زبانی روایت کی ہمت افزائی اور ترغیب
اہل عرب ہزاروں برس سے اپنے کام کتابت کے بجائے حفظ و روایت اور زبانی کلام سے چلانے کے عادی تھے اور یہی عادت اسلام کے ابتدائی دور میں برسوں تک رہی۔ ان حالات میں قرآن کومحفوظ کرنے کے لئے تو کتابت ضروری سمجھی گئی،کیونکہ اس کا لفظ لفظ، آیات اور سورتوں کی ٹھیک اسی ترتیب کے ساتھ جو اللہ نے مقرر فرمائی تھی، محفوظ کرنا مطلوب تھا۔ حدیث میں اس ترتیب کا ہونا ضروری نہ تھا کیونکہ قرآن کی تلاوت اس طرح مطلوب تھی جس طرح اللہ نے ترتیب دی۔ اس کے الفاظ کو بدلنا کسی صورت جائز نہ تھا جبکہ سنت کی نوعیت عملی تھی۔ اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ صرف ان کا مفہوم وحی تھا جنہیں الفاظ کا جامہ حضور نبی کریمؐ پہنایا کرتے۔
حضور ﷺ کے اقوال، الفاظ اور تقاریر کے نقل کرنے میں یہ پابندی نہ تھی کہ سننے والے انہیں لفظ بلفظ اسی طرح نقل کریں بلکہ اہل زبان سامعین کے لئے یہ جائز تھا ، وہ اس پر قادر بھی تھے کہ الفاظ سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اپنے الفاظ میں بیان کریں۔
احادیث میں قرآن کی آیتوں کی طرح یہ بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے اور فلاں بعد میں لائی جائے۔ یہاں مقصود صرف ان احکام اور تعلیمات و ہدایات کو یاد رکھنا اور بحفاظت آگے پہنچانا تھا جو صحابہ کو حضور سے ملنی تھیں۔ اس باب میں زبانی نقل و روایات کی کھلی اجازت ہی نہ تھی بلکہ بکثرت احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حضورِ کریم ﷺ نے لوگوں کو بار بار اور بکثرت اس کی تاکید فرمائی۔
نبی پاکﷺنے ان اشخاص کے لئے خصوصی دعا فرمائی جو آپ کی باتوں کو سن کر یاد رکھیں اور دوسروں تک پہنچائیں:
1۔حضرت ابوسعید ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے
’’نضر الله امرئً سمع مقالتی فوعاها…‘‘(۶)
’’اللہ تعالیٰ خوش و خرم رکھے اس بندے کو جس نے میری بات سنی اور اس کو یاد رکھا۔‘‘
2۔حضرت زید بن ثابتؓ، عبداللہ بن مسعودؓ اور جبیر بن مطعمؓ اور ابودردائؓ حضورِ کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
’’نضر الله امرئً سمع منا حديثا فحفظه حتی يبلغه فرُبّ حامل فقه إلی من هو أفقه منه ورب حامل فقه ليس بفقيه‘‘(۷)
’’اللہ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جو ہم سے کوئی بات سنے اور دوسروں تک پہنچا دے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص سمجھ کی بات کسی ایسے شخص کو پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو خود فقیہ نہیں ہوتا مگر وہ فقہ اٹھائے ہوتا ہے۔‘‘
3۔حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ نبی اکر مﷺ نے فرمایا:
’’ليبلغ الشاهد الغائب عسیٰ ان يبلغ من هو أوعیٰ‘‘(۸)
’’جو حاضر ہے، وہ اس کو پہنچا دے جو حاضر نہیں،ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی تک پہنچا دے جو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔‘‘
4۔قاضی ابو شریح کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پرخطبہ دیا جسے میں نے خود کانوں سے سنا اور خوب یاد رکھا۔ وہ موقع اب تک میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ خطبہ کے اختتام پر آپ نے فرمایا:
’’ليبلغ الشاهد الغائب‘‘
’’جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں سے پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔‘‘(۹)
5۔حجۃ الوداع ۱۰ہجری میں وہی بات کہی جو فتح مکہ کے موقع پر کہی تھی۔
6۔ابوجمرہ کہتے ہیں کہ بنی عبدالقیس کا وفد بحرین سے حضورِ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم ایسے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ ہم سوائے حرام مہینوں کے آپ کی خدمت میں نہیں آسکتے، لہٰذا ہم کو ایسے اعمال بتائیں کہ ہم پیچھے والوں کو اس سے مطلع کریں اور اس کے سبب ہم جنت میں چلے جائیں۔ آنحضور ﷺ نے انہیں چند احکام دیئے اور فرمایا:
’’احفظوہ واخبروا من وراء کم‘‘(۱۰) ’’اس کو یاد کرلو اور پیچھے والوں کو بھی بتاؤ۔‘‘
پروفیسر خالد علوی نے مولانا سید امین الدین کی رائے نقل کی ہے کہ حضور رسالت ِمآب ﷺ نے ان صحابہ کے لئے دعا فرمائی جو حضور ﷺ کی حدیث کی حفاظت کرتے اور ضبط میں رکھتے اور پوری صحت اور اتقان کے ساتھ اس کو دوسروں تک پہنچاتے۔ حفاظت ِحدیث اور مبلغین حدیث کے لئے حضور کی مذکورہ دعا ثابت کرتی ہے کہ حفظ ِحدیث اور اس کی تبلیغ، حضور کی رضا اور خوشنودی، حیاتِ صحابہ کا عظیم اور اہم سرمایہ تھا۔ صحابہ خوب جانتے تھے کہ اللہ کے رسول کوراضی رکھنا ایمان والوں کے حفظ ِایمان کے لئے نہایت ضروری ہے: (۱۱)
(وَاللّٰهُ وَرَسُوْلُه أَحَقُّ اَنْ يُرْضُوْه اِنْ کَانُوْا مُؤمِنِيْنَ) (توبہ:۶۲) ’’اللہ اور اس کے رسول کو راضی رکھنا بہت ضروری ہے، اگر وہ ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’من رغب سنتی فليس منی‘‘ (بخاری: نمبر ۵۰۶۳) ’’وہ مجھ سے نہیں جس نے میری سنت سے اعراض کیا۔‘‘
صحابہ کرامؓ حافظہ کی مدد سے حدیث کو یاد رکھنے کا کام لیتے تھے۔ حضور کریم ﷺ کی اس تحریص وترغیب کا یہ نتیجہ ہواکہ صحابہؓ ذوق وشوق سے احادیث کو یاد رکھتے جو حضور کی محفل میں حاضر نہ ہوسکتے، وہ باری باری کا شانۂ نبوت میں حاضری دیتے۔ مثلاً حضرت عمرؓ نے اپنے غلام سے باری باندھی ہوئی تھی کہ ایک دن میں کاشانۂ نبوی میں حاضر ہو کر نورِ نبوت سے فیضیاب ہوں گا تو اس سے آپ کو آگاہ کروں گا لیکن جس دن میں حاضر نہ ہوسکوں تو آپ حضورؐ کے ہاں حاضر ہوکر فیض حاصل کریں اور ارشاداتِ نبوی سے مجھے آگاہ کریں۔
آنحضرت ﷺ کے ارشادات کا صحابہ دَور کرتے۔ ایک دوسرے کو سناتے، مذاکرے ہوتے اور ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کرتے۔ حضرت معاویہؓ کہتے تھے :
’’میں آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ مسجد میںداخل ہوئے تو آپ نے مسجد میں ایک جماعت بیٹھی ہوئی پائی۔ فرمایا: تم کس لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے فرض نماز پڑھی پھر ہم بیٹھ گئے۔ ہم اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کا مذاکرہ کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا:
’’اللہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں، اس کا ذکر بڑھ جاتا ہے۔‘‘ (۱۲)
حضرت ابن عباسؓ، حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت ابو سعید اور ان کے علاوہ دیگر اکابرین صحابہ اور تابعین حدیث کے مذاکروں میں اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو تاکید کرتے تھے۔علیؓ فرماتے تھے:
’’تذاکروا الحديث و تزاوروا فإنکم إن لم تفعلوا يدرس‘‘
’’احادیث کا تکرار کیا کرو اور ایک دوسرے سے ملتے رہو اگر ایسا نہ کرو گے تو علم ضائع ہوجائے گا‘‘
بقولِ سید منت اللہ
’’صحابہ کرام میں دو چیزوں کا چرچا تھا: کلام اللہ اور احادیث رسول اللہ ﷺ ۔ وہ اپنے وقت کو انہیں دو کاموں میں صرف کرتے اور انہیں دو چیزوں کو خود پڑھتے، دوسروں کو پڑھاتے یا ان سے سنتے رہتے تھے۔ اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو انہی چیزوں کے مذاکرہ اور حفظ کی تاکید کرتے رہے۔ تو پھر جنہوں نے حدیث کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہو، انہیںحدیثیں یادنہ رہتیں تو اور کس کو رہتیں۔‘‘(۱۳)