• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضور اکرم سے پہلے حضور کا وسیلہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عقیدۂ توحید کی نزاکتیں اور مشرکانہ جسارتیں !

آج بے شمار کلمہ گو افراد ایسے بہت سے امور کو بے تکلف رسول اللہ ﷺ اور دیگر مقدس ہستیوں (ولیوں،پیروں) کی جانب منسوب کرتے ہیں جو صرف اور صرف اللہ مالک الملک کے ہاتھ میں ہیں،

مثلاً:

اولاد، رزق، شفا، فتح و کشادگی وغیرہ؛ وہ اسباب سے ماورا حاجت روائی،مشکل کشائی اور فریاد رسی کے لیے انھیں پکارتے اور ان کی قبروں اور مزاروں پر نذرانے پیش کرتے اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ جب انھیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ افعال شرک اور منافیِ توحید ہیں تو وہ طنزیہ کہتے ہیں:

’’ ہم تو ان ہستیوں کو محض وسیلہ اور ذریعہ مانتے ہیں ؛ تمھاری توحید بڑی نازک ہے جو اس سے متاثر ہو جاتی ہے!!‘‘

ہماری گزارش ہے کہ جی ہاں! توحید واقعی اتنی ہی نازک ہے اور اس کی نزاکتیں اس نوع کی بے معنی نکتہ آفرینیوں کی متحمل نہیں ہیں؛ پورا قرآن اس سے بھرا پڑا ہے اورحدیث و سنت کے ذخائر میں اس کے بے شمار دلائل موجود ہیں؛ سر دست ہم صرف ایک حدیث مبارکہ پیش کرتے ہیں کہ ایک منصف مزاج اور طالب حق کے لیے رسول اللہ ﷺ کا ایک ارشاد بھی کافی ہے۔سیدنا ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبیِ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بعض امور میں گفت گو کرتے ہوئے کہہ دیا:

مَاشَاءَاللہُ وَ شِئْتَ [جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں!]
تو آپ حضور ﷺ نے فرمایا:
أَجَعَلْتَنِي لِله عَدْلاً ؟ قُلْ : مَا شَاءَ اللہُ وَحْدَهُ
[کیا تم نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا؟
یوں کہو: جو اکیلا اللہ چاہے!]
اس کے علاوہ بعض روایتوں میں ’’ندِّاً‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں

( بہ حوالہ نسائی، احمد،الادب المفرد)

یعنی یہ کلمہ کہہ کر تو نے مجھے اللہ کا ہم سر اور شریک بنا دیا ہے! سوال یہ ہے کہ محض مشیئت میں خدا کے ساتھ پیغمبر کا تذکرہ اگر انھیں اللہ کا شریک ٹھیرانے کے مترادف ہے تو دوسروں کو ’’ غوث اعظم‘‘،’’داتا گنج بخش‘‘ ،’’ مشکل کشا‘‘ کہنا اور سمجھنا توحید کیوں کر ہو سکتا ہے؟

@طاہر اسلام عکسری
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
قادری رانا صاحب !
فورم کے کسی رکن کا انتخاب کر لیں ، اور کسی بھی مسئلے پر اس سے جم کر گفتگو کر لیں ، میں نے تین چار جگہ آپ کے بارے اندازہ لگایا ہے کہ آپ انداز افہام و تفہیم والا نہیں ، جہاں کہیں آپ کو بات کا جواب نہ آئے تو پینترا بدل لیتے ہیں ۔ یہ طریقہ کار بحث جاری رکھنے کے لیے تو کارگر ہے ، لیکن مسئلہ اس سے کوئی بھی حل نہیں ہوتا ۔
اور آپ کی یہ چالاکی ہے یا لاشعوری طور پر آپ کا انداز ہی یہ ہے ، بعض دوست اس کو سمجھ نہیں پاتے ، البتہ عبدہ بھائی نے کئی ایک جگہ پر آپ کو ’’ قابو ‘‘ کیا ہوا ، جس پر آپ وہاں جواب دینے سے قاصر ہیں ، اسی طرح میں نے بھی کسی جگہ آپ کے اس رویے کو بھانپتے ہوئے ، گزارش کی تھی کہ عمومی باتیں کرنے کی بجائے ، میری بات کا اقتباس لے کر اس کے سامنے جواب دیں ، تو آپ دوبارہ اس تھریڈ میں دکھائی نہیں دیے ۔
اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ کے شروع کردہ اسی مسئلے پر گفتگو کر لیں ، آپ میری بات کا جواب دینے کا پابند ہوں گے اور میں آپ کی بات کا ، درست ؟ کوئی تیسرا اس میں حصہ نہیں لے گا ۔
حضرت لاجواب ہوکر ایسے ہی باتیں کرنی ہیں۔فی الحال نہ میں نے پینترا بدلا ہے نہ ضرورت۔جہاں تک افہام و تفہیم کی بات تو جس طرح آپ کےلوگ کذاب یہودیاس طرح کے الفاظ بولتے ہیں اس بارے میں کیا عرض ہے؟ہاں کوئی آئے جائیں آُ سے بھی گفتگو کر لیتے ہیں میں نے پہلے بھیکہا تھا یہاں میں مناظرانہ کرنے نہیں بلکہ افہام و تفہیم کے لئے آتا ہوں اگر کوئی بھائی اخلاق کے دائرے میں صحیح گفتگو کرے تو بات کا لطف بھی آئے گا۔آپ اسی موضوع پر گفتگو فرما سکتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حضرت لاجواب ہوکر ایسے ہی باتیں کرنی ہیں۔فی الحال نہ میں نے پینترا بدلا ہے نہ ضرورت۔جہاں تک افہام و تفہیم کی بات تو جس طرح آپ کےلوگ کذاب یہودیاس طرح کے الفاظ بولتے ہیں اس بارے میں کیا عرض ہے؟ہاں کوئی آئے جائیں آُ سے بھی گفتگو کر لیتے ہیں میں نے پہلے بھیکہا تھا یہاں میں مناظرانہ کرنے نہیں بلکہ افہام و تفہیم کے لئے آتا ہوں اگر کوئی بھائی اخلاق کے دائرے میں صحیح گفتگو کرے تو بات کا لطف بھی آئے گا۔آپ اسی موضوع پر گفتگو فرما سکتے ہیں۔
یہ تھریڈ لا شعوری طور پر نظروں سے اوجھل رہا ، اس لیے بروقت جواب نہیں دے سکا ۔
ٹھیک ہے ، اگلی پوسٹ سے اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں ، مذکورہ شرائط کے مطابق ، إن شاءاللہ ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
قادری رانا صاحب اس تھریڈ میں دو بنیادی باتیں زیر بحث آئی ہیں :
پہلی بات : حضور کا وسیلہ پہلی امتوں کے لوگ بھی دیا کرتے تھے ۔
دوسری بات : حضور کا وسیلہ دینا جائز ہے ۔

اس کے علاوہ جو باتیں زیر بحث آئی ہیں ، ان وسیلہ کے موضوع سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ،لہذا ان بر بحث کی جائیگی لیکن پہلے ان دو باتوں کو نپٹا لیا جائے ۔ إن شاءاللہ ۔
پہلی بات

آپ کے دعوی ( حضور کی آمد سے پہلے آپ کا وسیلہ دیا جاتا تھا ) کی بنیاد چند ایک چیزوں پر ہے :
1۔ قرآن کی آیت کا یہ مفہوم ہے ۔
یہ آپ کا دعوی ہے ، حالانکہ اس پوری آیت میں کہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے ہی نہیں ، ہاں اس میں ’’ کتاب اللہ ‘‘ کا ذکر ہے ۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں :
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَ‌فُوا كَفَرُ‌وا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٨٩﴾
اور ان کے پاس جب اللہ تعالٰی کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود اس کے ذریعہ کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالٰی کی لعنت ہو کافروں پر۔
لہذا اس نقطے پر ادھر ادھر جانے کی بجائے پہلے تو یہ تو ثابت کریں کے جس چیز کا آیت میں ذکر ہی نہیں ، وہ آپ کے مفہوم یا تفسیری مراد سے کیسے ثابت کی جاسکتی ہے ؟
برائے مہربانی اس آیت سے اپن موقف ثابت کرتے ان الفاظ کو نمایاں کریں جن سے آپ نے حضور کا وسیلہ ثابت کیا ہے ۔
اور اس نقطے پر مفسرین کے حوالے نقل کرنا سود مند نہیں ، ورنہ یہ تصور کیا جائے گا کہ آپ کی دلیل قرآن کی آیت نہیں ، بلکہ مفسرین کے اقوال ہیں ۔
2۔ دوسرا آپ نے مفسرین کے اقوال پر اس چیز کی بنیاد رکھی ہے ۔
تو گزارش ہے کہ آپ کا جو دعوی ہے ، اس کا تعلق فہم سے نہیں ، خبر سے ہے ، کیونکہ قرآنی آیت میں تو یہ صراحت ہے ہی نہیں کہ یہودی وسیلہ وغیرہ بناتے تھے ، لیکن آپ ایک خبر ( کہ یہودی وسیلہ بناتے تھے ) کو بنیاد بنارہے ہیں قرآنی آیت سے ایک فہم کشید کرنے کی ، گزارش ہے کہ پہلے اس خبر کو خبر کے تقاضوں کے مطابق ثابت کردیں اور اس کی سند بیان کردیں کہ فلاں آدمی کی متصل سند یہودیوں تک پہنچتی ہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلاں آدمی نے یہودیوں کو یہ فعل کرتے دیکھا یا سنا ہے ۔ یا اس کے علاوہ اگر وہ کوئی اور مستند ذریعہ سمجھتے ہیں تو وہ بھی بیان کردیں ۔
امید ہے یہاں بھی آپ صرف مفسرین کے اقوال بیان کرنے کی بجائے ، صرف وہی پیش کریں گے جس سے اس خبر کا درست ہونا ثابت ہو جائے ، کیونکہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ ائمہ حدیث و تفسیر و تاریخ نے جو کچھ بیان کیا ہے ، اس میں صحیح ، ضعیف وغیرہ ہر قسم کی روایات ہوتی ہیں ، لہذا صرف کسی امام کا کسی بات کو نقل کرنا کافی نہیں ، بلکہ اس سے استدلال کے لیے اس کی صحت ثابت کرنا ضروری ہے ۔
یہ دو نکتے ہیں جن کا تعلق آپ کے دعوی ( حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا وسیلہ ) کے ثبوت کے ساتھ ہے ۔
دوسری بات

پھر دوسری بات جو یہاں زیر بحث آئی ، وہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ڈالنا جائز ہے یا نہیں ؟
آپ کا موقف ہے کہ جائز ہے ، آپ کے نزدیک عقیدہ کا جواز کن چیزوں سے ثابت ہوتا ہے ؟
اول : قرآن مجید
اوپر والی آیت کے علاوہ دیگر دلائل پیش کرسکتے ہیں ، اگر وہی ہے تو اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہی میری دلیل ہے ۔
دوم : متواتر احادیث
کیونکہ آپ کے نزدیک عقیدہ صرف متواتر احادیث سے ثابت ہوتا ہے جیساکہ امام احمد رضا صاحب نے یہ صراحت فرمائی ہے ۔
ان دو اصولوں کے مطابق اس عقیدہ کو ثابت کردیں ۔
ہاں جب آپ اوپر والے دونوں ذرائع سے اپنا دعوی ثابت کردیں یا نہ کرسکیں تو الزام کے طور پر ایک تیسری چیز کا اضافہ بھی کرسکتے ہیں :
سوم : احادیث صحیحہ ( آحاد )
اس کے علاوہ آپ کا کوئی تیسرا چوتھا ذریعہ دلیل بھی ہو تو آپ بخوشی پیش فرماسکتےہیں ۔

گزارش : جیسا کہ پہلے گزارش کی گئی ہے کہ موضوع سے ہٹ کر کوئی بات نہین کی جائے گی ، بات ایک دوسرے کےسوال و جواب پر ہی مرکوز رہے گی ۔إن شاءاللہ ۔
 
Last edited:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَ‌فُوا كَفَرُ‌وا بِهِ ۚ
1۔پہلی بات کے پہلے جز کا فی الحال جواب یہ ہے کہ یستفتحون کا تعلق دوسرے جاء سے ہے۔اور یہاں حضور مراد ہیں کہ پہلے وہ مشرکین سے حضور کا تزکرہ کرتے تھے اور بعد میں پہنچاننے سے انکار کردیا اس پر آپ چاہیے تو میں حوالوں کا ڈھیر لگا سکتا ہوں۔
2۔دوسری شق کا جواب یہ آپ اس کی صحت کو غلط ثابت کر دیں اور اس کے ضعیف ہونے کی نشاندہی فرمائیں۔اگلی بات یہ کہ جب کوئی مفسر کسی آیت کی تفسیر کے متعلق کسی قول کو قوی جانتا ہے تو وہ بغیر کسی جرح کے اس کو نقل کردیتا ہے اور اسی قول کو اختیار کرتا ہے۔آپ کے گھر کے دو حوالہ جات دیے جا چکے جس میں آپ کے مفسرین نے اس آیت کا وہی مطلب بیان کیا ہے ۔
دوسری بات
پھر دوسری بات جو یہاں زیر بحث آئی ، وہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ڈالنا جائز ہے یا نہیں ؟
آپ کا موقف ہے کہ جائز ہے ، آپ کے نزدیک عقیدہ کا جواز کن چیزوں سے ثابت ہوتا ہے ؟
ذات کا وسیلہ لینا ہمارے نزدیک ظنی عقیدہ ہے جو خبر واحد سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔اور آپ کے نزدیک تو ہر عقیدہ خبر واحد سے ثابت ہوتا ہے۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اول : قرآن مجید
بہت سی آیات اس پر شاہدہیں پہلے ایک پر مکمل بحث ہو جائے پھر دوسری آیت پیش کی جائے گی۔انشا اللہ۔
اسی طرح احادیث مبارکہ بھی۔
اور آخر میں صرف اتمام حجت کے واسطے آپ کے گھر کے حوالے بھی اگر آپ اجازت دیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
1۔ قرآن کی آیت کا یہ مفہوم ہے ۔
یہ آپ کا دعوی ہے ، حالانکہ اس پوری آیت میں کہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے ہی نہیں ، ہاں اس میں ’’ کتاب اللہ ‘‘ کا ذکر ہے ۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں :
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَ‌فُوا كَفَرُ‌وا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٨٩﴾
اور ان کے پاس جب اللہ تعالٰی کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود اس کے ذریعہ کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالٰی کی لعنت ہو کافروں پر۔
لہذا اس نقطے پر ادھر ادھر جانے کی بجائے پہلے تو یہ تو ثابت کریں کے جس چیز کا آیت میں ذکر ہی نہیں ، وہ آپ کے مفہوم یا تفسیری مراد سے کیسے ثابت کی جاسکتی ہے ؟
برائے مہربانی اس آیت سے اپن موقف ثابت کرتے ان الفاظ کو نمایاں کریں جن سے آپ نے حضور کا وسیلہ ثابت کیا ہے ۔
اور اس نقطے پر مفسرین کے حوالے نقل کرنا سود مند نہیں ، ورنہ یہ تصور کیا جائے گا کہ آپ کی دلیل قرآن کی آیت نہیں ، بلکہ مفسرین کے اقوال ہیں ۔
میری اوپر والی گزارش کا آپ نے یہ جواب دیا ہے :
1۔پہلی بات کے پہلے جز کا فی الحال جواب یہ ہے کہ یستفتحون کا تعلق دوسرے جاء سے ہے۔اور یہاں حضور مراد ہیں کہ پہلے وہ مشرکین سے حضور کا تزکرہ کرتے تھے اور بعد میں پہنچاننے سے انکار کردیا اس پر آپ چاہیے تو میں حوالوں کا ڈھیر لگا سکتا ہوں۔
بات بالکل واضح ہے ، ایک تو یہ کہ جواب ہی ناقص ہے ، دوسرا غلط بھی ہے ، کیونکہ یستفتحون اور جاء دونوں ہی فعل ہیں ، فعل کا فعل سے تعلق نہیں ہوتا ، بلکہ فعل کا فاعل ، مفعول وغیرہ سے تعلق ہوتا ہے ۔
پھر بھی اگر آپ اس پر مصر ہیں تو بتائیں کہ ان دونوں فعلوں کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟
2۔ دوسرا آپ نے مفسرین کے اقوال پر اس چیز کی بنیاد رکھی ہے ۔
تو گزارش ہے کہ آپ کا جو دعوی ہے ، اس کا تعلق فہم سے نہیں ، خبر سے ہے ، کیونکہ قرآنی آیت میں تو یہ صراحت ہے ہی نہیں کہ یہودی وسیلہ وغیرہ بناتے تھے ، لیکن آپ ایک خبر ( کہ یہودی وسیلہ بناتے تھے ) کو بنیاد بنارہے ہیں قرآنی آیت سے ایک فہم کشید کرنے کی ، گزارش ہے کہ پہلے اس خبر کو خبر کے تقاضوں کے مطابق ثابت کردیں اور اس کی سند بیان کردیں کہ فلاں آدمی کی متصل سند یہودیوں تک پہنچتی ہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلاں آدمی نے یہودیوں کو یہ فعل کرتے دیکھا یا سنا ہے ۔ یا اس کے علاوہ اگر وہ کوئی اور مستند ذریعہ سمجھتے ہیں تو وہ بھی بیان کردیں ۔
امید ہے یہاں بھی آپ صرف مفسرین کے اقوال بیان کرنے کی بجائے ، صرف وہی پیش کریں گے جس سے اس خبر کا درست ہونا ثابت ہو جائے ، کیونکہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ ائمہ حدیث و تفسیر و تاریخ نے جو کچھ بیان کیا ہے ، اس میں صحیح ، ضعیف وغیرہ ہر قسم کی روایات ہوتی ہیں ، لہذا صرف کسی امام کا کسی بات کو نقل کرنا کافی نہیں ، بلکہ اس سے استدلال کے لیے اس کی صحت ثابت کرنا ضروری ہے ۔
میرے مذکورہ مطالبے کے متعلق آپ نے یہ سطریں رقم فرمائیں ہیں :
2۔دوسری شق کا جواب یہ آپ اس کی صحت کو غلط ثابت کر دیں اور اس کے ضعیف ہونے کی نشاندہی فرمائیں۔اگلی بات یہ کہ جب کوئی مفسر کسی آیت کی تفسیر کے متعلق کسی قول کو قوی جانتا ہے تو وہ بغیر کسی جرح کے اس کو نقل کردیتا ہے اور اسی قول کو اختیار کرتا ہے۔آپ کے گھر کے دو حوالہ جات دیے جا چکے جس میں آپ کے مفسرین نے اس آیت کا وہی مطلب بیان کیا ہے ۔
اس کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بلا سند بات ہے ۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو مستند ہوتی ۔
یہاں کسی کے گھر کے حوالے نہیں چلیں گے ، اس خبر کو مستند ثابت کریں تو پھر بات بنے گی ، محدثین و مفسرین نے کئی روایات بطور معلومات بیان کی ہیں ، ان کا بیان کردینا صحت کی دلیل نہیں ۔ جس نے ان روایات سے استدلال کرنا ہے ، اس کے لیے ان کی صحت ثابت کرنا ضروری ہے ۔
ذات کا وسیلہ لینا ہمارے نزدیک ظنی عقیدہ ہے جو خبر واحد سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
اس بات کا حوالہ نقل فرمادیں ، تاکہ سند رہے ۔
بہت سی آیات اس پر شاہدہیں پہلے ایک پر مکمل بحث ہو جائے پھر دوسری آیت پیش کی جائے گی۔انشا اللہ۔
اسی طرح احادیث مبارکہ بھی۔
اور آخر میں صرف اتمام حجت کے واسطے آپ کے گھر کے حوالے بھی اگر آپ اجازت دیں۔
بہتر ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
بات بالکل واضح ہے ، ایک تو یہ کہ جواب ہی ناقص ہے ، دوسرا غلط بھی ہے ، کیونکہ یستفتحون اور جاء دونوں ہی فعل ہیں ، فعل کا فعل سے تعلق نہیں ہوتا ، بلکہ فعل کا فاعل ، مفعول وغیرہ سے تعلق ہوتا ہے ۔
پھر بھی اگر آپ اس پر مصر ہیں تو بتائیں کہ ان دونوں فعلوں کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟
عرض ہے کہ جاء فعل ہے اور اس کا فا عل حضور انور ہیں۔اور اس کا تعلق یہودیوں کے فعل یستفتحون سے ہیں۔دوسری بات میں نے کہا تھا کہ
س پر آپ چاہیے تو میں حوالوں کا ڈھیر لگا سکتا ہوں۔
یعنی مفسرین کے حوالہ جات کا کہ اس جاء کا فاعل اور ما عرفو کا مفعول حضور کی ذات بابرکات ہے۔
اس کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بلا سند بات ہے ۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو مستند ہوتی ۔
یہاں کسی کے گھر کے حوالے نہیں چلیں گے ، اس خبر کو مستند ثابت کریں تو پھر بات بنے گی ، محدثین و مفسرین نے کئی روایات بطور معلومات بیان کی ہیں ، ان کا بیان کردینا صحت کی دلیل نہیں ۔ جس نے ان روایات سے استدلال کرنا ہے ، اس کے لیے ان کی صحت ثابت کرنا ضروری ہے ۔
میں نے ایک بات عرض کی تھی
اگلی بات یہ کہ جب کوئی مفسر کسی آیت کی تفسیر کے متعلق کسی قول کو قوی جانتا ہے تو وہ بغیر کسی جرح کے اس کو نقل کردیتا ہے اور اسی قول کو اختیار کرتا ہے
جہاں تک یہ بات کہ یہ بلا سند ہے تو عرض ہے کہ کیا مفسرین نے کفر و شرک کو نقل کیا ہے؟اور کیا جن آپ کے اکابرین کے حوالہ جات دیے گیے ہیں انہوں نے شرک کے قول کا اختیار کیا ہے ؟
اور حضرت یا تو آپ کو گفتگو کا پتہ نہیں یا اپنے اکابرین پر اعتماد نہیں۔اگر اعتماد نہیں تو چھوڑیں ایسے بے اعتماد مسلک کو۔اور اگر پتہ نہیں تو عرض ہے اگر مخالف آپ کی دلیل پر اعتراض کرے تو اس کی صحت یا تو مسلمہ اکابر یا اس کے مسلم خصم سے پیش کیجاتی ہے۔
اس بات کا حوالہ نقل فرمادیں ، تاکہ سند رہے ۔
بہت سے حوالہجات ہیں۔مقام نبوت و ولایت از غلام رسول سعیدی کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی لفظ برا لگے تو معذرت
 
Top