معین
رکن
- شمولیت
- اپریل 26، 2011
- پیغامات
- 27
- ری ایکشن اسکور
- 145
- پوائنٹ
- 49
السلام عليكم
حال ہی مے ahnafexpose.com کے کچہ مقالے پڑھے- دیکھ کر افسوس ہوا اور غصہ بھی آیا- عام طور پر میں یہاں پوسٹ نہیں کرتا کیونکہ اردو ٹائپ کرنے میں ابھی کافی کمزور ہوں- اب ارادہ کر لیا ہے تو ایک موضوع دھیرے دھیرے شروع کرونگا انشاء اللھ-
اس سند میں، جیسا کی عربی عبارت سے واضح ہے، عبد الله بن عون کسی نامعلوم شخص سے روایت کر رہے ہیں جیسا کی تحدیث کے الفاظ سے واضح ہے- ابن عون کہتے ہیں "بیان کیا ہم سے اہل کوفہ میں سے ایک شیخ نے"- تو یہ کوفی شیخ مجہول رہے- یہی بات کتاب السنھ کے محقق شیخ محمد بن سعید القحطانی نے بھی کہی ہے، جس پر تنقید کرتے ہوۓ ahnafexpose کے محدث صاحب کہتے ہیں "یہ محقق کی صریح خطا ہے، ابو الجھم کا ثقہ ہونا ہم نقل کرتے ہیں"- اس کے جواب یہ ہے:
١۔ پہلے یہ تو ثابت کریں کہ کیا واقعی ابن عون ان ابو الجھم سے ہی روایت کر رہے ہیں؟؟ محقق نے تو اس لۓ اس کو مشکوک سمجھا کیونکہ ان کے نزدیک یہ ورایت کرنے والا کوئی نامعلوم شخص ہے جس کو ابن عون نے "شیخ من اہل الکوفھ" کہ کر ذکر کیا ہے- اب کسی راوی کے شک سے ان کا ابو الجھم سے روایت کرنا ثابت تو نہیں ہو جاتا- راوی خود یقینی طور پر نہیں کہ رہا کہ ابن عون نے ابو الجھم سے روایت کا اقرار کیا- راوی کے الفاظ اس طرح ہیں "قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ: هُو أَبُو الْجَهْمِ فَكَأَنَّهُ أَقَرَّ أَنَّهُ" یعنی "عبد الله بن عون سے پوچھا گیا: کیا وہ شخص ابو الجھم ہے؟ (راوی کہتا ہے) تو گویا انہونے اس کا اقرار کیا ہو"- "كأنه" کے لفظ سے اس کا غیر یقینی ہونا ظاہر ہوتا ہے-
٢- یہاں جس ابو الجھم کی بات چل رہی ہے وہ العلاء بن موسي نہیں ہے- یہاں کسی کوفی شیخ کی بات چل رہی ہے نہ کہ العلاء البغدادي كي جن کا ترجمہ ہمارے "محدث" صاحب نے پیش کیا ہے-
یہاں کچھ اور روایتیں اس سلسلے کی پیش ہیں- خطیب بغدادی کہتے ہیں:
أخبرنا الحسين بن شجاع أخبرنا عمر بن جعفر بن سلم حدثنا احمد بن علي الأبار حدثنا عبد الأعلى بن واصل حدثنا أبو نعيم ضرار بن صرد قال سمعت سليم بن عيسى المقرئ قال سمعت سفيان بن سعيد الثوري يقول سمعت حماد بن أبي سليمان يقول أبلغوا أبا حنيف المشرك أني من دينه بريء إلى أن يتوب قال سليم كان يزعم أن القرآن مخلوق
أخبرني عبد الباقي بن عبد الكريم قال أخبرنا عبد الرحمن بن عمر الخلال حدثنا محمد بن احمد بن يعقوب حدثني جدي قال حدثني علي بن ياسر حدثني عبد الرحمن بن الحكم بن شتر بن سلمان عن أبيه أو غيره وأكبر ظني أنه عن غير أبيه قال كنت عند حماد بن أبي سليمان إذ أقبل أبو حنيفة فلما رآه حماد قال لا مرحبا ولا أهلا إن سلم فلا تردوا عليه وإن جلس فلا توسعوا له قال فجاء أبو حنيفة فجلس فتكلم حماد بشيء فرده عليه أبو حنيفة فأخذ حماد كفا من حصى فرمى به
ان دو روایتوں میں ضرار بن صرد ہے جو کی سخت ضعیف تھا- دیکھۓ "تحرير تقريب التهذيب" (٢:١٥٠)
سليم بن عيسي المقرئ بھی ناقابل اعتماد تھے-
أخبرنا إبراهيم بن عمر البرمكي أخبرنا محمد بن عبد الله بن خلف الدقاق حدثنا عمر بن محمد بن عيسى الجوهري حدثنا أبو بكر الأثرم قال حدثني هارون بن إسحاق قال سمعت إسماعيل بن أبي الحكم يذكر عن عمر بن عبيد الطنافسي عن أبيه أن حماد بن أبي سليمان بعث إلى أبي حنيفة إني بريء مما تقول إلا أن تتوب قال وكان عنده بن عيينة فقال أخبرني جار لي أن أبا حنيفة دعاه إلى ما استتيب منه بعد ما استتيب
ابن ابی غنیہ کا پڑوسی نامعلوم ہے-
آخر میں ایک اور بات، سب سے پہلے خلق قرآن کا دعوہ جعد بن درہم نے کیا تھا، اور یہ مسئلہ حماد بن ابی سلیمان کی وفات کے بعد ظاہر ہوا تھا- و الله تعالي اعلم
حال ہی مے ahnafexpose.com کے کچہ مقالے پڑھے- دیکھ کر افسوس ہوا اور غصہ بھی آیا- عام طور پر میں یہاں پوسٹ نہیں کرتا کیونکہ اردو ٹائپ کرنے میں ابھی کافی کمزور ہوں- اب ارادہ کر لیا ہے تو ایک موضوع دھیرے دھیرے شروع کرونگا انشاء اللھ-
بقول استاذ ابو حنيفة، حماد بن ابي سليلمان : ابو حنيفہ کافربقول استاذ ابو حنيفة، حماد بن ابي سليلمان : ابو حنيفہ کافر
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنِ بْنِ الْخَرَّازِ أَبُو مُحَمَّدٍ، وَكَانَ، ثِقَةً، ثنا شَيْخٌ، مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ: قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ: هُو أَبُو الْجَهْمِ فَكَأَنَّهُ أَقَرَّ أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ " اذْهَبْ إِلَى الْكَافِرِ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ فَقُلْ لَهُ: إِنْ كُنْتَ تَقُولُ: إِنَّ الْقُرْآنَ مَخْلُوقٌ فَلَا تَقْرَبْنَا
المؤلف: أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل الشيبانيّ البغدادي (المتوفى: 290هـ
الناشر: دار ابن القيم – الدمام
مجلد 01 صفحہ
184
امام سفیان الثوری نے کہا کہ مجھ سے حماد بن ابی سلیمان نے کہا کہ تم اس کافر یعنی ابو حنیفہ کے پاس جا ؤ اور اس سے کہو کہ جب تم نے قرآن کو مخلوق کہا ہے ، تو اب ہمارے پاس نہ آنا
اس سند میں، جیسا کی عربی عبارت سے واضح ہے، عبد الله بن عون کسی نامعلوم شخص سے روایت کر رہے ہیں جیسا کی تحدیث کے الفاظ سے واضح ہے- ابن عون کہتے ہیں "بیان کیا ہم سے اہل کوفہ میں سے ایک شیخ نے"- تو یہ کوفی شیخ مجہول رہے- یہی بات کتاب السنھ کے محقق شیخ محمد بن سعید القحطانی نے بھی کہی ہے، جس پر تنقید کرتے ہوۓ ahnafexpose کے محدث صاحب کہتے ہیں "یہ محقق کی صریح خطا ہے، ابو الجھم کا ثقہ ہونا ہم نقل کرتے ہیں"- اس کے جواب یہ ہے:
١۔ پہلے یہ تو ثابت کریں کہ کیا واقعی ابن عون ان ابو الجھم سے ہی روایت کر رہے ہیں؟؟ محقق نے تو اس لۓ اس کو مشکوک سمجھا کیونکہ ان کے نزدیک یہ ورایت کرنے والا کوئی نامعلوم شخص ہے جس کو ابن عون نے "شیخ من اہل الکوفھ" کہ کر ذکر کیا ہے- اب کسی راوی کے شک سے ان کا ابو الجھم سے روایت کرنا ثابت تو نہیں ہو جاتا- راوی خود یقینی طور پر نہیں کہ رہا کہ ابن عون نے ابو الجھم سے روایت کا اقرار کیا- راوی کے الفاظ اس طرح ہیں "قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ: هُو أَبُو الْجَهْمِ فَكَأَنَّهُ أَقَرَّ أَنَّهُ" یعنی "عبد الله بن عون سے پوچھا گیا: کیا وہ شخص ابو الجھم ہے؟ (راوی کہتا ہے) تو گویا انہونے اس کا اقرار کیا ہو"- "كأنه" کے لفظ سے اس کا غیر یقینی ہونا ظاہر ہوتا ہے-
٢- یہاں جس ابو الجھم کی بات چل رہی ہے وہ العلاء بن موسي نہیں ہے- یہاں کسی کوفی شیخ کی بات چل رہی ہے نہ کہ العلاء البغدادي كي جن کا ترجمہ ہمارے "محدث" صاحب نے پیش کیا ہے-
یہاں کچھ اور روایتیں اس سلسلے کی پیش ہیں- خطیب بغدادی کہتے ہیں:
أخبرنا الحسين بن شجاع أخبرنا عمر بن جعفر بن سلم حدثنا احمد بن علي الأبار حدثنا عبد الأعلى بن واصل حدثنا أبو نعيم ضرار بن صرد قال سمعت سليم بن عيسى المقرئ قال سمعت سفيان بن سعيد الثوري يقول سمعت حماد بن أبي سليمان يقول أبلغوا أبا حنيف المشرك أني من دينه بريء إلى أن يتوب قال سليم كان يزعم أن القرآن مخلوق
أخبرني عبد الباقي بن عبد الكريم قال أخبرنا عبد الرحمن بن عمر الخلال حدثنا محمد بن احمد بن يعقوب حدثني جدي قال حدثني علي بن ياسر حدثني عبد الرحمن بن الحكم بن شتر بن سلمان عن أبيه أو غيره وأكبر ظني أنه عن غير أبيه قال كنت عند حماد بن أبي سليمان إذ أقبل أبو حنيفة فلما رآه حماد قال لا مرحبا ولا أهلا إن سلم فلا تردوا عليه وإن جلس فلا توسعوا له قال فجاء أبو حنيفة فجلس فتكلم حماد بشيء فرده عليه أبو حنيفة فأخذ حماد كفا من حصى فرمى به
ان دو روایتوں میں ضرار بن صرد ہے جو کی سخت ضعیف تھا- دیکھۓ "تحرير تقريب التهذيب" (٢:١٥٠)
سليم بن عيسي المقرئ بھی ناقابل اعتماد تھے-
أخبرنا إبراهيم بن عمر البرمكي أخبرنا محمد بن عبد الله بن خلف الدقاق حدثنا عمر بن محمد بن عيسى الجوهري حدثنا أبو بكر الأثرم قال حدثني هارون بن إسحاق قال سمعت إسماعيل بن أبي الحكم يذكر عن عمر بن عبيد الطنافسي عن أبيه أن حماد بن أبي سليمان بعث إلى أبي حنيفة إني بريء مما تقول إلا أن تتوب قال وكان عنده بن عيينة فقال أخبرني جار لي أن أبا حنيفة دعاه إلى ما استتيب منه بعد ما استتيب
ابن ابی غنیہ کا پڑوسی نامعلوم ہے-
آخر میں ایک اور بات، سب سے پہلے خلق قرآن کا دعوہ جعد بن درہم نے کیا تھا، اور یہ مسئلہ حماد بن ابی سلیمان کی وفات کے بعد ظاہر ہوا تھا- و الله تعالي اعلم