• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حق مہر کے مسئلہ پر جواب مطلوب ہے ۔

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
ایک حق مہر گائے اور بکریوں کے حساب سے لیا جاتا ہے وہاں کا رواج یہ ہے کہ نکاح کرتے وقت حق مہر بیس یا تیس گائے یا اسے بھی زیادہ تعین کیا جاتاہے اور آدمی چار یا پانچ گائے دیکر عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی شروع کرتا ہے اسی کے ماں باپ کے گھر میں جب تک مقررہ مہر پورا ادا نہ کیا جائے چاہے چار سال لگ جائیں اسکے وہاں بچے بھی ہو جاتے ہیں اور یاد رہے لڑکی کا حق مہر اسکے بھائی یا والد کو دینا پڑھتا ہے لڑکی کو نہیں کیا یہ سب جائز ہے ؟ کیا پورا حق مہر ادا کئے بغیر مرد اپنی بیوی کے سات ازدواجی تعلق قایم کرسکتا ہے ؟

محترم بارادرز رہنمائی فرمائیں
@اسحاق سلفی
@مقبول احمد سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
حق مہر کے بغیر بیوی سے تعلق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کوئی آدمی اگر اپنی بیوی کو حق مہر ادا نہیں کرتا، اور اپنی بیوی سے تعلقات قائم کر لیتا ہے، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے۔؟ کیا وہ زنا تو نہیں کر رہا، کیونکہ حق مہر کا ادا کرنا ضروری ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حق مہر کی ادائیگی نکاح کی شرائط میں سے ایک ہے لیکن حق مہر معجل اور غیر معجل یعنی مؤجل دونوں طرح ہو سکتا ہے یعنی نکاح کے موقع پر بھی دیا جا سکتا ہے اور زوجین کی باہمی رضامندی سے بعد میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ پس حق مہر شوہر کے ذمہ قرض رہتا ہے جو وقت مقررہ یا عند الطلب یعنی بیوی کے مطالبہ کے وقت واجب الادا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 2 کتاب الصلوۃ

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
معجل اور موجل کی وضاحت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایک نکاح کے موقع پر اسی ہزاروپیہ حق مہر معجل اور تین لاکھ موجل طے ہوا،اس معجل اور موجل کی اصطلاح سے کیامرا د ہے؟نکاح فارم پر بھی موجل اور غیر موجل لکھا ہوتا ہے،اس کے متعلق وضاحت مطلوب ہے۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہ حق مہر جو موقع پر ادا کردیاجائے اسے معجل یا غیر موجل کہتے ہیں اور جسے آئندہ کسی وقت ادا کرنا ہو اسے غیر معجل یا موجل کہا جاتا ہے حق مہر کے متعلق ہمارا معاشرہ بہت افراط وتفریط کاشکار ہے،حالانکہ اس کےمتعلق قرآن وحدیث کے واضح احکام موجود ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَءاتُوا النِّساءَ صَدُقـٰتِهِنَّ نِحلَةً فَإِن طِبنَ لَكُم عَن شَىءٍ مِنهُ نَفسًا فَكُلوهُ هَنيـًٔا مَريـًٔا ﴿٤﴾... سورةالنساء


"اور عوتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وه خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو"
اس آیت کریمہ میں حق مہر کی ادائیگی کے متعلق تاکید کی گئی ہے کہ ان کے حق مہر برضاء ورغبت پورے کے پورے ادا کر دیے جائیں،ہاں اگر وہ از خود بلاجبرواکراہ ا پنی خوشی سے پورا حق مہر یا اس کاکچھ حصہ چھوڑدیں تو وہ خاوند کے لیے حلال وطیب رزق ہے لیکن ان کا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرانے میں ہیرا پھیری سےہرگز کام نہ لیا جائے،ہمارے رجحان کے مطابق نکاح فارم پر معجل اور موجل کی اصطلاح حق مہر پر شب خون مارنے کا ایک چوردروازہ ہے کیونکہ شادی پر دیگر اخراجات کی مد میں لاکھوں روپیہ خرچ کردیاجاتاہے مگر جب حق مہر کی باری آتی ہے تو شرعی حق مہر کا سہارا لے کر سوا بتیس روپے یا اس سے کم وبیش باندھاجاتا ہے۔یا تھوڑی سی رقم موقع پر ادا کردی جاتی ہے اور جھوٹی عزت بحال رکھنے کے لیے لاکھوں حق مہر موجل کردیا جاتاہے،پھر مختلف حیلوں بہانوں سے اسے معاف کرالیاجاتاہے،حالانکہ شریعت میں اس قسم کی گنجائش نہیں ہے حق مہر کو لڑکی پر دباؤ ڈال کرمعاف کرانا غلط اور گناہ کی بات ہے۔اگر وہ از خود کسی قسم کے دباؤ کے بغیر معاف کردے تو اور بات ہے،یہ بات دیکھنے کے لیے کہ وہ خوشی سے معاف کررہی ہے،یہ طریقہ اختیار کیاجائے کہ طے شدہ حق مہر اس کے حوالے کردیاجائے پھر وہ اگر اپنی خوشی سے واپس کردےتو اسے استعمال میں لایا جاسکتاہے،بہرحال حق مہر بیوی کاخاوند کے ذمے ایک فرض ہے جسے بہر صورت ادا کرنا چاہیے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَا استَمتَعتُم بِهِ مِنهُنَّ فَـٔاتوهُنَّ أُجورَهُنَّ فَريضَةً ...﴿٢٤﴾... سورةالنساء


"جن عورتوں سے تم(شرعی نکاح کے بعد) فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا حق مہر ادا کرو۔"
شادی کے موقع پر جہاں دیگر اخراجات پورے کیے جاتے ہیں وہاں حیثیت کے مطابق حق مہر باندھ کر اسے فوراً ادا کردیا جائے،معجل اور غیر موجل کی اصطلاح سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی بیوی پر دباؤ ڈال کر اسے معاف کرایا جائے۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد3۔صفحہ نمبر 343

محدث فتویٰ
 
Top