• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی سماعِ موتٰی کے منکر تھے !

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
سورہ عمران آیت نمبر 81
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ 81؀

جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ (١) فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
امام خارزن رحمہ اللہ علیہ نے لکھا: قال اللہ عزوجل الانبیاء حین استخرج الذریۃمن صلب آدم و الانبیاء فیھم کالمصابیح اخذ علیھم امیثاق فی امر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا :
یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک کے تمام انبیاء کرام سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ لیا کہ جب کبھی ان میں سے کسی کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کتاب و حکمت دے اور وہ بڑے مرتبے تک پہنچ جائے پھر اس کے بعد اسی کے زمانے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم آجائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی نصرت و امداد کرنا اس کا فرض ہو گا یہ نہ ہو کہ اپنے علم و نبوت کی وجہ سے اپنے بعد والے نبی کی اتباع اور امداد سے رک جائے، پھر ان سے پوچھا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو؟ اور اسی عہد و میثاق پر مجھے ضامن ٹھہراتے ہو۔ سب نے کہا ہاں ہمارا اقرار ہے تو فرمایا گواہ رہو اور میں خود بھی گواہ ہوں۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے
کہ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہو کر آجائیں
اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاؤ تو گمراہ ہو جاؤ گے۔تمام امتوں میں سے میرے حصے کی امت تم ہو اور تمام نبیوں میں سے تمہارے حصے کا نبی میں ہوں۔
تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 520/مکتبہ اسلامیہ

اب آپ خود دیکھ لیجئیے کہ انبیاء زندہ ہیں یا نہیں ! یہ حدیث بتا رہی ہے کہ زندہ نہیں ہیں ۔۔ اگر زندہ ہوتے تو یہ کیوں کہا جاتا

اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہو کر آجائیں


اللہ ہمیں سمجھ کی توفیق عطاء فرمائے ۔۔


قران قیامت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی سماعِ موتٰی کے منکر تھے


بسم اللہ الرحمن الرحیم۔



حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ھلاک ھونے والوں کو خطاب فرمایا کہ:



حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے روز بدر قریش کے چوبیس سربرآوردہ اشخاص کو بدر کے کنوؤں میں ایک گندے پلید کنویں میں پھنکوادیا، حضور کاطریقہ یہ تھا کہ جب کسی قوم پر فتحیاب ہوتے تو میدان میں تین دن قیام فرماتے، جب بدرکا تیسرا دن تھا تو سواری مبارک پر کجاوہ کسوایا، پھر چلے، صحابہ نے ہمر کابی کی، اور کہا ہمارا یہی خیال ہے کہ اپنے کسی کام سے تشریف لے جارہے ہیں، یہاں تک کہ کنویں کے سرے پر ٹھہر کران کا اور ان کے آباء کانام لے لے کر اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں کہہ کر پکارنے لگے، فرمایا ''کیا اس سے تمھیں خوشی ہوتی کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم تم نے مانا ہوتا، ہم نے تو حق پایا وہ جس کا ہمارے رب نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا، کیا تم نے اس کو ثابت پایا جو تمھارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا ''۔۔۔۔




حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سوال
۔۔ ( ذرا غور سے پڑھئیے گا انشاء اللہ سب سمجھ آجائے گا)



یا رسول اللہ کیف تکلم اجساد الا ارواح فیھا؟

(یا رسول اللہ آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رھے جن میں روح موجود نہیں!)
بخاری جلد ۲ صفحہ ۵۶۶ ، مسند احمد جلد صفحہ ۳۵۷

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1176



اسی طرح دوسری روایت میں موجود ھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :



یارسول اللہ کیف اتنا دیھم بعد ثلاث و ھل یسمعون یقول اللہ عزوجل "اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی"



یارسول اللہ آپ ان سے گفتگو فرما رھے ھیں جن کو ھلاک ہوئے تین دن گزر چکے ہیں حالانکہ اللہ رب العزت فرماتے ھیں آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔


مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۲۸۷




ظاہر ہے اب جس کا عقیدہ یہ ہو کہ مردے سنتے ہیں تو وہ ایسے سوال کیوں پوچھے گا ازراہِ تعجب سے ۔۔ اور کیوں دلیل پیش کرے گا! جبکہ آپ نے دیکھا حضرت عمر نے سوال کے ساتھ دلیل بھی پیش کی "انک لا تسمع الموتٰی "۔۔۔

یہ آیت قرآن میں ہے ۔۔۔

-Surah Roum 52

فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ

بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (١) اور نہ بہروں کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیں (٢) جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں۔

تو میرے خیال میں ہم،تم سے ذیادہ قرآن سمجھنے والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے یہ آیت پیش کر کے بتا دیا کہ اس آیت سے سماعِ موتٰی کی نفی ہوتی ہے۔اور اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ تقرری بھی بنتی ہے کہ آپﷺ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی اور منع نہیں کیا کہ نہیں عمر اس آیت کا مطلب وہ نہیں جو تم لے رہے ہو ۔۔ آگے آپ جواب ملاحظہ کریں بات واضح ہو جائے گی۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب:




’’انھم الان یسمعون ما اقول لھم‘‘ بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۵۷۶

جو بات میں ان سے کہ رھا ھوں وہ اس وقت اسکو سن رھے ھیں


ایک اور جگہ ہے کہ:

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد کی جان ہے میری بات تم ان سے زیادہ نہیں سنتے،

اب جواب پر غور فرمائیں یہ جواب آگے خود واضح ھو جائے گا

صرف یہ مردے (ھر مردہ نھیں ) صرف اس وقت (ھر وقت نہیں) ، صرف میری (ھر ایک کی بھی نہیں) بات سن رھے ھیں

حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ کا قول نقل کر رھا ھوں۔

قال قتادہ احیا ھم اللہ حتی اسمعھم قولہ تو بیحا و تصغیرا و نقمۃ و حسرۃ و ند ما (بخاری شریف جلد ۲، صفحہ ۲۶۶)

حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا ھے کہ اللہ نے کچھ دیر کے لیئے ان مردوں کو زندہ کر دیا تھا کہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کی بات سنا دے، افسوس دلانے اور ندامت کے لئیے ،

(گویا یہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کا معجزہ تھا)

ما کلامہ علیہ السلام اھل القلیب فقد کانت معجزۃ لہ علیہ السلام

بدر کے کنویں میں پڑے ھوئے کفار مردوں سے کلام کرنا امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔

شرح ھدایہ جلد ۲ صفحہ ۴۸۴

فتح القدیر جلد ۲ صفحہ ۴۴۷

روح المعانی صفحہ ۵۰

مشکوٰۃ ، باب المعجزات صفحہ ۵۴۳






اب جواب دوبارہ پڑھئیے ، غور کیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا:



صرف یہ مردے (ھر مردہ نھیں ) صرف اس وقت (ھر وقت نہیں) ، صرف میری (ھر ایک کی بھی نہیں)




بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۵۶۷


"پس ثابت ہوا کہ بدر کے مردوں سے کلام کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور عموم میں ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ معجزہ تھا (خرقِ عادت) اور اس پر ہم عقیدہ قائم نہیں کر سکتے کہ تمام مردے ہر وقت سنتے ہیں ۔ "




اور اللہ کا بڑافضل واحسان ھے کہ اشاعت توحید والسنۃ والے اسی عقیدے و مسلک سے جڑے ھیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اور تمام صحابہ اکرام کا تھا۔

انشاء اللہ جلد ہی میں حضرت عائشہ کا عقیدہ پیش کروں گا کہ وہ بھی سماعِ موتٰی کی منکر تھیں ۔۔

اللہ سب کو ہدایت دے اور ضد سے بچائے ۔

دعاؤں میں یاد رکھیں ۔۔۔ اللہ نگہبان

ماشاء اللہ بوہت خوب وضاحت کی ھے
 

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
الملل والنحل یعنی قوموں کا عروج و زوال --- ابن حزم --- جو یہ گمان کرتا ہے کہ میت کو اسکی قبر میں زندہ کیا جاتا ہے تو یہ غلط ہے

ابن حزم (المتوفی: 456ھ) لکھتے ہیں کہ:
فروعون والوں کے متعلق فرمایا ہے "النَّارُ‌ يُعْرَ‌ضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ" (ان لوگوں کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے - اور جس روز قیامت قائم ہو گی (تو حکم دیا جائے گا کہ) فرعون والوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو) - (سورة المؤمن:46)

یہ آگ پر پیش کرنا عذاب قبر ہے - اس کو عذاب قبر محض اس لیے کہا گیا اور قبر کی طرف منسوب کیا گیا کہ اکثر مردوں میں دستور یہی ہے کہ انھیں قبر میں دفن کیا جاتا ہے - حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ ان مردوں میں وہ بھی ہوتے ہیں جنھیں درندے کھا جاتے ہیں - اور جو غرق ہو جاتے ہیں اور انھیں دریائی جانور کھا جاتے ہیں - اور جو جل جاتے ہیں اور جو سولی پر چڑھائے اور لٹکا دیے جاتے ہیں - اگر واقعہ اس شخص کے اندازے کے مطابق ہوتا جو یہ گمان کرتا ہے کہ عذاب اسی مقررہ و معمولی قبر میں ہوتا ہے تو ان مردوں کے لیے نہ فتنہ ہوتا نہ عذاب قبر اور نہ سوال - نعوذ باللہ من ھذا - بلکہ ہر میت کے لیے فتنہ و امتحان سوال ضروری ہے اور اس کے بعد قیامت تک کے لیے سرور ہے یا تنگی - پھر قیامت کے روز ان کو ان کے اجر دیے جائیں گے اور یہ لوگ جنت یا دوزخ میں منتقل ہوں گے -

مزید آگے قبر کی وضاحت ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ:
روح بدن سے نکلنے کے بعد قیامت تک جس مقام میں مقیم ہوتی ہے وہی اس کی قبر ہے -

جو یہ گمان کرتا ہے کہ میت کو اس کی قبر میں زندہ کیا جاتا ہے تو یہ غلط ہے - اس لیے کہ مذکورہ بالا آیات اس سے روکتی ہیں - اگر ایسا ہوتا تو پھر ہمیں الله تعالی نے تین مرتبہ زندہ کیا اور تین مرتبہ موت دی - اور یہ باطل اور خلاف قرآن ہے - (الملل والنحل یعنی قوموں کا عروج و زوال: مترجم: عبد الله عمادی: جلد 2 ، صفحہ 736)
 

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل خود قرآن میں بھی موجود ہے
اور کیا یہ انہیں بس نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب اتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے بیشک اس میں رحمت اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے ( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
العنکبوت : 51




[کیا ھرمردہ سنتا ھے؟] --------------------------------------------
قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-معجزہ الله تعالى کافعل ھوتا ھےجو نبی کےھاتھ پر ظاھر ھوتا ھے، معجزے کےظاھر ھونےمیں نبی کا قطعا" کوئی اختیارو تصرف نہیں ھوتا- الله سبحانه تعالی معجزات یاخرق عادت واقعات سےاپنی قدرت کا اظہار فرماتا ھے- چنانچہ جسطرح معجزات یا خرق عادت کا انکارالله تعالی کی قدرت کا انکارھےبالکل ویسےھی معجزےکومعمول بنانا بھی الله کےقانون کا صریح کفرھے، دونوں صورتوں میں الله کی کتاب کی تکذیب و تکفیر لازم آتی ھے- اس آخری امت کی بدنصیبی کہ اس میں جہاں معدودے چند ایسےلوگ پائےجاتےھیں جنہوں نےمعجزات کا صاف انکارکردیاجیسےمنکرین حدیث وغیرہ، وھیں ایسے لوگوں کی بھی اکثریت ھےجنہوں نےمعجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا برملا مذاق اڑایا- تفصیل اس اجمال کی یہ ھےکہ قرآن کا فیصلہ اوراٹل قانون ھےکہ: "مردےنہیں سنتے" لیکن چونکہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا-جیسےقلیب بدرکےمردوں کانبی صلى الله عليه وسلم کی بات سننا، احادیث میں اس واقعےکی تمام تر تفصیلات درج ھیں،جس سے واضح ھوجاتا ھےکہ یہ ایک معجزہ تھا- ھرمردہ سنتا ھے یہ کسی صحابی کاعقیدہ نہیں تھا- لیکن اس کےباوجود اکابرین دیوبند، بریلوی اور اھلحدیث نےعلمی فریب کاری کےذریعےھر مردےکوسننےوالا قرار دیکر معجزے کو معمول بناڈالا- ان سب کا عقیدہ ھےکہ " ھرمردہ لاشہ دفن کےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنتا ھے"
معجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا انکار اورمذاق اڑانےمیں ویسےتو تینوں فرقوں کےاکابرین کا اپنا اپنا کردار ھےلیکن اھلحدیث کےاکابرین کا کلیدی کردار (key role) ھے-اور آج بھی اس کفریہ عقیدہ کی تبلیغ وترویج میں اھلحدیث "محققین"سب سےآگےھیں،
جسکا خمیازہ ذلت ورسوائی کی شکل میں یہ امت صدیوں سےبھگت رھی ھےتباھی وبربادی کےالمناک واقعات سےتاریخ کےصفحات بھرےپڑےھیں،موجودہ حالات تو ماضی سےزیادہ کربناک ھیں، اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے- [وما علینا الا البلاغ]
(نوٹ) اس موضوع پرتفصیلی مطالعےکیلئے ڈاکٹرعثمانی رحمةالله عليه کےکتابچے ایمان_خالص دوسری قسط اور عذاب_برزخ کامطالعہ فرمائیں- www.islamic-belief.net



کتاب کا نام : قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے
مصنف : محمود بن احمد الدوسری
مترجم : پروفیسر حافظ عبدالرحمن ناصر
ناشر : مکتبہ دارالسلام،لاہور
لنک
 

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
[کیا ھرمردہ سنتا ھے؟] --------------------------------------------
قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-معجزہ الله تعالى کافعل ھوتا ھےجو نبی کےھاتھ پر ظاھر ھوتا ھے، معجزے کےظاھر ھونےمیں نبی کا قطعا" کوئی اختیارو تصرف نہیں ھوتا- الله سبحانه تعالی معجزات یاخرق عادت واقعات سےاپنی قدرت کا اظہار فرماتا ھے- چنانچہ جسطرح معجزات یا خرق عادت کا انکارالله تعالی کی قدرت کا انکارھےبالکل ویسےھی معجزےکومعمول بنانا بھی الله کےقانون کا صریح کفرھے، دونوں صورتوں میں الله کی کتاب کی تکذیب و تکفیر لازم آتی ھے- اس آخری امت کی بدنصیبی کہ اس میں جہاں معدودے چند ایسےلوگ پائےجاتےھیں جنہوں نےمعجزات کا صاف انکارکردیاجیسےمنکرین حدیث وغیرہ، وھیں ایسے لوگوں کی بھی اکثریت ھےجنہوں نےمعجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا برملا مذاق اڑایا- تفصیل اس اجمال کی یہ ھےکہ قرآن کا فیصلہ اوراٹل قانون ھےکہ: "مردےنہیں سنتے" لیکن چونکہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا-جیسےقلیب بدرکےمردوں کانبی صلى الله عليه وسلم کی بات سننا، احادیث میں اس واقعےکی تمام تر تفصیلات درج ھیں،جس سے واضح ھوجاتا ھےکہ یہ ایک معجزہ تھا- ھرمردہ سنتا ھے یہ کسی صحابی کاعقیدہ نہیں تھا- لیکن اس کےباوجود اکابرین دیوبند، بریلوی اور اھلحدیث نےعلمی فریب کاری کےذریعےھر مردےکوسننےوالا قرار دیکر معجزے کو معمول بناڈالا- ان سب کا عقیدہ ھےکہ " ھرمردہ لاشہ دفن کےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنتا ھے"
معجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا انکار اورمذاق اڑانےمیں ویسےتو تینوں فرقوں کےاکابرین کا اپنا اپنا کردار ھےلیکن اھلحدیث کےاکابرین کا کلیدی کردار (key role) ھے-اور آج بھی اس کفریہ عقیدہ کی تبلیغ وترویج میں اھلحدیث "محققین"سب سےآگےھیں،
جسکا خمیازہ ذلت ورسوائی کی شکل میں یہ امت صدیوں سےبھگت رھی ھےتباھی وبربادی کےالمناک واقعات سےتاریخ کےصفحات بھرےپڑےھیں،موجودہ حالات تو ماضی سےزیادہ کربناک ھیں، اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے- [وما علینا الا البلاغ]
(نوٹ) اس موضوع پرتفصیلی مطالعےکیلئے ڈاکٹرعثمانی رحمةالله عليه کےکتابچے ایمان_خالص دوسری قسط اور عذاب_برزخ کامطالعہ فرمائیں- www.islamic-belief.net
 

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
[ دیتےھیں دھوکہ یہ بازیگرکھلا ] _________________________________________________
قارئین! اھلحدیث"محققین" معجزےکو معمول بنانے کی بحث میں اپنی شکست کا بدلہ لینےکیلئےاب مغالطہ آرائی پراترآئےھیں-لکھتےھیں کہ کیپٹن عثمانی بھی تو مانتےھیں کہ مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ھےلہذا ان پربھی فتوی لگاؤ- قارئین! جب ڈاکٹرعثمانی رح نے اپنےکتابچےعذاب برزخ میں بخاری کےباب"المیت یسمع خفق النعال" کےتحت حدیث کی تاویل و تشریح میں تفصیل سےبیان کردیا کہ کہاں سنتاھے،کس جسم کےساتھ سنتاھےاورکس کےجوتوں کی چاپ سنتاھے-پھراھلحدیث "محققین" کا عثمانی صاحب رح پرفتوےکامطالبہ نری جہالت ھے- البتہ اھلحدیث اوران کےاکابرین پرفتوئ اس لیئے لگتاھےکہ انکا عقیدہ یہ ھے کہ "ھرمردہ لاشہ (جسدعنصری) دفن کےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی چاپ سنتا ھے-" اورصحیح بخاری کی حدیث کا یہ مفہوم نہ صرف الله کےقانون کا صریح کفراورمذاق ھےبلکہ نبی صلی الله عليه وسلم پر قرآن کی مخالفت کرنےکا جھوٹا الزام بھی ھے-قارئین ! الحمدلله،ڈاکٹرعثمانی رح نےاھلحدیث"محققین" کی طرح ھرمردےکوجوتوں کی چاپ سننےوالاقراردیکرنہ معجزےکومعمول بناکر الله کےقانون کاانکارکیا اورنہ مذاق اڑایا،نہ رسول الله صلی الله عليه وسلم پرقرآن کی مخالفت کاجھوٹاالزام لگایا اور نہ صحیح بخاری کی حدیث سےخلاف قرآن عقیدہ اخذکرکےاسکی ذمہ داری امام بخاری رحمةالله عليه کےسر ڈالی___بلکہ___ اھل علم کےمتفقہ اصول کےمطابق حدیث کی تاویل کی ھے-تفصیلی مطالعےکیلئےملاحظہ کیجیئےکتابچہ"عذاب برزخ"
Www.islamic-belief.net
 

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
کیامرنےوالوں کےنفوس (ارواح)اس دنیامیں قیامت سےپہلےاپنے دنیاوی جسم میں واپس آسکتےھیں؟

مرنےوالوں کے نفوس(ارواح)اس دینا میں قیامت سے پہلے اپنے دنیاوی جسم میں واپس نہیں آسکتے.
(خرق عادت واقعات معجزات مستثنی ھیں:اللہ تعالی کافرمان ھے:(ترجمہ )وہ اللہ ھی ھے جو موت کے وقت نفوس (ارواح)قبض کرتاھے اور جومرانھیں اسکی نیندمیں (قبض کرتاھے)پس انہیں روک لیتاہے جن کیلئے موت کافیصلہ ھوچکاھے اور دوسروں کوواپس بھیجدیتا ھے ایک وقت مقررکیلئے، بلاشبہ آس میں غور وفکر کرنے والی قوم کے لئے نشانیاں ھیں :(الرمز:42)
اس آیت سےمعلوم ھواکہ جس پر موت کافیصلہ ھوچکاھوتاھے اس نفس (روح)کوروک لیاجاتاھے، واپس اسکے دنیاوی جسم میں یااس دینا میں نھیں بھیجاجاتا:مزیدفرمایا:(ترجمہ )یہاں تک کہ ان میں سے کسی کوموت آجائے گی توکہیگااےرب مجھےواپس لوٹادےتاکہ میں اس (دنیا)میں جیسے چھوڑآیاھوں نیک عمل کرو (اللہ )کی طرف سے جواب ملے گا )ھرگزنھیں یہ ایک بات ھےکہ وہ اسےکہہ رھاھے :(المومنون:99/100)
(ترجمہ )بھلاجب نفس گلےتک آپہنچتا ھے اور تم اس وقت (کی حالت کو)دیکھاکرتےھو اور ھم آس کے (مرنےوالے )کےتم سے بھی ذیادہ نزدیک ھوتےھیں لیکن تمکونظرنھیں آتے، پس اگر تم کسی کے بس میں نھیں ھو، تو اگر سچےھو تونفس (روح)کو (بدن کی طرف )پھیرکیوں نھیں لیتے:(الواقعہ:83/87)
(ترجمہ )اور ھم ان سے پہلے کتنےھی گروھوں کوھلاک کرچکےھیں بھلاتم ان میں سے کسی کودیکھتےھویا آن کی کوئی آوازسنتےھو؟ :(مریم:98)
(ترجمہ )کیاانہوں نے نھیں دیکھا کہ ھم ان سے پہلے کتنی ھی قوموں کوبلاک کرچکےھے اب وہ ان کی طرف(دنیامیں)لوٹ کرنھیں آئیں گے،، (یسین:31)
(ترجمہ )اور ھم جس بستی( والوں)کوھلاک کرچکےھیں آن کے لئے یہ بات نامکن ھے کہ پھرلوٹ کرآئیں،، (الانبیاء:95)
مرنے والےکانفس (روح)اس دنیامیں لوٹ کرنھیں آسکتا اور نہ ھی روزقیامت سے پہلے اس کے مردہ جسم میں آسکتاھے، اور نہ ھی نفس (روح)کامردہ جسم سے کوئی ایساتعلق ھوتاھے، جس سے زندگی ثابت ھوبلکہ مردہ جسم آھستہ آھستہ گل سڑجاتاھے اور قیامت کے دن ان کے نفوس (ارواح )کوان کےاجسام میں لوٹایاجائےگا :
اللہ سبحان وتعالی کافرمان ھے:
(ترجمہ )اور جب نفوس کوجوڑاجوڑاکردیا جائےگا،، (تکویر:7)

کیایہ عقیدہ درست ھے کہ مردہ جسم دفن ھونےکےبعد زمینی قبرمیں زندہ ھوجاتاھے؟
یہ عقیدہ قرآنی آیات کے خلاف ھے، قیامت سے پہلے یہ مردہ جسم زندہ نہیں ھوتاخواہ یہ زمین پر ھوں یا زمین میں دفن ھو:
اللہ تبارک وتعالی کافرمان ھے،
(ترجمہ )پھربےشک اس (زندگی)کےبعدتم مرجاوگےپھربےشک قیامت کےدن (دوبارہ زندہ کرکے)اٹھائےجاوگے (المومنون:15/16)
اس آیت سے معلوم ھواکہ ھرمرنےوالے پر قیامت تک موت طاری رھےگی اورپھرھرمرنےوالے کوقیامت کے دن زندہ کرکےاٹھایاجائےگا اس سے پہلے مردہ جسم ھرگززندہ نھیں ھوگا:اللہ تبارک وتعالی کاارشادھے.
(ترجمہ)اور جن لوگوں کویہ اللہ کےسواپکارتےھیں وہ کسی چیز کےبھی خالق نہیں، بلکہ خود پیداکئیےگئے ھیں. مردہ ھیں کہ نہ زندہ اور انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ انھیں (دوبارہ زندہ کرکے)کب اٹھایاجائےگا(النحل:20/21)

(ترجمہ)پھرجب ھم نے اس( سلیمان ع)پر موت کافیصلہ کیاتوکسی چیزسے اس کامرنامعلوم نہ ھوامگرگھن کے کیڑےسےجوان کے عصاءکوکھاتا رھاجب وہ گرپڑےتب جنات کو معلوم ھواکہ اگر وہ غیب جانتےھوتےتواس ذلت کےعذاب میں نہ رھتے(سبا:14)
اس آیت سے معلوم ھواکہ مرنےکےبعد قیامت سے پہلے انبیاء علیہ الاسلام کی بھی زندگی نھیں ھے، ورنہ سلیمان علیہ السلام کھبی بھی زمین پر نہ گرتے.

مرنے والوں کےمردہ اجسام گل سڑجاتےھیں. اور مٹی ھوجاتےھیں. اور قیامت کےدن جسم ازسرنو پیداکئیےجائیں گے.
(اللہ رب العالمین کسی کے مردہ جسم کو جب تک چاھے محفوظ بھی رکھ سکتاھے، جیسے فرعون کاجسم لیکن اس میں بھی زندگی نھیں )
قرآن کہتاھے (ترجمہ )کہنےلگےکہ (جب)ھڈیاں گل سڑجائےگی توان کوکون زندہ کرےگا (اےنبی. ص)کہدوان (گلی سڑی ھڈیوں)کووھی زندہ کرےگاجس نےان کوپہلی مرتبہ زندہ کیاتھا (یسین:78/79)
(ترجمہ )کافر کہتےھیں بھلاھم تمھیں ایساآدمی(نبی. ص)بتائیں جوتمھیں خبردیتا ھے کہ جب تم(مرکر)بالکل ریزہ ریزہ ھوجاوگےتم یقینانئےسرے سے پیداھوگے(سبا:7)
(ترجمہ )کیاانسان یہ خیال کرتاھے کہ ھم اسکی(بکھری ھوئی)ھڈیاں نہیں اکھٹآکریں گے کیوں نھیں ھم تواس بات پرقادرھیں کہ اس کی انگلیوں کی پورپورتک درست کردیں. (القیامہ:3/4)

(ترجمہ )بھلاجب ھم مرگئےاورمٹی ھوگئے (توپھر زندہ ھوں گے)یہ (قیامت کو)زندہ ھونا (عقل سے)بعیدھے، ان کےجسموں کو زمین جتنا (کھاکھاکر)کم کرتی ھےھمکومعلوم ھےاورھمارے پاس ایک کتاب ھےجس میں سب کچھ محفوظ ھیں:(ق:3/4)
تین زندگیوں کاعقیدہ رکھنابھی قرآنی آیات کاانکارھے. قرآن حکیم میں صرف دوزندگیوں کاذکرھے. ایک دنیا کی زندگی اور دوسری آخرت کی زندگی مرنےکےبعد قیامت تک کوئی زندگی نھیں ھے (خرق عادت مستث
 

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
مرنےکےبعدقیامت تک عذاب وراحت کاعقیدہ رکھنادرست ھے،
مرنے والوں کے نفوس اس دنیامیں واپس نہیں آسکتے اور نہ ھی قیامت سے پہلے اپنے اجسام میں آسکتےھیں. مرنے والوں کے اجسام دنیاھی میں ھیں خواہ وہ زمین پر ھوں یا زمین میں دفن ھو دنیا اور مرنے والوں کے نفوس کےدرمیان قیامت تک کے لئے ایک برزخ(آڑ)قائم کردی گئی ھے. یہ ایک ایسی مظبوط برزخ(آڑ)ھےکہ نفوس(ارواح)اس برزخ کوتوڑکراس دنیامیں واپس نہیں آسکتے اور نہ ھی زندہ افراد اس برزخ(آڑ)کوتوڑ کروھاں جاسکتےھیں. مرنے کے وقت کچھ نفوس اللہ تبارک وتعالی کوپکار پکار کرکہتے ھیں.
(ترجمہ)اےرب مجھےواپس لوٹادےتاکہ میں اس(دنیا )میں جیسے چھوڑآیا ھوں نیک عمل کروں(اللہ کی طرف سے جواب ملے گا)ھرگزنھیں یہ ایک بات ھےکہ وہ اسےکہہ رھاھے(اس پرعمل ھرگزنھیں ھوگا(المومنون :99/100)
(ترجمہ)ان(سب مرنےوالوں )کے آگے ایک برزخ ھے(دوبارہ زندہ کرکے)اٹھائےجانےکےدن تک،(المومنون :100)
اس آیت سے معلوم ھواکہ برزخ قیامت کے دن دوبارہ زندہ ھونےتک ھے.
(ترجمہ)اور کاش تم ظالم(مشرک)لوگوں کواس وقت دیکھوں موت کی سختیوں میں(مبتلا )ھوں اور ملائکہ(انکی طرف)ھاتھ بڑاھارھےھوں کہ نکالو اپنے نفوس کوآج کےدن تم کوذلت کےعذاب کی سزادی جائی گی. اس لئے کہ تم اللہ پر جھوٹ بولاکرتےتھے اور اس کی آیاتوں سے تکبر کیاکرتےتھے.
(الانعام :93)
اس آیات کے الفاظ(اليوم تجدون عذاب الهون)صاف بتارھےھیں کہ یہ عذاب مرنے کے دن سے ھی شروع ھوجاتاھے.
(ترجمہ)وہ (جہنم کی )آگ پر صبح وشام پیش کئیےجاتے ھیں اور جس دن قیامت قائم ھوگی( توحکم ھوگاکہ )آل فرعون کوسخت عذاب میں داخل کرو، (مومن:46)
اس آیت میں دوعذابوں کاذکرھے (الناريعرضون... الخ)
دوم (ادخلوال فرعون اشدالعذاب)دونوں کے درمیان ويوم تقوم الساعة واردھے جس کامطلب ھےکہ (الناریعرضون... الخ)میں جس عذاب کاذکر کیا گیا ھے، وہ قیام قیامت سے پہلے ھے.
حدیث میں بھی دیکھئےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ.
بلاشبہ جب تم میں سے کوئی مرجائےتوصبح وشام اپنے ٹھکانےپرپیش کیاجاتاھے جاھےدوزخ ھوچاھےجنت اور اسےکہا جاتاہے کہ یہی تیراٹھکانا ھے یہاں تک کہ تجھےدوبارہ اٹھایاجائےگا)
)بخاری جلد2کتاب الرقاق، باب سکرات الموت صفحہ 649)
 

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
مرنے کے بعد سے قیامت کے دن تک جو روح کے ساتھ معملات ہونگے اس کو عذاب قبر کہا جاتا ہے

عذاب قبر کا اس دنیاوی گڑہے اور اس میں پڑے ہوئے لاشے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس لاشے میں قیامت سے پہلے روح آسکتی ہے اور نہ ہی زندہ ہوسکتا ہے

جیسا کہ فرعون اور آل فرعون واقعہ کا قران میں سراہت کے ساتھ ذکر ہوا ہے ان کو شام صبع آگ پر پیش کیا جاتا

ٱلنَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا۟ ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ
یعنی) آتش (جہنم) کہ صبح وشام اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ اور جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کرو
40-Ghafir : 46

اور قوم لوط کا واقع قران میں ذکر ہوا ہے
انکے خطاؤں کے سبب انکو ڈبودیا گیا اور آگ میں داخل کردیا گیا. نوح آیت نمبر 25

مِّمَّا خَطِيٓـَٰٔتِهِمْ أُغْرِقُوا۟ فَأُدْخِلُوا۟ نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا۟ لَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ أَنصَارًا
(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب پہلے غرقاب کردیئے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے۔ تو انہوں نے خدا کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا
71-Nuh : 25

اللہ تعالی ہر مرنے والے کو قبر دیتا چاہے دینا والے اسکو قبر میں دفن کریں یا نہ کرے

ثُمَّ أَمَاتَهُۥ فَأَقْبَرَهُۥ
پھر اس کو موت دی پھر قبر عطا فرمائی
80-Abasa : 21
 

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
صحیح بخاری --- ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری --- قلیبِ بدر کی حدیث اور عائشہ رضی الله عنہا کا فتویٰ
بخاری کی قلیب بدر والی صحیح روایت کی یہ بات کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے مردوں کو سنایا مشہور تابعی اس روایت کے راوی قتادہ رحمتہ الله علیہ نے ساتھ میں یہ وضاحت کی کہ "الله نے اس وقت انہیں زندہ کر دیا تھا تاکہ اپنے نبی کی بات ان کو سنائے - یہ سب کچھ ان کی زجر و توبیخ ، ذلت و نامرادی اور حسرت و ندامت کے لیے تھا" (بخاری: کتاب المغازی ، باب: ابو جہل کے قتل کا بیان)
الله نے ان مقتولین کو زندگی بخش دی تاکہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا کلام (خطاب) سن سکیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم کی بات (یہ خطاب) ان کے لئے ذلت و خواری ، حسرت و ندامت کا باعث بنے -
یعنی ان مشرک مقتولین نے مردہ ہو کر نہیں زندہ ہو کر سنا ، مردے نہیں سنتے ، زندہ کر کہ سنایا گیا تاکہ حق قبول نہ کرنے کی وجہ سے ان کو حسرت و ندامت ہو - اور یہ سنانا نبی صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ تھا -نبی صلی الله علیہ وسلم کا ان مردوں سے کلام کے وقت عمر بن خطاب رضی الله عنہ (امت کے سچے جانثار ولی) نے اعتراض بھی کیا تھا - کیونکہ ان کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ مردے نہیں سنتے -
اور یہی رائے اور عقیدہ اس روایت کے بارے میں عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا بھی تھا کہ مردے نہیں سنتے اور ثبوت میں اور تاویل کے لیے قرآن کی یہ آیت پیش کی "ترجمہ: اے محمد صلی الله علیہ وسلم تم مردوں کو نہیں سنا سکتے" -
ہمیں اس قلیب بدر والی روایت یا اس قسم کی مردوں کے سماع والی دیگر روایات کو مسلمین کی ماں عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی وضاحت اور تاویل کو سامنے رکھ کر مان لینا چاہیے - کیونکہ زیادہ تر وحی (قرآن) نبی صلی الله علیہ وسلم پر عائشہ رضی الله عنہا کی موجودگی میں نازل ہوئی ہے - ان کے ایمان اور دینی کردار کو جبرائیل علیہ السلام نے سلام کیا تھا - اور یہ سلام اس فرشتے نے الله کے حکم سے کیا تھا کیونکہ یفعلون مایومرون......"فرشتے وہی کرتے ہیں جن کا ان کو (الله کی طرف سے) حکم دیا جاتا ہے" -
یعنی یہ سلام عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا پر الله نے بھیجا تھا جس میں عائشہ رضی الله عنہا کے ایمان اور عقیدے کی الله کی طرف سے توثیق اور تائید بھی ہے اور ان کی تربیت الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیر نگرانی ہوئی اسی مقام کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے دینی مسائل دریافت کرتے تھے -
جب بحوالہ صحیح روایت عائشہ رضی الله عنہا مردوں کے سننے کی تاویل "جان لینے یا علم ہو جانے" سے کرتی ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو یا کسی بھی مفتی امام ، محدث کو عائشہ رضی الله عنہا سے بڑا ایماندار یا قرآن سے زیادہ جاننے والا عالم نہیں سمجھنا چاہیے یہ اسلام ماننے یا اسلام کی خدمت کرنے کا انداز نہیں ، بلکہ ڈھانے اور کمزور کرنے والا انداز ہے - الله کی محکم آیات اور واضح صحیح احادیث کا انکار کر کہ کل قیامت کے دن کوئی بھی الله کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو بچانے اور چھڑانے والا نہ ہو گا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹھکانہ جہنم بنا دیا جائے گا الله ہمیں دنیا میں شرک و کفر اور قرآن کے انکار سے اور آخرت میں جہنم کی آگ سے بچائے - (آمین)
عائشہ رضی الله عنہا نے یہ تاویل "جان لینے اور علم ہو جانے" اپنے طرف سے نہیں کی تھی قرآن کی روشنی میں کی تھی قرآن میں بھی اکثر مقامات پر سننے سے مراد جان لینا اور سمجھ لینا ہے - سورة الدھر میں انسان کی تخلیق کے ذکر کے ساتھ فرمایا: فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرً‌ا "ہم نے اسے (انسان کو) سننے اور دیکھنے والا بنایا" (سورة الدھر/سورة الانسان:٢) - یعنی بات کو سمجھنے اور عقل و خرد والا بنایا ورنہ سنتے اور دیکھتے تو جانور بھی ہیں - قیامت کے دن ناکامی کے بعد کفر کہیں گے: لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ‌ "کاش ہم دنیا میں سننے (ماننے) والے اور (سمجھنے) عقل والے ہوتے تو آج جہنمیوں میں سے نہ ہوتے" (سورة الملك:١٠) - یاد رہے کہ ہر زمانے اور خاص کر آخری رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کے سارے کافر و مشرک کانوں سے سننے والے تھے قرآن سننے کے بعد ہی وہ مخالفت اور شور کیا کرتے تھے یہاں سننے سے مراد ہے کہ کاش ہم قرآن کی بات سمجھ کر مان لیتے -دوسرے مقام پر فرمایا گیا: إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ "بےشک اس میں سننے والوں کے لیے نشانی ہے" (سورة النحل:٦٥/سورة يونس:٦٧/سورة الروم:٢٣) - یہاں بھی سننے والوں سے مراد عقل والے اور علم والے ہیں - سورة الأنفال میں فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ - وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا ي
 

Ali Muhammad Ali

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2016
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف

کیا مردے سنتے ہیں ؟ اس طرح کے رسالے بعض علماء چھاپتے ہیں اور عوام کو باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مردے نہیں سنتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علماء اس انبوہ میں شامل ہیں جن کے نزدیک نہ صرف مردے سنتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک مردے اتنے پاور فل ہیں کہ قبر پر کھڑے لوگوں سے مانوس بھی ہو سکتے ہیں

اس قبیل کے علماء قبر پرستوں کو ان کے عقائد پر سند جواز دیتے ہیں –قبروں پر جانے کا ایک مقصد صاحب قبر کو سنانا ہوتا ہے کہ وہ عرضداشت رب العالمین تک پہنچا دیں گے –

اب قرآن میں اگر ہو کہ

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ سوره النمل ٨٠ آیت

اے نبی آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پلٹ کر جائیں

اسی طرح قرآن میں اگر ہو

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [فاطر: 22

اور زندہ مردہ برابر نہیں بے شک الله جس کو چاہے سنا دےاور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو سنانے والے نہیں

ان آیات میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ کفار کو ایمان کی طرف نہیں لا سکتے یہ سب الله کے اختیار میں ہے

تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے اس کا مطلب مجازی لینا ہو گا کہ آپ کفار کو نہیں سنا سکتے لیکن قبر میں پڑے مردوں کو سنا سکتے ہیں- جبکہ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جب مثال بھی دیتا ہے تو حقیقت بر مبنی ہوتی ہے

ابن الجوزي كتاب السر المصون (بحوالہ الفروع از ابن مفلح ) میں کہتے ہیں

الذي يوجبه القرآن والنظر أن الميت لا يسمع ولا يحس قال تعالى وما أنت بمسمع من في القبور سورة فاطر 22 ومعلوم أن آلات الحس قد فقدت

جو چیز قرآن و (نقد و) نظر سے واجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے – الله تعالی کہتے ہیں اور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو نہیں سنا سکتے سوره فاطر ٢٢ اور یہ معلوم ہے کہ سننے کے آلات (یعنی کان) ضائع ہو چکے ہوتے ہیں

سماع الموتی کی سب سے اہم دلیل، قلیب بدر کے مردوں کا سماع ہے- جنگ بدر میں فتح کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار کی لاشیں ایک کنواں میں پھینک دی جائیں تین دن بعد آپ اس مقام پر گئے اور کنواں کے اوپر آپ نے ٢٤ سرداران قریش کو پکارآ اس وقت عمر رضی الله عنہ نے کہ

يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَكَلَّمَ مِنْ أَجْسَادٍ، لَا أَرْوَاحَ لَهَا

یا رسول الله آپ ایسے اجسام سے مخاطب ہیں جن میں ارواح نہیں؟

رسول الله نے فرمایا

إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ

بے شک یہ سن رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں

عائشہ رضی الله عنہآ سماع الموتی کی انکاری تھیں اور کہتیں تھیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ یہ سنتے ہیں اصل میں علم ہونا ہے

اور ایسا وہ کیوں نہ کہتیں جبکہ قرآن میں ہے

ابراہیم علیہ السلام نے بتوں سے کلام کیا اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں ؟

حدیث میں ہے عمر رضی الله عنہ نے حجر الاسود سے کلام کیا

ابن عمر رضی الله عنہ نے ابن زبیر رضی الله عنہ کی سولی پر لٹکتی لاش سے کلام کیا اور اسماء رضی الله عنہا سے کہا صبر کریں بے شک ارواح الله کے پاس ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مردہ بیٹے سے کلام کیا

وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے

فرط جذبات میں مردوں سے زندہ مخاطب ہو سکتا ہے لیکن اس میں اس کا مقصد مردے کو سنانا نہیں ہوتا – امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر کوئی قسم کھا لے کہ میں کسی سے کلام نہ کروں گا اور مرنے کے بعد اس کے لاشے سے کلام کر بیٹھا تو اس کی قسم نہ ٹوٹے کی

ابن رجب کتاب أهوال القبور میں قبول کرتے ہیں

قال الحافظ ابن رجب: وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء

اور عائشہ (رضی الله عنہا) سے موافقت کی ہے بہت سے علماء نے مردوں کے سننے کی نفی میں

واضح رہے کہ الله کی قدرت و منشا میں بحث نہیں ہے وہ تو جو چاہے کر سکتا ہے سوال انسانوں کا ہے کہ کیا وہ اپنی بات مردوں کو سنا سکتے ہیں کہ نہیں

قرآن میں ہے

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سوره فاطر ٢٢

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں، بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ انہیں ، جو قبروں میں ہیں، سنانے والے نہیں

یعنی انسان قبر والوں کو نہیں سنا سکتا اللہ چاہے تو ایسا ممکن ہے لہذا اسی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک قلیب بدر کا واقعہ ایک معجزہ تھا

البانی کتاب آیات البینات از نعمان الوسی کی تعلیق میں کہتے ہیں

قلت :
 
Top