• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حفاظت اولاد

شمولیت
فروری 04، 2018
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
زینب کو لے کر سیاسی، جذباتی اور مذہبی حوالوں سے نظریاتی بحث اور کمنٹس بھی ان پتھروں کی طرح ہیں جو ہم ہوا میں اچھال رہے ہیں اور جو ہماری ہی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

اس طرح کی پوسٹس کہ بیٹیوں کو جلا دیں۔ بہت مایوس کن اور شکست خوردہ باتیں ہیں۔
کیوں بیٹیوں کو جلائیں!
انہیں جلنے سے بچانے کا کیوں نہ انتظام کریں!
گھوم پھر کر وہی بیٹیوں کو مارنے کی آہ و بکا۔

انسانوں کے جنگل میں اس طرح کے درندے ہمیشہ رہے ہیں اور رہیں گے۔
پاکستانی معاشرے میں ان درندوں کی موجودگی کی ایک بڑی وجہ بغیر کسی اصول اور سسٹم کے اس معاشرے کی پرورش ہے۔
لیکن اب اگر ہم اپنی نسلوں کی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کی خاطر خود کو مثال بنانا ہوگا۔
جب آپ اپنے بچوں کو سمجھائیں گے کہ خود کو دوسروں سے بچاؤ تو کس کس اندوہناک واقعے کی مثال دیں گے!

چاہے آپ کیسے ہی اعلیٰ انسان کیوں نہ ہوں، مثال آپ ہی نے بننا ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ورنہ آپ کے بچوں کو آپ کی باتیں ایک خوفناک لیکچر لگیں گی جنہیں ان کا ذہن کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔
پہلے آپ دوسروں کے بچوں کو چھوُنا اور لپٹانا اور چومنا بند کردیجیے۔

بچہ کھلونا نہیں ہوتا۔ بچہ ایک مکمل انسان ہوتا ہے۔ یہ آپ کے کھیلنے کے لیے نہیں ہے۔ وہ اپنی مکمل زندگی جینے کے لیے دنیا میں موجود ہے۔ خود پر قابو پائیے۔ یوں اپنے گھر میں بچوں کو احساس دلائیے کہ بچوں کو صرف سلام کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ آپ کا بھتیجا/بھتیجی، بھانجا/ بھانجی کیوں نہ ہو!
ایسا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو وجہ بھی بتائیے کہ دوسروں کے بچوں کو خود سے لپٹانا ان کی پرائیویسی میں دخل اندازی ہے۔ اس لیے یہ بری بات ہے۔
بچوں کو پرائیویسی سکھائیے۔ اپنی بھی اور دوسروں کی بھی۔

آپ کی بیٹیوں کا بھائی خود بھی ابھی بچہ ہی کیوں نہ ہو، اسے بہن کے ساتھ مت سلائیے۔ کیونکہ یہ بہن کی پرائیویسی کا معاملہ ہے۔
بیٹے کو سکھائیے کہ بہن کے کمرے میں اجازت لے کر جائے۔ کم کمروں کا گھر ہے تو بھی بہن سے اجازت لے کہ کیا میں تمہارے ساتھ کھیل سکتا ہوں؟ کیا میں تمہارے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں؟
یہی بیٹی کو بھی سکھائیے بھائی کے لیے تاکہ لڑکے لڑکی کی تفریق کے بغیر وہ ایک دوسرے کی اور اپنی اپنی پرائیویسی کو سمجھ سکیں۔
اجازت لینے کی آپ کو روایت ڈالنی پڑے گی۔

آپ خود جب گھر میں داخل ہوں تو دروازہ کھلا ہونے کے باوجود اجازت لے کر داخل ہونے کی عادت ڈالیے۔ اونچی آواز میں خاص طور پر اپنی بیٹیوں سے پوچھیے کہ بیٹا میں اندر آجاؤں؟
بڑا گھر ہو تو بھی جہاں بیٹیاں بیٹھی ہوں ان سے اجازت لیجیے اس حصے میں جاتے ہوئے۔

اجازت کے بعد بھی ذرا سے توقف کے بعد اندر جائیے۔ ایک دم سے گھر میں گھستے نہ چلے جائیے۔ لمحہ بھر کا یہ توقف بیٹیوں کو ان کی ضروت کے مطابق پرائیویسی کا موقع دے گا۔
آپ سے آپ کا بیٹا یہ عمل سیکھے گا۔ وہ زندگی میں دوسری لڑکیوں اور اپنی بہنوں کا احترام سیکھے گا۔

آپ کی بیٹیاں بھی یہ سیکھیں گی کہ اگر ہمارا باپ اور بھائی بھی ہم سے اجازت مانگتا ہے تو باقی لوگ اجازت کے بغیر کیسے ہمارے قریب آسکتے ہیں!
اپنے بیٹوں پر بھی نگاہ رکھیے۔ انھی بیٹوں کو آگے چل کر سماج میں مرد کا کردار ادا کرنا ہے۔

کوئی بھی درندہ ماں کے پیٹ سے درندہ بن کر نہیں آتا۔ مرد میں موجود شہوت درندگی کے مرض میں مبتلا ہونے سے بہت پہلے اور پیچھے سے کئی مراحل سے گزرتی ہے۔
صرف اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے پریشان نہ ہوں، بلکہ اپنے بیٹوں کی بھی تربیت کیجیے۔

خیال رکھیے کہ آپ نے بیٹے کو انسان بنانا ہے۔ احتیاط صرف یہ نہیں ہے کہ آپ کا بیٹا سگریٹ نہ پیے۔ نشہ نہ کرے۔ آوارہ گردی نہ کرے۔ تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائے۔
یہ بھی خیال رکھیے کہ وہ جن جسمانی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اس دوران اس کی نگاہ میں، اس کے لمس میں، اس کے رویّوں میں عورت اور لڑکیوں کے لیے کتنی نرمی ہے! وہ چھوٹے بچوں اور بچیوں سے کیسے ملتا ہے!
خیال رکھیے کہ کہیں آپ کے ہاتھوں ایک درندے کی پرورش تو نہیں ہورہی!

پرائیویسی کی تربیت کرتے ہوئے اگر آپ کی بیٹیاں علیحدہ کمرہ رکھتی ہیں تو باپ کو بیٹیوں کے کمرے میں کوشش کرکے نہیں جانا چاہیے۔ صرف ماں کو جانا چاہیے۔ بیٹیوں کو اپنے کمروں میں کھل کر بیٹھنے دیجیے تاکہ وہ اپنے گھر میں گھٹن کا شکار نہ ہوں۔ اور انہیں اپنے قیمتی ہونے کا بھی احساس ہو۔

اور اسی طرح جب آپ گھر سے باہر ہوں تو دوسروں کے بچوں سے ہٹ کر چلیں۔ کسی بچے یا بچی سے ٹکرا بھی جائیں تو سوری کہیں۔ تاکہ وہ بچہ سمجھ سکے کہ آپ کا اس سے ٹکرانا سوری کہنے کی بات ہے۔ آپ کے ساتھ موجود آپ کا بچہ بھی یہ دیکھے اور سیکے،،،،
 
Top