• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی ،اہل حدیث اختلاف اور عام مسلمان

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اگرچہ کہ موضوع سے هٹکر هے پهر بهی چونکہ اصحاب سے گفتگو کے درمیان یہ بهی سنا کہ :"صحیح والا تصوف" تو کیوں نا اس صحیح والے تصوف پر احباب سمجهائیں اور بتائیں کہ تصوف کی وہ کون سی قسم هے جس پر اهل حدیث کو اختلاف نہیں ؟
چاہیں تو نیا تهریڈ بنا لیں ۔
میں نے جو کہا اپنے سابقہ مراسلات میں وہاں هر بار صحیح العقیدہ ہی سے اختلاف نا هونا لکہا هے ۔
معلومات میں اضافہ کا سبب هوگا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم @محمد طارق عبداللہ بھائی! یہ بات واقعی ہے کہ عقائد کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ قطعی عقائد جن پر کفر و اسلام کا دارومدار ہے۔ ان میں حضرت ابو بکر صدیق رض سے لے کر آج تک ہر مسلمان یکساں ہے اور جو نہیں ہے تو وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اللہ کی وحدانیت، نبی کریم ﷺ کی نبوت اور آپ کی ختم نبوت کا عقیدہ وغیرہ۔
دوسری قسم کے عقائد وہ ہیں جو استنباطی ہیں جیسے سماع موتی، جہت باری تعالی اور صفات کے عقائد۔ چونکہ یہ استنباطی ہیں اس لیے ان میں اختلاف بھی ممکن ہے اور یہ اختلاف فہم دلیل کا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر حافظ ابن حجرؒ اشعری ہیں۔ وہ ان استنباطی عقائد کو اپنے انداز میں سمجھتے ہیں۔ اب جو حضرات ان میں سلفی ہیں وہ ابن حجرؒ کو کافر نہیں کہتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان عقائد میں ابن حجرؒ خطا پر ہیں اور ہم درست۔ یہ اختلاف فہم ہے۔
اسی طرح تصوف بھی ہے۔ اس میں بعض کام واضح بدعت ہیں، بعض واضح گناہ اور بعض کام بالکل درست ہیں۔ ان درست کاموں میں آراء کا اختلاف ہے، بعض حضرات ایک کام کو اپنے فہم کی بنا پر درست سمجھتے ہیں تو دوسرے نہیں سمجھتے۔ اس لیے مطلقاً تصوف پر غلط ہونے کا حکم لگانا بذات خود صحیح نہیں۔
بہرحال یہ اس موضوع سے غیر متعلق بحث ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم @محمد طارق عبداللہ بھائی! یہ بات واقعی ہے کہ عقائد کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ قطعی عقائد جن پر کفر و اسلام کا دارومدار ہے۔ ان میں حضرت ابو بکر صدیق رض سے لے کر آج تک ہر مسلمان یکساں ہے اور جو نہیں ہے تو وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اللہ کی وحدانیت، نبی کریم ﷺ کی نبوت اور آپ کی ختم نبوت کا عقیدہ وغیرہ۔
دوسری قسم کے عقائد وہ ہیں جو استنباطی ہیں جیسے سماع موتی، جہت باری تعالی اور صفات کے عقائد۔ چونکہ یہ استنباطی ہیں اس لیے ان میں اختلاف بھی ممکن ہے اور یہ اختلاف فہم دلیل کا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر حافظ ابن حجرؒ اشعری ہیں۔ وہ ان استنباطی عقائد کو اپنے انداز میں سمجھتے ہیں۔ اب جو حضرات ان میں سلفی ہیں وہ ابن حجرؒ کو کافر نہیں کہتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان عقائد میں ابن حجرؒ خطا پر ہیں اور ہم درست۔ یہ اختلاف فہم ہے۔
اسی طرح تصوف بھی ہے۔ اس میں بعض کام واضح بدعت ہیں، بعض واضح گناہ اور بعض کام بالکل درست ہیں۔ ان درست کاموں میں آراء کا اختلاف ہے، بعض حضرات ایک کام کو اپنے فہم کی بنا پر درست سمجھتے ہیں تو دوسرے نہیں سمجھتے۔ اس لیے مطلقاً تصوف پر غلط ہونے کا حکم لگانا بذات خود صحیح نہیں۔
بہرحال یہ اس موضوع سے غیر متعلق بحث ہے۔
جزاک اللہ خیرا اشماریہ بهائی

موضوع سے هٹ کر ہی هے ، لیکن آپ کے جواب سے خاطر خواہ تسلی هوئی ، اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے ۔ آپ نے واقعی عمدہ تشریح کی خصوصا اس حد فاصل کی جو اسلام کا امتیاز هے ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اہ خوب کہی ۔ مختصر اور طویل والی بات ۔ عقیدہ وہ تمام جنکا ذکر قرآن و حدیث میں مذکور و موجود هے ، بغیر کسی کمی بیشی کے ۔
دور تو عالم اسلام نے شیخ ابن تیمہ رحمہ کا بهی دیکها اور شیخ محمد بن عبدالوهاب کا بهی دیکها ۔ بدعتوں کو ختم بهی کیا ، عجیب بات هے کہ آپ بدعتوں کے خاتمے کو بدعت کہتے ہیں ۔
خیر آپ نے اس مراسلے میں بهی وہ سب کہا نہیں جو کہ محترم ابن عثمان نے اپنے مراسلہ میں پوچها تها ۔
رہ گئی بات خوردبین لگانے والی تو اس کی ضرورت کم ترین نگاہ رکهنے والوں کو بهی نہیں هوگی جنکی آنکهوں کی روشنیاں کمزور هو چکی ہیں ، فی الوقت تو بدعت و شرک میرے ذاتی خیال سے اپنے پورے عروج پر هے ۔
مفاہمت کی گنجائش ابن عثمان بهائی اور اشماریہ بهائی بتائیں کہ کس طرح پیدا کی جائے جب اس طرح کی سوچیں هوں !؟
عقیدہ کی طویل الذیلی نے ہی تو سارے افتراق وانتشار گھڑے ہیں،کبھی فرصت ملے تواپنے ہی مسلک کے عالم مولانا ابوالکلام آزاد کی سورہ فاتحہ کی تفسیر کا مطالعہ کیجئے گا، یاپھر دل تھوڑا وسیع ہے تو علامہ سید سلیمان ندوی کی اہل السنہ والجماعت نامی کتاب کا مطالعہ کیجئے، پتہ چلے گاکہ اسلام کی بیشتر مصیبت یہی عقیدہ کی طوالت اور خوردبینی ونکتہ چینی ہے۔
ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب پر بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی، اس لئے اس بحث کو چھوڑناہی مناسب ہے کیونکہ وہ خداکے پاس پہنچ چکے،اور بات تو اب کی ہورہی ہے ،ماضی میں کس نے کیاکیا،اس پر رونے سے کیاحاصل ہوگا۔
جس مضمون پر یہ بات شروع ہوئی ہے اس میں تو صاف اورسیدھے طورپر یہ کہاگیاہے کہ فقہی مسائل کے اختلاف میں عوام کو نہ ڈالاجائے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقولہ بھی ہے کہ لوگوں سے ان کے عقل کے بقدر بات کیاکرو کیاتم چاہتے ہواللہ اوراس کے رسول کےا رشادات جھٹلائے جائیں۔
اب عوام کو فقہی اختلاف میں الجھانے بچنے کی اپیل میں کیاآپ کو کوئی اعتراض ہے ،اگراعتراض نہیں ہے تو پھر اتفاق اوراتحاد کی بنیاد موجود ہے ،اگرآپ کو اس بنیادی نقطہ ہی سے اختلاف ہے توپھر اس تحریر کو پیش کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، صلاح الدین یوسف صاحب کی تحریر پیش کردینی تھی۔
رہ گئی بات عقیدہ میں اختلاف کی،تو ظاہرسی بات ہے کہ ہر شخص وہی عقیدہ رکھتاہے جس کو وہ بہتر سمجھتاہے جس طرح آپ کی نگاہ میں ،میں غلط ہوں، اسی طرح آپ میری نگاہ میں غلط ہیں، اب میں آپ کا مسلک اختیار کروں یاآپ میرامسلک اختیار کریں، وہ اسی وقت ہوسکتاہے کہ جب ہم دونوں میں سے کسی ایک کو ہدایت مل جائے اورمخالف کے مسلک پر شرح صدر ہوجائے،ورنہ تواپنی دہی کو سبھی میٹھاکہتے ہیں، گمراہ سے گمراہ تحریک اور تنظیم بھی اپنے لئے خوبصورت سلوگن وضع کرتی ہے، سلوگن سے کیاہوتاہے؟
مفاہمت کی یہ شکل جوآپ کی تحریر کے بین السطور سے عیاں ہے کہ آپ کے خیال میں جوقرآں وحدیث کا عقیدہ ہے (اورجومیرے خیال میں نہیں ہے)اس کواختیار کرلیں تو یہ اس بھائی چارے والی بات ہے جس میں ایک بھائی ہوتاہے اور دوسراچارہ،
اتفاق واتحاد کی سب سے بہتر بنیاد یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
عمدہ اور خوب کہا ۔ آپ کی رائے دینے کا اور دیگر وجوہات کے بیان کرنے کا شکریہ ۔
میں نے صرف اپنی بات کی تهی ، جس طرح اس مراسلہ میں پہلی بار آپ نے اپنی رائے دی هے ۔ بقیہ باتیں اتحاد والی تو اس تهریڈ میں محترم اشماریہ بهائی کے مراسلات قابل قدر و احترام ہیں میری نظر میں ۔ جب بات کهل کر هوتی هے تب ہی واضح هوتی هے ۔ جس طرح انهوں نے وضاحت کی حد فاصل کی ۔
 
Last edited:

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
سب سے پہلی پوسٹ میں زادالمعاد مختصر کا ذکر آیا ہے. اس کتاب کا ترجمہ کسی ندوی صاحب نے کیا ہے. جہاں تک مجھے یاد ہے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیث کا حوالہ قوسین میں درج ہے.

میرا سوال یہ ہے کہ
اس حدیث کا اصل متن میں ہے یا مترجم نے اس کمی کو قوسین میں پورا کیا ہے.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

@عدیل سلفی بھائی

اصل اختلاف جہاں ہیں وہاں بات کوئی کرتا نہیں ۔ ھر تان ٹوٹتی ہے رفع الیدین، آمین، تراویح پر ۔
 
شمولیت
اپریل 18، 2020
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
40
ہماری بھی نگاہ میں اہل حدیث تین طرح کے ہیں، ایک تو عبدالمنان نورپوری کی طرح کے حضرات جن کا ماننایہ ہے کہ اہل حدیث اوراحناف میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔
دوسری طرف طالب الرحمن توصیف الرحمن اور معراج ربانی جیسے قبیل کے لوگ ہیں، جن کی دریدہ دہنی حد بیان سے باہر ہے اورجو شاید زبان کو ہی تلوار سمجھ بیٹھے ہیں، فقہ حنفی امام ابوحنیفہ وغیرہ کے تعلق سے ان کے خیالات کسی سے مخفی نہیں،
ایک ان سے بھی آگے بڑھ کر کریلا اورنیم چڑھاکے مصداق مقبل الوادعی اورزبیر علی زئی جیسے لوگ ہیں،جن کے نزدیک امام ابوحنیفہ کی ثقاہت تو ایک طرف عدالت تک مشتبہ ہے۔
اول الذکر سے احناف کاکوئی زیادہ اختلاف نہیں ہے، اختلاف جوکچھ اورجیساکچھ ہے وہ ثانی اورثالث سے ہے۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک حق گو راسخ العقیدہ عالم دین تھے جنہوں نے ہمیشہ قرآن و سنت کے فہم کو مدنظر رکھا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بلاشبہ اہل الرائے کے امام تھے لیکن حدیث میں کمزور تھے۔ ایک ضعیف راوی تھے لیکن آپ لوگ ان کو ہر فن مولا ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں جو کہ یقیناً غلط بات پے۔ پھر ان کے حوالے سے یہ بات کہ اعمال سے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا قرآن کے بھی خلاف ہے جو کہ واضح طور پر کہتا ہے کہ اہل ایمان کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان کے سامنے آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔
 

احمدشریف

مبتدی
شمولیت
اپریل 21، 2022
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
12
کیا روایت کرنے کی کم صلاحیت آدمی ہر کے فن کو ختم کردیتی ہے۔ جیسے وہ ماہر جرح تعدیل نہیں بن سکتا، مفسر نہیں بن سکتا، شارح حدیث نہیں بن سکتا۔ ایک اچھا فقیہہ اور مجتہد نہیں بن سکتا۔ ایک اچھا مصلح امت نہیں بن سکتا۔ ایک اچھا قاضی نہیں بن سکتا، یا قاضی کے سامنے گواہی نہیں دے سکتا۔
جس ماہر کو اپنے سامنے لکھی تحریر کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اس کو ایک اچھا راوی کی شرط کیوں ضروری ہے۔ یا تحریر کا اچھا مفہوم بتا دینا کافی ہوتا ہے، تو اچھا پکا حافضہ، روایت کی مہارت کیوں ضروری ہے۔
یا ایک ماہر اچھے پکے حافظہ والے افراد سے مشورہ کر سکتا ہے، ان کو اپنے شوریٰ میں رکھ سکتا ہے
.
بحث کے دوران ماہر جرح ازدی کا نام آیا تو ٓضعیف کا نعرہ لگ گیا۔ عاصم کوفی کا نام آیا تو ضعیف کا نعرہ لگ جاتا ہے
 
Top