• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ مروجہ حنفی علما کی نظر میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
حلالہ مروجہ حنفی علماء کی نظر میں
مولانا عثمانی صاحب حدیث «لعن الله المحل والمحلل له»[1]کی شرح میں فرماتے ہیں:
ا س حدیث کی بنا پر نکاح شرط التحلیل بالاتفاق ناجائز ہے البتہ اگر عقد میں تحلیل کی شرط نہ لگائی گئی ہو لیکن دل میں یہ نیت ہو کہ کچھ دن اپنے پاس رکھ کر چھوڑ دوںگا تو حنفیہ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے بلکہ امام ابوثور کا قول ہے کہ ایسا کرنے والا ماجور ہوگا۔‘‘(درس ترمذی:۳۹۸)
مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
’پھر نکاح بشرط التحلیل امام شافعی او رامام احمد کے نزدیک متحقق ہی نہیں ہوتا اور نہ اس سے عورت زوج اوّل کے لئے حلال ہوتی ہے ،جب کہ ہمارے (احناف) کے نزدیک ایسا کرنا اگرچہ حرام ہےلیکن اگر کوئی شخص اس کا ارتکاب کرے گا تو نکاح منعقد ہوجائے گا اور عورت زوج اوّل کے لئے حلال ہوجائے گی۔‘‘ (درس ترمذی:۳۹۸)
مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
’’شافعیہ کےمسلک (کہ حلالہ حرام ہے) پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ایک روایت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:
’’ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرؓ کےپاس آیا او راس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو اس کے بھائی نے اپنے بھائی سے مشورہ کیےبغیر اس کی بیوی (اپنی بھابھی)سے اس نیت سے شادی کرلی تاکہ وہ اپنے بھائی کےلئے اپنی (مطلقہ ثلاثہ) بیوی سے (دوبارہ)نکاح کرنے کو جائز کردے۔ (یعنی بنیۃ التحلیل عارضی نکاح کی بابت پوچھا، جس کو احناف جائز کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور کیااس طرح وہ زوج اوّل کے لئے حلال ہوجائے گی؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: یہ نکاح نہیں ہے، نکاح تو وہ ہے جو (بغیر شرط تحلیل اور بغیر نیت تحلیل کے) اپنی رغبت سے کیا جائے (گویا یہ زنا ہے) ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایسے نکاح کو زنا سمجھتے تھے۔‘‘
اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں ذکر کیا ہے او رصحیح علیٰ شرط الشیخین قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نےبھی اس پر سکوت کیا ہے۔
اس استدلال کا کوئی جواب احقر کی نظر سے نہیں گزرا، البتہ اس کا یہ جواب سمجھ میں آتا ہےکہ قرآن کریم کی آیت: ﴿ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ١ؕ ﴾ میں مطلق نکاح کاذکر ہے خواہ شرط تحلیل کے ساتھ ہو یا بغیر شرط تحلیل کے۔ اس پر خبر واحد سے زیادتی نہیں کی جاسکتی۔‘‘
اس آیت﴿ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ١ؕ ﴾کی تفسیر میں تمام مفسرین حلالے کا یہی واحد مشروع طریقہ بیان کرتے ہیں ، کسی بھی مفسر نے یہ جرأت نہیں کی کہ اس آیت کے عموم سے حلالہ ملعونہ کا بھی جواز ثابت کرے جس سے نکاح متعہ بھی از خود جائز قرار پاجائے۔ ماضی قریب کےچند حنفی مفسرین کےحوالے ملاحظہ فرمائیں ۔ جن سب کا خصوصی تعلق دارالعلوم دیوبند ہی سے ہے جو پاک و ہند کے علمائے احناف کی مسلّمہ مادر علمی ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم لکھتے ہیں:
’’پھر اگر (دو طلاقوں کے بعد) کوئی (تیسری)طلاق بھی دے دے عورت کو تو پھر وہ (عورت) اس (تیسری طلاق دینےوالے) کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس (خاوند) کےسوا اور خاوند کےساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے (اور اس سےہم بستری بھی ہو) پھر اگر یہ (دوسرا خاوند) اس (عورت) کو طلاق دے دے (اور عدت بھی گزر جائے) تو ان دونوں پرکچھ گناہ نہیں کہ (دوبارہ نکاح کرے) بدستور پھر مل جائیں.......‘‘ (آیت کے اس تفسیری ترجمے کے بعد مولانا تھانوی فرماتے ہیں)

ف: اس کو حلالہ کہتے ہیں، جب کوئی شخص اپنی بی بی کو تین طلاق دے گا پھر دوبارہ اس کے ساتھ نکاح کرنےکے لئے یہی حلالے کاطریق شرط ہے..........‘
مولانا تھانوی نے ’’بہشتی زیور‘‘ میں بھی اس مسئلے کو بیان کیا ہے لیکن اس میں اپنے تقلیدی جمود کو نہیں چھوڑا او رحلالے والے نکاح کو حرام اور باعث لعنت قراردینے کے باوجود نکاح کاجواز تسلیم کیا ہے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون
چنانچہ لکھتے ہیں:
’’اگر دوسرےمرد سے اس شرط پر نکاح ہوا کہ صحبت کرکے عورت کو چھوڑ دے گا تو اس اقرار لینے کا کچھ اعتبار نہیں، اس کو اختیار ہے چھوڑے یانہ چھوڑے او رجب جی چاہے چھوڑے او ریہ اقرار کرکےنکاح کرنا بہت گناہ اور حرام ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے ۔لیکن نکاح ہوجاتاہے۔‘‘بہشتی زیور، حصہ چہارم، ص239، طبع مدینہ پبلشنگ کمپنی، کراچی
مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
’’اس کے علاوہ حضرت ابن عمرؓ کے قول میں زنا کے ساتھ اس عمل کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے عدم انعقاد میں نہیں جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے اس معاملے میں زوجین کو تفریق کا کوئی حکم نہیں دیا۔‘‘
اس کو کہتے ہیں، توجيهه القول بما لا يرضي به القائل، یعنی ’’کہنے والے کی بات کی اس طرح توجیہہ کرنا کہ کہنے والا اس کو پسند نہ کرے‘‘ کیونکہ وہ توجیہہ یا تاویل اس کے مقصد اور منشا کے خلاف ہے۔ حضرت ابن عمرؓ کے قول کی توجیہہ عثمانی بھی حضرت ابن عمرؓ کے مقصد و منشا کے یکسر خلاف ہے۔ حضرت ابن عمرؓ اپنے قول میں نکاح حلالہ کی بابت فرما رہے ہیں کہ ہم اسے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زنا کاری سمجھتے تھے اور موصوف اس کا مطلب یہ بیان فرما رہے ہیں کہ زنا کے ساتھ نکاح حلالہ کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے عدم انعقاد میں نہیں۔إنا لله وإنا إليه راجعون۔گویا حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا مطلب یہ تھا کہ نکاح حلالہ والا عمل ہے تو یقیناً زنا لیکن نکاح منعقد ہوگیا۔
مولانا احمد علی سہارنپوری اسی حدیث محلل کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’پہلا لفظ محلل (اسم فاعل، حلالہ کرنے والا ) وہ شخص ہے جس کے ساتھ کسی عورت نے تحلیل کی غرض سے شادی کی۔ دوسرا لفظ مفعول (محلل له) وہ پہلا شوہر ہے جس کی خاطر تحلیل واقع ہورہی ہے۔پہلا شخص (محلل، حلالہ کرنے والا) اس لئے ملعون ہے کہ اس نے جدائی (طلاق) کے ارادے سےنکاح کیا حالانکہ نکاح تو (بیوی کو ) ہمیشہ رکھنے کے لئے مشروع کیا گیا ہے۔ پس اس کی حیثیت کرائے کے سانڈ کی مثل ہوگئی جیسا کہ دوسری حدیث میں آیا ہے۔ اور دوسرا اس لئے ملعون ہے کہ وہ اس قسم کے نکاح کا سبب بنا ہے۔ اور مراد (اس لعنت سے) ان دونوں افراد کی کمینگی (خساست) کا اظہار ہے اس لئے کہ طبع سلیم ان دونوں کے فعلوں (بے غیرتی والے کاموں) سے نفرت کرتی ہے۔ لعنت کی حقیقت مراد نہیں ہے۔‘‘
غور فرمائیے! کہ حدیث کے الفاط کی تشریح بھی خوب ہے اور دونوں کے فعل کو کمینگی اور طبع سلیم کے خلاف بھی تسلیم کررہے ہیں۔ لیکن پھر حنفیت کا رنگ غالب آجاتا ہے اور کہتے ہیں کہ لعنت کی حقیقت مراد نہیں ہے۔
"وقيل المكروه اشتراط الزوج بالتحليل في القول لا في الفية، بل قد قيل اته ماجور بالنية لقصد الاصلاح"
’’او رکہا گیا ہے کہ زبان سے شادی کے وقت حلالے کی شرط کرنا مکروہ ہے، لیکن دل میں نیت ہو تو مکروہ نہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیت کرکے حلالہ کرنے والا ماجور ہے اس لیے کہ اس کا مقصد اصلاح ہے۔‘‘درس ترمذی
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں حلالے کا شرعی طریقہ بتلایا گیا ہے اور شوہر ثانی سے شرط طلاق کو مکروہ تحریمی لکھا گیا ہے۔ لیکن پھر مفتی صاحب کی رگ حنفیت پھڑکی اور دُرّ مختار (فقہ حنفی کی معتبر کتاب) کے حوالے سے یہ عربی عبارت نقل کردی جس کا مطلب وہی ہے کہ اگر دل میں دونوں کی نیت (عارضی نکاح کرکے چھوڑ دینے کی) ہے تو پھر یہ نکاح مکروہ نہیں ہے بلکہ آدمی قصد اصلاح کی وجہ سے ماجور ہوگا۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، عزیز الفتاوی، ج1، ص512، دارالاشاعت کراچی، 1976ء
مولانا رشیداحمد گنگوہی، اس سوال کے جواب میں کہا ہے:
ا
گر ایک ماہ بعد طلاق دینے کی شرط پرنکاح ہوا تو یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں؟ فرماتے ہیں:’’نکاح بشرط طلاق بعد ایک ماہ تو بحکم متعہ کے حرام ہے اگر زبان سے یہ شرط کی جائے اور جو دل میں ارادہ ہے عقد میں ذکر نہیں ہوا تو نکاح صحیح ہے۔‘‘تالیفات رشیدیہ مع فتاویٰ، ص383۔ اداراہ اسلامیات لاہور ، 1992ء
اور زمانہ حال کے ایک اور دیو بندی مفسر قرآن جن کی مفصل تفسیر’روح القرآن‘ کے نام سے چھپ رہی ہے، زیر نگرانی مدیر جامعۃ البنوریہ العالمیہ، کراچی) یہ صاحب اپنی تفسیر میں زیربحث آیت کی وضاحت میں بعنوان ’’حلالہ شرعیہ کی وضاحت‘‘ لکھتے ہیں:
’’اس شرعی اور قانونی صرورت کو پورا کرنے کی ایک شکل یہ ہےکہ مطلقہ عورت کا دوسرے شخص سے اس شرط پر عارضی نکاح ہو کہ وہ شخص ہم بستری کے بعد اس عورت کو طلاق دے دے گا۔
 
Last edited by a moderator:
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top