• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت مسیح علیہ السلام کا عہد رسالت + نقطۂ نگاہ کی غلطی۔ تفسیر السراج۔ پارہ:3

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ۝۰ۭ قَالَ كَذٰلِكِ اللہُ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝۴۷ وَيُعَلِّمُہُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَالتَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۝۴۸ۚ وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝۰ۥۙ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَہَئَْۃِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْہِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢا بِاِذْنِ اللہِ۝۰ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللہِ۝۰ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ۝۰ۙ فِيْ بُيُوْتِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۴۹ۚ
مریم بولی اے میرے رب! میرے لڑکا کیوں کر ہوگا؟ حالانکہ مجھے کسی آدمی نے نہیں چھوا۔ فرمایا۔ اسی طرح اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے ۔ وہ جب کوئی کام مقرر کرتا ہے توصرف کہتا ہے اس کو کہ ہوجا۔ سو وہ ہوجاتا ہے۔(۴۷)اورخدا عیسیٰ کو لکھنا اور عقل مندی اور توریت وانجیل سکھائے گا۔ (۴۸) اور بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر بنائے گا(وہ کہے گا) کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب سے ایک نشان لے کے آیاہوں۔ میں مٹی سے تمہارے لیے پرندہ کی صورت بنا کر اس میں پھونکتاہوں تو وہ بحکم خدا ایک پرندہ ہوجاتا ہے۔اور مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو چنگا کرتا ہوں اور باذن خدا مردوں کو جلاتا ہوں اور جو کچھ تم کھاکے آؤ اور جو کچھ اپنے گھروں میں رکھ کے آؤ، تمھیں بتا دیتاہوں۔ اس میں تمہارے لیے پورا نشان ہے اگر تم مومن ہو۔۱؎(۴۹)
حضرت مسیح علیہ السلام کا عہد رسالت
۱؎ یہودیوں میں جب حضرت مسیح علیہ السلام کو رسول بناکر بھیجا گیا ہے ، اس وقت ان کی حالت نہایت بگڑچکی تھی۔ ان میں مادیت کے جراثیم بری طرح سرایت کرچکے تھے اور سرمایہ کا حصول ان کی زندگی کا سب سے بڑا نصب العین تھا۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ مال دار تھے اور چاہتے تھے کہ دنیا بھر کے ذخائر وخزائن ان کے پاس جمع رہیں اور ساری دنیا ان کی محتاج ہو۔ اس مادیت کے ساتھ ساتھ وہ مذہبیت کے دعوے دار بھی تھے۔ چند رسوم وظواہر کے سوا ان کے پاس اور کچھ نہ تھا۔ روحانیت اور اخلاق حمیدہ سے وہ کوسوں دور تھے۔اس لیے ان کے ہاں مسیح علیہ السلام ایسے شخص کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان کی مادیت کے طلسم کو توڑدے اور انھیں یقین دلادے کہ ایک قوت مادہ سے وراء اور بلند بھی ہے۔ جس کے اختیارات زیادہ وسیع ہیں۔ چنانچہ مسیح علیہ السلام نے انھیں چند معجزات وخوارق دکھائے جو مادیت کے قلعۂ عقل وفلسفہ پر کاری ضرب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پرندے بنائے۔ مادرزاد اندھے اور کوڑھیوں کو باذن اللہ شفا بخشی اور ان کو بتایا کہ تمہاری ضروریات اکل وشرب کے لیے کتنا کافی ہے اور کس قدر تم جمع کرتے ہو۔ گویا حضرت مسیح علیہ السلام کے یہ معجزات ان کی مادیت کا صحیح جواب تھے۔
نقطۂ نگاہ کی غلطی
وہ لوگ جو مسیح علیہ کے معجزات کا انکار کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ ان کی عقل وحکمت کے خلاف ہیں یا اس سے ان کے خیال میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معاذ اللہ توہین ہوتی ہے۔ انھیں ان آیات پر دیانتداری سے غور کرنا چاہیے اور صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن حکیم کے الفاظ کیا پیش کرتے ہیں۔ اگر ان آیات کے الفاظ میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہوتو پھر محض تمہاری محدود عقل جو قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتی ہے، ہرگز قابل اعتنا نہیں۔ ایک مسلمان کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن حکیم کے الفاظ کیا چاہتے ہیں اور ان کا سادے سے سادہ مطلب کیا ہے؟ اس کے بعد وہ اپنے ذخیرہ علم کا جائزہ لے اور اس کی عقلی تحلیل کرے اور یہ کہنا کہ اس سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا پہلو نکلتا ہے ، غلط ذہنیت پر مبنی ہے۔ یہ درست ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم تمام فضائل وکمالات کے جامع ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مطلقاً منصب نبوت کے آئینہ ہیں جس میں نبوت کے تمام کمالات کو بیک نظر دیکھا جاسکتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضورﷺ معجزات و خوارق دکھانے میں بھی سابق ماحول کے پابند ہیں حضرت مسیح علیہ السلام کا ان معجزات کی نسبت ''باذن اللہ'' کہنا تمام شبہات کو دور کردیتا ہے، اس لیے کہ خدا کی اجازت سے سب کچھ ہوسکتا ہے اور اس کے بعد اعتراض وتاویل کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
حل لغات
{اَخْلُقُ}مادہ و مصدر خَلْقٌ۔ بنانا {ھَیْئَۃٌ} صورت {الاکمہ} مادر زاد اندھا{الابرص}کوڑھی {تدخرون } اصل ادخار۔ ذخیرہ جمع کرنا۔
 
Top