محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
"حقوق اللہ اور حقوق الوالدین"
خطبہ جمعہ مسجد نبوی 11-مارچ-2016
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 02-جمادی الاولی- 1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "حقوق اللہ اور حقوق الوالدین" ارشاد فرمایا جس کے اہم نکات یہ تھے:
٭حقوق ادا کرنے کی اہمیت
٭ حقوق ادا کرنے کا فائدہ کس کو؟
٭ نیکی یا بدی کا نفع یا نقصان انسان سے تعلق رکھتا ہے
٭ کسی کی اطاعت یا نا فرمانی اللہ تعالی کا کچھ سنوار یا بگاڑ نہیں سکتی
٭ اللہ تعالی کا سب سے عظیم حق: عقیدہ توحید
٭ شفاعتِ مصطفی کا حقدار کون؟
٭ قیامت کے دن پورے حقوق ملیں گے
٭ حقوق العباد میں سب سے عظیم حق والدین کا حق اور اس کی وجہ
٭ بچوں کیلیے والدین کی قربانیاں
٭ والدین جنت کا دروازہ
٭ اللہ کی رضا مندی والد کی رضا مندی سے منسلک
٭ والدین کیساتھ حسن سلوک کے مظاہر
٭ والدین کیساتھ بد سلوکی کے مظاہر
٭ والدین میں سے زیادہ حق والدہ کا ۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جس نے اپنے بندوں پر فضل کرتے ہوئے حقوق و واجبات کی تفصیلات سے انہیں آگاہ کیا، اور انکے لئے نیک اعمال پسندیدہ قرار دیتے ہوئے، گناہوں کو ناپسند قرار دیا، اور نیک لوگوں کیساتھ بھلائی کا وعدہ کیا، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی دعائیں قبول کرتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جن کی معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، آپکی اولاد اور جہادو دلائل کے ذریعے دین کو غالب کرنے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اختیار کرو، اللہ کے فرض کردہ احکامات کو ضائع مت کرو، اور اسکی حدود سے تجاوز مت کرو، بیشک متقی با مراد، اور خواہش پرست نا مراد ہوں گے۔
اللہ کے بندو!
٭ ذہن نشین کر لو کہ! بندوں کے اعمال کا نفع و نقصان انہی کو ہو گا، چنانچہ اطاعت گزاری اللہ کا کچھ سنوار نہیں سکتی اور نا فرمانی اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتی، فرمان باری تعالی ہے:
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ}
جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا اپنے لیے کرے گا، اور جو گناہ کرے گا، اس کا [خمیازہ]اسی پر ہو گا، پھر تم سب اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے
[الجاثيۃ: 15]
اسی طرح فرمایا:
{مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ}
جو شخص بھی گناہ کریگا، اسے اِسی کی مثل سزا دی جائے گی، اور جو کوئی بھی مرد ہو یا عورت ایمان کی حالت میں اچھا عمل کرے تو یہی لوگ جنت میں داخل ہونگے، اُنہیں وہاں پر بے حساب رزق سے نوازا جائے گا
[غافر : 40]
اور حدیث قدسی میں ہے کہ :
(میرے بندو! تم میرا کچھ بگاڑنے کی حد تک نہیں پہنچ سکتے، اور نہ مجھے نفع پہنچا سکتے ہو، میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لئے محفوظ کرتا ہوں، پھر تمہیں پورا پورا [بدلہ] دونگا، چنانچہ جو شخص اچھائی پائے تو وہ اللہ کی حمد خوانی کرے، اور بصورتِ دیگر اپنے آپ کو ہی ملامت کرے)
مسلم نے اسے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
٭ واجب حقوق کی ادائیگی کا فائدہ آخر کار بندے کو ہی ہوگا، اسے انسان دنیا و آخرت میں ثواب کی صورت میں وصول کریگا، جیسے کہ فرمان باری تعالی ہے:
{فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ}
جو کوئی بھی ایمان کی حالت میں نیکیاں کمائے، تو اسکی جد وجہد کا انکار نہیں ہوگا، اور بیشک ہم اسکے [اعمال] لکھ رہے ہیں
[الأنبياء : 94]
ایسے ہی فرمایا:
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا}
بلاشبہ جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے رہیں، یقیناً ہم اچھے عمل کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرینگے
[الكهف : 30]
٭ اسی طرح واجب حقوق میں کلی یا جزوی کمی کرنے کی سزا شرعی حقوق ضائع کرنے والے انسان پر ہی ہوگی، کیونکہ اس نے اللہ رب العالمین کے حقوق ضائع کر کے دنیا اور آخرت میں اپنا ہی نقصان کیا ہے، اللہ تعالی تو سب سے بے نیاز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ}
اگر تم کفر کرو تو بلاشبہ اللہ تعالی تم سے بے نیاز ہے، وہ اپنے بندوں سے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اسکا شکر کرو، تو یہ اسکے ہاں پسندیدہ ہے۔
[الزمر : 7]
اور فرمایا:
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ}
اے لوگو! تم ہی اللہ کے محتاج ہو، جبکہ اللہ تعالی بے نیاز، اور قابل ستائش ہے۔
[فاطر : 15]
ایسے ہی فرمایا:
{هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ }
یہ تم ہی ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کیلیے بلایا جاتا ہے، چنانچہ کچھ لوگ بخیلی کرتے ہیں، اور جو کوئی بخیلی کرے گا، وہ اپنے آپ سے بخیلی کر رہا ہے۔
[محمد : 38]
اسی طرح فرمایا:
{وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا}
اور جو شخص گناہ کمائے بیشک وہ اپنی جان پر ہی گناہ کماتا ہے، اور اللہ تعالی خوب جاننے والا، اور حکمت والا ہے
[النساء : 111]
٭ اور عقیدہ توحید اللہ تعالی کا واجب حق ہے اس کی ادائیگی ضروری ہے، اور اسکی حفاظت پر اللہ تعالی نے عظیم ثوب کا وعدہ بھی کیا ہے، فرمایا:
{وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ 31] هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ}
اور جنت کو پرہیز گاروں کے قریب کر دیا جائے گا وہ کچھ دور نہ ہوگی [ 31] یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، یہ ہر رجوع کرنے والے اور [حقوق الہی]کی حفاظت کرنے والے کیلیے ہے۔
[ق :31- 32]
اور جس شخص نے اللہ کے حقوق ضائع کرتے ہوئے شرک کیا ، غیر اللہ کو واسطہ بنا کر اس کی عبادت ، ان سے فریاد رسی ، مشکل کشائی ، اور حاجت روائی کا مطالبہ کیا، اور انہی پر توکل رکھا تو وہ ناکام و نا مراد اور شرک کا مرتکب ہوا، اسکی تمام جد و جہد غارت ہو گئی ، اللہ تعالی اس سے کوئی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کریگا، اور اسے کہا جائے گا: جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم رسید ہو جاؤ، اِلّا کہ وہ شرک سے توبہ کر لے، ایک حدیث میں ہے کہ:
(ایک جہنمی آدمی کو قیامت کے دن کہا جائے گا: اگر تمہارے پاس زمین کی ساری دولت آ جائے تو کیا آگ سے بچنے کیلئے اسے فدیہ میں دے دو گے؟ تو وہ کہے گا: ہاں، پھر اسے کہا جائے گا: "تمہیں اس سے بھی آسان کام کا حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرانا، لیکن تم شرک سے بالکل باز نہ آئے")
بخاری و مسلم نے اسے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
٭ تمام کے تمام فرائض و واجبات عقیدہ توحید کے بعد ہیں اور اسی کے ماتحت ہیں، بلکہ ان کی قبولیت بھی عقیدہ توحید پر ہی منحصر ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
(میں نے کہا: یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت پانے والا خوش نصیب کون ہوگا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: "جس نے سچے دل کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہا ہوگا") بخاری
اور اگر مکلف بندہ مخلوق کے واجب حقوق ضائع کر دے تو وہ اپنے آپ کو ہی دنیا و آخرت میں ثواب سے محروم کریگا، اور اگر ان میں کمی ہوئی تو اسی کے مطابق ثواب میں بھی کمی ہو جائے گی۔
٭ روکھی سوکھی اور تنگی ترشی میں انسان کی زندگی تو گزر ہی جاتی ہے، اس لیے انسان کی زندگی واجب حقوق پورے ہونے پر موقوف نہیں ہے، کیونکہ [اگر کوئی حق رہ بھی گیا تو]اللہ کے ہاں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے سب جمع ہو جائیں گے، اور اللہ تعالی مظلوم کو ظالم اور غاصب سے حق لیکر دے گا، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
(قیامت کے دن تم مستحق افراد کو ان کے حقوق ضرور ادا کرو گے، حتی کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیا جائے گا) مسلم
Last edited: