• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حقوق الوالدین

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حقوق الوالدین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۞ وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۝۲۳ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا كَـمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۝۲۴ۭ (بنی اسرآئیل:۲۳ ۔۲۴)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کو مت پوجو، اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو تم ان کو اونہہ، اُف بھی مت کہو، اور نہ ان پر خفا ہو، اور نہ ان کو جھڑکو، اور ان سے ادب، عزت اور نرم لہجے میں بات چیت کرو، اور ان کے لیے اطاعت کا بازو محبت سے بچھا دو، اور کہو اے پروردگار! تو ان کی کم زوری میں ان پر ایسا ہی رحم فرما، جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے مہربانی سے پالا پوسا ہے۔
اللہ تعالیٰ مربی حقیقی ہے، والدین یعنی ماں باپ مربی مجازی ہیں اور پرورش کرنے والے ہیں، اولاد پر ماں باپ کا بڑا احسان ہے کہ بچپن سے بچوں کی پرورش کرتے اور پالتے ہیں، اور اس سلسلہ میں ہر قسم کی تکلیفیں اُٹھاتے ہیں، اس لیے اولاد پر حق ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی خدمت کریں، اور ہر طرح سے آرام پہنچانے کی کوشش کریں، اور کسی قسم کی تکلیف نہ دیں، اس خدمت گزاری کو اللہ تعالیٰ نے فرض کردیا ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا آیت میں فرمایا۔
والدین کی اطاعت اور خدمت گزاری فرض ہے۔ اگر وہ کافر مشرک بھی ہوں، تب بھی ان کی دنیوی خدمت کی جائے، لیکن شرک اور کفر کے متعلق ان کی بات قابل تسلیم نہ ہوگی، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ حُسْـنًا۝۰ۭ وَاِنْ جَاہَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا۝۰ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۸ (عنکبوت:۸)
اور ہم نے انسان کو جتا دیا کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر وہ تجھ کو مجبور کریں کہ خدا کے ساتھ اس کو شریک کر جس کا تجھ کو علم نہیں ہے تو ان کا کہا نہ مان، تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اور تم کو تمہارے کرتوت سے آگاہ کردوں گا۔
اور دوسری جگہ فرمایا:

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ۝۰ۚ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰي وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ۝۰ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ۝۱۴ وَاِنْ جَاہَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۙ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا۔ (لقمان:۱۴۔۱۵)
اور ہم نے انسان کو جتا دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اس کی ماں نے اس کو تھک تھک کر پیٹ میں رکھا، اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑایا، کہ وہ میرا اور اپنے ماں باپ کا احسان مانے، میرے ہی پاس پھر آنا ہے، اگر وہ دونوں تجھ کو اس پر مجبور کریں کہ میرے ساتھ اس کو شریک کر جس کو تو نہیں جانتا، تو ان کا کہنا نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی سے گزران کر۔
جو لوگ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، ان کی خدمت بجالاتے ہیں، اور ان کے لیے خدا سے دعائے خیر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس نیکی کے بدلہ میں ان کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے، اور اپنی خوشنودی کی لازوال دولت ان کو عطا فرماتا ہے:

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ اِحْسٰـنًا۝۰ۭ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۝۰ۭ وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَۃً۝۰ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىہُ وَاَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ۝۰ۭۚ اِنِّىْ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۱۵ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـيِّاٰتِہِمْ فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّۃِ۝۰ۭ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ۝۱۶ (الاحقاف:۱۵۔۱۶)
اور ہم نے انسان کو تاکید کرکے کہہ دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، اس کی ماں نے اس کو تکلیف کرکے پیٹ میں اُٹھایا، اور تکلیف کرکے جنا، اور تیس مہینوں تک اس کو پیٹ میں رکھا، اور دودھ چھڑایا، یہاں تک کہ وہ بچے سے بڑھ کر جوان ہوا، اور چالیس برس کا ہوا، اس نے کہا کہ میرے پروردگار! مجھ کو توفیق دے کہ تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں، جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا، اور اس کی کہ میں وہ کام کروں، جس کو تو پسند کرے، اور میری اولاد کو نیک کر، میں تیری طرف لوٹ کر آیا، اور میں تیرے فرماں برداروں میں سے ہوں۔ یہی وہ ہیں، جن کے اچھے کام ہم قبول کرتے ہیں، اور برے کاموں سے درگزر کرتے ہیں، یہ جنت والوں میں ہوں گے، یہ سچائی کا وعدہ ہے، جس کا ان سے وعدہ کیا گیا۔
نبی ﷺ نے اس کی مزید تاکید فرمائی۔ ایک شخص نے آکر آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں۔ تین دفعہ آپ نے یہی جواب دیا، چوتھی دفعہ اس نے پھر پوچھا، تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری، ترمذی)
خدا نے ماؤں کی نافرمانی حرام کردی ہے۔ آپ نے فرمایا:

اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّہَاتِ۔ (بخاری)
خدا نے ماؤں کی نافرمانی تم پر حرام کردی ہے۔
اور فرمایا کہ ماں باپ کا نافرمان جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

ثَلٰثَۃٌ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ الْعَاقُ لِوَالِدَیْہِ وَالدَّیُّوْثُ وَالرِّجَلَۃُ۔ (نسانی، ترغیب)
تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہونے پائیں گے، (۱) ماں باپ کا نافرمان، (۲) دیوث، (۳) مردوں سے مشابہت کرنے والی عورت۔
اسلام میں مخلوقات انسانی میں والدین کی بڑی اہمیت ہے، کیوںکہ یہی دونوں تخلیق انسانی کی ظاہر علت مادی ہیں، لیکن ان میں ماں کو باپ سے زیادہ تفوق اور برتری حاصل ہے، کیوںکہ ماں نے اپنے بچے کو اپنا خون پلا پلا کر بڑھایا، اور نو مہینے اس کی مشکل سہہ کر اور سختی اُٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا، اور پھر اسے جننے کی ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا،پھر نوپید مضغہ گوشت کو اپنی چھاتیوں سے لگا کر اپنا خون پانی ایک کرکے پلایا، اور اس کی پرورش اور غور و پرداخت میں اپنی ہر راحت قربان، اپنا ہر آرام ترک اور اپنی ہر خوشی نثار کردی، ایسی حالت میں کیا ماں سے بڑھ کر انسان اپنے وجود میں مخلوقات میں کسی اور کا محتاج ہے؟
اسی لیے شریعت محمدی نے اپنی تعلیم میں جو بلند سے بلند مرتبہ اس کو عنایت کیا ہے، وہ اس کی سزاوار ہے، ماں کے ساتھ جو دوسری ہستی بچہ کی تولید و تکوین میں شریک ہے، وہ باپ ہے، اور اس میں شک نہیں کہ اس کی نشوونما اور تربیت میں ماں کے بعد باپ ہی کی جسمانی اور مالی کوششیں شامل ہیں، اس لیے جب بچہ ان کی محنتوں اور کوششوں سے قوت کو پہنچے، تو اس پر فرض ہے کہ اپنے ماں باپ سے حاصل کی ہوئی قوت کا شکرانہ ماں باپ کی خدمت کی صورت میں ادا کرے، چناںچہ اسلام نے نہ صرف پہلے صحیفوں کی طرح ان کی عزت کرنے اور ان سے ڈرتے رہنے کے وعظ پر اکتفا کی، بلکہ ان کی خدمت، ان کی اطاعت اور ان کی امداد، ان کی دلداری وغیرہ ہر چیز فرض قرار دی، بلکہ یہاں تک تاکید کی کہ ان کی بات پر اُف تک نہ کرو، ان کے سامنے ادب سے جھکے رہو، ان کی دعاؤں کو اپنے حق میں قبول سمجھو، ان کی خدمت انسان کا سب سے بڑا جہاد ہے، بلکہ ان ہی کی خوشنودی سے خدا کی خوشنودی ہے، جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

رِضَی الرَّبِّ فِی رِضَی الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِیْ سَخَطِ الْوَالِدِ۔ (ترمذی)
خدا کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے، اور خدا کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا:

یَا رَسُوْلَ اللہِ! مَا حَقُّ الْوَالِدَیْنِ عَلٰی وَلَدِہِمَا قَالَ ہُمَا جَنَّتُکَ وَ نَارُکَ۔ (ابن ماجۃ)
یارسول اللہ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے، فرمایا تیری جنت دوزخ وہی دونوں ہیں۔
یعنی ماں باپ کا اولاد پر بہت حق ہے، ان کے ساتھ نیکی کرنا، اور رنج نہ پہنچانا، اور ماں باپ کے ساتھ سلوک کرنا دخول بہشت کا سبب ہے، اور انہیں رنجیدہ کرنا دوزخ میں جانے کا موجب ہے، اس لیے فرمایا کہ تیری جنت اور دوزخ وہی دونوں ہیں، اور ماں باپ کو شفقت اور رحمت اور پیار سے دیکھنے سے حج مقبول کا ثواب ملتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں:

اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ وَلَدٍ بَّارٍ یَنْظُرُ اِلٰی وَالِدَیْہِ نَظْرَۃَ رَحْمَۃٍ اِلَّا کَتَبَ اللہُ لَہٗ بِکُلِّ نَظْرَۃٍ حَجَّۃً مَّبْرُوْرَۃً قَالُوْا وَاِنْ نَظَرَ کُلَّ یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ قَالَ نَعَمْ وَاللہُ اَکْبَرُ وَ اَطْیَبُ۔ (مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ماں باپ کے ساتھ جو نیکی کرنے والا فرزند اپنے ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو خدا اس کے لیے ہر مرتبہ دیکھنے کے بدلے میں اس کے اعمال نامے میں ایک حج مقبول کا ثواب لکھتا ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا، اگرچہ وہ دن میں سو مرتبہ دیکھے، آپ نے فرمایا ہاں! اللہ بہت بڑا اور پاکیزہ تر ہے۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر اولاد ماں باپ کو پیار و محبت سے دیکھے، تو حج مقبول کا ثواب پائے گی، دن میں سو مرتبہ دیکھے، تو سو مرتبہ حج کا ثواب ملے گا، اطاعت اور خدمت گزاری کا اس سے بھی کہیں زیادہ ثواب ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ اَصْبَحَ مُطِیْعًا لِلہِ فِیْ وَالِدَیْہِ اَصْبَحَ لَہٗ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ الْجَنَّۃِ فَاِنْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا وَّمَنْ اَصْبَحَ عَاصِیًا لِلہِ فِیْ وَالِدَیْہِ اَصْبَحَ لَہٗ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ النَّارِ اِنْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا قَالَ رَجُلٌ وَّاِنْ ظَلَمَاہُ قَالَ وَاِنْ ظَلَمَاہُ وَاِنْ ظَلَمَاہُ وَاِنْ ظَلَمَاہُ۔ (رواہ البیہقی)
جو شخص والدین کے حق اطاعت ادا کرنے میں خدا کا فرماں بردار ہوتا ہے، اس کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر والدین میںسے ایک زندہ ہوتا ہے تو ایک دروازہ کھلتا ہے، اور جو شخص والدین کے حق میں خدا کا نافرمان ہوتا ہے، تو اس کے لیے دوزخ کے دو دروازے کھل جاتے ہیں، اگر ماں باپ میں سے ایک زندہ ہوتا ہے تو ایک دروازہ کھل جاتا ہے، اس شخص نے عرض کیا کہ اگرچہ ماں باپ اولاد پر ظلم کریں، آپ نے فرمایا اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، یعنی تین بار یہی فرمایا۔
ماں باپ کی اطاعت و معصیت چوںکہ خدا کے حکم سے ہی ہے، اس لیے ان کی اطاعت خدا کی اطاعت اور ان کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اَلْوَالِدُ اَوْسَطُ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ فَاِنْ شِئْتَ فَحَافِظْ عَلَی الْبَابِ اَوْضَیِّعْ۔ (ترمذی، ابن ماجۃ)
باپ جنت کے دروازوں کا عمدہ ترین دروازہ ہے، یعنی بہشت میں جانے کا سبب باپ کی رضامندی کی نگہداشت ہے،تو جو بہشت میں بہترین دروازے میں جانا چاہے اسے باپ کی رضامندی کی نگہداشت کرنی چاہیے۔
اسلام میں جہاد کی اہمیت جو کچھ ہے، وہ ظاہر ہے، مگر والدین کی خدمت گزاری کا درجہ اس سے بھی بڑھ کر ہے، ان کی اجازت کے بغیر جہاد بھی جائز نہیں، کہ جہاد کے میدان میں سر ہتھیلی پر رکھ کر جانا ہوتا ہے، اور ہر وقت جان جانے کا امکان رہتا ہے، اس لیے والدین کی اجازت کے بغیر ان کو اپنے اس جسم و جان کو کھونے کا حق نہیں ہے، جس کو ان کی خدمت گزاری کے لیے وقف ہونا چاہیے تھا، اسی لیے حدیث شریف میں ہے کہ حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر یہ عرض کیا:

یَا رَسُوْلَ اللہِ! اَرَدْتُّ اَنْ اَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ اَسْتَشِیْرُکَ فَقَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ اُمٍّ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَالْزِمْہَا فَاِنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ رِجْلِہَا۔ (احمد، نسائی)
یارسول اللہ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے پاس مشورہ لینے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں، فرمایا کیا تیری ماں موجود ہے، عرض کیا ہاں، فرمایا اس کی خدمت میں حاضر رہنے کو لازم پکڑلے، کیوںکہ جنت اس کے پاؤں کے نیچے ہے۔
افضل اعمال میں نماز کے بعد باپ کی خدمت گزاری کا درجہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا:

اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللہِ قَالَ الصَّلٰوۃُ لِوَقْتِہَا قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (بخاری و مسلم)
کہ خدا کو کون سا عمل بہت پسندیدہ ہے، فرمایا وقت پر نماز پڑھنا ہے، میں نے عرض کیا، پھر کون سا عمل؟ فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا، میں نے کہا پھر کون سا؟ فرمایا راہِ خدا میں جہاد کرنا۔
ماں باپ کی نافرمانی گناہ کبیرہ اور حرام ہے، اور ماں باپ کا نافرمان جنت میں نہیں جائے گا، اس لیے کسی صورت میں بھی ماں باپ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

اَوْصَانِیْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَشْرِ کَلِمَاتٍ قَالَ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ شَیْئًا وَّاِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِدَیْکَ وَاِنْ اَمَرَاکَ اَنْ تَخْرُجَ مِنْ اَہْلِکَ وَمَالِکَ وَلَا تَتْرُکَنَّ صَلٰوۃً مَکْتُوْبَۃً مُّتَعَمِّدًا فَاِنَّ مَنْ تَرَکَ صَلٰوۃًمَّکْتُوْبَۃً مُّتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللہِ وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرًا فَاِنَّہَ رَاْسُ کُلِّ فَاحِشَۃٍ وَّاِیَّاکَ وَالْمَعْصِیَۃَ فَاِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اللہِ وَاِیَّاکَ وَالْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ وَاِنْ ہَلَکَ النَّاسُ وَاِذَا اَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ وَّاَنْتَ فِیْہِمْ فَاثْبُتْ وَانْفِقْ عَلٰی عِیَالِکَ مِنْ طَوْلِکَ وَلَا تَرْفَعْ عَنْہُمْ عَصَاکَ اَدَبًا وَاَخِفْہُمْ فِی اللّٰہِ۔ (احمد)
رسول اللہ ﷺ نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی، (۱) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی حالت میں کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ، اگرچہ تم کو مار ڈالا جائے، اور جلا دیا جائے، (۲) ماں باپ کی نافرمانی نہ کرنا اگرچہ تم کو یہ حکم دیں کہ تم اپنے بیوی بچوں اور مال دولت کو چھوڑ دو، (۳) اور فرض نماز کو قصداً نہ چھوڑو، کیوںکہ جس نے قصداً نماز چھوڑ دی اللہ تعالیٰ کا ذمہ اس سے بَری ہے، یعنی خدا کا امن باقی نہیں رہے گا، (۴) اور شراب نہ پیو، کیوںکہ شراب تمام بے حیائیوں کی جڑ ہے، (۵) گناہ سے اپنے آپ کو بچائے رہو، کیوںکہ گناہ کے ساتھ خدا کا غصہ اُترتا ہے، (۶) اور کافروں سے لڑائی کے دن بھاگنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، اگرچہ لوگ لڑائی میں مر رہے ہوں، (۷) اور جب لوگوں میں بیماری پھیل جائے، اور تم ان لوگوں میں موجود ہو، تو تم وہاں ٹھہرے رہو، یعنی موت کے خوف سے وہاں سے نہ بھاگو، (۸) اپنے کنبے کے لوگوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرو، (۹) اور ادب کی لاٹھی ان سے نہ اُٹھاؤ، یعنی اپنے بال بچوں کو ادب سکھاؤ، اسی ادب میں اگر لاٹھی مارنے کی نوبت آجائے تو ادب سکھانے کے لیے ان کو مارو، (۱۰) اور خدا کے بارے میں ان کو ڈراؤ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین شخصوں کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، (۱) والدین کے نافرمان کی طرف، (۲) شراب پینے والے کی طرف، (۳) احسان جتانے والے کی طرف۔ (ابن حبان)
اور فرمایا آپ نے کہ ماں باپ کا نافرمان نہ جنت میں جائے گا، اور نہ جنت کی خوشبو پائے گا۔ (ترغیب)
اور آپ نے فرمایا کہ ماں باپ کو گالی دینے والے پر خدا کی لعنت برستی ہے لَعَنَ اللہُ مَنْ سَبَّ وَالِدَیْہِ۔ (ابن حبان، ترغیب)
ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے سے اور ان کی خدمت گزاری کرنے سے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کی مصیبتوں کو دُور کردیتا ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے والدین کی اطاعت کے ثواب کو ایک نہایت مؤثر حکایت میں فرمایا کہ تین مسافر راہ میں چل رہے تھے کہ اتنے میں موسلادھار بارش برسنے لگی، تینوں نے بھاگ کر ایک غار میں پناہ لی، قضا سے ایک چٹان اوپر سے گری، کہ اس سے اس غار کا منہ بند ہوگیا، اب ان کی بے کسی اور بے چارگی اور اضطراب اور بے قراری کا کون اندازہ کرسکتا ہے، ان کی موت سامنے کھڑی نظر آتی تھی، اسی وقت انہوں نے پورے خشوع اور خضوع کے ساتھ دربارِ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے، ہر ایک نے کہا، کہ اسی وقت ہر ایک کو اپنی خالص نیکی کا واسطہ خدا کو دینا چاہیے۔
تو پہلے نے کہا، بارِ الہا! تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے، اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے، میں بکریاں چرایا کرتا تھا، اور اسی پر ان کی روزی کا سہارا تھا، میں شام کو بکریاں لے کر جب گھر آتا، تو دودھ دوھ کر پہلے اپنے ماں باپ کی خدمت میں لاتا تھا، جب وہ پی چکتے، تب میں اپنے بچوں کو پلاتا۔ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں بکریاں چرانے کو دُور نکل گیا، لوٹا تو میرے والدین سوچکے تھے، میں دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا، نہ ان کو جگاتا تھا کہ ان کی راحت میں خلل آجاتا، اور نہ ہٹتا تھا کہ خدا جانے کس وقت ان کی آنکھیں کھلیں، اور دودھ مانگیں، بچے بھوک سے بلک رہے تھے، مگر مجھے گوارا نہ تھا کہ میرے والدین سے پہلے میرے بچے سیر ہوں، میں اسی طرح پیالے میں دودھ لیے رات ان کے سرہانے کھڑا رہا، اور وہ آرام کرتے رہے، خداوند تجھے معلوم ہے کہ میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لیے کیا ہے، تو اس غار کے منہ سے چٹان کو ہٹا دے۔ یہ کہنا تھا کہ چٹان کو خودبخود جنبش ہوئی اور غار کے منہ سے تھوڑا سا سرک گئی اور اس کے بعد باقی دو مسافروں کی باری آئی، اور انہوں نے بھی اپنے کاموں کا وسیلہ بناکر دعا کی اور غار کا منہ کھل گیا، اور وہ سلامتی کے ساتھ باہر نکل آئے۔ (بخاری)
والدین کے لیے دعا
نیک بخت اولاد کی سعادت مندی یہ ہے کہ ماں باپ کے حق میں نیک دعائیں کرے، اور اس کی تعلیم قرآن اور حدیث میں دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے لیے دعا کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ تم اس طرح دعا کیا کرو:

رَّبِّ ارْحَمْہُمَا كَـمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۝۲۴ۭ (بنی اسرائیل:۲۴)
اے میرے پروردگار! جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے، اور میرے حال پر وہ رحم کرتے رہے ہیں، اسی طرح تو بھی ان پر اپنا رحم کیجیو۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَاب۔ (ابراہیم:۴۱)
ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے وقت یہ بھی کہا کہ اے ہمارے پروردگار! جس دن (اعمال) کا حساب ہونے لگے، مجھ کواور میرے ماں باپ کو، اور سب ایمان والوں کو بخش دیجیو۔
رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝۰ۭ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِـمِيْنَ اِلَّا تَبَارًا۝۲۸ۧ (نوح :۲۸)
نوح علیہ السلام نے قوم کی طرف سے مایوس ہوکر یہ دعا کی کہ اے میرے پروردگار! مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو شخص ایمان لاکر میرے گھر میں پناہ لینے آیا ہے، اس کو، اور عام باایمان مردوں اور ایمان والی عورتوں کو بخش دے اور ایسا کرکہ ان ظالموں کی تباہی روز بروز بڑھتی چلی جائے۔
اولاد کی دعا و استغفار ماں باپ کے حق میں ان کے مرنے کے پیچھے اتنا اثر رکھتی ہے کہ اگر ماں باپ اولاد سے ناراض ہوگئے تو حق تعالیٰ ماں باپ کو اس اولاد سے راضی کرا دے گا اور اس کا نام ان لوگوں میں لکھ دے گا، جو ماں باپ کے فرماں بردار ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الْعَبْدَ لَیَمُوْتُ وَالِدَاہُ اَوْ اَحَدُہُمَا وَاِنَّہٗ لَہُمَا لَعَاقٌّ فَلَا یَزَالُ یَدْعُوْ لَہُمَا وَیَسْتَغْفِرُلَہُمَا حَتّٰی یَکْتُبَہُ اللہُ بَارًّا۔ (رواہ البیہقی)
کہ بندے کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک مر جاتا ہے، اور وہ ان کا نافرماں بردار ہوتا ہے، پھر ان کے لیے دعا و استغفار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ خدا اسے سعادت مندوں میں لکھ دیتا ہے۔
اسی طرح سے ماں باپ کے دوستوں کے ساتھ اور ان کے ملنے جلنے والوں کے ساتھ نیکی کرنا گویا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ہے۔ حضرت ابو اسید ساعدیؓ بیان کرتے ہیں:

قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْجَآءَہٗ رَجُلٌ مِّنْ بَنِیْ سَلِمَۃَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللہِ ہَلْ بَقِیَ مِنْ بِرِّ اَبَوَیَّ شَیْءٌ اَبَرُّہُمَا بِہٖ بَعْدَ مَوْتِہِمَا قَالَ نَعَمْ الصَّلٰوۃُ عَلَیْہِمَا وَ الْاِسْتِغْفَارُ لَہُمَا وَانْفَاذُ عَہْدِہِمَا مِنْ بَعْدِہِمَا وَصِلَۃُ الرَّحِمِ الَّتِیْ لَا تُوْصَلُ اِلَّا بِہِمَا وَاِکْرَامُ صَدِیْقِہِمَا۔ (ابوداؤد)
ایک دن ہم پیغمبر خدا ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ دفعۃً بنی سلمہ کے ایک شخص نے آکر عرض کیا، یارسول اللہ! کیا کوئی نیکی باقی ہے، کہ میں اپنے والدین کے ساتھ ان کے مرنے کے بعد کرسکوں، فرمایا ہاں! ان کے لیے دعائے رحمت اور استغفار کرنا، اور ان کے بعد ان کے عہد و پیمان کو جاری کرنا، اور صرف ان کی رضامندی اور خوشی کے لیے صلہ رحمی کرنا اور ان کے ملنے والوں کی تعظیم و توقیر کرنا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کے بعد ماں باپ کا حق ہے، اللہ تعالیٰ رب حقیقی ہے اور والدین رب مجازی ہیں، اس لیے ان دونوں کے حقوق کی ادائیگی سے آدمی نجات کا مستحق ہوسکتا ہے اور فلاح دارین حاصل کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو سعادت مند اور ماں باپ کا مطیع اور فرماں بردار بنائے، آمین یا رب العالمین۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
 
Top