• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفیت کے ساتھ محدثین کا تعصبانہ رویہ

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
السلام علیکم! تحریر ہذا فیس بک پر محمد الفیصل صاحب نے تحریر فرمائی ہے، اس پر مدلل تحقیق سے نوازا جائے ، بالعموم محدثین کرام کا طرز عمل اور بالخصوص امام بخاری و ترمذی کا مچالوں کے ساتھ واضح کیا جائے تب بات ہے! اور ہاں ! تبرا بازی نہ کی جائے جیسا کہ موصوف نے کرنے کی کوشش فرمائی ہے، جزاکم اللہ خیرا۔موصوف کی فیس بک آئی ڈی بھی دیکھ لیں تاکہ جو وہاں بات کرنا چاہے وہاں کر لے۔i
https://www.facebook.com/mohammad.alfaisal.39?fref=ufi

""حنفیت کے ساتھ محدثین کا تعصبانہ رویہ

ایک ساتھی نے لکھا کہ امام ترمذی "جامع السنن" میں دیگر ائمہ کے نام لیکر ان کی فقہی آراء نقل کرتے ہیں،جبکہ حنفی نقطہ نظر کو اول تو وہ نظر انداز کردیتے ہیں اورمجبورا اگر ذکر کیا بھی تو اہل الراے کہہ کرکیا- اس کی کیا توجیہ ممکن ہے؟ ہم نے جو جواب دیا وہ ملاحظہ کیجئے-
----------------------------------

امام ترمذی اور ان کے پیش رو محدثین کا طرز عمل احناف کے ساتھ ان کے متعصابہ رویوں کی عکاسی کرتا ہے-امام ترمذی ایک روایت نقل کرکے وفی الباب کے عنوان سے توثیق کے لئے اس کے دیگر متابعات کی طرف اشارہ کردیتے ہیں،اور وہی روایت کسی اور باب کے تحت جب احناف کے نقطہ نظر کی مؤید بنے تو کہہ دیتے ہیں "وہذا الحدیث لانعرفه إلا من هذا الوجه" -اس طرز عمل کی کوئی علمی توجیہ نہیں کی جاسکی اور کسی نے کی بھی تو مسموع نہیں- اس میں دو راے نہیں کہ یہ قاری کی آنکھ میں دھول جھونکے کا حربہ ہے-ہاں اسکی نفسیاتی تحلیل کرکے یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ نفسِ امّارہ کی چلتر بازیوں کے سامنے تقوی کا طُور بھی کافُور ہوجاتاہے تو امام ترمذی بھی ان کے سامنے مغلوب ہوگئے- مگر ان کی ہمالیہ جیسی جلالت ِشان اب تک ہمارے دلوں میں ایستادہ ہے اور ایسی لغزشوں سے ہم ان کے تقوی وللہیت کو ہر گز ہرگز زیر بحث نہیں لا سکتے کہ اپنی عاقبت ویسے بھی مخدوش ہے-
یہ ممکن نہیں کہ تعصب کی اندرونی نفسیات انسان کے اعضاء وجوارح پر اثرپذیر نہ ہوں - ہم اس کی ایک مثال امام بخاری ہی کے عمل سے دیتے ہیں- امام بخاری نے "التاریخ الکبیر" میں لکھا ہے کہ کہ جب سفیان ثوری کو امام ابوحنیفہ کی خبر ِ وفات ملی تو کہا " الحمدللہ، کان ینقض الاسلام عروة عروة،فما رأيت في الإسلام أشأم منه" ثوری درحقیقت امام ابوحنیفہ کے زبردست مداح تھے انکی طرف یہ قول نعیم بن حماد نے اپنی طرف سے وضع کرکے منسوب کردیا- مگر امام بخاری جو حدیث وعللِ حدیث میں مرتبہ امامت پر فائز ہونے کے ساتھ تاریخ و رجال پر بھی اجتہادی نظر رکھتے تھے اور اپنی مستقل راے رکھتے تھے اس قول کو وہ آنکھیں بندکرکے کیسے نقل کرگئے؟کیا وہ امام ابوحنیفہ کے خلاف نعیم بن حماد کی واضعانہ کام جویوں سے ناواقف تھے؟ نہیں،بالکل نہیں- تو پھر توجیہ کیا ہے؟سادہ لوح یہی توجیہ کریں گے کہ امام کا کام تھا رَطب ویابس اقوال کو جمع کرنا،اورنقدکا کام ناقدین کے سپرد کردیا- حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری بھی تعصب کا شکار ہوگئے تھے- ان کے استاد حمیدی مسلکاً ظاہری تھے اور احناف کے ساتھ ظواہر کی دشمنی مشہور ہے-حمیدی کو امام ابوحنیفہ سے جو نفور تھا اس کے اثر سے امام بخاری بھی محفوظ نہ رہ سکے-اور یہ اس قدر بچکانہ جملہ جو انہوں نے امام کے بارے میں نقل کیا ہے اسی تعصب کا نتیجہ ہے- مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ فن حدیث پر ناقدانہ نظر رکھتے تھے اور ان کی حدیثی خدمات عرب وعجم دونوں کے ہاں معترف بہا ہیں- مرحوم نے ایک نجی مجلس میں کہا کہ امام بخاری کی جلالتِ شان کے کیا کہنے، مگر احناف کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک انہوں نے کیا اسکی سزاء یہ ہوئی کہ ہم جیسے ناقدین بھی ان کے علمی تسامحات اور فروگزاشتوں پر جی بھر کر نقد و جرح کرتے ہیں-
یہ سب حضرات اللہ تعالی کے انتہائی برگزیدہ بندے تھے، ان کے اخلاص اور تقوی وللہیت میں رتی برابر شبہ نہیں-احادیث کے حصول اور پھر ان کے انتخاب،اورجمع وتدوین کی راہ میں ان حضرات نے جو صعوبتیں اٹھائیں،جو مجاہدے کئے ان کی تفصیل پڑھ کر عقل دنگ اور زبان گنگ رہ جاتی ہے-مگر آخرش انسان تھے اور یہ تعصب وغیرہ انسانی فطرت کا لازمہ ہے""
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
السلام علیکم! تحریر ہذا فیس بک پر محمد الفیصل صاحب نے تحریر فرمائی ہے، اس پر مدلل تحقیق سے نوازا جائے ، بالعموم محدثین کرام کا طرز عمل اور بالخصوص امام بخاری و ترمذی کا مچالوں کے ساتھ واضح کیا جائے تب بات ہے! اور ہاں ! تبرا بازی نہ کی جائے جیسا کہ موصوف نے کرنے کی کوشش فرمائی ہے، جزاکم اللہ خیرا۔موصوف کی فیس بک آئی ڈی بھی دیکھ لیں تاکہ جو وہاں بات کرنا چاہے وہاں کر لے۔i
https://www.facebook.com/mohammad.alfaisal.39?fref=ufi

""حنفیت کے ساتھ محدثین کا تعصبانہ رویہ

ایک ساتھی نے لکھا کہ امام ترمذی "جامع السنن" میں دیگر ائمہ کے نام لیکر ان کی فقہی آراء نقل کرتے ہیں،جبکہ حنفی نقطہ نظر کو اول تو وہ نظر انداز کردیتے ہیں اورمجبورا اگر ذکر کیا بھی تو اہل الراے کہہ کرکیا- اس کی کیا توجیہ ممکن ہے؟ ہم نے جو جواب دیا وہ ملاحظہ کیجئے-
----------------------------------

امام ترمذی اور ان کے پیش رو محدثین کا طرز عمل احناف کے ساتھ ان کے متعصابہ رویوں کی عکاسی کرتا ہے-امام ترمذی ایک روایت نقل کرکے وفی الباب کے عنوان سے توثیق کے لئے اس کے دیگر متابعات کی طرف اشارہ کردیتے ہیں،اور وہی روایت کسی اور باب کے تحت جب احناف کے نقطہ نظر کی مؤید بنے تو کہہ دیتے ہیں "وہذا الحدیث لانعرفه إلا من هذا الوجه" -اس طرز عمل کی کوئی علمی توجیہ نہیں کی جاسکی اور کسی نے کی بھی تو مسموع نہیں- اس میں دو راے نہیں کہ یہ قاری کی آنکھ میں دھول جھونکے کا حربہ ہے-ہاں اسکی نفسیاتی تحلیل کرکے یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ نفسِ امّارہ کی چلتر بازیوں کے سامنے تقوی کا طُور بھی کافُور ہوجاتاہے تو امام ترمذی بھی ان کے سامنے مغلوب ہوگئے- مگر ان کی ہمالیہ جیسی جلالت ِشان اب تک ہمارے دلوں میں ایستادہ ہے اور ایسی لغزشوں سے ہم ان کے تقوی وللہیت کو ہر گز ہرگز زیر بحث نہیں لا سکتے کہ اپنی عاقبت ویسے بھی مخدوش ہے-
یہ ممکن نہیں کہ تعصب کی اندرونی نفسیات انسان کے اعضاء وجوارح پر اثرپذیر نہ ہوں - ہم اس کی ایک مثال امام بخاری ہی کے عمل سے دیتے ہیں- امام بخاری نے "التاریخ الکبیر" میں لکھا ہے کہ کہ جب سفیان ثوری کو امام ابوحنیفہ کی خبر ِ وفات ملی تو کہا " الحمدللہ، کان ینقض الاسلام عروة عروة،فما رأيت في الإسلام أشأم منه" ثوری درحقیقت امام ابوحنیفہ کے زبردست مداح تھے انکی طرف یہ قول نعیم بن حماد نے اپنی طرف سے وضع کرکے منسوب کردیا- مگر امام بخاری جو حدیث وعللِ حدیث میں مرتبہ امامت پر فائز ہونے کے ساتھ تاریخ و رجال پر بھی اجتہادی نظر رکھتے تھے اور اپنی مستقل راے رکھتے تھے اس قول کو وہ آنکھیں بندکرکے کیسے نقل کرگئے؟کیا وہ امام ابوحنیفہ کے خلاف نعیم بن حماد کی واضعانہ کام جویوں سے ناواقف تھے؟ نہیں،بالکل نہیں- تو پھر توجیہ کیا ہے؟سادہ لوح یہی توجیہ کریں گے کہ امام کا کام تھا رَطب ویابس اقوال کو جمع کرنا،اورنقدکا کام ناقدین کے سپرد کردیا- حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری بھی تعصب کا شکار ہوگئے تھے- ان کے استاد حمیدی مسلکاً ظاہری تھے اور احناف کے ساتھ ظواہر کی دشمنی مشہور ہے-حمیدی کو امام ابوحنیفہ سے جو نفور تھا اس کے اثر سے امام بخاری بھی محفوظ نہ رہ سکے-اور یہ اس قدر بچکانہ جملہ جو انہوں نے امام کے بارے میں نقل کیا ہے اسی تعصب کا نتیجہ ہے- مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ فن حدیث پر ناقدانہ نظر رکھتے تھے اور ان کی حدیثی خدمات عرب وعجم دونوں کے ہاں معترف بہا ہیں- مرحوم نے ایک نجی مجلس میں کہا کہ امام بخاری کی جلالتِ شان کے کیا کہنے، مگر احناف کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک انہوں نے کیا اسکی سزاء یہ ہوئی کہ ہم جیسے ناقدین بھی ان کے علمی تسامحات اور فروگزاشتوں پر جی بھر کر نقد و جرح کرتے ہیں-
یہ سب حضرات اللہ تعالی کے انتہائی برگزیدہ بندے تھے، ان کے اخلاص اور تقوی وللہیت میں رتی برابر شبہ نہیں-احادیث کے حصول اور پھر ان کے انتخاب،اورجمع وتدوین کی راہ میں ان حضرات نے جو صعوبتیں اٹھائیں،جو مجاہدے کئے ان کی تفصیل پڑھ کر عقل دنگ اور زبان گنگ رہ جاتی ہے-مگر آخرش انسان تھے اور یہ تعصب وغیرہ انسانی فطرت کا لازمہ ہے""
آپ نے اتنا طویل کلام نقل کر دیا اس مفہوم کو سمجھنے کے لیے حنفیت اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ میں فرق کرنا ضروری ہے کیونکہ حنفیت کے بہت سے مسائل امام ابو حنیفہ کی رائے سے تصادم رکھتے ہیں اور امام ابو حنیفہ کے بارے میں جرح پر مبنی اقوال کو حنفیت کے خلاف سمجھنا مناسب نہیں
اور ابتدائی طور پر یہ شاگردانہ نسبت کب باقاعدہ مسلک میں بدلی اس کا حقیقی تعین ناممکن تو نہیں لیکن دشوار ضرور ہے اور
سب سے آخری بات متقدمین کی اکثر کتب میں ہم یہ اصطلاح پڑھتے ہیں اہل الرائے اور اہل الحدیث تو پہلے ان اصطلاحات پر کلام کریں کہ آیا یہ فرق صحیح ہے یا نہیں اور پھر یہ بھی کہ اس کا انطباق کن لوگوں پر ہو رہا ہے ؟؟؟
اور آخری بات یہ کہ کون سا منھج صحیح ہے اور کون سا غلط ؟؟
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
محدثین وہ جماعت ہیں جو تعصب سے بالا تر ہوکرمحض للہ وفی للہ عدل وانصاف کے راستے پر قایم رہ کرحدیث کی خدمت کی ہے یہ انکا تقوی اور خلوص وللہیت ہے کہ انہوں نے صحیح اور غیر صحیح میں تمیز پیدا کرکے صحیح احادیث کا ذخیرہ الگ اورغیر صحیح کا ذخیرہ الگ کردیا ۔صحیح حدیث کے مقابلے میں جس کا بھی قول آیا اسے انہوں نے رد کردیا۔چونکہ احناف مسلک کا دارومدارقیاس اور راے پر ہے اور اسلام کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہے اور راے و قیاس قرآن وحدیث کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتی اسلیے جہاں جہاں راے اورقیاس قرآن وحدیث کے روشن تعلیمات سے ٹکراے محدثین کرام نے اسے رد کرکے قرآن وسنت کو راجح قرار دیا۔ محدثین کرام کو متعصب قرار دینااس بات کی دلیل ہے کہ قایل خود متعصب ہے۔اگر وہ متعصب نہ ہوتا تو محدثین کرام کو متعصب نہ کہتاکیونکہ محدثین نے اللہ اور اسکے رسول کے قول کو راجح قرار دیاہے۔فافھم جیدا۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
تحریر کہتی ہے کہ امام ترمذی و بخاری کے یہ رویے کہ باقی سب کی رائے ذکر کرتے ہیں لیکن احناف کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے ، یہ کس اصول کی پاسداری ہے؟؟؟ اس حؤالے سے مفصل کوئی بات کر سکے تو ضرور کرے جزاکم اللہ خیرا۔ دیکھیں کسی رائے کو خلاف کتاب و سنت قرار دے کر رد کرنا اور چیز ہے اور کسی رائے کو کسی مکتب فکر کی طرف سے ہونے کی بنا پر قابل اعتناء ہی نہ جاننا اور چیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال اوپر کی تحریر میں جیسے مفسل اعتراضات ہیں ان کا ویسا ہی مفسل شق وار جواب آنا چاہیے ۔ اور یہ وہی لوگ شاید دے سکین جو علم حدیث میں مہارت کے ساتھ ساتھ تاریخ حدیث و فقہ میں بھی درک رکھتے ہوں ۔
@ابوالحسن علوی @انس @حافظ طاہر اسلام عسکری @راجا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بالکل اس الزام کی تحقیق ہونی چاہیے کہ کیا واقعی محدثین نے احناف کے ساتھ تعصب برتا ہے ؟
اور اس بات کی تحقیق بھی ہونی چاہیے کہ احناف نے محدثین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟
اور اس امر کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ احناف نے ہر وہ حدیث جو ان کی فقہ کی مخالف تھی اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
صرف اعتراض کرنے سے بات نہیں بنتی جوابی اعتراض کو بھی مدنظر رکھا جائے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
امام ترمذی اور ان کے پیش رو محدثین کا طرز عمل احناف کے ساتھ ان کے متعصابہ رویوں کی عکاسی کرتا ہے-امام ترمذی ایک روایت نقل کرکے وفی الباب کے عنوان سے توثیق کے لئے اس کے دیگر متابعات کی طرف اشارہ کردیتے ہیں،اور وہی روایت کسی اور باب کے تحت جب احناف کے نقطہ نظر کی مؤید بنے تو کہہ دیتے ہیں "وہذا الحدیث لانعرفه إلا من هذا الوجه"
اس کی کچھ مثالیں عنایت فرمائیں!!!

اس طرز عمل کی کوئی علمی توجیہ نہیں کی جاسکی اور کسی نے کی بھی تو مسموع نہیں- اس میں دو راے نہیں کہ یہ قاری کی آنکھ میں دھول جھونکے کا حربہ ہے-ہاں اسکی نفسیاتی تحلیل کرکے یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ نفسِ امّارہ کی چلتر بازیوں کے سامنے تقوی کا طُور بھی کافُور ہوجاتاہے تو امام ترمذی بھی ان کے سامنے مغلوب ہوگئے- مگر ان کی ہمالیہ جیسی جلالت ِشان اب تک ہمارے دلوں میں ایستادہ ہے اور ایسی لغزشوں سے ہم ان کے تقوی وللہیت کو ہر گز ہرگز زیر بحث نہیں لا سکتے کہ اپنی عاقبت ویسے بھی مخدوش ہے-
انا للہ وانا الیہ راجعون!!!

ایک طرف تو محدثین کرام پر دھوکہ دہی اور بے انصافی کا الزام لگایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی معصوم بن کہا جا رہا ہے کہ ہم ان کے تقویٰ اور للّہٰیت کو مطعون نہیں کر رہے ان کی ہمالیہ جیسی جلالتِ شان اب تک ہمارے دلوں میں ایستادہ ہے۔

اگر یہ حضرت محدثین کرام کو ایسا ہی سمجھتے ہیں تو گویا ان کی ثقاہت پر اعتراض کر رہے ہیں۔ پھر ان حضرات کو محدثین کرام کی بیان کردہ احادیث مبارکہ سے استدلال بھی نہیں کرنا چاہئے۔ شیعوں کی طرح اپنی کتب ِ حدیث گھڑ لینی چاہئیں!!!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
انس بھائی اس قسم کا جواب تو خیر عجیب ہے جو آپ نے عنایت فرمایا ہے۔

محدثین کرام کو اگر ہم بجائے متعصب کہنے کے یہ کہیں کہ اس دور کے حالات کی وجہ سے فقہاء (تمام مسالک کے) اور محدثین کے درمیان اس قدر فاصلہ ہو گیا تھا کہ یہ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے تھے۔
اگر ہم بغور دیکھیں تو محدثین اور فقہاء کا طرز استدلال الگ الگ ہے۔ اور پھر احناف اور مالکیہ کا طرز الگ، شوافع کا الگ اور حنابلہ کا ان سے الگ ہے۔ محدثین میں سے اکثر ہمیں شوافع اور حنابلہ یا ان سے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ ان دونوں فریقوں کا طرز یہ ہے کہ یہ عموما ظاہر حدیث کو لیتے ہیں یا اگر فقہ حدیث کو لیتے ہیں تو بھی اولا جرح و تعدیل کی بنیاد پر اور ثانیا تعامل سے قطع نظر۔ اس کے برخلاف احناف اور مالکیہ میں جرح و تعدیل کم ہوتی ہے اور تعامل کا لحاظ زیادہ۔ یہ دو فریق عموما جس حدیث پر تعامل نہیں پاتے اسے لینے میں پس و پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں ائمہ کا زمانہ صحابہ و تابعین سے قریب تر ہے۔ اور ابتدائی زمانہ میں بجائے الفاظ کے عمل کے ذریعے سیکھنے سکھانے کا ذوق زیادہ تھا۔ شوال کے چھ روزوں کی حدیث کو امام مالک نے صرف یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ ہم نے اہل علم میں سے کسی کو یہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

امام مالکؒ امام شافعیؒ کے براہ راست استاد ہیں اور ان کی موطا حدیث کی عظیم الشان کتاب بھی۔ اس وجہ سے ان پر جرح مزید کم ہو جاتی ہے۔
احناف کا طرز محدثین سے کافی ہٹ کر ہے۔ ایک تو فقہ حنفی حکومت میں داخل رہا ہے اور اس کی وجہ سے اسے روز پیش آنے والے نت نئے مسائل کا سامنا رہا ہے اور اس کی وجہ سے اس میں جزئیات کا روز بروز اضافہ ہوتا رہا ہے۔ دوسرا فقہ حنفی کی بنیاد کلیات پر ہے جیسا کہ ابن عبد البر نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ کے سامنے جو معانی قرآن اور احادیث کے مجموعہ سے ایک کلیہ حاصل ہوتا ہے وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور جزئیات کو اس کے مطابق شاذ وغیرہ قرار دیتے ہیں۔ (یہ طرز ابن عباس رض کا بھی ظاہر ہوتا ہے۔)۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ فقہ حنفی و مالکی کی تدوین کے وقت ضعیف رواۃ کم تھے بنسبت اس کے بعد کے۔ بہت سی روایات بعد میں ضعیف ہو گئیں۔ لیکن امام مالک کی موطا نے ان کے بہت سے دلائل کو محفوظ رکھا۔
محدثین کرام کے سامنے جب صحیح سند سے حدیث آتی ہے تو وہ اسے قبول کرتے ہیں اور اس کی نظر سے دیگر چیزوں کو دیکھتے ہیں۔
اب ایک ایسے زمانے میں جب دلائل اور طرز استدلال (طرز استدلال بہت اہم ہے کیوں کہ اکثر اوقات دلیل موجود ہوتی ہے لیکن اس سے استدلال کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ معلوم نہیں ہوتی) کی ترسیل مشکل اور کم ہو اور ایک جلیل القدر محدث کے سامنے ایک حدیث اور اس کے بظاہر خلاف ایک مسئلہ موجود ہو تو وہ اس مسئلہ کو اس حدیث کے خلاف ہی سمجھے گا۔ بقول بعض امام بخاری اپنی کتاب جزء رفع یدین یا جزء قراءۃ میں (اگر ان کتابوں کی ان کی جانب نسبت درست ہے) ابراہیم نخعی جیسے عظیم تابعی پر ان کے مسئلے کے ذریعے طعن کرتے ہیں۔ اس کی ظاہری وجہ یہی معلوم ہوتی ہے ورنہ امام بخاری جیسے جلیل القدر امام سے ہم اس کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟؟؟

امام ترمذیؒ اپنی علل میں امام ابو حنیفہؒ کا ذکر بطور ناقد کے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس کا التزام کیا ہے کہ ان احادیث کو ذکر کریں جن پر اہل علم کے مسالک کی بنیاد ہے۔ اس کے باوجود وہ احناف کا نام نہیں لیتے۔ اس کی ظاہری وجہ غالبا یہ ہے کہ امام ترمذیؒ امام مالک، ثوری، ابن مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق بن ابراہیم کے اقوال کی اپنی اسناد ذکر کی ہیں لیکن ابو حنیفہ کے اقوال کی شاید ان کے پاس سند موجود نہیں تھی۔ تو ایسی صورت میں اگر وہ ابو حنیفہؒ کی طرف نسبت کر کے کوئی قول ذکر کرتے تو اس میں امکان تھا کہ کوئی غلطی ہو جاتی۔ لیکن چوں کہ احناف کا مسلک تیزی سے پھیل رہا تھا تو ان کے سامنے یہ بھی ہوتا تھا کہ اہل علم میں فقہاء کا یہ مسلک ہے۔ چناں چہ انہوں نے اسے جہاں ضروری معلوم ہوا وہاں اہل الرائے کے لفظ سے ذکر کر دیا۔ (یہ یاد رہے کہ اہل الرائے سے احناف اور اہل حدیث سے دیگر سمجھنا درست نہیں بلکہ اہل الرائے سے عموما فقہاء مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔)

البتہ اتنا تسلیم کرنا ہوگا کہ امام ترمذی کے مقابلے میں امام بخاری کے مزاج میں تھوڑی سی سختی تھی۔ یہ سختی ان کی صحیح میں بھی ظاہر ہوئی ہے جس کی وجہ سے امام مسلمؒ حدیث معنعن کے سلسلے میں ان کے طرز عمل کو بغیر ان کا نام لیے خلاف اجماع قرار دیا۔ (امام مسلم کی بات قریب از صواب معلوم ہوتی ہے لیکن صحیح میں اس معمولی سی سختی نے مزید چار چاند ہی لگائے ہیں۔ بعد کے علماء میں ابن حجر وغیرہ نے اس فعل کو بخاری کی ترجیح کی ایک وجہ سمجھا ہے۔) محمد بن یحیی الذهلی اپنے زمانے کے امام ہیں۔ ان کے اور امام بخاری کے درمیان کچھ تلخیاں تھیں جن کی تفصیل سیر اعلام النبلاء وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کی وجہ سے یہ واحد شخص ہیں جن کے نام کے ساتھ امام بخاری عجیب معاملہ کرتے ہیں۔ ان سے چونتیس احادیث روایت کی ہیں۔ کبھی محمد، کبھی محمد بن عبد اللہ اور کبھی محمد بن خالد کہتے ہیں (اصول حدیث کی رو سے یہ تدلیس ہے لیکن اس قدر قلیل تعداد میں یہ قبول ہے جب کہ شیخ ہے بھی ثقہ امام)۔ اور ایسا ہی کچھ معاملہ وہ احناف کے ساتھ کرتے ہیں اور بعض الناس کہتے ہیں۔ تو ان کے مزاج میں تھوڑی سختی ہے لیکن اسے تعصب کہنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

یہ ایک چھوٹا سا عرصہ ہے امام احمد سے امام طحاوی تک کا جس کے بعد امام طحاوی آتے ہیں اور ان کے بعد اس قسم کی چیزیں کم ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد جنہوں نے اس قسم کا معاملہ کیا ہے ان پر تعصب کا الزام بھی آیا ہے۔ اور ابن عبد البر سے تو یہ طریقہ بالکل مختلف ہوجاتا ہے اور علماء حدیث ایک جانب تو ابو حنیفہ پر طعن کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور دوسری جانب مسائل میں بحث کا انداز تبدیل ہو جاتا ہے۔ چناں چہ اس چھوٹے سے عرصہ میں ہم اسے محدثین کا عذر سمجھیں تو یہ بہتر ہے۔

ہذا ما ظہر لی واللہ اعلم۔
 
Top