• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حفاظت ِحدیث میں حفظ کی اہمیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حفاظت ِحدیث میں حفظ کی اہمیت

پروفیسرعلی احمد چوہدری​
حفظ کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے یوں تو انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں لیکن قوتِ حافظہ ان میں اہم ترین نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خاص نعمت سے انسان مشاہدات و تجربات اور حالات و واقعات کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا ہے اور ضرورت کے وقت انہیں مستحضر کرکے کام میں لاتا ہے۔ انسان کا قدیم ترین اور ابتدائی طریق حفاظت ’حفظ‘ تھا۔ تدریجاً وہ فن کتابت سے آشنا ہوا اور تہذیبوں کے ارتقا کے ساتھ کتابت کو فروغ ہوا۔ تہذیبوں کے اس نشیب و فراز کے ہر دور میں حافظہ کی حیثیت مسلم رہی۔
اہل عرب قبل از بعثت ِنبویﷺ ہزاروں برس سے اپنا کام تحریر و کتابت کے بجائے حافظہ سے چلانے کے خوگر تھے۔ ان کے تاجر لاکھوں روپے کا لین دین کرتے تھے اور کوئی لکھی پڑھی دستاویز نہ ہوتی تھی۔ پائی پائی کا حساب اور سینکڑوں گاہکوں کا تفصیلی حساب و تول زبان پر رکھتے تھے۔انکی قبائلی زندگی میں نسب اور خونی رشتوں کی بڑی اہمیت تھی، پشت ہا پشت سے نسب نامے ان کے حافظے میں محفوظ رہتے تھے۔
عرب بے پناہ قوت حافظہ کے مالک تھے۔ ان کے شعرا، خطبا اور اُدبا ہزاروں اشعار، ضرب الامثال اور واقعات کے حافظ تھے۔ شجر ہائے نسب کومحفوظ رکھنا ان کا معمول تھا بلکہ وہ تو گھوڑوں کے نسب نامے بھی یاد رکھتے تھے۔
ان کا سارا لٹریچر بھی کاغذ پرنہ تھا بلکہ لوحِ قلب پرلکھا ہوا تھا۔ وہ کاغذ کی تحریر پر اعتماد کرنے کی بجائے حافظے پر اعتماد کرنے کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ انہیں اس پر فخر تھا اور ان کی نگاہ سے وہ شخص گر جاتا تھا جس سے بات پوچھی جائے اور وہ زبانی بتانے کی بجائے گھر سے کتاب لاکر اس کا جواب دے۔
ان کی یہ عادت اسلام کے بعد بھی تقریباً ایک صدی تک جاری رہی کہ وہ لکھنے کے باوجود یاد کرتے تھے اور تحریر پڑھ کر سنانے کی بجائے نوکِ زبان سے سنانا نہ صرف باعث ِعزت سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک آدمی کے علم پر اعتماد بھی اس طریقہ سے قائم رہتا تھا۔
موجودہ دور میں بھی مختلف اقوام میں ایسے بے شمار افراد پائے جاتے ہیں جن کے حافظوں کو بطورِ نظیر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ خود مسلمان علما میں یہ جملہ مشہور رہا: ’’العلم فی الصدور لا فی الکتب‘‘ فی الحقیقت علم وہی ہے جو انسان کو مستحضر ہو۔ اس استحضار کے لئے حافظے کے سوا اور کوئی شے نہیں ہے۔
خود ہندوستان میں سیدانور شاہ کشمیری، سید نذیر حسین محدث دہلوی، حافظ عبدالمنان وزیرآبادی اور حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہم اللہ بے نظیر حافظے کے مالک تھے۔
عربوں اور غیر عربوں میں آج بھی اس امر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اَن پڑھ لوگ اور نابینا آدمی پڑھے لکھے اور بہت انسانوں کی نسبت زیادہ یادداشت رکھتے ہیں۔ ناخواندہ تاجروں میں ایسے لوگ بکثرت دیکھے جاتے ہیں جنہیں بہت سے گاہکوں کے ساتھ اپنا ہزارہا روپے کا لین دین تفصیل کے ساتھ یاد رہتا ہے۔ بے شمار اندھے ایسے موجود ہیں جن کی قوتِ حافظہ آدمی کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تحریر پر اعتماد کرلینے کے بعد ایک قوم کے حافظے کی وہ حالت باقی نہیں رہ سکتی جو ناخواندگی کے دور میں اس کی تھی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عربوں کا تعلق جب کلامِ الٰہی سے ہوا تو ان کو رسولِ کریمﷺاور قرآنِ مجید سے بے پناہ عقیدت ومحبت ہوئی۔ انہوں نے قرآن و حدیث کو حفظ کرنا شروع کیا۔ بے شمار صحابہؓ نے قرآن کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ جنگ ِیمامہ میں تقریباً ۷۰؍حفاظِ قرآن صحابہ تھے جو شہید ہوگئے، جس کے خوف سے حضرت عمرؓ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اگر اس طرح حفاظ صحابہ دنیا سے اُٹھتے چلے گئے تو قرآن محفوظ نہ رہ سکے گا۔ ان کی اس تحریک پر حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کو کتابی شکل میں مدوّن کیا۔
یوں بھی کوئی قرآن کی آیت ؍سورت نازل ہوتی تو صحابہ اس کو اَزبر کرلیتے۔ یہی تعلق ان کا حدیث ِرسولﷺسے تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حفظ ِحدیث ، ارشاداتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں
حضرت انس بن مالکؓ جو آپ کے خادمِ خاص تھے، کہتے ہیں کہ
’’ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے اور حدیث سنتے جب ہم اٹھتے تو ایک دوسرے سے دہراتے حتیٰ کہ ہم اس کو ازبر کرلیتے۔‘‘
ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ
’’ہم لوگ رسول اللہ ﷺ سے حدیثیں سنتے اور جب آپ مجلس سے تشریف لے جاتے تو ہم آپس میں حدیثوں کا دور کرتے۔ یکے بعد دیگرے ہم میں ہر شخص ساری حدیثیں بیان کرتا، اکثر رسولِ اکرم ﷺ کی محفل میں بیٹھنے والوں کی تعداد ساٹھ تک ہوجاتی اور وہ سب باری باری بیان کرتے۔ پھر ہم اُٹھتے تو حدیثیں یوں یاد ہوتیں کہ گویا وہ ہمارے دلوں پر نقش ہوگئی ہیں۔‘‘(۱)
صحابہ زیادہ تر حفاظت ِحدیث کے سلسلہ میں سفینہ کے بجائے سینہ پر اعتماد کرتے تھے۔ ڈاکٹر صبحی صالح حفاظت ِحدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں :
’’حضور ﷺ کا کتابت ِحدیث سے منع کرنا اور حفظ کو اہمیت دینا، یہ آپ کی حکمت ِتدریس کا حصہ تھا تاکہ صحابہ کا حدیث ِرسول ﷺ سے ایک خاص تعلق اور ربط پیدا ہوجائے۔ یہ تربیت تدریجی اور اسلامی معاشرہ کے حوادث و اَحوال سے بالکل ہم آہنگ تھی۔ یہ تربیت جامد نہ تھی کہ ایک ہی شکل وصورت پر قانع رہتی، بلکہ اس میں اشخاص و ازمنہ کے احوال و مقامات کا لحاظ رکھا جاتا تھا۔‘‘(۲)
حضورِ کریم ﷺ نے جب اپنی دعوت کا آغاز کیا تو اس وقت عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج کم تھا۔ ایسے لوگوں کی تعداد تو اُنگلیوں پر گنی جاسکتی تھی جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ قرآن نے خود ان کو اَن پڑھ کہا جن کے اندر سے حضورؐ یہ دعوت لے کر اٹھے :
(هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الاْمِّيِّيْنَ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ)(۳) ’’اللہ وہ ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے پیغمبر بھیجا۔‘‘
طبقاتِ ابن سعدؒ کے حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعثت ِنبوی کے وقت سولہ سترہ سے زیادہ آدمی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھیکہ عرب لکھنے پڑھنے کو پسند نہ کرتے تھے۔ صحرائی لوگ تو پڑھنے کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ لکھنے پڑھنے کے خلاف حقارت کا یہ جذبہ آج تک صحرائی قبائل میں بدستور باقی ہے۔ ذوالرمہ اور مخضرمی جو بہت بڑے شاعر ہیں، وہ اس بات کو چھپاتے رہے کہ وہ فن کتابت سے آشنا ہیں، کہ کہیں لوگ اُنہیں ناپسند نہ کرنے لگیں۔
کتابت ِحدیث کے عدمِ رجحان اور رسول اللہﷺکی ممانعت کی وجہ سے صحابہ حافظہ پر زیادہ اعتماد کرتے۔ احادیث کو حفظ کرتے اور حافظہ کی مدد سے ہی بوقت ِضرورت اس کو مستحضر کردیتے تھے۔ پروفیسر خالد علوی لکھتے ہیں کہ
’’حافظہ پر اعتماد ہی کا نتیجہ تھا کہ بڑی مدت تک علما حفظ ہی کرتے رہے۔ انہوں نے لکھنے کو پسند نہیں کیا۔‘‘(۴)
امام اوزاعیؒ کا قول ہے :
’’کان هذا العلم شيئا شريفاً إذا کان من أفواه الرجال يتلاقونه ويتذاکرونه فلما صار فی الکتب ذهب نوره و صار إلی غير أهله‘‘ ’’حدیث کا علم قیمتی اور شریف اس وقت تھا جب لوگوں کے منہ سے حاصل کیا جاتا تھا۔ لوگ باہم ملتے جلتے رہتے تھے اور آپس میں ان کاذکر کرتے رہتے تھے۔ لیکن جب سے حدیثیں کتابوں میں لکھی جانے لگیں تو اس کا نور اور ا س کی رونق جاتی رہی اور یہ علم ایسے لوگوں میں پہنچ گیا جو اس کے اہل نہ تھے۔‘‘(۵)
حضورِ کریم ﷺ نے حفاظت کے لئے دو طرح کے اقدام فرمائے۔ ایک تو یہ کہ آپ نے احادیث کو روایت کرنے کی ہمت افزائی کی اور دوسری طرف جھوٹی حدیث روایت کرنے پر سخت وعید سنائی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
زبانی روایت کی ہمت افزائی اور ترغیب
اہل عرب ہزاروں برس سے اپنے کام کتابت کے بجائے حفظ و روایت اور زبانی کلام سے چلانے کے عادی تھے اور یہی عادت اسلام کے ابتدائی دور میں برسوں تک رہی۔ ان حالات میں قرآن کومحفوظ کرنے کے لئے تو کتابت ضروری سمجھی گئی،کیونکہ اس کا لفظ لفظ، آیات اور سورتوں کی ٹھیک اسی ترتیب کے ساتھ جو اللہ نے مقرر فرمائی تھی، محفوظ کرنا مطلوب تھا۔ حدیث میں اس ترتیب کا ہونا ضروری نہ تھا کیونکہ قرآن کی تلاوت اس طرح مطلوب تھی جس طرح اللہ نے ترتیب دی۔ اس کے الفاظ کو بدلنا کسی صورت جائز نہ تھا جبکہ سنت کی نوعیت عملی تھی۔ اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ صرف ان کا مفہوم وحی تھا جنہیں الفاظ کا جامہ حضور نبی کریمؐ پہنایا کرتے۔
حضور ﷺ کے اقوال، الفاظ اور تقاریر کے نقل کرنے میں یہ پابندی نہ تھی کہ سننے والے انہیں لفظ بلفظ اسی طرح نقل کریں بلکہ اہل زبان سامعین کے لئے یہ جائز تھا ، وہ اس پر قادر بھی تھے کہ الفاظ سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اپنے الفاظ میں بیان کریں۔
احادیث میں قرآن کی آیتوں کی طرح یہ بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے اور فلاں بعد میں لائی جائے۔ یہاں مقصود صرف ان احکام اور تعلیمات و ہدایات کو یاد رکھنا اور بحفاظت آگے پہنچانا تھا جو صحابہ کو حضور سے ملنی تھیں۔ اس باب میں زبانی نقل و روایات کی کھلی اجازت ہی نہ تھی بلکہ بکثرت احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حضورِ کریم ﷺ نے لوگوں کو بار بار اور بکثرت اس کی تاکید فرمائی۔
نبی پاکﷺنے ان اشخاص کے لئے خصوصی دعا فرمائی جو آپ کی باتوں کو سن کر یاد رکھیں اور دوسروں تک پہنچائیں:
1۔حضرت ابوسعید ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے
’’نضر الله امرئً سمع مقالتی فوعاها…‘‘(۶)
’’اللہ تعالیٰ خوش و خرم رکھے اس بندے کو جس نے میری بات سنی اور اس کو یاد رکھا۔‘‘
2۔حضرت زید بن ثابتؓ، عبداللہ بن مسعودؓ اور جبیر بن مطعمؓ اور ابودردائؓ حضورِ کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
’’نضر الله امرئً سمع منا حديثا فحفظه حتی يبلغه فرُبّ حامل فقه إلی من هو أفقه منه ورب حامل فقه ليس بفقيه‘‘(۷)
’’اللہ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جو ہم سے کوئی بات سنے اور دوسروں تک پہنچا دے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص سمجھ کی بات کسی ایسے شخص کو پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو خود فقیہ نہیں ہوتا مگر وہ فقہ اٹھائے ہوتا ہے۔‘‘
3۔حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ نبی اکر مﷺ نے فرمایا:
’’ليبلغ الشاهد الغائب عسیٰ ان يبلغ من هو أوعیٰ‘‘(۸)
’’جو حاضر ہے، وہ اس کو پہنچا دے جو حاضر نہیں،ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی تک پہنچا دے جو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔‘‘
4۔قاضی ابو شریح کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پرخطبہ دیا جسے میں نے خود کانوں سے سنا اور خوب یاد رکھا۔ وہ موقع اب تک میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ خطبہ کے اختتام پر آپ نے فرمایا:
’’ليبلغ الشاهد الغائب‘‘
’’جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں سے پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔‘‘(۹)
5۔حجۃ الوداع ۱۰ہجری میں وہی بات کہی جو فتح مکہ کے موقع پر کہی تھی۔
6۔ابوجمرہ کہتے ہیں کہ بنی عبدالقیس کا وفد بحرین سے حضورِ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم ایسے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ ہم سوائے حرام مہینوں کے آپ کی خدمت میں نہیں آسکتے، لہٰذا ہم کو ایسے اعمال بتائیں کہ ہم پیچھے والوں کو اس سے مطلع کریں اور اس کے سبب ہم جنت میں چلے جائیں۔ آنحضور ﷺ نے انہیں چند احکام دیئے اور فرمایا:
’’احفظوہ واخبروا من وراء کم‘‘(۱۰) ’’اس کو یاد کرلو اور پیچھے والوں کو بھی بتاؤ۔‘‘
پروفیسر خالد علوی نے مولانا سید امین الدین کی رائے نقل کی ہے کہ حضور رسالت ِمآب ﷺ نے ان صحابہ کے لئے دعا فرمائی جو حضور ﷺ کی حدیث کی حفاظت کرتے اور ضبط میں رکھتے اور پوری صحت اور اتقان کے ساتھ اس کو دوسروں تک پہنچاتے۔ حفاظت ِحدیث اور مبلغین حدیث کے لئے حضور کی مذکورہ دعا ثابت کرتی ہے کہ حفظ ِحدیث اور اس کی تبلیغ، حضور کی رضا اور خوشنودی، حیاتِ صحابہ کا عظیم اور اہم سرمایہ تھا۔ صحابہ خوب جانتے تھے کہ اللہ کے رسول کوراضی رکھنا ایمان والوں کے حفظ ِایمان کے لئے نہایت ضروری ہے: (۱۱)
(وَاللّٰهُ وَرَسُوْلُه أَحَقُّ اَنْ يُرْضُوْه اِنْ کَانُوْا مُؤمِنِيْنَ) (توبہ:۶۲) ’’اللہ اور اس کے رسول کو راضی رکھنا بہت ضروری ہے، اگر وہ ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’من رغب سنتی فليس منی‘‘ (بخاری: نمبر ۵۰۶۳) ’’وہ مجھ سے نہیں جس نے میری سنت سے اعراض کیا۔‘‘
صحابہ کرامؓ حافظہ کی مدد سے حدیث کو یاد رکھنے کا کام لیتے تھے۔ حضور کریم ﷺ کی اس تحریص وترغیب کا یہ نتیجہ ہواکہ صحابہؓ ذوق وشوق سے احادیث کو یاد رکھتے جو حضور کی محفل میں حاضر نہ ہوسکتے، وہ باری باری کا شانۂ نبوت میں حاضری دیتے۔ مثلاً حضرت عمرؓ نے اپنے غلام سے باری باندھی ہوئی تھی کہ ایک دن میں کاشانۂ نبوی میں حاضر ہو کر نورِ نبوت سے فیضیاب ہوں گا تو اس سے آپ کو آگاہ کروں گا لیکن جس دن میں حاضر نہ ہوسکوں تو آپ حضورؐ کے ہاں حاضر ہوکر فیض حاصل کریں اور ارشاداتِ نبوی سے مجھے آگاہ کریں۔
آنحضرت ﷺ کے ارشادات کا صحابہ دَور کرتے۔ ایک دوسرے کو سناتے، مذاکرے ہوتے اور ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کرتے۔ حضرت معاویہؓ کہتے تھے :
’’میں آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ مسجد میںداخل ہوئے تو آپ نے مسجد میں ایک جماعت بیٹھی ہوئی پائی۔ فرمایا: تم کس لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے فرض نماز پڑھی پھر ہم بیٹھ گئے۔ ہم اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کا مذاکرہ کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا:
’’اللہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں، اس کا ذکر بڑھ جاتا ہے۔‘‘ (۱۲)
حضرت ابن عباسؓ، حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت ابو سعید اور ان کے علاوہ دیگر اکابرین صحابہ اور تابعین حدیث کے مذاکروں میں اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو تاکید کرتے تھے۔علیؓ فرماتے تھے:
’’تذاکروا الحديث و تزاوروا فإنکم إن لم تفعلوا يدرس‘‘
’’احادیث کا تکرار کیا کرو اور ایک دوسرے سے ملتے رہو اگر ایسا نہ کرو گے تو علم ضائع ہوجائے گا‘‘
بقولِ سید منت اللہ
’’صحابہ کرام میں دو چیزوں کا چرچا تھا: کلام اللہ اور احادیث رسول اللہ ﷺ ۔ وہ اپنے وقت کو انہیں دو کاموں میں صرف کرتے اور انہیں دو چیزوں کو خود پڑھتے، دوسروں کو پڑھاتے یا ان سے سنتے رہتے تھے۔ اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو انہی چیزوں کے مذاکرہ اور حفظ کی تاکید کرتے رہے۔ تو پھر جنہوں نے حدیث کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہو، انہیںحدیثیں یادنہ رہتیں تو اور کس کو رہتیں۔‘‘(۱۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حفظ ِحدیث میں حزم و احتیاط اور اس کے محرکات
صحابہ حفظ ِحدیث اور روایت میں بڑی احتیاط سے کام لیتے اوراس کو وہ اپنی بڑی ذمہ داری محسوس کرتے تھے تاکہ بعد میں آنیوالی نسلوں کو حضور ﷺ کی تعلیمات صاف شفاف صورت میں بغیر کسی آمیزش کے ملیں۔ ان کے نزدیک یہ دین ایک امانت ہے اور اس میں تغیر و تبدیلی خیانت اور بہت بڑا جرم ہے۔ بعض دفعہ تو صحابہؓ حدیث بیان کرتے ہوئے لرز اُٹھتے تھے۔ اس حزم و احتیاط کے درج ذیل محرکات تھے :
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔جھوٹی احادیث پر تنبیہ
جھوٹی حدیث کو حضور ﷺ کی طرف منسوب کرنے پر تنبیہات اور وعیدیں دراصل حفاظت ِحدیث کی ہی اہم کوشش ہے جو آپ نے روایت کے سلسلہ میں فرمائی۔ آنحضرت ﷺ نے قطعی طور پربتایا کہ جھوٹی روایت بیان کرنے والا جہنمی ہوگا۔آپﷺنے فرمایا:
’’من کذب علی متعمداً فلتيبوأ مقعده من النار‘‘ (مسند احمد: ۱؍۱۶۵)
’’جو شخص میرا نام لے کر قصداً جھوٹی بات میری طرف منسوب کرے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔‘‘
2۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں ، حضور کریم ﷺ نے فرمایا:
’’حدثوا عنی ولا حرج و من کذب علی متعمداً فليتبوأ مقعده من النار‘‘
’’میری باتیں روایت کرو، اس میں حرج نہیں ہے مگر میری طرف جو جان بوجھ کر جھوٹی بات منسوب کرے گا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے گا۔‘‘ (مسند احمد: ۲؍۱۵۹)
3۔حضرت جابربن عبد اللہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’اتقوالحديث عنی إلا ما علمتم فمن کذب متعمداً فليتبوا مقعده من النار‘‘(۱۴)
’’میری طرف سے ا س وقت تک کوئی بات بیان نہ کرو۔ جب تک تمہیں یہ علم نہ ہو کہ میں نے وہ کہی ہے کیونکہ جو کوئی میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘
اس حدیث کو عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس نے بھی بیان کیا ہے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جب میں تم کورسول اللہﷺ کی کوئی حدیث سناؤں تو مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ آسمان سے گر جاؤں اس سے کہ میں آنحضرت ﷺ پر جھوٹ باندھوں۔ آپ کے الفاظ ہیں :
’’إذا حدثتکم عن رسول الله لان أخر من السماء أحب إلی من ان أکذب عليه‘‘(۱۵)
صحابہ کے لئے یہ وعید بڑی زبردست بات تھی۔ اسلام پر یقین رکھنا اور دوزخ سے نہ ڈرنا دو متضاد باتیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضور ﷺ نے حکمت ِپیغمبرانہ کے تحت حدیث کی نشرواشاعت کی تلقین اور ان میں جھوٹ کی آمیزش سے احتراز کی سخت تاکید فرمائی۔ یہ اس با ت کا بین ثبوت ہے کہ حضور ﷺ اپنی سنت کو ہر طرح سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے تاکہ آنے والی نسلیں اس سے استفادہ کرسکیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔عظمت ِ رسول ﷺ
صحابہ آنحضورؐ کو اللہ کا نبی اور سب سے عظیم انسان تصور کرتے تھے۔ اور اس بات پر وہ دل کی گہرائیوں سے یقین رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک آپ کی تعلیمات، ارشادات اور حالات و واقعات کی حیثیت عام انسانی وقائع کی نہ تھی کہ وہ ان کو معمولی حافظے کے سپرد کردیتے۔ ان کے لئے تو آپ کی معیت میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ سب سے زیادہ قیمتی تھا اور اس کی یاد کو وہ اپنا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر حضرت عمرؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ابوبکرؓ میری ساری عمر کی نیکیاں لے کر غارِ ثور کی ایک رات کی نیکیاں مجھے دے دے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔علم صحیح
حزم و احتیاط کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حضور ﷺ نے جو علم صحابہ کو دیا تھا، وہ حقائق پر مبنی تھا۔ اس کا اعتراف صحابہ خود کرتے تھے۔ حضرت جعفر طیار نے نجاشی کے سامنے جو حقیقت واضح کی وہ اس کا بین ثبوت ہے کہ ہم اس سے پہلے جاہل اور گمراہ تھے، اب حضور ﷺ ہم کو پاکیزہ ترین اور صحیح علم دے رہے ہیں۔ انہوں نے ہم کو جینا سکھایا ہے۔ اسی لئے صحابہ پوری توجہ سے آپ کی ہر بات کو سنتے تھے، ہر فعل کو دیکھتے تھے کیونکہ عملی زندگی میں عملاً اسی کا نقش پیوست کرنا تھا اور اس کی رہنمائی میں کرنا تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔ذمہ داری کااحساس
صحابہ کو یہ بھی احساس تھا اور وہ یہ ذمہ داری محسوس کرتے تھے کہ بعد میں آنے والوں کو حضور ﷺ کے حالات اور تعلیمات بالکل صحیح صورت میں پہنچائیں اور اس میں کسی قسم کی آمیزش نہ کریں۔
حضور کی وعید کے بعد تو صحابہ اور محتاط ہوگئے تھے کہ اپنی طرف سے تغیر و تبدیلی کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ وہ اسے عظیم خیانت تصور کرتے تھے۔ دین کو امانت سمجھ کر انہوں نے آگے منتقل کیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
5۔اکابر صحابہ کی تلقین
حضور پاک ﷺ کی تلقین کے علاوہ اکابر صحابہؓ بھی عام صحابہؓ کو احادیث روایت کرنے میں احتیاط کی تلقین کرتے تھے، اس معاملے میں سہل انگاری برتنے سے شدت کے ساتھ روکتے تھے۔ بعض اوقات حضورؐ کا ارشاد سن کر شہادتیں طلب کرتے تھے اور اطمینان کے لئے امتحان بھی لیتے مثلاً ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو حج کے موقع پر عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے ایک حدیث پہنچی، دوسرے سال حضرت عائشہؓ نے حج کے موقع پر ہی یہی حدیث عبداللہ کو سنانے کے لئے کہا۔ دونوں مرتبہ حضرت عبداللہؓ کے بیان میں سرمو فرق نہ پایا گیا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے میت کی دادی کو میراث ۶؍۱ حصہ اس وقت دیا جب مغیرہ بن شعبہؓ اور محمد بن سلمہؓ نے شہادت دی۔ ابو موسیٰ اشعریؓ نے جب اِذن طلب کرنے کے بارے میں حضرت عمرؓ کو حدیث سنائی تو آپ نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ اگر تم اس کی شہادت پیش نہ کرسکے تو میں تمہیں سزا دوں گا۔
 
Top