد الروذی اخبرنا فرات بن السایب عن میمون بن مھران عن ابن عمر عن ابیہ۔۔۔۔۔) اس روایت میں فرات بن السایب راوی جو میمون بن مھران کا شاگرد ہے جھوٹا اور روایت گڑھنے والا تھا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ منکر الحدیث تھا محدثین نے اسے چھوڑ دیا (التاریخ الکبیر ج1 ص 304) یحی بن معین کہتے ہیں کہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ الدار قطنی متروک کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ وہ محمد بن زیاد بن الطحان کی طرح ہے۔ اور اس پر بھی میمون بن مھران سے روایت کرنے میں وہی تہمتیں ہیں جو محمد بن زیاد پر ہیں محمد بن زیاد کو امام احمد کانا کذاب کہتے ہیں۔ ابن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے جو کچھ اس سے حاصل کیا تھا اس کو میں نے پھینک دیا۔ ابو زرعہ کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولتا تھا۔ ( لسان المیزان ج4 ص 430-431 ، میزان الاعتدال ج 2 ص 325 ج 3 ص60)

اس خاکسار نے محدثین کی تحقیق اس حدیث کے بارے میں نقل کر دی ہیں تاکہ میرے تمام مسلمان بھائی اس روایت کی حقیقت تک پہنج جائیں۔​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
محترم جناب رفیق طاہر صاحبؒ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے
یا ساریۃ الجبل والی روایت کے تمام تر طرق ضعف سے بھرے پڑے ہیں
کسی سند میں أیوب بن خواط متروک ہے
تو کسی میں سیف بن عمر کذاب ہے
کسی میں واقدی کذاب ہے
تو کسی میں فرات سائب وضاع ہے ۔
صرف ایک سند ایسی ہے کہ جسکا ضعف اتنا شدید نہیں ہے اور وہ ہے محمد بن عجلان والی سند ۔
لیکن یاد رہے کہ اس سند میں بھی ابن عجلان کا عنعنہ ہے اور ابن عجلان مدلس راوی ہے ۔ لہذا وہ سند بھی ضعیف ہی ہے ۔
الغرض اس روایت کا تعدد طرق اسکے ضعف میں اضافہ ہی کا باعث بنتا ہے نہ کہ کمی کا !
اس کا لنک یہ ہے
http://www.urdumajlis.net/threads/کیا-یا-ساریہ-الجبل-والی-روایت-صحیح-ہے-؟.26553/
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
اوپردی گئی تحقیق میں سے ایک حوالہ کا سکین بھی لگا رہا ہوں

یہ روایت دو سندوں سے آئی ہے ۔ پہلی سند ( عن ابن وھب عن یحی بن ایوب عن ابن عجلان عن نافع عن ابن عمر) اابن عجلان راوی نافع سے روایت کرتا ہے اور اس محمد بن عجلان کے بارے میں امام عقیلی کہتے ہیں کہ یہ نافع کی روایتوں میں اضطراب کا شکار رہتا ہے ( تہذیب التہذیب ج 9 ص342
Untitled.jpg
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
فتاوى اللجنة الدائمة
تصفح برقم المجلد > المجموعة الأولى > المجلد السادس والعشرون (كتاب الجامع 3) > السيرة > قول عمر رضي الله عنه يا سارية الجبل
الفتوى رقم ( 17021 )س: جاء محاضر إلى مدرستنا، وكانت المحاضرة عن كرامات الأولياء والصالحين ، وقال في محاضرته: كان عمر بن الخطاب يخطب على المنبر، فنادى السارية التي أرسلها للحرب، فقال: (يا سارية الجبل) فسمعت السارية كلامه فانزاحت إلى الجبل. علمًا بأن
(الجزء رقم : 26، الصفحة رقم: 41)
بينهما مسافة بعيدة، هل هذه الرواية صحيحة أم خطأ، وهل هي من الكرامات؟
ج : هذا الأثر صحيح عن عمر رضي الله عنه، ولفظه: أن عمر رضي الله عنه، بعث سرية فاستعمل عليهم رجلاً يدعى سارية ، قال: فبينا عمر يخطب الناس يومًا قال: فجعل يصيح وهو على المنبر: يا سارية الجبل، يا سارية الجبل، قال فقدم رسول الجيش، فسأله فقال: يا أمير المؤمنين لقينا عدونا فهزمنا، فإذا بصائح يصيح: يا سارية الجبل، فأسندنا ظهورنا بالجبل فهزمهم الله.
رواه أحمد في (فضائل الصحابة)،
وأبو نعيم في (دلائل النبوة)
والضياء في (المنتقى من مسموعاته)
وابن عساكر في (تاريخه)
والبيهقي في (دلائل النبوة)
وابن حجر في (الإصابة) وحسن إسناده،
ومن قبله ابن كـثير في (تاريخه) قال: إسناد جيد حسن، والهيثمي في (الصواعق المحرقـة) حسن إسناده أيضًا.

وهذا إلهام من الله سبحانه، وكرامة لعمر رضي الله عنه، وهـو المحدث الملهم، كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في الأثر أنه رضي الله عنه كشف له عن الجيش وأنه رآه رأي العيـن إلى غير ذلك من الروايات الضعيفة التي يتعلق بها غلاة المتصوفة في الكشف، واطلاع المخلوقين على الغيب، وهذا باطل؛ لأن الاطلاع على الغيب من صفات الله سبحانه وتعالى، وما ذكر في السؤال أعلاه مـن أن عمر
(الجزء رقم : 26، الصفحة رقم: 42)
رضي الله عنه نادى السارية التي أرسلها للحرب فسمعت السـارية كلامه فانزاحت للجبل، فهذا جهل في معنى الحديث.وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء​
عضوعضوعضوعضوالرئيس
بكر أبو زيد
عبد العزيز آل الشيخ
صالح الفوزان
عبد الله بن غديان
عبد العزيز بن عبد الله بن باز

 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
@اسحاق سلفی بھائی۔@خضر حیات بھائی اس پر کچھ روشنی ڈالیں پلیز۔
جنہوں نے ضعیف قرار دیا ہے ، ان کے دلائل تو بالکل واضح ہیں ، جنہوں نے اس کو درست قرار دیا ہے ، ان کے دلائل بھی سامنے آئیں تو کچھ کہا جاسکتا ہے ، شیخ مصطفی ظہیر صاحب کی ویڈیو میں جو دلائل ہیں وہ یہاں نقل کردیے جائیں ۔
 
Top