• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت موسیٰؑ اور فرعون کے قصہ میں نصیحت و عبرت

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
حضرت موسیٰؑ اور فرعون کے قصہ میں نصیحت و عبرت......9 محرم 1434ھ

خطبہ جمعہ حرم مدنی
خطیب: ڈاکٹر عبدالباری بن عواض الثبیتی
پہلا خطبہ:
الحمد لله، الحمد لله الذي أنعمَ علينا بنعمٍ نتقلَّبُ فيها ليلَ نهار، أحمده - سبحانه - وأشكرُه على فضلِه وخيرِه المِدرار، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له العزيزُ الجبَّار، القويُّ القهَّار، وأشهد أن سيدَنا ونبيَّنا محمدًا عبدُه ورسولُه، صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم عددَ الحُجَّاج والعُمَّار، وما تساقطَ من ورق الأشجار.
حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد!
میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت آئے تو صرف اور صرف اسلام کی حالت میں۔ [آل عمران: 102]
انبیاء کے قصص میں نصائح ہیں اور حقیقت میں یہ ہی زادِ راہ ہیں جو مومنوں کو ثابت قدم رکھتی ہیں جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ
اور ہم رسولوں کے حالات کی ایک ایک خبر آپ سے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ آپ کے دل کو مضبوط کردیں۔ [هود: 120]
موسی علیہ السلام کا قصہ قرآن کریم کے لمبے قصص میں سے ہے ، اسکی خاصیت یہ ہے کہ اسکا ہر جگہ پر اسلوب بیان مختلف ہے۔
موسی علیہ السلام کی ولادت ایسی فضا میں ہوئی جہاں ہر جانب رعب چھایا ہوا تھا، اُمتِ موسی کمزور اور گروہوں میں بٹی ہوئی تھی، فرعون صرف اپنی سلطنت کو بچانے کیلئے انہیں بُری طرح سزائیں دیتا، کبھی انکی نرینہ اولاد کو ذبح کردیتا تو بچیوں کو چھوڑ دیتا، اسی بنا پر اپنی قوم کو ذلیل اور مقہور بنا دیا تاکہ اسکی حکومت قائم دائم رہے۔
یہ جابرحکمرانوں کی صفت ہے کہ انکے دلوں میں رحم نامی کوئی چیز نہیں ہوتی، انسانی احساسات سے عاری ہوتے ہیں،چنانچہ اللہ کا فیصلہ آگیا کہ انکی حکومت زوال پذیر ہو، انکا انجام برُا ہو، تو اللہ تعالی نے فرمایا:
وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
ہم نے موسیٰ کی والدہ کی طرف الہام کیا کہ اس بچے (موسیٰ) کو دودھ پلاتی رہو۔ پھر جب تجھے اس (کے قتل) کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ کچھ خوف رکھنا اور نہ غم کھانا ہم اس بچے کو تیرے طرف ہی لوٹا دینگے اور اسے اپنا رسول بنا ئیں گے۔[القصص: 7]
ماں ڈر رہی ہے کہیں میرے بیٹے کی خبر فرعون یا اسکی قوم کو نہ ہوجائے اور وہ اسکو قتل کردیں ، اور اُدھر اللہ کی جانب سے الہام ہوتا ہے کہ موسیٰ کو دریا برد کردو، کیونکہ دریااللہ کے حکم سے امن و آشتی کی پناہ گاہ بن چکا ہے، جس نے ننھےمنھے کو اپنی گود میں سمو لیا اور اسے ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ کر لیا ۔
اسی قسم کے واقعات رو نما ہوتے رہے؛تاکہ امت کیلئے واضح ہو جائے کہ سرکشوں کی مکاریاں اللہ کی قدرت اور عظمت کے مقابلے میں کتنی کمزور ہیں ، فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو اس لئے قتل کروا رہا ہےکہ موسی کو زندگی نہ مل سکے، جبکہ دوسری جانب دودھ پیتے ننھے موسیٰ کوپانی کی لہروں نے فرعونی محل کے سامنے لا کھڑا کیا، اور اللہ نے زوجہ فرعون کے دل میں ننھے موسی کی محبت ڈال دی اور کہنے لگی:
لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا
اسے قتل نہ کرو، امید ہے کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنالیں [القصص: 9]
اللہ نے فرعون کو ایسے مسخر کردیا ؛ کہ موسی اُسی کے دستر خوان و بستر پر پلنے بڑھنے لگے، جسکو اللہ رکھے اسکو کون چکھے؟
اب موسی علیہ السلام کیلئے دائیوں کو اکٹھا کیا گیا، موسی علیہ السلام نے سب کو مسترد کر دیا، اسی اثنا میں موسی علیہ السلام کی بہن آگے بڑھی اور کہا کہ میں بھی ایک دائی کو جانتی ہوں چاہو تو بلا کر لاوں؟ انہوں نے پیشکش قبول کی اور وہ موسی علیہ السلام کی ماں کو لے آئی:
فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ
چنانچہ (اس طرح) ہم نےموسیٰ کو اس کی والدہ ہی کی طرف لوٹا دیا تاکہ وہ اپنی آنکھ ٹھنڈی کرے اور غمزدہ نہ رہے اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے [القصص: 13]
دیکھو یہ ہے اللہ کا وعدہ، اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے دلوں میں یقین پیدا کریں، کہ جو اپنے خالق سے جڑ کر اسی پر بھروسہ رکھتے ہوئے تمام اسباب اپنائےگا، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوگا، نہ ہی برُے خیالات کے سامنے جھکے گا، اور رونما ہونیوالے واقعات سے بد فالی بھی نہ لیگا، نیز اسکو ملنے والی مشکلات پُر امید عزم اور قوتِ ایمانی سے بھر پور کر دیتی ہیں۔
اللہ نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جاو اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى تم فرعون کے پاس جاؤ (کیونکہ) وہ سرکش ہوگیا ہے [طه: 24]
یہ کام بھی بڑا مشکل تھا کیونکہ فرعون نے الوہیت کا دعوی کیا ہوا تھا اور اس بارے میں کسی کی سننے کیلئے تیار نہ تھا۔
یہاں اللہ کے نبی موسی علیہ السلام دعوت کے میدان میں دعاۃ کیلئے منہج الدعوۃ مقرر کرتے ہیں، وہ یہ کہ: اپنے مشن کو صرف اور صرف اللہ کے ساتھ لگاؤ سے شروع کیا جائے ، اپنے ذاتی یا بیرونی تمام وسائل پر اعتماد ختم کر کے اپنے آپ کو صرف اللہ کے سامنے گِرا کراسی کی تسبیح بیان کی جائے اور صرف اللہ کا ذکر کیاجائے ، یہ ہر مُبلّغ و مُربّی کا رُختِ سفرہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي (25) وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي (26) وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي (27) يَفْقَهُوا قَوْلِي (28) وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي (29) هَارُونَ أَخِي (30) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (31) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (32) كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا (33) وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا
موسیٰ نے عرض کی! پروردگار! میرا سینہ کھول دے۔[25]اور میرے لئے میرا کام آسان بنا دے[26] اور میری زبان سے (لکنت کی) گرہ کھول دے۔[27] تاکہ وہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔[28] اور میرے لئے میرے خاندان میں سے ایک مددگار مقرر کردے۔[29] ہارون کو جو میرا بھائی ہے۔[30] اس سے میری کمر کو مضبوط کر۔[31] اور اسے میرے کام میں شریک کردے۔[32] تاکہ ہم تسبیح بیان کریں۔[33]اور خوب ترما ذکر کریں۔[34] [طه: 25- 34]
اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی راہنمائی بھی کی اور فرمایا: اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (43) فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى
ہاں، فرعون کے ہاں جاؤ، وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے۔[43] دیکھو، اسے نرمی سے بات کہنا، شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا (اللہ سے) ڈر جائے۔ [طه: 43، 44]
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: اے اللہ ! اگر تو ایسے آدمی کے ساتھ اتنا نرمی کے ساتھ معاملہ فرما رہا ہے جو کہتا ہے:
مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي
اے درباریو! میں تو اپنے علاوہ تمہارے لئے کسی الہٰ کو جانتا ہی نہیں۔ [القصص: 38]
تو تیرے لئے سجدے میں گِر کر[سبحان ربي الاعلى]"میرا رب پاک اور سب سے بلند ہے"کہنے والے کے ساتھ کیسا ہوگا؟
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا
"اسے نرمی سے بات کہنا"
اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو دعوت کے میدان میں پہلے مرحلے کی وصیت کی؛ نرم گفتگو،بیانِ حق ،دلیل کا دلیل سےتوڑ، اور دھیمی بات چیت ،اسلامی آداب ، انبیاء کرام کا طریقہ ہے، جبکہ سخت اندازِ گفتگو، بد گوئی، مو شگافیاں دین سے دور ہی کرتی ہیں، اور دین کے اصل حقائق کو مسخ کر کے رکھ دیتی ہیں، ہاں نرمی کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دینی احکامات کو تحلیل کر دیا جائے،اصولوں کو موڑا توڑا جائے، اور دینی حقائق کو اس لئے ختم کیا جائےتاکہ لوگ راضی رہیں۔
اس دعوت کے بدلے میں فرعون نے لوگوں کو موسی علیہ السلام سے دور رہنے کا کہا اور سر عام مناظرہ میں لوگوں کے سامنے موسی کو چار زانوں چت کرنے کیلئے جادو گروں کو اکٹھا کر لیا تا کہ موسی علیہ السلام کے قتل کا راستہ سیدھا کیا جاسکے، اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى
چنانچہ فرعون نے واپس جا کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کئے اور مقابلہ پر آگیا[طه: 60]
تمام جادو گر فرعون کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئےمیدان مناظرہ میں موسی علیہ السلام کو اجتماعی شکست دینے کیلئےحاضر ہوگئے، اس ٹھاٹھے مارتے جم غفیر میں ربِ موسی نے نصیحت کی:
لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى
ڈرو مت، غالب تم ہی رہو گے[طه: 68]
کیونکہ تم ہی بلند، غالب،مکرّم ہو، منہج آپکا بلند ہے، اخلاق آپکا بہترین ہے، اور عقیدہ آپ ہی کا مضبوط ہے۔
اور یہ ہی پیغام ہے ہمارے ان نوجوانوں کیلئے جو نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ہو چکے ہیں ، جنکی سوچ ڈگمگا چکی ہے، جنکے باطل و ضلالت کے پھیلنے اور پھلنے پھولنے پر قدم لرزنےلگتے ہیں۔
فرعون کی بھی ایک چاہت ہے ، اللہ کی بھی چاہت ہے ، آخر کار اللہ کی چاہت غالب آتی ہے، جب جادو گروں نے اللہ کی نشانیاں اور معجزات دیکھے تو اچانک ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی :
وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (120) قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (121) رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ
اور جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے[١٢٠](اور) کہنے لگے: ''ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے"[١٢1]جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے'' [الأعراف: 120- 122]
ایمان نے انکے دلوں پر قابض ہوکر انکو منور کر دیا تھا ، سچے عقیدہ نے انکی زندگیوں پر فتح پالی،قومِ فرعون تو میدان میں جادوگروں کے پاس آئی تھی لیکن وہ چند ہی لمحات میں نیک ،صالح اور شہداء میں تبدیل ہو گئے، دیکھو یہ ہی اب ببانگِ دہل پوری طاقت کیساتھ فرعون کی دھمکی کو چیلنج کر کے کہہ رہے ہیں:
فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
جو کچھ تو کرنا چاہتا ہے کر لے۔ توں تو بس اس دنیا کی زندگی کا ہی خاتمہ کرسکتا ہے ۔[طه: 72]
اب یہ ہی فرعون انکی نگاہوں میں گر چکا ہے، کیونکہ نہ تو وہ نفع کا مالک ہے اور نہ ہی نقصان کا، نہ موت کا ، نہ حیات کا، نہ مرنے کے بعد اٹھانے کا، کبھی انکا مقصد دنیا داری تھا، اب انکا مطمح نظر اللہ کی رضا اور آخرت بن چکا ہے، اسی لئے اپنے دلوں سے سچی توبہ کا اعلان کردیا ، اپنے رب سے گناہوں کی معافی بھی مانگی، یقینا سچے ایمان ہی نے جادو گروں کو مومن بنا دیا، بلکہ اس سے بڑھ کر دین کا داعی بنایا جو لوگوں کو ہدایت اور نور کی جانب دعوت دیں، اسی لئے قرآن نے انکی بات کو یوں بیان کیا:
إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى (74) وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَى
بات یہ ہے کہ جو شخص مجرم بن کر اپنے پروردگار کے پاس آئے گا اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جئے گا۔[74] اور جو مومن بن کر آیا اور اس نے اعمال بھی نیک کئے ہوں تو ایسے ہی لوگوں کے لئے بلند درجات ہیں۔[طه: 74، 75]
یہ کوئی عجیب بات نہیں؛ دل جب ایمان کی مٹھاس چکھ لے تو اسکی یہ تمنا ہوتی ہے کہ باقی افراد بھی اس لذت اور مٹھاس کو چکھیں، اور ہماری سنہری تاریخ اس قسم کے افراد اور اقوام کے واقعات سے بھر پور ہے جو کبھی تو اسلام کے خلاف حالتِ جنگ میں تھے لیکن ایمان نے انہیں مذہبی بلندیوں پر پہنچا دیا، اور وہ ایسے دلیر اور بہادر لیڈر ثابت ہوئے کہ جنہوں نے اسلام کا دفاع بھی کیا اور اسکے رکھوالے بھی بنے۔
وقتِ حاضر میں بھی ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے کہ جو لوگ منشیات ،ڈاکے، چوری کو فروغ دینے کے سرغنہ تھے،لیکن ایمان نے انکو اچھا با کردار اور نیکی تقوی کے نمونے بنا دیا۔
اور جب فرعون تکبر کی انتہاء کو پہنچنے لگا، تو اللہ کی مدد کا وقت بھی آگیا، چنانچہ محرم الحرام کی دس تاریخ کو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور انکے حواریوں کو نجات دے دی ، جبکہ فرعون اور اسکے لشکر کو پانی میں غرق کر دیا، فرعون نے اپنی تباہی اور موت کو دیکھا تو چلا اٹھا:
آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ ''الٰہ صرف وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں اس کا فرمانبردار ہوتا ہوں''[يونس: 90]
، بس اب وقت گزر چکا آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
اب (تو ایمان لاتا ہے) جبکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا [يونس: 91]
اور اللہ کی طرف سے اسکی نعش کے بارے میں احکامات بھی جاری ہوئے:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً
آج تو ہم تیری لاش کو بچا لیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنے[يونس: 92]
تا کہ اسکا یہ جسم فسادیوں اور سرکشوں کیلئے علامتِ نصیحت بن جائے، اور ان لوگوں کیلئے بھی جو اپنی قوم میں قتل و غارت بپا کرتے ہیں
وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
اگرچہ اکثر لوگ ہماری آیتوں سے غفلت ہی برتتے ہیں[يونس: 92]
اسی دس محرم [یوم عاشوراء] جو کل [سعودی عرب میں] ہفتہ کا دن ہے،کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یوم عاشوراء کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘ [مسلم]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
حمدوثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام کے بعد!
اللہ سے ڈرو اور اسی کی اطاعت کرو
مسلمانو!
موسی علیہ السلام نے ارضِ مقدس اور بیت المقدس کی تعظیم کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالی سے اپنی موت کے وقت عرض کی، یا اللہ مجھے اس پاک سر زمین کے قریب کرنا، چنانچہ صحیح بخاری میں مرفوع روایت ہے:
’’موسی علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی کےمجھے ارض مقدس کے اتنا قریب کر دے جتنی دور پتھر پھینکا جا سکتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں موسی علیہ السلام کی قبر راستے کی ایک جانب سرخ ٹیلے کے ساتھ دیکھا دیتا۔‘‘
سچی بات ہے دل درد و غم سے کڑھتا ہےجب صیہونی یہودیوں کو بیت المقدس میں فساد پھیلاتے دیکھتے ہیں، جب وہ غزہ میں نہتے انسانوں پر گولہ بارود برساتے ہیں، یہ اندھا دھند قتل و غارت جس میں بچے اور خواتین کو قتل کر دیا گیا، گھروں کو تباہ کر دیا گیا،حملہ آوروں کی خونخوار شکل ، اور مخفی بغض وعنادکو عیاں کرتا ہے، اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ عہد و پیمان کا بھی احترام نہیں کرتے۔
یہ ظلم اور زیادتی کوئی مسلم بھی قبول نہیں کریگا، اور نہ کوئی آزاد فکر، عقل مند ہی پسند کرے گا، اس جنگ کو جاری رکھنا، یا بعد میں دوبارہ شروع کرنا تمام مسلمانوں کی توہین ہے۔
فلسطینی قوم کی حفاظت اجتماعی ذمہ داری ہے جو کہ تمام مسلمانوں کے کندھوں پر ہے، اور ہم سب ایسے اِقدامات کرنے کے پابند ہیں جن سے اس ظلم و زیادتی کے بازار کو ہمیشہ کیلئے بند کیا جائے ۔
ان تمام ظلم و زیادتیوں کے باوجود، غزہ کی تاریخ بلند ہمت واقعات سے بھر پور ہے، یقینا یہ ظلم جلد ہی ختم ہونے والا ہے، چاہے اسکی راتیں کتنی ہی لمبی ہو جائیں، جیسے فرعون کا ظلم انتہاء درجے تک پہنچا تو اللہ نے اسکو سزا بھی دی اور ہمیشہ کیلئے اسے غرق بھی کردیا،تب جا کر اہل حق کو انکا حق ملا، فرمان باری تعالی ہے:
وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (5) وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ
اور ہم یہ چاہتے تھے کہ جس گروہ کو اس ملک میں کمزور بنایا گیا تھا اس پر احسان کریں، انھیں سرکردہ بنائیں اور (اس ملک کے) وارث بنائیں [5]اور انھیں اس ملک میں اقتدار بخشیں [القصص: 5، 6]
ألا وصلُّوا - عباد الله - على رسول الهدى؛ فقد أمركم الله بذلك في كتابه.
اللهم صلِّ على محمدٍ وأزواجه وذريَّته، كما صلَّيتَ على آل إبراهيم، وبارِك على محمدٍ وأزواجه وذريَّته، كما باركتَ على آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيدٌ.
وارضَ اللهم عن خلفائه الأربعة الراشدين: أبي بكرٍ، وعمر، وعثمان، وعليٍّ، وعن الآلِ والصَّحبِ الكِرام، وعنَّا معهم بعفوِك وكرمِك وإحسانِك يا أرحم الراحمين.
اللهم أعِزَّ الإسلامَ والمسلمين، اللهم أعِزَّ الإسلامَ والمسلمين، وأذِلَّ الكفرَ والكافرين، ودمِّر اللهم أعداءَك أعداء الدين، واجعل اللهم هذا البلدَ آمنًا مُطمئنًّا وسائرَ بلاد المُسلمين.
اللهم من أرادَنا وأرادَ الإسلامَ والمُسلمين بسُوءٍ فأشغِله بنفسه، واجعَل تدبيرَه تدميرَه يا سميع الدعاء.
اللهم احفَظ المُسلمين في كل مكان، اللهم احفَظ المُسلمين في بلاد الشام، وانصُرهم على عدوِّهم وعدوِّك يا رب العالمين.
اللهم إنا نسألُك الجنةَ وما قرَّبَ إليها من قولٍ وعملٍ، ونعوذُ بك من النار وما قرَّب إليها من قولٍ وعملٍ.
اللهم أصلِح لنا دينَنا الذي هو عصمةُ أمرنا، وأصلِح لنا دُنيانا التي فيها معاشُنا، وأصلِح لنا آخرتَنا التي إليها معادُنا، واجعل الحياةَ زيادةً لنا في كل خيرٍ، والموتَ راحةً لنا من كل شرٍّ يا رب العالمين.
اللهم إنا نسألُك الهُدى والتُّقَى والعفافَ والغِنى، اللهم أعِنَّا ولا تُعِن علينا، وانصُرنا ولا تنصُر علينا، وامكُر لنا ولا تمكُر علينا، واهدِنا ويسِّر الهُدى لنا، وانصُرنا على من بغَى علينا.
اللهم اجعَلنا لك ذاكِرين، لك شاكِرين، لك مُخبتين، لك أوَّاهين مُنيبين.
اللهم تقبَّل توبتَنا، واغسِل حوبتَنا، وثبِّت حُجَّتنا، وسدِّد ألسِنتَنا، واسلُل سخيمةَ قلوبنا.
اللهم اغفِر للمُسلمين والمُسلمات، والمؤمنين والمؤمنات، الأحياء منهم والأموات، اللهم ألِّف بين قلوبِ المُسلمين ووحِّد صُفوفَهم، واجمع كلمتَهم على الحقِّ يا رب العالمين.
اللهم وفِّق إمامنا لما تُحبُّ وترضى، اللهم وفِّقه لهُداك، واجعل عملَه في رِضاك، ومُنَّ عليه بالصحة والعافية يا أرحم الراحمين.
اللهم وفِّق جميعَ وُلاة أمور المُسلمين للعمل بكتابك، وتحكيم شرعِك يا رب العالمين.
اللهم أنت الله لا إله إلا أنت، أنت الغنيُّ ونحن الفُقراء، أنزِل علينا الغيثَ ولا تجعَلنا من القانِطين، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم سُقيا رحمةٍ لا سُقيا عذابٍ ولا بلاءٍ ولا هدمٍ ولا غرقٍ، اللهم تُحيِي به البلادَ، وتُفيدُ به العبادَ، وتجعلُه بلاغًا للحاضر والباد برحمتك يا أرحم الراحمين.
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90].
فاذكروا اللهَ يذكُركم، واشكُروه على نعمِه يزِدكم، ولذِكرُ الله أكبر، واللهُ يعلمُ ما تصنَعون.


لنک
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حضرت موسیٰؑ اور فرعون کے قصہ میں نصیحت و عبرت......9 محرم 1434ھ

خطبہ جمعہ حرم مدنی
خطیب: ڈاکٹر عبدالباری بن عواض الثبیتی
پہلا خطبہ:
الحمد لله، الحمد لله الذي أنعمَ علينا بنعمٍ نتقلَّبُ فيها ليلَ نهار، أحمده - سبحانه - وأشكرُه على فضلِه وخيرِه المِدرار، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له العزيزُ الجبَّار، القويُّ القهَّار، وأشهد أن سيدَنا ونبيَّنا محمدًا عبدُه ورسولُه، صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم عددَ الحُجَّاج والعُمَّار، وما تساقطَ من ورق الأشجار.
حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد!
میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

انبیاء کے قصص میں نصائح ہیں اور حقیقت میں یہ ہی زادِ راہ ہیں جو مومنوں کو ثابت قدم رکھتی ہیں جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ

موسی علیہ السلام کا قصہ قرآن کریم کے لمبے قصص میں سے ہے ، اسکی خاصیت یہ ہے کہ اسکا ہر جگہ پر اسلوب بیان مختلف ہے۔
موسی علیہ السلام کی ولادت ایسی فضا میں ہوئی جہاں ہر جانب رعب چھایا ہوا تھا، اُمتِ موسی کمزور اور گروہوں میں بٹی ہوئی تھی، فرعون صرف اپنی سلطنت کو بچانے کیلئے انہیں بُری طرح سزائیں دیتا، کبھی انکی نرینہ اولاد کو ذبح کردیتا تو بچیوں کو چھوڑ دیتا، اسی بنا پر اپنی قوم کو ذلیل اور مقہور بنا دیا تاکہ اسکی حکومت قائم دائم رہے۔
یہ جابرحکمرانوں کی صفت ہے کہ انکے دلوں میں رحم نامی کوئی چیز نہیں ہوتی، انسانی احساسات سے عاری ہوتے ہیں،چنانچہ اللہ کا فیصلہ آگیا کہ انکی حکومت زوال پذیر ہو، انکا انجام برُا ہو، تو اللہ تعالی نے فرمایا:
وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ

ماں ڈر رہی ہے کہیں میرے بیٹے کی خبر فرعون یا اسکی قوم کو نہ ہوجائے اور وہ اسکو قتل کردیں ، اور اُدھر اللہ کی جانب سے الہام ہوتا ہے کہ موسیٰ کو دریا برد کردو، کیونکہ دریااللہ کے حکم سے امن و آشتی کی پناہ گاہ بن چکا ہے، جس نے ننھےمنھے کو اپنی گود میں سمو لیا اور اسے ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ کر لیا ۔
اسی قسم کے واقعات رو نما ہوتے رہے؛تاکہ امت کیلئے واضح ہو جائے کہ سرکشوں کی مکاریاں اللہ کی قدرت اور عظمت کے مقابلے میں کتنی کمزور ہیں ، فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو اس لئے قتل کروا رہا ہےکہ موسی کو زندگی نہ مل سکے، جبکہ دوسری جانب دودھ پیتے ننھے موسیٰ کوپانی کی لہروں نے فرعونی محل کے سامنے لا کھڑا کیا، اور اللہ نے زوجہ فرعون کے دل میں ننھے موسی کی محبت ڈال دی اور کہنے لگی:
لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا

اللہ نے فرعون کو ایسے مسخر کردیا ؛ کہ موسی اُسی کے دستر خوان و بستر پر پلنے بڑھنے لگے، جسکو اللہ رکھے اسکو کون چکھے؟
اب موسی علیہ السلام کیلئے دائیوں کو اکٹھا کیا گیا، موسی علیہ السلام نے سب کو مسترد کر دیا، اسی اثنا میں موسی علیہ السلام کی بہن آگے بڑھی اور کہا کہ میں بھی ایک دائی کو جانتی ہوں چاہو تو بلا کر لاوں؟ انہوں نے پیشکش قبول کی اور وہ موسی علیہ السلام کی ماں کو لے آئی:
فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ

دیکھو یہ ہے اللہ کا وعدہ، اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے دلوں میں یقین پیدا کریں، کہ جو اپنے خالق سے جڑ کر اسی پر بھروسہ رکھتے ہوئے تمام اسباب اپنائےگا، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوگا، نہ ہی برُے خیالات کے سامنے جھکے گا، اور رونما ہونیوالے واقعات سے بد فالی بھی نہ لیگا، نیز اسکو ملنے والی مشکلات پُر امید عزم اور قوتِ ایمانی سے بھر پور کر دیتی ہیں۔
اللہ نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جاو اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى تم فرعون کے پاس جاؤ (کیونکہ) وہ سرکش ہوگیا ہے [طه: 24]
یہ کام بھی بڑا مشکل تھا کیونکہ فرعون نے الوہیت کا دعوی کیا ہوا تھا اور اس بارے میں کسی کی سننے کیلئے تیار نہ تھا۔
یہاں اللہ کے نبی موسی علیہ السلام دعوت کے میدان میں دعاۃ کیلئے منہج الدعوۃ مقرر کرتے ہیں، وہ یہ کہ: اپنے مشن کو صرف اور صرف اللہ کے ساتھ لگاؤ سے شروع کیا جائے ، اپنے ذاتی یا بیرونی تمام وسائل پر اعتماد ختم کر کے اپنے آپ کو صرف اللہ کے سامنے گِرا کراسی کی تسبیح بیان کی جائے اور صرف اللہ کا ذکر کیاجائے ، یہ ہر مُبلّغ و مُربّی کا رُختِ سفرہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي (25) وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي (26) وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي (27) يَفْقَهُوا قَوْلِي (28) وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي (29) هَارُونَ أَخِي (30) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (31) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (32) كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا (33) وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا

اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی راہنمائی بھی کی اور فرمایا: اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (43) فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: اے اللہ ! اگر تو ایسے آدمی کے ساتھ اتنا نرمی کے ساتھ معاملہ فرما رہا ہے جو کہتا ہے:
مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي

تو تیرے لئے سجدے میں گِر کر[سبحان ربي الاعلى]"میرا رب پاک اور سب سے بلند ہے"کہنے والے کے ساتھ کیسا ہوگا؟
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا

اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو دعوت کے میدان میں پہلے مرحلے کی وصیت کی؛ نرم گفتگو،بیانِ حق ،دلیل کا دلیل سےتوڑ، اور دھیمی بات چیت ،اسلامی آداب ، انبیاء کرام کا طریقہ ہے، جبکہ سخت اندازِ گفتگو، بد گوئی، مو شگافیاں دین سے دور ہی کرتی ہیں، اور دین کے اصل حقائق کو مسخ کر کے رکھ دیتی ہیں، ہاں نرمی کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دینی احکامات کو تحلیل کر دیا جائے،اصولوں کو موڑا توڑا جائے، اور دینی حقائق کو اس لئے ختم کیا جائےتاکہ لوگ راضی رہیں۔
اس دعوت کے بدلے میں فرعون نے لوگوں کو موسی علیہ السلام سے دور رہنے کا کہا اور سر عام مناظرہ میں لوگوں کے سامنے موسی کو چار زانوں چت کرنے کیلئے جادو گروں کو اکٹھا کر لیا تا کہ موسی علیہ السلام کے قتل کا راستہ سیدھا کیا جاسکے، اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى

تمام جادو گر فرعون کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئےمیدان مناظرہ میں موسی علیہ السلام کو اجتماعی شکست دینے کیلئےحاضر ہوگئے، اس ٹھاٹھے مارتے جم غفیر میں ربِ موسی نے نصیحت کی:
لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى

کیونکہ تم ہی بلند، غالب،مکرّم ہو، منہج آپکا بلند ہے، اخلاق آپکا بہترین ہے، اور عقیدہ آپ ہی کا مضبوط ہے۔
اور یہ ہی پیغام ہے ہمارے ان نوجوانوں کیلئے جو نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ہو چکے ہیں ، جنکی سوچ ڈگمگا چکی ہے، جنکے باطل و ضلالت کے پھیلنے اور پھلنے پھولنے پر قدم لرزنےلگتے ہیں۔
فرعون کی بھی ایک چاہت ہے ، اللہ کی بھی چاہت ہے ، آخر کار اللہ کی چاہت غالب آتی ہے، جب جادو گروں نے اللہ کی نشانیاں اور معجزات دیکھے تو اچانک ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی :
وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (120) قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (121) رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ

ایمان نے انکے دلوں پر قابض ہوکر انکو منور کر دیا تھا ، سچے عقیدہ نے انکی زندگیوں پر فتح پالی،قومِ فرعون تو میدان میں جادوگروں کے پاس آئی تھی لیکن وہ چند ہی لمحات میں نیک ،صالح اور شہداء میں تبدیل ہو گئے، دیکھو یہ ہی اب ببانگِ دہل پوری طاقت کیساتھ فرعون کی دھمکی کو چیلنج کر کے کہہ رہے ہیں:
فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا

اب یہ ہی فرعون انکی نگاہوں میں گر چکا ہے، کیونکہ نہ تو وہ نفع کا مالک ہے اور نہ ہی نقصان کا، نہ موت کا ، نہ حیات کا، نہ مرنے کے بعد اٹھانے کا، کبھی انکا مقصد دنیا داری تھا، اب انکا مطمع نظر اللہ کی رضا اور آخرت بن چکا ہے، اسی لئے اپنے دلوں سے سچی توبہ کا اعلان کردیا ، اپنے رب سے گناہوں کی معافی بھی مانگی، یقینا سچے ایمان ہی نے جادو گروں کو مومن بنا دیا، بلکہ اس سے بڑھ کر دین کا داعی بنایا جو لوگوں کو ہدایت اور نور کی جانب دعوت دیں، اسی لئے قرآن نے انکی بات کو یوں بیان کیا:
إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى (74) وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَى

یہ کوئی عجیب بات نہیں؛ دل جب ایمان کی مٹھاس چکھ لے تو اسکی یہ تمنا ہوتی ہے کہ باقی افراد بھی اس لذت اور مٹھاس کو چکھیں، اور ہماری سنہری تاریخ اس قسم کے افراد اور اقوام کے واقعات سے بھر پور ہے جو کبھی تو اسلام کے خلاف حالتِ جنگ میں تھے لیکن ایمان نے انہیں مذہبی بلندیوں پر پہنچا دیا، اور وہ ایسے دلیر اور بہادر لیڈر ثابت ہوئے کہ جنہوں نے اسلام کا دفاع بھی کیا اور اسکے رکھوالے بھی بنے۔
وقتِ حاضر میں بھی ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے کہ جو لوگ منشیات ،ڈاکے، چوری کو فروغ دینے کے سرغنہ تھے،لیکن ایمان نے انکو اچھا با کردار اور نیکی تقوی کے نمونے بنا دیا۔
اور جب فرعون تکبر کی انتہاء کو پہنچنے لگا، تو اللہ کی مدد کا وقت بھی آگیا، چنانچہ محرم الحرام کی دس تاریخ کو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور انکے حواریوں کو نجات دے دی ، جبکہ فرعون اور اسکے لشکر کو پانی میں غرق کر دیا، فرعون نے اپنی تباہی اور موت کو دیکھا تو چلا اٹھا:
آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ

، بس اب وقت گزر چکا آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ

اور اللہ کی طرف سے اسکی نعش کے بارے میں احکامات بھی جاری ہوئے:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً

تا کہ اسکا یہ جسم فسادیوں اور سرکشوں کیلئے علامتِ نصیحت بن جائے، اور ان لوگوں کیلئے بھی جو اپنی قوم میں قتل و غارت بپا کرتے ہیں
وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

اسی دس محرم [یوم عاشوراء] جو کل [سعودی عرب میں] ہفتہ کا دن ہے،کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
حمدوثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام کے بعد!
اللہ سے ڈرو اور اسی کی اطاعت کرو
مسلمانو!
موسی علیہ السلام نے ارضِ مقدس اور بیت المقدس کی تعظیم کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالی سے اپنی موت کے وقت عرض کی، یا اللہ مجھے اس پاک سر زمین کے قریب کرنا، چنانچہ صحیح بخاری میں مرفوع روایت ہے:
سچی بات ہے دل درد و غم سے کڑھتا ہےجب صیہونی یہودیوں کو بیت المقدس میں فساد پھیلاتے دیکھتے ہیں، جب وہ غزہ میں نہتے انسانوں پر گولہ بارود برساتے ہیں، یہ اندھا دھند قتل و غارت جس میں بچے اور خواتین کو قتل کر دیا گیا، گھروں کو تباہ کر دیا گیا،حملہ آوروں کی خونخوار شکل ، اور مخفی بغض وعنادکو عیاں کرتا ہے، اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ عہد و پیمان کا بھی احترام نہیں کرتے۔
یہ ظلم اور زیادتی کوئی مسلم بھی قبول نہیں کریگا، اور نہ کوئی آزاد فکر، عقل مند ہی پسند کرے گا، اس جنگ کو جاری رکھنا، یا بعد میں دوبارہ شروع کرنا تمام مسلمانوں کی توہین ہے۔
فلسطینی قوم کی حفاظت اجتماعی ذمہ داری ہے جو کہ تمام مسلمانوں کے کندھوں پر ہے، اور ہم سب ایسے اِقدامات کرنے کے پابند ہیں جن سے اس ظلم و زیادتی کے بازار کو ہمیشہ کیلئے بند کیا جائے ۔
ان تمام ظلم و زیادتیوں کے باوجود، غزہ کی تاریخ بلند ہمت واقعات سے بھر پور ہے، یقینا یہ ظلم جلد ہی ختم ہونے والا ہے، چاہے اسکی راتیں کتنی ہی لمبی ہو جائیں، جیسے فرعون کا ظلم انتہاء درجے تک پہنچا تو اللہ نے اسکو سزا بھی دی اور ہمیشہ کیلئے اسے غرق بھی کردیا،تب جا کر اہل حق کو انکا حق ملا، فرمان باری تعالی ہے:
وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (5) وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ

ألا وصلُّوا - عباد الله - على رسول الهدى؛ فقد أمركم الله بذلك في كتابه.
اللهم صلِّ على محمدٍ وأزواجه وذريَّته، كما صلَّيتَ على آل إبراهيم، وبارِك على محمدٍ وأزواجه وذريَّته، كما باركتَ على آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيدٌ.
وارضَ اللهم عن خلفائه الأربعة الراشدين: أبي بكرٍ، وعمر، وعثمان، وعليٍّ، وعن الآلِ والصَّحبِ الكِرام، وعنَّا معهم بعفوِك وكرمِك وإحسانِك يا أرحم الراحمين.
اللهم أعِزَّ الإسلامَ والمسلمين، اللهم أعِزَّ الإسلامَ والمسلمين، وأذِلَّ الكفرَ والكافرين، ودمِّر اللهم أعداءَك أعداء الدين، واجعل اللهم هذا البلدَ آمنًا مُطمئنًّا وسائرَ بلاد المُسلمين.
اللهم من أرادَنا وأرادَ الإسلامَ والمُسلمين بسُوءٍ فأشغِله بنفسه، واجعَل تدبيرَه تدميرَه يا سميع الدعاء.
اللهم احفَظ المُسلمين في كل مكان، اللهم احفَظ المُسلمين في بلاد الشام، وانصُرهم على عدوِّهم وعدوِّك يا رب العالمين.
اللهم إنا نسألُك الجنةَ وما قرَّبَ إليها من قولٍ وعملٍ، ونعوذُ بك من النار وما قرَّب إليها من قولٍ وعملٍ.
اللهم أصلِح لنا دينَنا الذي هو عصمةُ أمرنا، وأصلِح لنا دُنيانا التي فيها معاشُنا، وأصلِح لنا آخرتَنا التي إليها معادُنا، واجعل الحياةَ زيادةً لنا في كل خيرٍ، والموتَ راحةً لنا من كل شرٍّ يا رب العالمين.
اللهم إنا نسألُك الهُدى والتُّقَى والعفافَ والغِنى، اللهم أعِنَّا ولا تُعِن علينا، وانصُرنا ولا تنصُر علينا، وامكُر لنا ولا تمكُر علينا، واهدِنا ويسِّر الهُدى لنا، وانصُرنا على من بغَى علينا.
اللهم اجعَلنا لك ذاكِرين، لك شاكِرين، لك مُخبتين، لك أوَّاهين مُنيبين.
اللهم تقبَّل توبتَنا، واغسِل حوبتَنا، وثبِّت حُجَّتنا، وسدِّد ألسِنتَنا، واسلُل سخيمةَ قلوبنا.
اللهم اغفِر للمُسلمين والمُسلمات، والمؤمنين والمؤمنات، الأحياء منهم والأموات، اللهم ألِّف بين قلوبِ المُسلمين ووحِّد صُفوفَهم، واجمع كلمتَهم على الحقِّ يا رب العالمين.
اللهم وفِّق إمامنا لما تُحبُّ وترضى، اللهم وفِّقه لهُداك، واجعل عملَه في رِضاك، ومُنَّ عليه بالصحة والعافية يا أرحم الراحمين.
اللهم وفِّق جميعَ وُلاة أمور المُسلمين للعمل بكتابك، وتحكيم شرعِك يا رب العالمين.
اللهم أنت الله لا إله إلا أنت، أنت الغنيُّ ونحن الفُقراء، أنزِل علينا الغيثَ ولا تجعَلنا من القانِطين، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم سُقيا رحمةٍ لا سُقيا عذابٍ ولا بلاءٍ ولا هدمٍ ولا غرقٍ، اللهم تُحيِي به البلادَ، وتُفيدُ به العبادَ، وتجعلُه بلاغًا للحاضر والباد برحمتك يا أرحم الراحمين.
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90].
فاذكروا اللهَ يذكُركم، واشكُروه على نعمِه يزِدكم، ولذِكرُ الله أكبر، واللهُ يعلمُ ما تصنَعون.
جزاک اللہ خیرا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
؟؟؟
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
حضرت موسیٰؑ اور فرعون کے قصہ میں نصیحت و عبرت......9 محرم 1434ھ

خطبہ جمعہ حرم مدنی
خطیب: ڈاکٹر عبدالباری بن عواض الثبیتی
پہلا خطبہ:
الحمد لله، الحمد لله الذي أنعمَ علينا بنعمٍ نتقلَّبُ فيها ليلَ نهار، أحمده - سبحانه - وأشكرُه على فضلِه وخيرِه المِدرار، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له العزيزُ الجبَّار، القويُّ القهَّار، وأشهد أن سيدَنا ونبيَّنا محمدًا عبدُه ورسولُه، صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم عددَ الحُجَّاج والعُمَّار، وما تساقطَ من ورق الأشجار.
حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد!
میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

انبیاء کے قصص میں نصائح ہیں اور حقیقت میں یہ ہی زادِ راہ ہیں جو مومنوں کو ثابت قدم رکھتی ہیں جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ

موسی علیہ السلام کا قصہ قرآن کریم کے لمبے قصص میں سے ہے ، اسکی خاصیت یہ ہے کہ اسکا ہر جگہ پر اسلوب بیان مختلف ہے۔
موسی علیہ السلام کی ولادت ایسی فضا میں ہوئی جہاں ہر جانب رعب چھایا ہوا تھا، اُمتِ موسی کمزور اور گروہوں میں بٹی ہوئی تھی، فرعون صرف اپنی سلطنت کو بچانے کیلئے انہیں بُری طرح سزائیں دیتا، کبھی انکی نرینہ اولاد کو ذبح کردیتا تو بچیوں کو چھوڑ دیتا، اسی بنا پر اپنی قوم کو ذلیل اور مقہور بنا دیا تاکہ اسکی حکومت قائم دائم رہے۔
یہ جابرحکمرانوں کی صفت ہے کہ انکے دلوں میں رحم نامی کوئی چیز نہیں ہوتی، انسانی احساسات سے عاری ہوتے ہیں،چنانچہ اللہ کا فیصلہ آگیا کہ انکی حکومت زوال پذیر ہو، انکا انجام برُا ہو، تو اللہ تعالی نے فرمایا:
وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ

ماں ڈر رہی ہے کہیں میرے بیٹے کی خبر فرعون یا اسکی قوم کو نہ ہوجائے اور وہ اسکو قتل کردیں ، اور اُدھر اللہ کی جانب سے الہام ہوتا ہے کہ موسیٰ کو دریا برد کردو، کیونکہ دریااللہ کے حکم سے امن و آشتی کی پناہ گاہ بن چکا ہے، جس نے ننھےمنھے کو اپنی گود میں سمو لیا اور اسے ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ کر لیا ۔
اسی قسم کے واقعات رو نما ہوتے رہے؛تاکہ امت کیلئے واضح ہو جائے کہ سرکشوں کی مکاریاں اللہ کی قدرت اور عظمت کے مقابلے میں کتنی کمزور ہیں ، فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو اس لئے قتل کروا رہا ہےکہ موسی کو زندگی نہ مل سکے، جبکہ دوسری جانب دودھ پیتے ننھے موسیٰ کوپانی کی لہروں نے فرعونی محل کے سامنے لا کھڑا کیا، اور اللہ نے زوجہ فرعون کے دل میں ننھے موسی کی محبت ڈال دی اور کہنے لگی:
لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا

اللہ نے فرعون کو ایسے مسخر کردیا ؛ کہ موسی اُسی کے دستر خوان و بستر پر پلنے بڑھنے لگے، جسکو اللہ رکھے اسکو کون چکھے؟
اب موسی علیہ السلام کیلئے دائیوں کو اکٹھا کیا گیا، موسی علیہ السلام نے سب کو مسترد کر دیا، اسی اثنا میں موسی علیہ السلام کی بہن آگے بڑھی اور کہا کہ میں بھی ایک دائی کو جانتی ہوں چاہو تو بلا کر لاوں؟ انہوں نے پیشکش قبول کی اور وہ موسی علیہ السلام کی ماں کو لے آئی:
فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ

دیکھو یہ ہے اللہ کا وعدہ، اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے دلوں میں یقین پیدا کریں، کہ جو اپنے خالق سے جڑ کر اسی پر بھروسہ رکھتے ہوئے تمام اسباب اپنائےگا، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوگا، نہ ہی برُے خیالات کے سامنے جھکے گا، اور رونما ہونیوالے واقعات سے بد فالی بھی نہ لیگا، نیز اسکو ملنے والی مشکلات پُر امید عزم اور قوتِ ایمانی سے بھر پور کر دیتی ہیں۔
اللہ نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جاو اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى تم فرعون کے پاس جاؤ (کیونکہ) وہ سرکش ہوگیا ہے [طه: 24]
یہ کام بھی بڑا مشکل تھا کیونکہ فرعون نے الوہیت کا دعوی کیا ہوا تھا اور اس بارے میں کسی کی سننے کیلئے تیار نہ تھا۔
یہاں اللہ کے نبی موسی علیہ السلام دعوت کے میدان میں دعاۃ کیلئے منہج الدعوۃ مقرر کرتے ہیں، وہ یہ کہ: اپنے مشن کو صرف اور صرف اللہ کے ساتھ لگاؤ سے شروع کیا جائے ، اپنے ذاتی یا بیرونی تمام وسائل پر اعتماد ختم کر کے اپنے آپ کو صرف اللہ کے سامنے گِرا کراسی کی تسبیح بیان کی جائے اور صرف اللہ کا ذکر کیاجائے ، یہ ہر مُبلّغ و مُربّی کا رُختِ سفرہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي (25) وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي (26) وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي (27) يَفْقَهُوا قَوْلِي (28) وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي (29) هَارُونَ أَخِي (30) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (31) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (32) كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا (33) وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا

اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی راہنمائی بھی کی اور فرمایا: اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (43) فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: اے اللہ ! اگر تو ایسے آدمی کے ساتھ اتنا نرمی کے ساتھ معاملہ فرما رہا ہے جو کہتا ہے:
مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي

تو تیرے لئے سجدے میں گِر کر[سبحان ربي الاعلى]"میرا رب پاک اور سب سے بلند ہے"کہنے والے کے ساتھ کیسا ہوگا؟
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا

اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو دعوت کے میدان میں پہلے مرحلے کی وصیت کی؛ نرم گفتگو،بیانِ حق ،دلیل کا دلیل سےتوڑ، اور دھیمی بات چیت ،اسلامی آداب ، انبیاء کرام کا طریقہ ہے، جبکہ سخت اندازِ گفتگو، بد گوئی، مو شگافیاں دین سے دور ہی کرتی ہیں، اور دین کے اصل حقائق کو مسخ کر کے رکھ دیتی ہیں، ہاں نرمی کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دینی احکامات کو تحلیل کر دیا جائے،اصولوں کو موڑا توڑا جائے، اور دینی حقائق کو اس لئے ختم کیا جائےتاکہ لوگ راضی رہیں۔
اس دعوت کے بدلے میں فرعون نے لوگوں کو موسی علیہ السلام سے دور رہنے کا کہا اور سر عام مناظرہ میں لوگوں کے سامنے موسی کو چار زانوں چت کرنے کیلئے جادو گروں کو اکٹھا کر لیا تا کہ موسی علیہ السلام کے قتل کا راستہ سیدھا کیا جاسکے، اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى

تمام جادو گر فرعون کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئےمیدان مناظرہ میں موسی علیہ السلام کو اجتماعی شکست دینے کیلئےحاضر ہوگئے، اس ٹھاٹھے مارتے جم غفیر میں ربِ موسی نے نصیحت کی:
لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى

کیونکہ تم ہی بلند، غالب،مکرّم ہو، منہج آپکا بلند ہے، اخلاق آپکا بہترین ہے، اور عقیدہ آپ ہی کا مضبوط ہے۔
اور یہ ہی پیغام ہے ہمارے ان نوجوانوں کیلئے جو نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ہو چکے ہیں ، جنکی سوچ ڈگمگا چکی ہے، جنکے باطل و ضلالت کے پھیلنے اور پھلنے پھولنے پر قدم لرزنےلگتے ہیں۔
فرعون کی بھی ایک چاہت ہے ، اللہ کی بھی چاہت ہے ، آخر کار اللہ کی چاہت غالب آتی ہے، جب جادو گروں نے اللہ کی نشانیاں اور معجزات دیکھے تو اچانک ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی :
وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (120) قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (121) رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ

ایمان نے انکے دلوں پر قابض ہوکر انکو منور کر دیا تھا ، سچے عقیدہ نے انکی زندگیوں پر فتح پالی،قومِ فرعون تو میدان میں جادوگروں کے پاس آئی تھی لیکن وہ چند ہی لمحات میں نیک ،صالح اور شہداء میں تبدیل ہو گئے، دیکھو یہ ہی اب ببانگِ دہل پوری طاقت کیساتھ فرعون کی دھمکی کو چیلنج کر کے کہہ رہے ہیں:
فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا

اب یہ ہی فرعون انکی نگاہوں میں گر چکا ہے، کیونکہ نہ تو وہ نفع کا مالک ہے اور نہ ہی نقصان کا، نہ موت کا ، نہ حیات کا، نہ مرنے کے بعد اٹھانے کا، کبھی انکا مقصد دنیا داری تھا، اب انکا مطمع نظر اللہ کی رضا اور آخرت بن چکا ہے، اسی لئے اپنے دلوں سے سچی توبہ کا اعلان کردیا ، اپنے رب سے گناہوں کی معافی بھی مانگی، یقینا سچے ایمان ہی نے جادو گروں کو مومن بنا دیا، بلکہ اس سے بڑھ کر دین کا داعی بنایا جو لوگوں کو ہدایت اور نور کی جانب دعوت دیں، اسی لئے قرآن نے انکی بات کو یوں بیان کیا:
إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى (74) وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَى

یہ کوئی عجیب بات نہیں؛ دل جب ایمان کی مٹھاس چکھ لے تو اسکی یہ تمنا ہوتی ہے کہ باقی افراد بھی اس لذت اور مٹھاس کو چکھیں، اور ہماری سنہری تاریخ اس قسم کے افراد اور اقوام کے واقعات سے بھر پور ہے جو کبھی تو اسلام کے خلاف حالتِ جنگ میں تھے لیکن ایمان نے انہیں مذہبی بلندیوں پر پہنچا دیا، اور وہ ایسے دلیر اور بہادر لیڈر ثابت ہوئے کہ جنہوں نے اسلام کا دفاع بھی کیا اور اسکے رکھوالے بھی بنے۔
وقتِ حاضر میں بھی ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے کہ جو لوگ منشیات ،ڈاکے، چوری کو فروغ دینے کے سرغنہ تھے،لیکن ایمان نے انکو اچھا با کردار اور نیکی تقوی کے نمونے بنا دیا۔
اور جب فرعون تکبر کی انتہاء کو پہنچنے لگا، تو اللہ کی مدد کا وقت بھی آگیا، چنانچہ محرم الحرام کی دس تاریخ کو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور انکے حواریوں کو نجات دے دی ، جبکہ فرعون اور اسکے لشکر کو پانی میں غرق کر دیا، فرعون نے اپنی تباہی اور موت کو دیکھا تو چلا اٹھا:
آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ

، بس اب وقت گزر چکا آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ

اور اللہ کی طرف سے اسکی نعش کے بارے میں احکامات بھی جاری ہوئے:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً

تا کہ اسکا یہ جسم فسادیوں اور سرکشوں کیلئے علامتِ نصیحت بن جائے، اور ان لوگوں کیلئے بھی جو اپنی قوم میں قتل و غارت بپا کرتے ہیں
وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

اسی دس محرم [یوم عاشوراء] جو کل [سعودی عرب میں] ہفتہ کا دن ہے،کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
حمدوثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام کے بعد!
اللہ سے ڈرو اور اسی کی اطاعت کرو
مسلمانو!
موسی علیہ السلام نے ارضِ مقدس اور بیت المقدس کی تعظیم کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالی سے اپنی موت کے وقت عرض کی، یا اللہ مجھے اس پاک سر زمین کے قریب کرنا، چنانچہ صحیح بخاری میں مرفوع روایت ہے:
سچی بات ہے دل درد و غم سے کڑھتا ہےجب صیہونی یہودیوں کو بیت المقدس میں فساد پھیلاتے دیکھتے ہیں، جب وہ غزہ میں نہتے انسانوں پر گولہ بارود برساتے ہیں، یہ اندھا دھند قتل و غارت جس میں بچے اور خواتین کو قتل کر دیا گیا، گھروں کو تباہ کر دیا گیا،حملہ آوروں کی خونخوار شکل ، اور مخفی بغض وعنادکو عیاں کرتا ہے، اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ عہد و پیمان کا بھی احترام نہیں کرتے۔
یہ ظلم اور زیادتی کوئی مسلم بھی قبول نہیں کریگا، اور نہ کوئی آزاد فکر، عقل مند ہی پسند کرے گا، اس جنگ کو جاری رکھنا، یا بعد میں دوبارہ شروع کرنا تمام مسلمانوں کی توہین ہے۔
فلسطینی قوم کی حفاظت اجتماعی ذمہ داری ہے جو کہ تمام مسلمانوں کے کندھوں پر ہے، اور ہم سب ایسے اِقدامات کرنے کے پابند ہیں جن سے اس ظلم و زیادتی کے بازار کو ہمیشہ کیلئے بند کیا جائے ۔
ان تمام ظلم و زیادتیوں کے باوجود، غزہ کی تاریخ بلند ہمت واقعات سے بھر پور ہے، یقینا یہ ظلم جلد ہی ختم ہونے والا ہے، چاہے اسکی راتیں کتنی ہی لمبی ہو جائیں، جیسے فرعون کا ظلم انتہاء درجے تک پہنچا تو اللہ نے اسکو سزا بھی دی اور ہمیشہ کیلئے اسے غرق بھی کردیا،تب جا کر اہل حق کو انکا حق ملا، فرمان باری تعالی ہے:
وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (5) وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ

ألا وصلُّوا - عباد الله - على رسول الهدى؛ فقد أمركم الله بذلك في كتابه.
اللهم صلِّ على محمدٍ وأزواجه وذريَّته، كما صلَّيتَ على آل إبراهيم، وبارِك على محمدٍ وأزواجه وذريَّته، كما باركتَ على آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيدٌ.
وارضَ اللهم عن خلفائه الأربعة الراشدين: أبي بكرٍ، وعمر، وعثمان، وعليٍّ، وعن الآلِ والصَّحبِ الكِرام، وعنَّا معهم بعفوِك وكرمِك وإحسانِك يا أرحم الراحمين.
اللهم أعِزَّ الإسلامَ والمسلمين، اللهم أعِزَّ الإسلامَ والمسلمين، وأذِلَّ الكفرَ والكافرين، ودمِّر اللهم أعداءَك أعداء الدين، واجعل اللهم هذا البلدَ آمنًا مُطمئنًّا وسائرَ بلاد المُسلمين.
اللهم من أرادَنا وأرادَ الإسلامَ والمُسلمين بسُوءٍ فأشغِله بنفسه، واجعَل تدبيرَه تدميرَه يا سميع الدعاء.
اللهم احفَظ المُسلمين في كل مكان، اللهم احفَظ المُسلمين في بلاد الشام، وانصُرهم على عدوِّهم وعدوِّك يا رب العالمين.
اللهم إنا نسألُك الجنةَ وما قرَّبَ إليها من قولٍ وعملٍ، ونعوذُ بك من النار وما قرَّب إليها من قولٍ وعملٍ.
اللهم أصلِح لنا دينَنا الذي هو عصمةُ أمرنا، وأصلِح لنا دُنيانا التي فيها معاشُنا، وأصلِح لنا آخرتَنا التي إليها معادُنا، واجعل الحياةَ زيادةً لنا في كل خيرٍ، والموتَ راحةً لنا من كل شرٍّ يا رب العالمين.
اللهم إنا نسألُك الهُدى والتُّقَى والعفافَ والغِنى، اللهم أعِنَّا ولا تُعِن علينا، وانصُرنا ولا تنصُر علينا، وامكُر لنا ولا تمكُر علينا، واهدِنا ويسِّر الهُدى لنا، وانصُرنا على من بغَى علينا.
اللهم اجعَلنا لك ذاكِرين، لك شاكِرين، لك مُخبتين، لك أوَّاهين مُنيبين.
اللهم تقبَّل توبتَنا، واغسِل حوبتَنا، وثبِّت حُجَّتنا، وسدِّد ألسِنتَنا، واسلُل سخيمةَ قلوبنا.
اللهم اغفِر للمُسلمين والمُسلمات، والمؤمنين والمؤمنات، الأحياء منهم والأموات، اللهم ألِّف بين قلوبِ المُسلمين ووحِّد صُفوفَهم، واجمع كلمتَهم على الحقِّ يا رب العالمين.
اللهم وفِّق إمامنا لما تُحبُّ وترضى، اللهم وفِّقه لهُداك، واجعل عملَه في رِضاك، ومُنَّ عليه بالصحة والعافية يا أرحم الراحمين.
اللهم وفِّق جميعَ وُلاة أمور المُسلمين للعمل بكتابك، وتحكيم شرعِك يا رب العالمين.
اللهم أنت الله لا إله إلا أنت، أنت الغنيُّ ونحن الفُقراء، أنزِل علينا الغيثَ ولا تجعَلنا من القانِطين، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم سُقيا رحمةٍ لا سُقيا عذابٍ ولا بلاءٍ ولا هدمٍ ولا غرقٍ، اللهم تُحيِي به البلادَ، وتُفيدُ به العبادَ، وتجعلُه بلاغًا للحاضر والباد برحمتك يا أرحم الراحمين.
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90].
فاذكروا اللهَ يذكُركم، واشكُروه على نعمِه يزِدكم، ولذِكرُ الله أكبر، واللهُ يعلمُ ما تصنَعون.
اس اچھی پوسٹنگ کے لیے میری طرف سے مبارک باد آپ نے کتنی محنت کی ہوگی اس کا اندازہ لکھنے والا ہی کر سکتا ہے اور اسکے پچھے اس کے کیا احساسات چھپے ہوتے ہیں وہی سمجھتا ہے باقی سب ٹھیک بس اس پر نظر ثانی فرمالیں (مطمع نظر۔اور مطمح نظر) میں کیا صحیح ہوسکتا ہے ذہنی ٹینشن کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ دوبارہ مبارک باد قبول ہو۔
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
اس اچھی پوسٹنگ کے لیے میری طرف سے مبارک باد آپ نے کتنی محنت کی ہوگی اس کا اندازہ لکھنے والا ہی کر سکتا ہے اور اسکے پچھے اس کے کیا احساسات چھپے ہوتے ہیں وہی سمجھتا ہے باقی سب ٹھیک بس اس پر نظر ثانی فرمالیں (مطمع نظر۔اور مطمح نظر) میں کیا صحیح ہوسکتا ہے ذہنی ٹینشن کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ دوبارہ مبارک باد قبول ہو۔
جی عابد الرحمٰن بھائی آپ نے بالکل ٹھیک کہا ’مطمع نظر‘ غلط العام ہے درست ’مطمح نظر‘ ہی ہے۔ جزاک اللہ
 
Top