• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ کیا ہے؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
حلالہ کیا ہے؟

جب كوئى شخص اپنى بيوى كو شرعی طریقہ سےتيسرى طلاق بھى دے دے تو وہ اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے اور اس وقت حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى اور خاوند سے نكاح نہ كر لے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
قال الله تعالى : ( فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ ) البقرة/230
﴿ اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے علاوہ كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے ﴾البقرۃ ( 230 ).

یہ تو شرعی نکاح ہے ،جو آباد رکھنے کیلئے کیا جاتا ہے ،ہاں اگر کسی سبب سے اس نکاح سے طلاق ہوجائے یا خاوند فوت تو بعد عدت پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے ؛
جبکہ اس کے الٹ پہلے خاوند جس نے طلاق دی ہے اس سے دوبارہ نکاح کیلئے ایک وقتی اور جعلی نکاح رچایا جاتا ہے ،جس کا مقصد خاوند کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں ،بلکہ محض پہلے خاوند کیلئے حلال کرنا مقصود ہوتا ہے ،اس لئے یہ نکاح شرعاً جائز نہیں ،
چھٹی صدی کے نامور محدث اور فقیہ امام أبو محمد موفق الدين عبد الله الشهير بابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ)
فرماتے ہیں:
فصل: فإن شرط عليه التحليل قبل العقد، ولم يذكره في العقد ونواه في العقد أو نوى التحليل من غير شرط فالنكاح باطل أيضا. قال. إسماعيل بن سعيد: سألت أحمد عن الرجل يتزوج المرأة، وفي نفسه أن يحللها لزوجها الأول، ولم تعلم المرأة بذلك. قال: هو محلل، إذا أراد بذلك الإحلال، فهو ملعون. وهذا ظاهر قول الصحابة - رضي الله عنهم - وروى نافع، عن ابن عمر، أن رجلا قال له: امرأة تزوجتها، أحلها لزوجها، لم يأمرني، ولم يعلم. قال: لا، إلا نكاح رغبة، إن أعجبتك أمسكها، وإن كرهتها فارقها
اگر شادی کرنے والے پر عقد نکاح سے قبل یہ شرط رکھی کہ تم سے یہ نکاح اس عورت کو (پہلے خاوند کیلئے) حلال کرنے کیلئے کیا جارہا ہے ،اور عقد نکاح میں اس شرط کا ذکر نہ بھی ہو بلکہ محض اس نیت سے نکاح کیا جائے ، یا عقد نکاح سے پہلے یہ حلالہ کی شرط نہ ہو بلکہ صرف حلالہ کی نیت سے نکاح کردیا جائےتو بھی یہ نکاح باطل ہے ،(یعنی نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ) اور ایسا نکاح کرنے والا ملعون ہے ؛
اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ظاہر قول بھی یہی ہے ،
اور جناب نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ میں نے ایک عورت سے اس نیت سے نکاح کیا تاکہ وہ پہلے خاوند کیلئے حلال ہوجائے ،جبکہ اس نے مجھے اس نکاح کیلئے نہیں کہا اور نہ ہی اس کے علم میں ہے ، تو کیا یہ نکاح اور تحلیل درست ہے ؟ فرمایا نہیں شرعی نکاح وہی ہے جو رغبت سے کیا جائے ،اگر عورت اسے پسند آئے تو اسے اپنی زوجیت میں باقی رکھے ،اور اگر ناپسند ہو تو علیحدگی کرلے ،
امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی کسی عورت سے اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ یہ پہلے خاوند کیلئے حلال ہوجائے ،جبکہ اس عورت کو اس کے اس ارادے کا علم بھی نہ ہو ،تو امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا یہ نکاحِ حلالہ ہے (جو شرعاً باطل نکاح ہے )
امام ابن قدامہؒ لکھتے ہیں :
وجملته أن نكاح المحلل حرام باطل، في قول عامة أهل العلم؛ منهم الحسن والنخعي، وقتادة، ومالك، والليث، والثوري، وابن المبارك، والشافعي، وسواء قال: زوجتكها إلى أن تطأها. أو شرط أنه إذا أحلها فلا نكاح بينهما، أو أنه إذا أحلها للأول طلقها
( "المغني" (7/ 138).

ترجمہ :
نکاحِ حلالہ اکثر اہل علم کے قول کے مطابق حرام اور باطل ہے ، حلالہ کو باطل کہنے والوں میں امام حسن بصریؒ ،امام ابراہیم نخعیؒ ،امام قتادہؒ ،امام مالکؒ ،امام لیث بن سعدؒ ،امام سفیان ثوریؒ ،امام عبداللہ بن مبارکؒ ،امام شافعیؒ جیسے نامور مشاہیر ائمہ کرام ہیں " (دیکھئے المغنی لابن قدامہؒ ،جلد7 ص180 )

اور اس نكاح ميں جو اسے اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كرے گا شرط يہ ہے كہ وہ نكاح صحيح ہو، چنانچہ مؤقت يعنى وقتى اور كچھ مدت كے ليے نكاح ( جسے نكاح متعہ بھى كہا جاتا ہے ) يا پھر پہلے خاوند كے ليے بيوى كو حلال كرنے كے ليے نكاح كر كے پھر طلاق دے دينا ( يعنى نكاح حلالہ ) يہ دونوں حرام اور باطل ہيں، عام اہل علم كا يہى قول ہے، اور اس سے عورت اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہو گى.

ديكھيں: المغنى ( 10 / 49 - 50 ).

نكاح حلالہ كى حرمت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح احاديث سے ثابت ہے.

وقد روى أبو داود (2076) أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :
(لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ) وصححه الألباني في صحيح أبي داوود .
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 )
اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

والْمُحَلِّلَ هو من تزوجها ليحلها لزوجها الأول . وَالْمُحَلَّلَ له هو زوجها الأول .
المحلل: وہ شخص ہے جو حلالہ كرتا ہے تا كہ بيوى اپنے خاوند كے ليے حلال ہو جائے.
المحلل لہ: اس كا پہلا خاوند.

وروى ابن ماجة (1936) عن عقبة بن عامر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ ؟ قَالُوا : بَلَى ، يَا رَسُولَ اللَّهِ . قَالَ : هُوَ الْمُحَلِّلُ ، لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ) وحسنه الألباني في صحيح سنن ابن ماجة .
اور سنن ابن ماجہ ميں سیدناعقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتا ًليے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ضرور بتائيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
 
Last edited:

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
اور یہ صرف احناف ہی ہیں جنھوں نے اس لعنتی عمل کا ڈھونگ رچایا ہے باقی دوسروں کے یہاں نہیں ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
نکاح حلالہ باطل و حرام ہے ؛
نكاح التحليل حرام وباطل
الحمد لله رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین
إذا طلق الرجل امرأته الطلقة الثالثة فلا تحل له حتى تنكح زوجاً غيره ، لقول الله تعالى : (فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ) البقرة/230 .
ويشترط في هذا النكاح الذي يحله لزوجها الأول أن يكون نكاحاً صحيحا ، فالنكاح المؤقت (نكاح المتعة) أو النكاح من أجل أن يحلها لزوجها الأول ثم يطلقها (نكاح التحليل) كلاهما محرم وباطل في قول عامة أهل العلم ، ولا تحل به المرأة لزوجها الأول .
انظر : "المغني" (10/49-55) .
وقد صحت الأحاديث عن الرسول صلى الله عليه وسلم بتحريم نكاح التحليل .
روى أبو داود (2076) أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ) .
وصححه الألباني في سنن أبو داوود .
والْمُحَلِّلَ هو من تزوجها ليحلها لزوجها الأول . وَالْمُحَلَّلَ له هو زوجها الأول .
وروى ابن ماجة (1936) عن عقبة بن عامر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ ؟ قَالُوا : بَلَى ، يَا رَسُولَ اللَّهِ . قَالَ : هُوَ الْمُحَلِّلُ ، لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ) وحسنه الألباني في صحيح سنن بن ماجة .
وروى عبد الرزاق (6/265) عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أنه قال وهو يخطب الناس : (والله لا أوتى بمحلٍّ ومحلَّل له إلا رجمتهما) .
وسواء في ذلك إذا صرح بقصده عند العقد واشترطوا عليه أنه متى أحلها لزوجها طلقها ، أو لم يشترطوا ذلك وإنما نواه في نفسه فقط .
روى الحاكم عن نافع أن رجلا قال لابن عمر : امرأة تزوجتها أحلها لزوجها ، لم يأمرني ولم يعلم . قال : لا ، إلا نكاح رغبة ، إن أعجبتك أمسكها ، وإن كرهتها فارقها . قال : وإن كنا نعده على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم سفاحاً . وقال : لا يزالان زانيين ، وإن مكثا عشرين سنة .
وسئل الإمام أحمد عن الرجل يتزوج المرأة ، وفي نفسه أن يحلها لزوجها الأول ، ولم تعلم المرأة بذلك . فقال : هو محلل ، إذا أراد بذلك الإحلال فهو ملعون .
وعلى هذا ، فلا يجوز لك أن تتزوج هذه المرأة وأنت تريد بذلك إحلالها لزوجها الأول ، وفعل ذلك من كبائر الذنوب ، ولا يكون النكاح صحيحاً ، بل زنى ، والعياذ بالله .

المصدر: الإسلام سؤال وجواب


ترجمہ :
نكاح حلالہ حرام اور باطل ہے ؛
جب كوئى شخص اپنى بيوى كو تيسرى طلاق بھى دے دے تو وہ اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے اور اس وقت حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى اور خاوند سے نكاح نہ كر لے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے علاوہ كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے (البقرۃ ( 230 ).

اور اس نكاح ميں جو اسے اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كرے گا شرط يہ ہے كہ وہ نكاح صحيح ہو، چنانچہ مؤقت يعنى وقتى اور كچھ مدت كے ليے نكاح ( جسے نكاح متعہ بھى كہا جاتا ہے ) يا پھر پہلے خاوند كے ليے بيوى كو حلال كرنے كے ليے نكاح كر كے پھر طلاق دے دينا ( يعنى نكاح حلالہ ) يہ دونوں حرام اور باطل ہيں، عام اہل علم كا يہى قول ہے، اور اس سے عورت اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہو گى.

ديكھيں: المغنى ( 10 / 49 - 50 ).

نكاح حلالہ كى حرمت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح احاديث سے ثابت ہے.

ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

الْمُحَلِّلَ : وہ شخص ہے جو حلالہ كرتا ہے تا كہ بيوى اپنے خاوند كے ليے حلال ہو جائے.

الْمُحَلَّلَ لہ: اس كا پہلا خاوند.

اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتا ليے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟

صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ضرور بتائيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور عبدالرزاق نے مصنف عبد الرزاق ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ انہوں نے لوگوں كو خطبہ ديتے ہوئے فرمايا:

" اللہ كى قسم ميرے پاس جو حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والا لايا گيا ميں اسے رجم كر دونگا "

مصنف عبدالرزاق ( 6 / 265 ).

يہ سب برابر ہے اور كوئى فرق نہيں كہ عقد نكاح كے وقت اس مقصد كى صراحت كى گئى ہو اور اس پر شرط ركھى گئى ہو كہ جب اس نے اسے اس كے پہلے خاوند كے ليے حلال كر ديا تو وہ اسے طلاق دے گا، يا اس كى شرط نہ ركھى ہو، بلكہ انہوں نے اپنے دل ميں ہى يہ نيت كر ركھى ہو، يہ سب برابر ہے.

امام حاكم رحمہ اللہ نے نافع سے روايت كيا ہے كہ ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كيا:

ايك عورت سے نكاح اس ليے كيا كہ اسے پہلے خاوند كے ليے حلال كروں نہ تو اس نے مجھے حكم ديا اور نہ وہ جانتا ہے، تو ابن عمر كہنے لگے:

نہيں، نكاح تو رغبت كے ساتھ ہے، اگر وہ تو تجھے اچھى لگے اور پسند ہو تو اسے ركھو، اور اگر اسے ناپسند كرو تو اس كو چھوڑ دو.

وہ بيان كرتے ہيں: ہم تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں اسے زنا شمار كرتے تھے.

اور ان كا كہنا تھا: وہ زانى ہى رہينگے چاہے بيس برس تك اكٹھے رہيں.

اور امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ:
ايك شخص نے كسى عورت سے شادى كى اور اس كے دل ميں تھا كہ وہ اس عورت كو اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كريگا، اور اس كا عورت كو علم نہ تھا ؟

تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب ديا:
يہ حلالہ كرنے والا ہے، جب وہ اس سے حلالہ كا ارادہ ركھے تو وہ ملعون ہے"

اس بنا پر آپ كے ليے اس عورت سے پہلے خاوند كے ليے حلال كرنے كى نيت سے نكاح كرنا جائز نہيں، اور ايسا كرنا كبيرہ گناہ ہو گا، اور يہ نكاح صحيح نہيں بلكہ زنا ہے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
نکاح حلالہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ کے خیال میں نکاح حلالہ کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ نکاح حلالہ کیا ہے، نکاح حلالہ یہ ہے کہ مرد کسی ایسی عورت سے نکاح کا قصد کرے جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں، یعنی پہلے ایک طلاق دی اور رجوع کر لیا، پھر دوسری طلاق دی اور رجوع کر لیا اور پھر تیسری طلاق دی، اب یہ عورت اس شوہر کے لئے حلال نہیں ہے جس نے اسے تین طلاقیں دے دیں ہیں الا یہ کہ یہ کسی دوسرے مرد سے برضا و رغبت شادی کرے اور وہ اس سے صحبت بھی کرے اور پھر وہ اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے یا نکاح فسخ کر دے تو پھر پہلے شوہر کے لئے اس سے نکاح کرنا حلال ہو گا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الطَّلـٰقُ مَرَّ‌تانِ ۖ فَإِمساكٌ بِمَعر‌وفٍ أَو تَسر‌يحٌ بِإِحسـٰنٍ ۗ ...﴿٢٢٩﴾... ۗ فَإِن طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيهِما أَن يَتَر‌اجَعا إِن ظَنّا أَن يُقيما حُدودَ اللَّهِ ۗ وَتِلكَ حُدودُ اللَّهِ يُبَيِّنُها لِقَومٍ يَعلَمونَ ﴿٢٣٠﴾... سورة البقرة
’’طلاق( جس کے بعد رجوع ہو سکتا ہے صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دی جائے تو ) پھر عورتوں کو یا تو بطریق شائستہ نکاح میں رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا… پھر اگر شوہر(دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اس پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہو گی ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے۔‘‘

تو اگر کوئی ایسی عورت کی طرف قصد کرے جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہوں اور وہ اس سے اس نیت سے شادی کرے کہ جب یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے گی تو یہ اسے طلاق دے دے گا یعنی اس سے مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے گا اور پھر عدت گزرنے کے بعد یہ نئے نکاح کے ساتھ اپنے پہلے شوہر کے پاس چلی جائے گی تو یہ نکاح فاسد ہے نبیﷺ نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا، کیونکہ یہ اس سانڈ بکرے کی طرح ہے جسے بکریوں کا مالک ایک معین مدت کے لئے کسی سے ادھار لیتا ہے اور پھر اسے اس کے مالک کو واپس کر دیتا ہے یہ مرد بھی سانڈ کی طرح ہے کہ اسے بھی کہا جاتا ہے کہ اس عورت سے شادی کر لو اور پھر اس سے مباشرت کر کے اسے طلاق دے دینا۔ یہ ہے نکاح حلالہ! اور اس کی حسب ذیل دو صورتیں ہوتی ہیں۔

1۔ بوقت عقد ہی یہ شرط لگائی جائے، مثلاً شوہر سے کہا جائے کہ ہم آپ کی شادی اس عورت سے اس شرط پر کرتے ہیں کہ اس سے مباشرت کر کے اسے طلاق دے دو۔

2۔ ایسی شرط تو عائد نہ کی جائے لیکن نیت یہی ہو ، نیت شوہر کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور بیوی اور اس کے وارثوں کی طرف سے بھی، اگر نیت شوہر کی طرف سے ہے تو چونکہ اسے تو علیحدگی کا اختیار حاصل ہے لہٰذا اس طرح کے عقد کی صورت میں اس کے لئے یہ بیوی حلال نہ ہو گی کیونکہ اس نے وہ نیت نہیں کی جو مقصود نکاح ہوتی ہے کیونکہ نکاح سے مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ الفت و محبت سے بیوی کے ساتھ زندگی بسر کی جائے، عفت و پاکدامنی اختیار کی جائے اور اورلاد حاصل کی جائے تو چونکہ یہ نیت نکاح کے بنیادی مقصد ہی کے خلاف ہے لہٰذا یہ نکاح صحیح نہ ہو گا۔

عورت اور اس کے وارثوں کی نیت کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے اور اب تک میرے نزدیک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان میں سے کون سا قول زیادہ صحیح ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ نکاح حلالہ حرام ہے، اس سے بیوی پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوتی کیونکہ یہ نکاح ہی صحیح نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج3ص277
محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
حلالہ کرنا ،کروانا شریعت میں قابل سزا جرم ہے


عن عمر بنِ الخطاب رضي الله عنه أنَّه قال: "لا أُوتي بمحلِّل ولا محلَّل له إلا رجمتهما"،
وفي رواية أخرى: "لا أوتى بمحلِّل ولا محلَّلة إلا رجمتهما".

مصنف ابن ابی شیبہ17080 ،مصنف عبدالرزاق 10777،السنن الکبری بیہقی 14576 ،وصححہ الحافظ ابن قیم فی "اغاثۃ اللفہان "
سیدنا عمرؓ فرماتے تھے کہ " میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کرانے والے لائے گئے تو میں انھیں رجم کردوں گا۔ "
 
Top