• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضور اکرم سے پہلے حضور کا وسیلہ

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ما نعبدہم إلا لیقربونا إلی اللہ زلفی
والے وسیلے کو تو خود قرآن مجید میں شرک کہا گیا ہے
اچھا ذارا ان وسیلوں میں فرق کیا ہے؟یہ بھی واجح کریں۔
عقیدہ ہوتا ہی وہ ہے ، جو قطعی اور پختہ ہو ۔ اس میں ظن وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ واللہ اعلم ۔
حضرت کیا ملائکہ رسل عام بشر سے افضل ہیں؟یہ مسلہ قطعی ہے کہ ظنی۔؟اور پھر جس بندے پر آپ نے جہالت کا اعتراض کیا ہے اس کی جہالت دور کر دی ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محمد بن محمد مولی تھے آل زید ابن ثابت کے ۔
پھر جس بندے پر آپ نے جہالت کا اعتراض کیا ہے اس کی جہالت دور کر دی ہے
راوی محمد بن أبی محمد ہیں ، شاید آپ کو مجہول کی تعریف نہیں آتی ،
من لم یرو عنہ غیر واحد و لم یوثق
اور
من روی عنہ راویان فأکثر و لم یوثق ۔
پہلی تعریف مجہول العین کی ہے ، دوسری مجہول الحال کی ، اس راوی سے روایت کرنے والے صرف محمد بن اسحاق ہیں ، کسی سے ان کی توثیق بھی منقول نہیں ، لہذا یہ مجہول العین ہیں ، جس کا ضعف مجہول الحال سے بھی اشد ہوتا ہے ۔
پھر اس کی جہالت کے ازالے کے ساتھ ساتھ بتائیں کے ان کے حوالے سے بیان کردہ روایت کے کون سے لفظ سے وسیلہ ثابت ہوتا ہے ۔ میرا اقتباس دوبارہ ملاحظہ کرلیں ، جس میں آپ سے دو چیزوں کا مطالبہ کیا گی تھا :
جی سند تو آپ نے مکمل کر لی ، لیکن آپ کے دعوی کی دلیل تب بنے گی :
1۔ جب اس کی صحت ثابت کردیں گے ، کیونکہ اس میں محمد بن أبی محمد راوی مجہول ہے ۔
2۔ اور اس میں توسل بالنبی والے عقیدے کو ثابت کریں گے ، اس سند کے ساتھ جو متن ہے ، وہ یہ ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ الْيَهُودَ كَانُوا يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ بِرَسُولِ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَبْلَ مَبْعَثِهِ فَلَمَّا بَعَثَهُ اللَّهُ مِنَ الْعَرَبِ كَفَرُوا بِهِ وَجَحَدُوا مَا كَانُوا يَقُولُونَ فِيهِ فَقَالَ لَهُمْ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَبِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ، وَدَاوُدُ بْنُ سلمة: يا معشر اتقوا الله وأسلموا فقد كنتم تستفحون عَلَيْنَا بِمُحَمَّدٍ، وَنَحْنُ أَهْلُ شِرْكٍ وَتُخْبِرُونَا «1» بِأَنَّهُ مبعوث وتصفونه فَقَالَ سَلامُ بْنُ مِشْكَمٍ أَخُو بَنِي النَّضِيرِ: ما جاءنا بشيء نعرفه، وما هُوَ بِالذي كُنَّا نَذْكُرُ لَكُمْ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِمْ: وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اس میں کون سے الفاظ ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کا وسیلہ دیا کرتے تھے ؟
پہلی بات تو یہ خبر واحد نہیں توسل پر اور بھی احادیث ہیں۔دوسری بات میں اوپر فتاوی نذیریہ و ثناءیہ کا فتوی نقل کر چکا کہ ضعیف حدیث سے استحاب و جواز ثابت ہوتا ہے۔اس کا کچھ جواب نہیں یدا۔
حضرت ہم اس کے قطعی ہونے کے قائل نہیں جو دلیل قطعی کی بحث کریں۔دوسری بات کئی علما نے اس کو عقیدہ بھی تسلیم نہیں کیا بلکہ فرع کہا ہے(رفع المنارہ فی التخریج احادیث التوسل و الزیارۃ ص 38)اور زیادہ سے زیادہ اس کو ظنی تسلیم کیا ہے ۔
اور استحاب مانا ہے جو ضعیف حدیث سے ثابت ہے۔
ویسے ایک بات ذہن میں رکھیں ابھی تک ہماری بات یہ ہورہی ہے کہ آپ نے تھریڈ کے عنوان میں جو دعوی کیا ہے ، وہ ثابت بھی ہے کہ نہیں ؟ وہ آپ ثابت نہیں کرسکے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وسیلہ کے جواز والی بات اس سے ذرا الگ ہے ۔ اگر آپ یہ تسلیم کر لیں کہ میرے پاس اس سے زیادہ مستند کوئی ذریعہ نہیں ، اور اپنے دعوی کےثبوت کے لیے میں یہی کچھ کافی سمجھتا ہوں ، تو ہم اس بات کو چھوڑ کر جواز و عدم جواز پر بات شروع کر لیں گے ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
راوی محمد بن أبی محمد ہیں ، شاید آپ کو مجہول کی تعریف نہیں آتی ،
من لم یرو عنہ غیر واحد و لم یوثق
اور
من روی عنہ راویان فأکثر و لم یوثق ۔
پہلی تعریف مجہول العین کی ہے ، دوسری مجہول الحال کی ، اس راوی سے روایت کرنے والے صرف محمد بن اسحاق ہیں ، کسی سے ان کی توثیق بھی منقول نہیں ، لہذا یہ مجہول العین ہیں ، جس کا ضعف مجہول الحال سے بھی اشد ہوتا ہے ۔
حضرت پوری سند پڑھ لیتے بات ختم ہو جاتی جو میں نے پیج لگایا ہے وہاں ان کی سند کو حسن کہا گیا ہے۔غور سے دیکھیں۔
وہ آپ ثابت نہیں کرسکے ۔
چلیں اگر اس دلیل سے قطع نظر بھی کر لیں تو حضرت آدم کا حضور کا وسیلہ لینا جس کی توثیق ابن تیمیہ سے نقل ہو چکی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حضرت پوری سند پڑھ لیتے بات ختم ہو جاتی جو میں نے پیج لگایا ہے وہاں ان کی سند کو حسن کہا گیا ہے۔غور سے دیکھیں۔
اگر کسی نے اس کو حسن کہا بھی ہے ، تو اس پر اعتراض یہ ہے کہ اس میں ایک مجہول العین راوی ہے ۔ جس کی موجودگی میں حسن کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ۔
چلیں اگر اس دلیل سے قطع نظر بھی کر لیں تو حضرت آدم کا حضور کا وسیلہ لینا جس کی توثیق ابن تیمیہ سے نقل ہو چکی
قطع نظر کر لیں ، لیکن پھر دوبارہ اس بحث کو نہیں چھیڑنا تو حضرت آدم کے وسیلہ والی روایت پر بھی بات کر لیتے ہیں ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
تو اس پر اعتراض یہ ہے کہ اس میں ایک مجہول العین راوی ہے
جناب ان کا اس روایت کو حسن کہنا ہی اس کی جاہلتے کو دور کرتا ہے
قطع نظر کر لیں ، لیکن پھر دوبارہ اس بحث کو نہیں چھیڑنا تو حضرت آدم کے وسیلہ والی روایت پر بھی بات کر لیتے ہیں
ابھی اس پر بحث جاری رکھیں۔بعد میں اگلی حدیث
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب ان کا اس روایت کو حسن کہنا ہی اس کی جاہلتے کو دور کرتا ہے
آپ اپنی گفتگو جاری رکھیں میں آپ سے علم حدیث کا صرف ایک فیض حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں وہ یہ کہ:
آپ نے ایک عبارت پیش کی: (ویسے آپ کو چاہئے کہ ہمیشہ یونیکوڈ میں بھی تحریر فرمائیں)

ثالثها: طريق ابن إسحاق صاحب السير، عن محمد بن أبى محمد مولى آل زيد بن ثابت، عن عكرمة، أو سعيد بن جبير عن ابن عباس، وهى طريق جيدة وإسنادها حسن وقد أخرج منها ابن جرير وابن أبى حاتم كثيراً، وأخرج الطبرانى منها فى معجمه الكبير.

یہ عبارت آپ نے تفسير سفيان بن عينه جو کہ أحمد صالح محايري کی تالیف ہے، سے پیش کی، انہوں نے اس عبارت کو التفسير والمفسرون ، جو کہ الدكتور محمد السيد حسين الذهبي (المتوفى: 1398هـ)کی کتاب ہے، سے نقل کیا ہے جیسا کہ وہاں حاشیه میں موجود ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 60 جلد 01 التفسير والمفسرون - الدكتور محمد السيد حسين الذهبي (المتوفى: 1398هـ) - مكتبة وهبة، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 72 جلد 01 التفسير والمفسرون - الدكتور محمد السيد حسين الذهبي (المتوفى: 1398هـ) - دار الحديث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 79 جلد 01 التفسير والمفسرون - الدكتور محمد السيد حسين الذهبي (المتوفى: 1398هـ) - وزارة الأوقاف السعودية


اب مجھے یہ بتلائیے کہ یہ فیضان علم آپ نے کہاں سے حاصل کیا ہے کہ محمد السيد حسين جن کی وفات 1398 ہجری میں ہوئی ہے ان کے سند کو حسن کہنے سے اس حدیث میں موجود کسی مجہول روای کی جہالت رفع ہو جاتی ہے؟
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
فائدہ :
استفتاح الیہود بالرسول کے عنوان کے تحت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قاعدۃ جلیلہ وغیرہ میں قدرے تفصیل سے گفتگو کی ہے ، اسی طرح مجموع الفتاوی میں بھی یہ گفتگو موجود ہے ۔
کبھی موقعہ ملا تو بطور فائدہ یہاں نقل کروں گا ۔۔ إن شاءاللہ ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما قوله تعالى {وكانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا} فكانت اليهود تقول للمشركين: سوف يبعث هذا النبي ونقاتلكم معه فنقتلكم؛ لم يكونوا يقسمون على الله بذاته ولا يسألون به؛ أو يقولون: اللهم ابعث هذا النبي الأمي لنتبعه ونقتل هؤلاء معه. هذا هو النقل الثابت عند أهل التفسير وعليه يدل القرآن فإنه قال تعالى: {وكانوا من قبل يستفتحون} والاستفتاح الاستنصار وهو طلب الفتح والنصر؛ فطلب الفتح والنصر به هو أن يبعث فيقاتلونهم معه فبهذا ينصرون ليس هو بإقسامهم به وسؤالهم به إذ لو كان كذلك لكانوا إذا سألوا أو أقسموا به نصروا؛ ولم يكن الأمر كذلك بل لما بعث الله محمدا صلى الله عليه وسلم نصر الله من آمن به وجاهد معه على من خالفه. وما ذكره بعض المفسرين من أنهم كانوا يقسمون به أو يسألون به فهو نقل شاذ مخالف للنقول الكثيرة المستفيضة المخالفة له.
مجموع الفتاوى (1/ 296)
اللہ تعالی کے اس فرمان
{وكانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا}
کی تفسیر یہ ہے :
مشرکین کہا کرتے تھے :
عنقریب آخری نبی آئیں گے ، اس کے ساتھ مل کر ہم تم سے جنگ جیت لیں گے ۔
یا کہا کرتے تھے :
اے اللہ اس امی نبی کی بعثت فرما ، تاکہ ہم اس کی پیروی میں ان لوگوں کو قتل کردیں ۔
اہل تفسیر کے ہاں یہی تفسیر مستند ہے ، قرآن مجید بھی اسی پر دلالت کرتا ہے ، قرآن کے الفاظ ہیں :
{وكانوا من قبل يستفتحون}
استفتاح و استنصار کا مطلب ہوتا ہے فتح و نصرت طلب کرنا ، تو یہاں فتح و نصرت کرنے سے مراد یہی ہےکہ اللہ کے رسول ان میں مبعوث ہوں ، اور وہ آپ کی معیت میں قتال کریں ، اور فتح یاب ہوں ، یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اللہ کو آپ کی قسم یا وسیلہ ڈال کر مدد طلب کرتے تھے ۔
کیونکہ اگر ایسا معاملہ ہوتا تو پھر یہودیوں کو اسی وقت فتح و نصرت ملنی چاہیے تھی ، حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول کی بعثت ہوئی ، پھر اللہ تعالی نے ان لوگوں کی جو آپ پر ایمان لے آئے اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کیا ، مخالفین کے مقابلے میں مدد کی ۔
جبکہ اس آیت کی تفسیر میں وسیلہ اور قسم وغیرہ ذکر کرنا ، یہ شاذ روایت ہے ، جو کہ بہت ساری صحیح و مشہور روایات کے مخالف ہے جو اس آیت کے ضمن میں منقول ہیں ۔
 

afroz.saddam

مبتدی
شمولیت
جون 26، 2019
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
7
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا اس طرح ہمارے اسلاف وسیلہ لیا کرتے تھے ؟


Sent from my SM-J250F using Tapatalk
 
Top