• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حقيقی اولياء الله كی پہچان

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
664
ری ایکشن اسکور
741
پوائنٹ
301
حقيقی اولياء الله كی پہچان
اولیاء الله سے مراد اللہ کے نيك اورمومن بندے ہیں۔ اولیاء الله ميں انبیاء کرام ؑ،ان کے صحابہ اور اہل تقویٰ وایمان سب سے پہلے شامل ہیں۔جو اللہ اور اس کے رسول کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے ہیں ۔اللہ اور اس کے رسول کے مطیع اور فرمانبردار تمام انسان اللہ کے دوست ہیں ،خواہ عرب ہوں یا عجم،سفید ہوں یا سیاہ،امیر ہوں یا غریب،حکمران ہوں یا رعایا،مرد ہوں یا عورتیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((أَلاَ اِنَّ أَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌُعَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ٭الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ))[یونس:۶۲،۶۳]
’’یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔وہ ‘وہ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے)پرہیز رکھتے ہیں۔‘‘
یہی اولیاء اللہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے ہیں ،اللہ کے غصّہ سے بچتے ہیں ،اور اس کی عبادت کا حق ادا کرتے ہیں،جبکہ منع کردہ امور سے دور رہتے ہیں۔مذکورہ صفات کے حامل لوگ ہی اولیاء اللہ ہو سکتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((وَمَا کَانُوْا أَوْلِیَآئَ ہٗ اِنْ أَوْلِیآؤُہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ))[الانفال:۳۴]
’’جب کہ وہ لوگ اللہ کے دوست نہیں ۔اس کے دوست تو سوائے پرہیز گاروں کے اور اشخاص نہیں‘‘
شعبدہ باز،عزتوں كے لٹيرے،بھانڈ،خلاف عقل شیطانی حرکات کرنے والے ، شريعت سے نابلداور جھوٹی کرامات کے دعویدار اولیاء اللہ نہیں ہو سکتے۔بلکہ حقیقی اولیاء اللہ وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر ایمان لاتے ہیں جیسا کہ اوپر گزرا ہے،خواہ ان سے کسی کرامت کا ظہور ہو یا نہ ہو۔
ا نبیاء کرام ؑکے بعد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ،لوگوں میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار اور افضل ہیں۔اور ان میں سے اکثر سے کسی خرق عادت امر کا ظہور نہیں ہواجس کو لوگ کرامت کا نام دیتے ہیں(جیسا کہ بعض جھوٹے لوگ اس کے دعویدار ہیں)چونکہ صحابہ کرام مومن ،پرہیز گار،اللہ اور اس کے دین کا علم رکھنے والے تھے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس جیسی کرامات سے لاپرواہ کر دیا۔اللہ تعالیٰ فرشتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
((لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِأَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ٭یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضیٰ وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ))[الانبیائ: ۲۷،۲۸]
’’کہ وہ کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں ۔وہ ان کے آگے پیچھے کے تمام امور سے واقف ہے وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو۔وہ تو خود ہیبت الہی سے لرزاں وترساں ہیں‘‘
پس کسی شخص کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ رسولوں،ملائکہ یا اولیاء اللہ کی عبادت کرے،ان سے نذر مانے،ان کے لئے ذبح کرے،بیماری سے شفا کے لئے ان سے دعا مانگے،دشمن کے خلاف ان سے مدد طلب کرے یا عبادت کی کسی بھی قسم کو ان کی طرف پھیر دے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْ مَعَ اللّٰہِ أَحَداً))[الجن:۱۸]
’’اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کی ہیںپس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((وَقَضیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ))[الاسرائ:۲۳]
’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سواکسی اور کی عبادت نہ کرنا۔‘‘
یعنی یہ اللہ کا حکم اور وصیت ہے۔اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَمَا أُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ))[البیّنۃ:۵]
’’انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریںاسی کے لئے دین کو خالص رکھیں‘‘
اور اس معنی کی کئی آیات موجود ہیں۔
اسی طرح نيكی كی نيت سے اولیاء الله کی قبور کا طواف کرنا بھی ناجائز ہے۔کیونکہ طواف صرف بیت اللہ کے ساتھ خاص ہے،اس کے علاوہ کسی بھی جگہ کا طواف کرنا جائز نہیں ہے۔لہذا جس شخص نے بھی تقرب حاصل کرنے کے لئے کسی قبر کا طواف کیا تو اس نے شرک کیا۔جس طرح غیر اللہ کے لئے نماز پڑھنا،نذر ماننااور ذبح کرناشرک ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ٭لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ))[الانعام:۱۶۲،۱۶۳]
’’آپ فرما دیجئیے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں‘‘
ہاں البتہ زندہ حاضر اور قدرت رکھنے والے کسی شخص سے مدد کے لئے سوال کرنا شرک نہیں بلکہ جائز ہے۔جیسا کہ موسیٰ کے قصہ میں موجود ہے:
((فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلٰی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ))[القصص:۱۵]
’’موسیٰ ؑکی قوم والے نے اس کے خلاف جواس کے دشمنوں میں سے تھااس سے فریاد کی‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا عمومی فرمان ہے:
((وَتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ))[المائدۃ:۲]

’’نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو‘‘
یا جیسا کہ حدیث میں موجود ہے:
((واللّٰہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون أخیہ))
’’اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مددکرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے‘‘
اس معنی میں کئی آیات وأحادیث موجود ہیں۔اور یہ ایسا معاملہ ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
ماخوذ من فتاوی ومقالات ابن بازؒ
 
Top