• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی ،اہل حدیث اختلاف اور عام مسلمان

شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
ایک خط انٹرنیٹ پہ نظر سے گزرا ۔شاید کئی دوستوں کی نظر سے گزرا بھی ہو۔
صاحب تحریر کو میں نہیں جانتا۔
اس میں میرا کوئی لفظ نہیں ۔بلکہ میں خود اس پہ تبصرہ کا حق محفوظ رکھتا ہوں ۔
میری طرف سے اس پر پسند، اورمفید کی تصدیق ہے ۔
اس کے دو مختلف جگہوں پر دو عنوان ہیں ۔ایک وہی جو اوپر لکھا گیا یعنی
Hanafi - Ahle Hadith Issue & General muslims

دوسرا۔
Muslim Unity: The Problems and Challenges


مکرم ومحترم ، زید مجدکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یہ خط ایک عام مسلمان کی طرف سے ہزاروں علمائے امت ،زعمائے امت ، سربراہان ملت اورتمام مسلمانوں کے نام ایک فتنے اور خلفشار سے بچانےکے لئے ایک مؤدبانہ درخواست کے طور پر لکھا جا رہا ہے ،۔آپ حضرات تعلیم وتدریس ، دعوت وتبلیغ ، اصلاح و تزکیہ ، ،تصنیف، فلاحی وسماجی خدمات جیسے مختلف شعبوں میں لگ کرامتِ مسلمہ اور انسانیت کو نفع پہنچا رہے ہیں ،اللہ آپ سب کو قبول فرمائے،اور آپ لوگوں سے امت کو مستفید فرمائے
فقہ کا اختلاف علماء کرام کے بیچ ایک خالص علمی واجتہادی مسئلہ ہے جو امت کے تاریخ کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔ اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح وتفصیل کوقبول کرتے ہوئے اپنی علمی و اجتہادی استعداد اور دماغی حیثیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے ۔ اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ صحابہ وتابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا تھا، ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ وجدال اور سب وشتم کا ذریعہ بنالیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے ۔

موجودہ صورت حال اور ایک نیا سانحہ

لیکن یہ خالص علمی واجتہادی مسئلہ جو سلف والصالحین کے اخلاص کے وجہ سے کبھی امت کے افتراق اور انتشار کا سبب نہیں بناآج ایک فتنہ کی شکل اختیار کر رہا ہے ،جو کسی سے بھی چھپا نہیں ہے ۔
اس سلسلے میں ایک نیا سانحہ یہ جڑ گیا ہے کہ عام مسلمانوں کے وہ تعداد جو صرف دنیوی علم حا صل کیئے ہوئے ہیں انٹرنیٹ /یوٹیوب /فیسبک /کے ذریعہ سے اس مسئلے میں داخل ہو رہے ہیں اس میں امت کے ڈاکٹر،انجینئر، اور اسکے علاوہ وہ تمام لوگ شامل ہیں جو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں ۔
یہ اختلافی موضوعات جو مدرسے کی چہار دیواری اور کتابوں میں قرآن و سنت کے دلیلوں کے ساتھ ہوتا ہے جب کچھ لوگ عوام کے بیچ لیکر آجاتے ہیں تو اس میں اتنے عنصر شامل ہو جاتے ہیں کہ علم کی صاف شفاف ندی ایک گندے نالے میں تبدیل ہو جاتی ہے جیسے کہ جمنا ندی کا حال دلّی میں ہے ۔جسکی وجہ کر عوام کی ایک تعداد اس گندگی میں الجھ گئی ہے جو بحث و مباحثہ تکرار سے بڑھ کر لڑائی جھگڑا کی نوبت تک آگیا ہے پچھلے سال ہمارے آبائی وطن کے قریب گاؤں میں پولیس بھی آگئی تھی اور ایک غیر مسلم حکومتی افسر مسلمانوں کے خالص دینی علمی مسئلہ کے حل کرنے کا ثالث بنا ۔
اس سے پہلے کہ اس مسئلہ کے حل کے لیئے کچھ اقدام کریں چند باتوں کا سمجھنا ضروری ہے۔
ایسے تو ہندستان میں مسلمانوں کے دو بڑے گرو ہیں1۔ اہل حدیث مکتبہ فکر جو فقہ میں کسی امام کی تقلیدنہیں کرتے ، 2۔حنفی حضرات جو فقہ میں امام ابو حنیفہ اور انکے مکتبہ فکر کی تحقیق کی تقلید کرتے ہیں ۔حنفی حضرات میں پھر دو گرو ہ ہیں ۔بریلوی مکتبہ فکر اور دیوبندی مکتبہ فکر لیکن عوام کی بحثوں میں عام طور پر بریلوی ۔دیوبندی حضرات کے مدعے زیرِ بحث نہیں ہوتے خاص کر پڑھے لکھے طبقے میں باالکل نہیں ۔کیونکہ یہ الزامی اور التزامی نوعیت کے ہیں ۔
لہٰذا عوام کے بیچ کی ساری بحث جس میں کچھ اصول کی بات ہوتی ہے اہلِ حدیث اور حنفی حضرات کے بیچ ہے-حالانکہ ان دونوں میں سے ایک گرو زیادہ متشدد ہے اور عوام کے بیچ اسی نے اس مسئلہ کو لانے کی شروعات کی ہے ،اور اس تکرار کی شروعاتی دور میں اب سے 5-10 سال پہلےتک حاوی تھا اور یہ ایک طرفہ معاملہ تھا ،لیکن اب دوسرا گرو بھی ہم کسی سے کم نہیں کے انداز میں زبردست مقابلہ کر رہا ہے ۔
1 1۔عوام کے بیچ اس پورےبحث مباحثہ میں کوئی مستند اور بڑے عالم یا کوئی بڑا مدرسہ شامل نہیں ہےمیں نے کبھی نہیں سنا کہ جمیعت اہلِ حدیث کے صدر یا جامعہ سلفیہ کے محدث دیوبند یا ندوۃالعلماء کے مہتمم یا محدث سے کسی اختلافی مسئلہ پر عوام میں بحث کر رہے ہیں ۔حتیٰ کہ حنفی اور اہلِ حدیث مدرسوں کے عام استاد بھی کبھی ایک دوسرے کے خلاف عوامی سطح پر بحث مباحثہ یا سب و شتم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔بلکہ اکثر اہل علم اپنے اپنے شعبوں اور خدمات میں اتنے مشغول ہیں کہ انہیں حالات کی سنگینی کا علم بھی نہیں ہے ،یہ اپنے آپ میں ایک فکر کی چیز ہے کہ بڑے علماء کا عوام سے براہ ِراست رابطہ کتنا ہے اور اس سلسلے کو کس طرح مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔
2 2۔عوام کے بیچ اس مسئلہ کے لانے والے لوگوں میں مدرسوں سے پڑھے ہوئے کچھ متوسط علم وفہم کے لوگ ہیں جن میں اکثر علم کا فقدان اور مزاج کی سختی کا مجموعہ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ عالم نما لوگ ہیں جو عربی تک نہیں جانتے لیکن اپنے کو محقق اور مجتہد کے طور پر پییش کرتے ہیں ۔جو مقررحضرات عوام کی سطح پر ان موضوعات پر انکی ذہن سازی کرتے ہیں یا دوسرے گرو ہ کو ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ حملہ کرتے ہیں ، ان کا تعلق انٹرنیٹ ویب سا ئٹ،/یوٹیوب/فیس بک/ٹی وی چینل /بلاگس/چھوٹی چھوٹی کتابیں /پمفلیٹ/کے ذریعہ سیدھے عوام سے رابطہ ہوتا ہے۔ بڑے علماء کرام اور مدرسوں کے محدثین کا عوام سے تعلق نہیں کے برابر ہے اس کا فائدہ ان لوگوں نے اٹھایا ہے۔
ان حضرات کی اپنی بات کو وزن دینے اور دوسرے کو زِیر کر نے کی حکمت عملی
عوام کو اپنی طرف مائل کرنےاور جذبات کو ابھارنےکےلئےلوگ چندحکمت عملی کااستعمال کرتے ہیں۔
(یہاں پر جو مثالیں لکھی جا رہی ہیں یہ صرف سمجھانے کے لیئے ہے ۔ کسی ایک گروہ پر الزام نہیں ہے حقیقتاً دونوں گروہ کے متشدد لوگ اس میں شامل ہیں کسی مسئلہ میں ایک گروہ ظلم کرتا ہے دوسرا مظلوم ہوتا ہے ۔پھر کبھی دوسرا ظلم کرتا ہے اور پہلا مظلوم ہوتا ہے ۔ یہ وقت اور حالات کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے ۔)
حکمت عملی نمبر 1 عوام کو کچھ لوگ اپنے تقریر /کتابیں /انٹرنیٹ /ٹی وی چینل کے ذریعے سے یہ بتاتے ہیں کہ جو ہمارا طریقہ ہے وہی صحیح ہے۔ اور باقی غلط ہیں۔ یا ۔۔۔۔ہمارا زیادہ صحیح ہے یا ۔۔۔۔ہم لوگ صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں اور باقی لوگ ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔
مثال ۔ نماز میں ہاتھ رکھنے کا مسئلہ ایک گروپ کے لوگ عوام کو یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ کو سینے پر رکھنا چاہئے کیونکہ صحیح حدیث سے ایسا ہی ثابت ہے اور زیادہ صحیح ہے ۔سینے کے نیچے یا ناف کے نیچے ہاتھ رکھنے کی حدیث ضعیف ہے ۔ بعض متشدد لوگ تو آسانی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سینے پر ہاتھ رکھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔اور ناف کے نیچے رکھنا امام کی رائے ہے۔حالانکہ جب ہم سلف الصالحین علماء کی کتابوں سے رجوع کرتے ہیں جیسےامام ابن قییم ؒ کی مشہور کتاب "زاد المعاد" جسے محمد بن عبدالوہاب ؒ نے تلخیص کی ہے ۔جسے سعودی عرب کے مذہبی امور اور دعوت کے شعبے نے شائع کیا ہے- اسکا عنوان ہے ۔آں حضرت ﷺ کی نماز کا طریقہ (زاد المعاداردو ترجمہ صفحہ نمبر 28 لائن 5-9)
"دونوں انگلیوں کو پھیلا کر انکو قبلی کی طرف کر کے کان کی لو یا مونڈھے تک اٹھاتے تھے ،پھردائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی اور بازو پر رکھتے تھے۔دونوں ہاتھ کو رکھنے کی جگہ کے بارے میں کوئی صحیح روایت ثابت نہیں ہے لیکن ابو داؤد نے حضرت علیؒ سے روایت کیا ہے کہ سنّت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے باندھا جائے"
حکمت عملی نمبر 2 عوام کو ایک صحیح حدیث پیش کی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ صرف یہی حضور پاک ﷺ کا طریقہ ہے ۔اور اس بات کو چھپا لیا جاتاہے کہ اس عمل کی تفصیل کے لیئے دوسری صحیح حدیث بھی موجود ہے ۔ دوسرے لفظوں میں عوام سے یہ چھپا لیا جاتا ہے کہ ایک عمل کے کرنے کے صحیح حدیث کی بنیاد پر ایک سے زیادہ طریقے ہو سکتے ہیں۔
1 حکمت عملی نمبر 3 بعض نا سمجھ انٹر نیٹ پرتو گالی گلوج پر اتر آتے ہیں -مثال کے طور پر ----- حنفی لوگ امام ابو حنیفہ کے دین پر چلتے ہیں نہ کہ حضرت محمد ؐ کے دین پر ۔،غیر مقلد ملکہ ویکٹوریہ کی اولاد ہیں ،غیر مقلد کو انگریزوں نے کھڑا کیا ہے تاکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا یا جائے، امام ابو حنیفہ کو صرف 17 حدیثیں یاد تھیں ،حنفی مسلک قرآن و حدیث کے خلاف ہے ،فقہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،فقہ قرآن و حدیث کے خلاف ایک نظام ہے ، تقلید شرک ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔جاہل بد دماغ کور مغز ملّا ،تبلچی ملّے ،بد باطل وغیرہ وغیرہ ۔(یہ الفاظ دینی تقاریر سے ماخوذ ہیں)
2 3۔جو لوگ انٹرنیٹ،/یوٹیوب/فیس بک/ٹی وی چینل پر ا ن موضوعات پر تقریر کرتے ہیں ان کی علمی حیثیت کے علاوہ ،الفاظ کا تشدد، اپنے مسلک کی عصبیت، اپنے گروہ کو مضبوط کرنے کی فکر، عوام کو اپنے طرف مائل کرنے کی فکر حالات کو سنگین بنادیتے ہیں ۔یہ حضرات ایک دوسرے گروہ کے لیئے جن الفاظ و لہجہ اور دلائل کا استعمال کرتے ہیں اس سے عوام میں یہ تاثر جاتا ہے کہ دوسرا گروہ اسلام کا اور قرآن و حدیث کا مخالف ہے ۔اور منافقت میں صرف اسلام کا نام لیتا ہے ۔جسکی وجہ کر عوام اسے کفر اور اسلام کا معارکہ سمجھ کر اپنے اسلام پسندی کا ثبوت دیتے ہیں ۔
عوام میں کچھ ذہنی طور پر دیندار لوگ ہیں جو ان بحث مباحثہ کو عین اسلام اور کفر و ایمان کا معارکہ سمجھتے ہیں ،جسکی وجہ کر ان مقرر حضرات کی خوب پذیرائی کرتے ہیں اور جہاں مدرسوں میں پڑھانے والے عالم کو یا مسجد کے امام حضرات کو 5-10 ہزار مشکل سے ملتا ھے یہ مقرر حضرات اچھا پیسہ کماتے ہیں ان میں کئی کی اپنی ویب سا ئٹ /یوٹیوب چینل وغیرہ ہیں اور ایک فعال ٹیم ہے جو ان سب کا نظام دیکھتی ہے۔ بعض تو صرف ہوائی جہاز سے سفر کی شرط پر پروگرام کا وقت دیتے ہیں ۔
4۔حالاں کہ صرف 1-2فیصد عام مسلمان ان معاملات میں شامل ہیں ،لیکن چوں کہ 90 فیصد مسلمان کو دین سے کم دلچسپی ہے۔لہٰذا باقی بچے دس فیصد جو ذہنی طور پر دیندار سمجھے جاتے ہیں ان میں یہ ایک دو فیصد تعداد کے اعتبار سے ورغلانے یا خاندان یا محلے کا ماحول خراب کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے ۔
عملی اقدام کے لیئے تجاویز
1۔ تنظیموں اور مدرسوں کے ذمہ داران ایک جگہ بیٹھ کر امت کے اجتماعی مسئٰلہ کے بارے میں غور فکر کریں کہ علمی اور اجتہادی بحث اہل علم کے بیچ رہے ۔ اور غیر استعداد لوگوں کے بیچ آکر گروہی شدت پسندی ،تعصب،سب و شتم کا شکار نہ ہو ۔ (ان اداروں پر خاص ذمہ داری ہے چونکہ عوام میں اچھی پہچان ہے جیسےآل انڈیا مسلم پرسنل لا بوڑد ، دارالعلوم دیوبند ،سہارنپور ، جامعہ سلفیہ ، جامعہ عمراباد ،ندوہ،مدرسہ اشرفیہ ،جامعتہ الفلاح ، جمیعتہ اہلِ حدیث، جمیعت علماء ہند ، جماعت اسلامی وغیرہ وغیرہ ۔یہاں نام صرف مثال کے لیئے دیئے گئے ہیں ہر مسلمان ،ہر مدرسہ اور ہر تنظیم کی اس سلسلے میں ذمہ داری ہے اور ذمہ داری ادا نہیں کرنے کے بارے میں روزِِ قیامت پوچھ ہوگی )
2۔ اگر منا سب سمجھا جائے تو اس کی کوشش ہو کہ مسلمانوں کے کچھ جانے پہچانے مقرر اور مصنف ہیں ان کو ایک جگہ جمع کر کے ان سے گفت شنید اور آپس کی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔انٹر نیٹ پر موجود مواد کی روشنی میں چند نا موں کی نشاندہی کی جار ہی ہے جن کا جڑنا اس سلسلہ کی کسی بھی کوشش کو کامیاب بنائےگی ۔یہ چند نام جو انٹر نیٹ کے حوالے سے لکھے گئے ہیں ان میں سب کی نوعیت الگ الگ ہے اور بظاہر اچھے لوگ ہیں ۔اور انمیں سے کئی مفید کام کر رہے ہیں۔ یہاں یہ نام دینے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اس خط میں دیئے گئے کسی بات کے بارے میں ان پر الزام ہے ۔ یہ صرف اس لیئے دیئے گئے ہیں کہ یہ لوگ انٹر نیٹ پر ایکٹو ہیں اورمسئلہ کے حل کے سلسلے میں مفید ہو سکتے ہیں ۔نام درج ذیل ہیں ۔
جناب معراج ربانی صاحب ،جناب انظڑ شاہ وقاسمی صاحب(بنگلور)،جناب ابو زید ضمیر صاحب (پونہ)،جناب ابو بکر غازی پوری صاحب(دیوبند)،جناب پالن حقانی صاحب، جناب ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب (بمبئی)،جناب ساجداے قیوم صاحب،۔جناب آر کے نور محمد صاحب (چنئی)۔
اسکے علاوہ کچھ لوگ دوسرےملکوں کے ہیں جو انٹر نیٹ کے ذریعہ سے اس مسئلہ سے جڑے ہیں۔جن سے رابطہ کی کوشش زیادہ مشکل نہیں ہے۔جناب توصیف الرحمان صاحب،جناب الیاس گھمن صاحب،جناب طا لب الرحمن صاحب ،جناب فیصل آزاد صاحب ،(اردو زبان ۔سبھی پاکستان کے) انگلش زبان میں جناب ممتازالحق ،جناب وقاص احمد صاحب ،اور جناب ابو موصاب واجد اککری صاحب ۔بنگلہ زبان میں جناب مطیع الرحمان صاحب وغیرہ و غیرہ
3۔ مدرسوں کے نصاب میں Islamic Ethics of Disagreementاختلاف کا اسلامی ضابطہ کے عنوان سے ایک سبجیکٹ ہونا چاہئے جن میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اختلافات کی درجہ بندی اور اس کو ڈیل کرنے کے بارے میں مواد طالب علموں کو پڑھایا جانا چاہئے ۔
4۔مدرسوں کے نصاب میں ایسا نظام ہونا ضروری ہے جس سےمدرسے کے فارغین عام ،مسلمانوں کو در پیش افکاری فتنوں سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ورنہ ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک گروہ کا شدّت پسند اپنے موقف کے لیئے حدیث پیش کرتا ہے ۔اور دوسرے حدیثوں کو چھپا لیتا ہے ۔جس سے دوسرے گروہ کا موقف کمزور ہو جاتا ہے ۔تو مدرسے کے فارغین سے جب عوام پوچھتی ہے تووہ تشفی بخش جواب نہیں دے پاتے ہیں ۔ اس کی وجہ ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان میں صلاحیت نہیں ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ اپنی بات کو وزن دینا اور دوسرے کو زِیر کرنا ایک فن ہے ۔اس کا جواب وہی دے سکتا ہے جو سامنے والے کی حکمت ِ عملی سے واقف ہو ۔ اور اس کام کے لیئے طویل مدت درکار نہیں ہے ۔ بلکہ 15-20 دن کافی ہیں ۔چونکہ جن مسئلوں پر شدت پسند لوگ عوام کو ورغلاتے ہیں ان کی تعداد بمشکل 20-25 ہے ۔
5۔اس پورے مسئلہ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ علم کی گہرائی والے سنجیدہ مزاج اور تقوی والے علماء کرام کا عوام سے تعلق کمزور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مدرسوں کے اساتذہ اور محدثین حضرات عوام سے براہ راست رابطہ کریں ۔تاکہ کم فہم اور کم صلاحیت والے لوگ اہل علم سے الگ ہو جائیں ۔اور عوام جان لے کہ فقہی و فروعی اختلاف کی نوعیت کفرو ایمان یا صحیح یا غلط کی نہیں ہے ۔
یہ خط اس سلسلے کی ایک چھوٹی کوشش ہے اس پر آئے جوابات کی روشنی میں آگے کا لاہ عمل تیار کیا جائےگا ۔ آپ تمام حضرات سے گذارش ہے کہ اس سلسلےمیں اپنے مفید مشوروں سے نوازیں اور عام مسلمانوں کو اس فتنے اور خلفشار سے بچائیں ۔اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دیگا ۔ اس کو ایک بیکار موضوع نہ سمجھیں بلکہ آپ حضرات جو تعلیم وتدریس ، دعوت وتبلیغ ، اصلاح و تزکیہ ، ،تصنیف، فلاحی وسماجی خدمات جیسے مختلف شعبوں میں ہیں ان سب کے بقاء کے لیئے عوام کو فتنہ اور خلفشار سے بچانا ضروری ہے۔ ۔
طالب دعاء
ڈاکٹر سیّدابو طوبہ
رابطہ کریں
Abutooba1@gmail.com
http://leavefirqaparasti.blogspot.in/
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
شافی حل
اس کا حل ایک بہت بڑے عالم نے بتایا تھا کہ کسی کو اختلافی مواد عوام میں لانے کی اجازت نہ ہو۔ اختلافی مسائل علماء کی حد تک احکام کی زیرِ نگرانی زیرِ بحث لائے جائیں۔ حاکم وقت اس بحث کے نتیجہ کو عوام میں پھیلانے کا واحد ذریعہ ہو۔
مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اللہ هر مخلصانہ کوشش کو کامیاب کرے ۔
میں بهی کہنا چاهتا هوں ، میرے اپنے مشاهدات کی روشنی میں ۔
اصل اختلاف بالکل الگ هے جسکا ذکر ہی نہیں کیا گیا ۔ محدود جغرافیہ میں کہی گئی بات امت کے اتحاد کا باعث کیوں کر هو سکتی هے ، اس پر شدید توجہ کی جائے ۔ مخصوص علاقہ کے مسائل بهی مخصوص هوتے ہیں ۔ اور امت کے مسائل میں اگر احناف و اہل حدیث کا بالخصوص عنوان دیکر لکہا یا کہا جائے تو میری نظر میں بے شمار بنیادوں کو سرے سے ذکر کیا ہی نہیں گیا ۔
ہمارے یہاں شافعی مذہب ، حنفی مذہب ، حنبلی مذہب افراد عرصہ دراز سے رهتے ہیں ۔ اکثریت احناف پر مشتمل هے اور سب سے بڑی اقلیت شافعیہ کی هے ۔ فی الحال بات سمجهنے اور سمجهانے کی خاطر هندوستان میں موجود ان دونوں مذاهب کو لیکر بعض حقائق پر توجہ کی جانی چاہیئے ۔
احناف کی کم از کم تین قسمیں ہیں اور اس سے زیادہ بهی هوسکتی ہیں اسی طرح شافعیہ کم از کم دو قسم کے ہیں ، زیادہ بهی هو سکتے ہیں ۔
پہلی قسم احناف کی هے جو بالکل صحیح العقیدہ هے ، یعنی دین میں قرآن اور سنت پر عمل پیرا ہیں اور پختہ عقائد کے حامل ہیں ۔ جبکہ باعتبار مذہب وہ مذہب احناف پر ہیں جنکا تعلق جہاں اور جیسے مذہبی اختلافات پر هو ۔ دوسری قسم کے احناف کے عقائد صوفیانہ ہیں ، ذرا ہلکے قسم کے ، یوں سمجہیں کہ یہ صاحب قبر کو سجدہ تو نہیں کرتے ولکن بطور واسطہ ضرور ذکر کرتے ہیں قولی طور پر اور بزرگوں سے امیدیں رکهتے ہیں ۔ یہ انمیں سب سے بڑی اقلیت میں ہیں ۔ مذہبی اختلافات میں مذہب احناف پر ہیں ۔ تیسری قسم ، احناف کی اکثریت پر مشتمل هے ، یہ عقائد میں متصوفہ ہیں ، هر طرح سے متشدد ، اپنے عقائد سے بالکل نا هٹنے والے ۔ قبور کی اعلانیا عبادت کرنے والے ، اہل قبور سے اولاد و رزق سے لے کر روز حساب بخشش کی طلب اور یقین رکهنے والے ۔
شافعی مذهب میں صحیح العقیدہ ہیں جو اقلیت میں ہیں ، انکی اکثریت بهی بالکل احناف کی اکثریت کی طرح متصوفہ هے جبکہ مذہبی امور پر امام شافعی کے مذہب پر ہیں ۔
احناف و شافعیہ کے صحیح عقیدہ رکهنے والے شدید قسم کے صوفیانہ عقائد رکهنے والوں میں اختلاف بهی انتہائی شدید هے ، انکے آپس میں ہی ۔ یعنی احناف کا احناف اور شافعیہ کا شافعیہ سے ، ان اختلافات پر بہت کم لکها اور کہا گیا جبکہ عام لوگ عامیانہ گفتگو میں بعض مسائل پر شدت سے لڑے بهی اور مرے مارے بهی گئے ۔ جی ہاں - یہ سب جانتے ہیں کیونکہ احناف اور شافعیہ کے عام اشخاص سینے پر هاتهوں کو رکهنے کی جگہ ، رفع الیدین ، آمین سے لیکر کئی باتوں میں سخت اختلاف رکهتے ہیں ۔ یہ مذہبی پرابلم هے ان میں جو عام مشاهدہ میں هے ۔
اصل اختلاف عقیدہ میں هے ، نا کہ مذہبی اختلافات اتنے اہم ہیں ، اب اس کو سمجها کس طرح جائے ؟ جو جیسی فکر کا هوگا وہ ویسا ہی سمجهے گا ، کیوں ؟ اس نے تعلیم و تربیت ویسی ہی پائی هے ۔ خطاء علماء کی یا اس مخصوص فکر کی ؟ خطاء مدرسین کی یا ان احکامت کی کہ آپ کو اس مدرسے میں یہ ہی پڑهانا هے ؟
هندوستان کے صحیح العقیدہ مسلمانوں کو کیا نام دیا جائے ؟ آپ تجویز کریں ۔ انہوں نے هر دورمیں صحیح اسلامی عقیدے پر قائم رهتے هوئے هر غلط عقیدہ اور رسم و رواج پر احتجاج کیا ، لڑا ۔یہ معاملات انگریزوں کے دور سے بهی بہت پہلے کے دور سے ہیں اور آج بهی ہیں ۔
مذہبی اختلافات کی خلیجیں اتنی گہری نہیں کہ پاٹا نا جا سکے یا ان پر امت کے اتحادکے نام پرکہیں نرمی یا کہیں خاموشی نا اختیار کی جا سکے ۔ اس کے بالکل برعکس عقائد اسلامیہ سے متحارب رهنے والے افکار پر نا تو عہد قدیم میں نرمی اختیار کی گئی ، نا هی خاموشی بلکہ هر دور میں حسب توفیق اور میسر وسائل سے پوری شدت سے مقابلہ کیا گیا ۔ یہ سلسلہ اب بهی جاری هے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رهیگا ۔ اس کے اسباب ہیں ، اسلام کے بنیادی عقائد حد فاصل کا درجہ رکهتے ہیں ۔ ان پر اتحاد ناممکن هے ۔
اہل حدیث کن کو کہنا چاهیئے ؟ یہ کب سے ہیں هندوستان میں ! اس پر بات کر کے کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر امت کا اتحاد چاہیئے تو ایک ہی صورت ممکن هے وہ ہے مکمل اسلامی عقائد پر عملداری سے ۔ قولا و عملا دونوں ، یوں نہیں کہ زبان سے بیان اور جبکہ عمل اس قول سے مختلف هو ۔ یہ فرق هے ۔ اگر مذہبی جسے مسالک کا تضاد کہتے ہیں تو وہ مابین الاحناف و شافعیہ هے ۔ لیکن عقیدہ کا اختلاف ، اس کی خلیجیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں پاٹا ہی نہیں جا سکتا ۔
طریقہ هے ، ضرورت هے یہاں اخلاص کی ۔ ایک ہلکی سی شروعات کی جا سکتی هے کم از کم ، ان تمام کتب کو جلا دیا جائے جو امت کو اسلامی صحیح عقائد سے دور کرتی ہیں ۔ رفتہ رفتہ سدهار بهی ممکن هے اسی طرح جس طرح رفتہ رفتہ رسوم و رواجات دین اسلام کا حصہ بن گئے هندوستان میں ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ، جغرافیائی طور پر الگ حصہ ہیں لیکن غیر منقسم هندوستان کے اجزاء ہیں ۔ قدیم امور جن پر اختلافات ہیں وہ بهی قدیم سے ہیں ، ان کو اتنا جدید سن سینتالیس یا اکہتر کا نا سمجها جائے ۔
امت کی اصلاح بہت بڑی بات هے ۔ اللہ آپ سب کی مدد فرمائے ۔ ضرورت معمولی اختلافات اور گہرے اختلافات کو سمجهنے کی هے ۔ آپ بنیادیں صحیح کریں ، بقیہ سب غیر اهم هے ۔ هر مسلمان اللہ کی رضا چاهتا هے ، کاش اسے سمجها دیا جائے کہ غلط عقیدہ اللہ کے غضب کا سبب هے ۔ وہ سمجهے گا تو لرزے گا ، کانپے گا ۔ جب اسکو سمجهایا ہی نا گیا هو یا دوسرے الفاظ میں جب اسے سمجهایا ہی غلط گیا هو تو وہ بهی کرے ؟ جو دیکها وہ غلط ، جو پڑها وہ غلط الغرض سب ہی غلط هو تو الزام اس پر ہی کیوں ؟
اس کا صحیح الزام صحیح العقیدہ مسلمانوں کو دیا جانا چاہیئے اور دیا بهی جاتا هے ۔ جو صحیح هو وہ ہی غلط ، جو اصلاح کی کوشش کرے اسی پر الزام !
کئی نام مل جائینگے اس صحیح العقیدہ گروہ کے اور هر دور میں پائے جائینگے یہ لوگ ۔ کسی ایک سے موازنہ کرنا بهی زیادتی هے ۔ یہ تو عہد قدیم سے هے ۔
یا آپ صحیح العقیدہ ہیں یا تو آپ غلط عقائد رکهتے ہیں ۔ بات اتنی هے ۔ اصل اختلاف هی یہی هے ۔ کل بهی تها آج بهی هے ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
پہلی قسم احناف کی هے جو بالکل صحیح العقیدہ هے ، یعنی دین میں قرآن اور سنت پر عمل پیرا ہیں اور پختہ عقائد کے حامل ہیں ۔ جبکہ باعتبار مذہب وہ مذہب احناف پر ہیں جنکا تعلق جہاں اور جیسے مذہبی اختلافات پر هو ۔ دوسری قسم کے احناف کے عقائد صوفیانہ ہیں ، ذرا ہلکے قسم کے ، یوں سمجہیں کہ یہ صاحب قبر کو سجدہ تو نہیں کرتے ولکن بطور واسطہ ضرور ذکر کرتے ہیں قولی طور پر اور بزرگوں سے امیدیں رکهتے ہیں ۔ یہ انمیں سب سے بڑی اقلیت میں ہیں ۔ مذہبی اختلافات میں مذہب احناف پر ہیں ۔ تیسری قسم ، احناف کی اکثریت پر مشتمل هے ، یہ عقائد میں متصوفہ ہیں ، هر طرح سے متشدد ، اپنے عقائد سے بالکل نا هٹنے والے ۔ قبور کی اعلانیا عبادت کرنے والے ، اہل قبور سے اولاد و رزق سے لے کر روز حساب بخشش کی طلب اور یقین رکهنے والے ۔
ہماری بھی نگاہ میں اہل حدیث تین طرح کے ہیں، ایک تو عبدالمنان نورپوری کی طرح کے حضرات جن کا ماننایہ ہے کہ اہل حدیث اوراحناف میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔
دوسری طرف طالب الرحمن توصیف الرحمن اور معراج ربانی جیسے قبیل کے لوگ ہیں، جن کی دریدہ دہنی حد بیان سے باہر ہے اورجو شاید زبان کو ہی تلوار سمجھ بیٹھے ہیں، فقہ حنفی امام ابوحنیفہ وغیرہ کے تعلق سے ان کے خیالات کسی سے مخفی نہیں،
ایک ان سے بھی آگے بڑھ کر کریلا اورنیم چڑھاکے مصداق مقبل الوادعی اورزبیر علی زئی جیسے لوگ ہیں،جن کے نزدیک امام ابوحنیفہ کی ثقاہت تو ایک طرف عدالت تک مشتبہ ہے۔
اول الذکر سے احناف کاکوئی زیادہ اختلاف نہیں ہے، اختلاف جوکچھ اورجیساکچھ ہے وہ ثانی اورثالث سے ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جو تقسیم میں نے کی وہ اسلامی عقائد کے لحاظ سے کی ۔ سمجهکر اور سمجها کر کی ۔ احناف جو صحیح العقیدہ ہیں انکا منهج اہل حدیث سے ایسا کوئی اختلاف هو ہی نہیں سکتا کہ جس پر فساد هو سکے ۔
جو تقسیم بهی آپ کر لیں اهل حدیث کی ، ان سب کو عقیدہ پر جانچ کر بتائیں کہ کیا یہ تقسیم اسی طرح کی هوئی جسطرح کی تقسیم میں نے بلحاظ عقیدہ احناف کی پیش کی هے؟
سنجیدگی سے حل چاہتے ہیں تو بنیادی فرق پر نظر رکهیں ۔ یہ اس طرح میں نے تین قسمیں بیان کر دیں تو جوابا آپ نے بهی تین کر دیں ۔ آپ تیس بهی کر دیں تو بهی فرق نہیں پڑتا ۔ خلیج عقیدہ پر هے ۔
بہرحال میں ابن عثمان بهائی اور اشماریہ بهائی اور تلمیض بهائی کی آراء کا انتظار کر رها هوں ۔ آپ بهی اگر اپنی شخصی رائے دیں جو مسائل کے حل میں معاون هوسکتی هوں تو بندہ شکر گذار هوگا ۔
اگر محض اس طرح اعتراض کرتے رهے تو آپ نے کیا کام کیا ۔ بالخصوص آپ تو هندوستان رہ بهی چکے ہیں اور خاص تجربہ رکهتے ہیں بہ نسبت اشماریہ بهائی کے ۔
پهر بهی اگر آپ کے اس مراسلہ کا شکریہ نا ادا کروں تو ناانصافی هوگی ۔ آخر فرق هے کیسا اور کدهر وہ سمجہیں کس طرح اگر اس طرح کی تحریریں نا ہوں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
گر احباب کو طبیعت پر بوجھ معلوم نہ ہو۔۔۔
ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ اختلاف ہمارے مدارس کی بنیاد ہے۔ مدارس کے طلبہ کو جب فقہ یا حدیث کی ابتدا کروائی جاتی ہے تو ساتھ ہی اختلافات اور دلائل کی ابتدا بھی کروا دی جاتی ہے۔ یہ میں صرف مدارس احناف کی بات نہیں کر رہا بلکہ دیگر مسالک میں بھی یہی سلسلہ ہے۔ چنانچہ طالب علم کو روز مرہ کے ضروری مسائل یاد ہوں یا نہ ہوں، یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مسئلے میں امام ابو حنیفہ نے کیا کہا ہے اور امام شافعی نے کیا کہا ہے اور امام شافعی کے دلائل کتنے "کمزور" اور "بودے" ہیں (واوین میں مخصوص ذہنیت کی جانب اشارہ ہے۔ اسے ان اشخاص و اشیاء کے لیے میرے الفاظ نہ سمجھا جائے)۔ پھر جیسے جیسے درجات کی سیڑھی طالب چڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے اختلافات و دلائل کی بارش سے سیراب ہوتا رہتا ہے۔ حتی کہ بقول ایک انتہائی مشہور مبلغ عالم "دورہ حدیث میں تو اماموں کی کشتی ہوتی ہے"۔ اس لحاظ سے اہل حدیث حضرات کے لیے ایک پلس پوائنٹ یہ ہوتا ہے کہ ان کا نشانہ عموماً ایک ہی مسلک ہوتا ہے اور ان کی توانائیاں اسی عمدہ کام پر صرف ہوتی ہیں۔ احناف کو بسا اوقات سات یا آٹھ مذاہب سے بھی نمٹنا پڑتا ہے جن کے صرف اقوال یاد کرنے سے دماغ چکرانے لگتا ہے (ذرا تصور کیجیے کہ ایک مسئلہ میں آٹھ اقوال اور ہر قول کے دلائل اور ان دلائل کا رد!)۔
اس صورت حال سے گزر کر جب کوئی طالب عالم کی دستار سر پر سجاتا ہے تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کھانے سے لے کر کتاب تک ہر چیز میں اختلاف کرتا ہے اور الفاظ وہ ہوتے ہیں کہ الامان و الحفیظ! آج ہی طلبہ کے ایک واٹس ایپ گروپ میں میں نے عرض کیا کہ "ایک دوسرے سے سیدھی بات بھی طنزیہ انداز سے کیوں کرتے ہیں؟ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔" سوچیئے کہ جس کا حال اپنوں کے ساتھ یہ ہو اس کا دوسرے مسالک والوں کے ساتھ کیا حال ہوگا؟
پھر مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ حنفی ہو یا اہل حدیث، تا زندگی انہی اختلافات کو بیان کرتا رہتا ہے اور اپنے دلائل کی قوت اور مخالف کے دلائل کے ضعف کو "آشکار" کرتا رہتا ہے جب تک کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے نہ آجائے۔ جس دن اس سے کوئی فریق مخالف کا "حقیقی عالم" ٹکراتا ہے جو اس کے دلائل کو ہباءا منثورا کرتا ہے اس دن وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہاں سے ایک نیا فتنہ جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ انتہائی غلط انداز سے باتوں کو گھما کر، ہٹ دھرمی دکھا کر اور موضوعات کو تبدیل کر کے مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے، یہ سلسلہ اتنا چلتا ہے کہ وہ اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ علمی ابحاث کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے چاہے صحیح طرح کی جائیں یا غلط طور پر، اس پر تعریف و واہ واہ کا نشہ بھی مل جائے تو کیا کہنے! سہ آتشہ ہو جاتا ہے۔ پھر مناظرے، ویڈیوز، چیلنج، دعوے، قسمیں اور پھر گالیاں۔۔۔۔ یہی دین کی خدمت رہ جاتی ہے۔
صرف وہ بڑے مدارس ان مسائل سے کچھ محفوظ ہیں جہاں حقیقی علمی شخصیات رہتی ہیں ورنہ چھوٹے مدارس میں تو یہی ہوتا رہتا ہے۔

میرے ایک دوست ہمارے ساتھ پڑھتے تھے، کسی وجہ سے مدرسے سے اخراج ہو گیا۔ موقوف علیہ اور دورہ حدیث کہیں اور پڑھے۔ ایک دن میں نے میسج کیا اور مزاج و مصروفیت پوچھی۔ ارشاد ہوا کہ درس گاہ میں بیٹھا استاد محترم کی خیار مجلس پر تقریر سن رہا ہوں۔ عرض کیا: کیا نتیجہ نکلا؟ ارشاد ہوا کہ احناف کا مسلک بہترین ہے، شوافع کا تو بالکل عجیب اور بے بنیاد مسلک ہے۔ کوئی دلیل بھی صحیح نہیں ہے۔ عرض کیا: ذرا شیخ الہندؒ کا قول بھی دیکھیے کہ انصاف یہ ہے کہ حق امام شافعیؒ کی جانب ہے۔ بس پھر دس پندرہ دن تک موصوف سرگرداں رہے۔ پھر بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا تو میں نے سمجھایا کہ کسی کا مسلک عجیب نہیں ہوتا، دلیل کو دیکھنے کا طرز مختلف ہوتا ہے۔ وہی دلائل دوسرے انداز سے دیکھنے پر مضبوط ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح ایک دوست نے غصہ بھرا میسج کیا کہ فوراً فاتحہ خلف الامام پر احناف کے دلائل بھیجو! عرض کیا کہ ایسا کیا ہو گیا ہے؟ فرمایا: ہماری مسجد کے امام صاحب نے آج یہ مسئلہ بتایا ہے کہ امام کے پیچھے سری نمازوں میں فاتحہ پڑھنے سے بھی نماز ہو جاتی ہے بلکہ مستحب ہے۔ میں نے امام صاحب سے بات کی ہے اور کافی سخت بات کی ہے پھر بھی میری بات نہیں مان رہے۔ عرض کیا کہ یہ بات تو حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بھی فرمائی ہے تو یہ صاحب بھی ہکا بکا رہ گئے۔ پھر تفصیل سے انہیں مسئلہ سمجھایا اور سارے پہلو سمجھائے۔

تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ مسئلہ عوام سے نہیں چل رہا، یہ علماء سے چل رہا ہے۔ اس کا حل عوام سے نہ ڈھونڈیں۔

اساتذہ کرام سے سنا ہے کہ "اہل دیوبند میں درس حدیث میں اختلافی مسائل کی تدریس حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے شروع ہوئی ہے، اس سے پہلے حدیث شریف کو پڑھا پڑھایا جاتا تھا"۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ ان سے آگے والوں نے یہ طرز تدریس تو لے لیا لیکن ان کی مجتہدانہ صلاحیت ہر کوئی نہ لے سکا۔ اس لیے یہ معاملہ فائدہ کے بجائے نقصان کا باعث بن گیا۔
اختلافات کو درس میں ذکر کرنے کا مقصد اپنے سوا ہر کسی کو نیچا دکھانا نہیں ہوتا بلکہ یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ دلائل کس طرح دیے جاتے ہیں اور قرآن و حدیث میں غور و فکر کے مناہج و طرق کیا ہوتے ہیں۔ ایک ہی چیز کو دو یا تین زاویوں سے کیسے دیکھا جاتا ہے؟ یہ خود اجتہاد کی ایک قسم ہے اور اس چیز کو سمجھ کر نہ صرف انسان کے سامنے سے اختلاف ختم ہو کر صرف آراء رہ جاتی ہیں بلکہ وہ اپنے رجحان کی تعیین بھی کر سکتا ہے چاہے اس کے مسلک کے موافق ہو یا مخالف۔ اس بات کو سمجھ کر انسان کو یہ سمجھ آجاتا ہے کہ اختلاف رحمت كیسے ہوتا ہے اور ہر مجتہد کو ثواب کیوں ملتا ہے۔ لیکن ذرا انصاف کے ساتھ ارشاد فرمائیے کہ کیا ہمارے مدارس میں پڑھانے والے بیشتر اساتذہ کو خود یہ "فہم" حاصل ہوتی ہے؟
الیاس گھمن صاحب، توصیف الرحمان راشدی صاحب اور ان کے قبیل کے حضرات صلاحیت تو رکھتے ہیں لیکن انہیں عموماً اختلاف کی روح تک رسائی نہیں ہوتی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

اس لیے جو اصلاح کرنی ہے اس کی ابتدا دین کے قلعوں سے کرنی پڑے گی ورنہ کچھ نہیں بنے گا۔

یہ تو ایک مسئلہ تھا۔ دوسرا مسئلہ ہے دو انسانی ازلی بیماریاں یعنی حب مال اور حب جاہ۔ بعض علماء کرام بہت صلاحیت والے ہوتے ہیں۔ بولیں تو گویا موتی بکھیر دیں، سوچیں تو فہم آسمان کو چھو آئے، عقدے حل کریں تو کوئی گرہ باقی نہ رہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی ساری چٹائی پر بیٹھ کر دال کھا کر گزرتی ہے اور جب عوام میں "پاس آؤٹ" ہوتے ہیں تو وہ دال ڈھونڈنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک مدرس کی تنخواہ کئی چھوٹے مدارس میں تین سے چار ہزار ہے۔ کیا اس تنخواہ میں گزارا عقلاً ممکن ہے؟ مجبوراً وہ ٹیوشن پڑھانا اور چھوٹی موٹی مزدوری کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے ان کی معاشرتی حیثیت بھی مجروح ہو جاتی ہے۔ جب ان اختلافات میں انہیں پیسے ملتے ہیں (چاہے ہدایا اور چاہے "خاص تنخواہ") اور دس بندہ آگے پیچھے گھومنا اور ہر اجتماع میں بڑا مجمع جمع ہونا شروع ہوتے ہیں تو وہ بشری کمزوریوں سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ جو "کام" کرتے ہیں اس کا مداوا برسوں تک ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس کا حل یہ ہے کہ علماء کرام کے وضائف مقرر کیے جائیں، انہیں دنیا کے غموں سے آزاد کر کے دین کی راہ پر لگایا جائے تا کہ وہ "صحیح" کام "صحیح" طریقے سے کر سکیں۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
حالانکہ یہ کام انتہائی آسان ہے۔ اگر پانچ یا دس افراد جمع ہو کر ایک عالم کے وضائف اپنے ذمہ لے لیں تو ہر عالم کا اس طرح مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن۔۔۔۔۔

اللہ پاک توفیق عمل عطا فرمائیں۔ آمین
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا اشماریہ بهائی

عنوان کے لحاظ سے آپ کا مراسلہ زیادہ مناسب لگا ۔ اس میں کیا شک کہ ماحول بگڑا هوا هے ۔ آپ نے جو نقط پیش کیئے وہ بهی مدرسین کے لئیے ہیں ۔
محترم تلمیذ بهائی اور محترم ابن عثمان بهائی کی رائے مل جائے اور اس سمت حسب توفیق مثبت قدم بڑهائے جائیں ۔
والسلام
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
جو تقسیم میں نے کی وہ اسلامی عقائد کے لحاظ سے کی ۔ سمجهکر اور سمجها کر کی ۔ احناف جو صحیح العقیدہ ہیں انکا منهج اہل حدیث سے ایسا کوئی اختلاف هو ہی نہیں سکتا کہ جس پر فساد هو سکے ۔
جو تقسیم بهی آپ کر لیں اهل حدیث کی ، ان سب کو عقیدہ پر جانچ کر بتائیں کہ کیا یہ تقسیم اسی طرح کی هوئی جسطرح کی تقسیم میں نے بلحاظ عقیدہ احناف کی پیش کی هے؟
سنجیدگی سے حل چاہتے ہیں تو بنیادی فرق پر نظر رکهیں ۔ یہ اس طرح میں نے تین قسمیں بیان کر دیں تو جوابا آپ نے بهی تین کر دیں ۔ آپ تیس بهی کر دیں تو بهی فرق نہیں پڑتا ۔ خلیج عقیدہ پر هے ۔
بہرحال میں ابن عثمان بهائی اور اشماریہ بهائی اور تلمیض بهائی کی آراء کا انتظار کر رها هوں ۔ آپ بهی اگر اپنی شخصی رائے دیں جو مسائل کے حل میں معاون هوسکتی هوں تو بندہ شکر گذار هوگا ۔
اگر محض اس طرح اعتراض کرتے رهے تو آپ نے کیا کام کیا ۔ بالخصوص آپ تو هندوستان رہ بهی چکے ہیں اور خاص تجربہ رکهتے ہیں بہ نسبت اشماریہ بهائی کے ۔
پهر بهی اگر آپ کے اس مراسلہ کا شکریہ نا ادا کروں تو ناانصافی هوگی ۔ آخر فرق هے کیسا اور کدهر وہ سمجہیں کس طرح اگر اس طرح کی تحریریں نا ہوں ۔
اولاتواپنی ایک غلطی کی اصلاح کردوں کہ یہ کہ قول
''اہل حدیث اور حنفیہ میں نہ اُصولی اختلاف ہے، نہ فروعی۔'

عبدالمنان نورپوری کا نہیں بلکہ محدث گوندلوی صاحب کاہے، یہ بات حافظ صلاح الدین یوسف صاحب پر اتنی شاق گزری کہ انہوں نے اس جملہ کوتوڑنے مروڑنے کیلئے باقاعدہ ایک کتاب لکھی اورنتیجہ وہی نکالاہے کہ احناف میں تین قسم کے ہیں، پہلی قسم سے کوئی اختلاف نہیں ہے اورایسامحسوس ہوتاہے کہ یہ جونکتہ احناف کی تین تقسیم کا آپ نے پیش فرمایاہے،اس کا سلسلہ وہی فکر صلاحی ویوسفی ہے۔
مجھے تو بسااوقات رہ رہ کر تعجب ہوتاہے کہ اگراحناف امام ابوحنیفہ کی یاکسی دوسرے امام کی اس طرح کے واضح قول کی تاویل کریں تواس پر تحریف سے تعبیر کردیاجائے لیکن ’’جوچاہیں آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اگریہی تین تقسیم گوندلوی صاحب کے پیش نظرتھی توانہیں کس نے مجبورکیاتھاکہ وہ خود سے اپنی مراد واضح نہ کریں،وہ خود بھی تواس پر قادر تھے، منہ میں زبان اورکان پر قلم رکھتے تھے۔
طرفہ تماشاملاحظہ ہو،مضمون نگار تو یہ سمجھانے کی کوشش کررہاہے کہ عوام کو اختلافی مسائل میں نہ گھسیٹاجائے اور نہ ان کو فقہی اختلافات کے جنگل میں لاکر حیران کیاجائے،اورآپ نے اس بات کو پسند کرتے ہوئے اتحاد کی دعوت دے دی اور عقیدہ کی تبلیغ شروع کردی ،یعنی وہی بات کہ ’’سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا‘‘اسی پر بحث کی ابتداء کردی گئی۔
بیشتر مسائل میں ’’دلیل کا اختلاف‘‘ نہیں بلکہ ’’فہم دلیل‘‘ میں اختلاف ہواکرتاہے، خداکرے کہ میری یہ آسان بات آپ کی سمجھ میں آسکے،غیرمقلدین حضرات کا المیہ یہ ہے کہ وہ ’’فہم دلیل‘‘ کے اختلاف کو ’’دلیل کا اختلاف‘‘سمجھ بیٹھتے ہیں اورپھر ساری توانائی اسی میں صرف کرتے ہیں۔
اورحقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں جب تک دوآدمی بھی عقلمند موجود ہیں، ان میں فہم کا اختلاف موجود رہے گا،ہاں بیوقوف ہمیشہ ایک ہی مسئلہ پر متفق ہوسکتے ہیں،کیونکہ ان میں سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے،
عقیدہ کا بھی جواختلاف ہے تو وہ بنیادی عقائد مین اختلاف کم اور ذیلی عقائد میں اختلاف زیادہ ہے،اختلاف کی نوعیت یہاں بھی دلیل سے زیادہ فہم دلیل ہے، توسل کا ہی مسئلہ لیجئے، کیاوہ نص کوماننے نہ ماننے کا اختلاف ہے یامختلف نصوص سے جوبات سمجھ میں آرہی ہے، اس میں فہم کااختلاف ہے۔
دورحاضر میں ایک نئی بدعت شروع یہ ہوئی ہے کہ عقیدہ کے ماہرین پیداہونے لگے ہیں، جو دوسروں کے عقائد کو خورد بین لگاکر چھانٹ پھٹک کر دیکھتے ہیں کہ کہیں بدعقیدگی کا کوئی جراثیم تو باقی نہیں رہ گیا، عقیدہ جتنا مختصر اتنابہتر،اس کو جتنا زیادہ طویل کریں گے، اتناہی امت میں اختلاف اورانتشار پیداہوگااورعمل سے دوری ہوگی۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
واہ خوب کہی ۔ مختصر اور طویل والی بات ۔ عقیدہ وہ تمام جنکا ذکر قرآن و حدیث میں مذکور و موجود هے ، بغیر کسی کمی بیشی کے ۔
دور تو عالم اسلام نے شیخ ابن تیمہ رحمہ کا بهی دیکها اور شیخ محمد بن عبدالوهاب کا بهی دیکها ۔ بدعتوں کو ختم بهی کیا ، عجیب بات هے کہ آپ بدعتوں کے خاتمے کو بدعت کہتے ہیں ۔
خیر آپ نے اس مراسلے میں بهی وہ سب کہا نہیں جو کہ محترم ابن عثمان نے اپنے مراسلہ میں پوچها تها ۔
رہ گئی بات خوردبین لگانے والی تو اس کی ضرورت کم ترین نگاہ رکهنے والوں کو بهی نہیں هوگی جنکی آنکهوں کی روشنیاں کمزور هو چکی ہیں ، فی الوقت تو بدعت و شرک میرے ذاتی خیال سے اپنے پورے عروج پر هے ۔
مفاہمت کی گنجائش ابن عثمان بهائی اور اشماریہ بهائی بتائیں کہ کس طرح پیدا کی جائے جب اس طرح کی سوچیں هوں !؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ہمارا عقیدہ میں آپ سے کہیں بهی اتفاق نہیں هے ، ما سوا صحیح العقیدہ احناف سے ۔ چاهے آپ تین نہیں تیس تقسیم کردیں اہل حدیث کی۔
 
Top