• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی امام بہت تیز نماز پڑھاتا ھےکیا اسکے پیچھے نماز جائز ھے??

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے اس فقرہ کو واضح اس لئے کیا کہ نووی رحمۃ اللہ کے شاگرد یہ فرما رہے ہیں جس سے نووی رحمۃ اللہ کی بات کی تصدیق معلوم ہوتی ہے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں
امام النووی نے اس مکمل حدیث کو یہاں تو کیا،، کہیں اور بھی صحیح نہیں کہا ہے!
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
بعض راویوں پر ’’کذب‘‘ کا الزام ہوتا ہے مگر اس کذب کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو اردو میں مروج ہے۔ مثلاً ایک راوی کے متعلق میں نے پڑھا کہ اس پر ’’کذب‘‘ کا الزام اس وجہ سے لگا دیا گیا کہ اس نے ایک واقعہ میں صحابہ کرام کی تعداد غلط بتائی۔ حالانکہ یہ کذب نہیں حافظہ کی کمی یا غلط معلومات کہلائیں گی۔ واللہ اعلم
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جہاں تک طرق کی بات ہے وہ موجود تو ہیں۔ چونکہ وہ تقریباً تمام بلا سند ہی مجھے ملے اس لئے ان کو ذکر کرنا میں نے مناسب نہ سمجھا۔
کیا بات ہے، بلاسند اور طرق!
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں
امام النووی نے اس مکمل حدیث کو یہاں تو کیا،، کہیں اور بھی صحیح نہیں کہا ہے!
وقال السيوطي سئل الشيخ محي الدين النووي رحمه الله تعالى عن هذا الحديث فقال انه ضعيف أي سندا. وإن كان صحيحا أي معنى.
سیوطی رحمۃ اللہ نے نووی رحمۃ اللہ سے پوچھا اس حدیث کے بارے تو نووی رحمۃ اللہ نے فرمایا کہ سند کے لحاظ سے یہ ضعیف ہے اور اس معنیٰ میں یہ صحیح ہے۔
مفہوم بیان کرنے میں کہیں غلطی ہو تو اس کی نشاندہی فرما دیجئے گا کیوں کہ نہ تو میں عالم ہوں اور نہ ہی کسی دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل۔ میں تو صرف امت مسلمہ کے افتراق سے پریشاں ہوں اور چاہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے امت ایک پلیٹ فارم پر آجائے۔
اس مقصد کے لئے محدث فورم بہت مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے بشرطیکہ اسے تعصب سے پاک رکھا جائے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سیوطی رحمۃ اللہ نے نووی رحمۃ اللہ سے پوچھا اس حدیث کے بارے تو نووی رحمۃ اللہ نے فرمایا کہ سند لے لحاظ سے یہ ضعیف ہے اور اس معنیٰ میں یہ صحیح ہے۔
ملون ترجمہ درست نہیں!
نہ نیلے رنگ والا!
اور نہ ہی سرخ رنگ والا!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حنفی حنیف صاحب نےمحمد فواد عبد الباقی کی درج ذیل تعلیق پیش کی :

﴿تعليق محمد فؤاد عبد الباقي﴾
في الزوائد إسناده ضعيف لضعف حفص بن سليمان. وقال السيوطي سئل الشيخ محي الدين النووي رحمه الله تعالى عن هذا الحديث فقال انه ضعيف أي سندا. وإن كان صحيحا أي معنى. وقال تلميذه جمال الدين المزي هذا الحديث روى من طرق تبلغ رتبة الحسن. وهو كما قال. فإني رأيت له خمسين طريقا وقد جمعتها في جزء. كلم الإمام السيوطي.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 81 جلد 01 سنن ابن ماجة ﴿تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي﴾ - ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، (المتوفى: 273هـ) - دار إحياء الكتب العربية

محمد فواد عبد الباقی نے یہ کلمات دار اصل كفاية الحاجة في شرح سنن ابن ماجه ﴿حاشية السندي على سنن ابن ماجه﴾ سے نقل کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
قَوْلُهُ (طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ) قَالَ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَدْخَلِ أَرَادَ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ الْعِلْمَ الَّذِي لَا يَسَعُ الْبَالِغَ الْعَاقِلَ جَهْلُهُ أَوْ عِلْمَ مَا يَطْرَأُ لَهُ أَوْ أَرَادَ أَنَّهُ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَتَّى يَقُومَ بِهِ مَنْ فِيهِ كِفَايَةٌ وَقَالَ سُئِلَ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ تَفْسِيرِ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ لَيْسَ هُوَ الَّذِي يَظُنُّونْ إِنَّمَا هُوَ أَنْ يَقَعَ الرَّجُلُ فِي شَيْءٍ مِنَ أُمُورِ دِينِهِ فَيَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى يَعْلَمَهُ وَقَالَ الْبَيْضَاوِيُّ الْمُرَادُ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَا مَنْدُوحَةَ لِلْعَبْدِ مِنْهُ كَمَعْرِفَةِ الصَّانِعِ وَالْعِلْمِ بِوَحْدَانِيِّتِهِ وَنُبُوَّةِ رَسُولِهِ ـ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ـ وَكَيْفِيَّةِ الصَّلَاةِ فَإِنَّ تَعَلُّمَهُ فَرْضُ عَيْنٍ وَقَالَ الثَّوْرِيُّ هُوَ الَّذِي لَا يُعْذَرُ الْعَبْدُ فِي الْجَهْلِ بِهِ وَقَالَ الشَّيْخُ أَبُو حَفْصٍ هُوَ الْمَشْهُورُ فَإِنَّ غَيْرَهُ اخْتُلِفَ فِي الْعِلْمِ الَّذِي هُوَ فَرِيضَةٌ فَقِيلَ هُوَ عِلْمُ الْإِخْلَاصِ مَأْمُورٌ بِهِ كَمَا أَنَّ الْعِلْمَ مَأْمُورٌ بِهِ وَشَهَوَاتُ النَّفْسِ تُخَرِّبُ مَبَانِيَ الْإِخْلَاصِ مِنَ الْمَأْمُورِ بِهِ فَصَارَ عِلْمُ ذَلِكَ فَرْضًا وَقِيلَ مَعْرِفَةُ الْخَوَاطِرِ وَتَفْصِيلُهَا فَرِيضَةٌ لِأَنَّ الْخَوَاطِرَ فِي نَشْأَةِ الْعَقْلِ وَبِذَلِكَ يُعْلَمُ الْفَرْقُ بَيْنَ لَمَّةِ الْمَلَكِ وَلَمَّةِ الشَّيْطَانِ وَقِيلَ هُوَ طَلَبُ عِلْمِ الْحَلَالِ حَيْثُ كَانْ أَكْلُ الْحَلَالِ فَرِيضَةً وَقِيلَ هُوَ عِلْمُ الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ وَالنِّكَاحِ وَالطَّلَاقِ إِذَا أَرَادَ الدُّخُولَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ يَجِبُ عَلَيْهِ طَلَبُ عِلْمِهِ وَقِيلَ هُوَ عِلْمُ الْفَرَائِضِ الْخَمْسِ الَّتِي بُنِيَ عَلَيْهَا الْإِسْلَامُ وَقِيلَ هُوَ طَلَبُ عِلْمِ التَّوْحِيدِ بِالنَّظَرِ وَالِاسْتِدْلَالِ وَالنَّقْلِ وَقِيلَ هُوَ طَلَبُ عِلْمِ الْبَاطِنِ وَهُوَ مَا يَزْدَادُ بِهِ الْعَبْدُ يَقِينًا وَهُوَ الَّذِي يُكْتَسَبُ بِصُحْبَةِ الصَّالِحِينَ وَالزُّهَّادِ وَالْمُقَرَّبِينَ فَهُمْ وَرَثَةُ عِلْمِ النَّبِيِّينَ - صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِمْ - أَجْمَعِينَ انْتَهَى قَوْلُهُ (عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ) أَيْ مُكَلَّفٍ لِيَخْرُجَ غَيْرُ الْمُكَلَّفِ مِنَ الصَّبِيِّ وَالْمَجْنُونِ وَمَوْضُوعُهُ الشَّخْصُ فَيَشْمَلُ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى وَقَالَ السَّخَاوِيُّ فِي الْمَقَاصِدِ أَلْحَقَ بَعْضُ الْمُصَنِّفِينَ بِآخِرِ هَذَا الْحَدِيثِ وَمُسْلِمَةٍ وَلَيْسَ لَهَا ذِكْرٌ فِي شَيْءٍ مِنْ طُرُقِهِ وَإِنْ كَانَتْ صَحِيحَةَ الْمَعْنَى وَوَاضِعٌ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ قَالَ الطِّيبِيُّ هَذَا يُشْعِرُ بِأَنَّ كُلَّ مُسْلِمٍ يَخْتَصُّ بِاسْتِعْدَادٍ وَلَهُ أَهْلٌ فَإِذَا وَضَعَهُ فِي غَيْرِ مَوْضِعِهِ فُقِدَ فَمِثْلُهُ تَقْلِيدُ أَخَسِّ الْحَيَوَانَاتِ بِأَنْفَسِ الْجَوَاهِرِ تَهْجِينًا لِذَلِكَ الْوَضْعِ وَتَنْفِيرًا عَنْهُ وَفِي تَعَقُّبِ هَذَا التَّمْثِيلِ قَوْلُهُ طَلَبُ الْعِلْمِ إِعْلَامٌ بِأَنَّهُ يَنْبَغِي لِكُلِّ أَحَدٍ طَلَبُ مَا يَلِيقُ بِاسْتِعْدَادِهِ وَيُوَافِقُ مَنْزِلَتَهُ بَعْدَ حُصُولِ مَا هُوَ وَاجِبٌ مِنَ الْفَرَائِضِ الْعَامَّةِ وَعَلَى الْعَالِمِ أَنْ يَخُصَّ كُلَّ طَالِبٍ بِمَا هُوَ مُسْتَعِدٌّ لَهُ انْتَهَى وَفِي الزَّوَائِدِ إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ لِضَعْفِ حَفْصِ بْنِ سُلَيْمَانَ وَقَالَ السُّيُوطِيُّ سُئِلَ الشَّيْخُ مُحْيِي الدِّينِ النَّوَوِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ إِنَّهُ ضَعِيفٌ أَيْ سَنَدًا وَإِنْ كَانَ صَحِيحًا أَيْ مَعْنًى وَقَالَ تِلْمِيذُهُ جَمَالُ الدِّينِ الْمِزِّيُّ هَذَا الْحَدِيثُ رُوِيَ مِنْ طُرُقٍ تَبْلُغُ رُتْبَةَ الْحَسَنِ وَهُوَ كَمَا قَالَ فَإِنِّي رَأَيْتُ لَهُ نَحْوَ خَمْسِينَ طَرِيقًا وَقَدْ جَمَعْتُهَا فِي جُزْءٍ انْتَهَى.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 155 – 156 حاشية السندي على سنن ابن ماجه = كفاية الحاجة في شرح سنن ابن ماجه - محمد بن عبد الهادي التتوي، أبو الحسن، نور الدين السندي (المتوفى: 1138هـ) - بيت الأفكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 146 – 147 جلد 01 حاشية السندي على سنن ابن ماجه = كفاية الحاجة في شرح سنن ابن ماجه - محمد بن عبد الهادي التتوي، أبو الحسن، نور الدين السندي (المتوفى: 1138هـ) – دار المعرفة، بيروت


اور علامہ سندھی رحمہ اللہ نے نے یہ امام سیوطی رحمہ اللہ سے نقل کتاب
مصباح الزجاجة على سنن ابن ماجة سےنقل کیا ہے، اور روایت سُئِلَ الشَّيْخُ مُحْيِي الدِّينِ النَّوَوِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ إِنَّهُ ضَعِيفٌ أَيْ سَنَدًا وَإِنْ كَانَ صَحِيحًا أَيْ مَعْنًى میں سرخ رنگ کے الفاظ کا وضاحتی ادراج کیا ہے!

قَوْله طلب الْعلم فَرِيضَة على كل مُسلم سُئِلَ الشَّيْخ مُحي الدّين النَّوَوِيّ عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَ أَنه ضَعِيف وان كَانَ صَحِيحا
وَقَالَ تِلْمِيذه الْحَافِظ جمال الدّين الْمزي هَذَا الحَدِيث روى من طَرِيق تبلغ رُتْبَة الْحسن وَهُوَ كَمَا قَالَ فَأَنِّي رَأَيْت لَهُ خمسين طَرِيقا وَقد جمعتها فِي جُزْء قَالَ الْبَيْهَقِيّ فِي الْمدْخل اما أَرَادوا الله اعْلَم الْعلم الْعَام الَّذِي لَا يسع الْبَالِغ الْعَاقِل جَهله أَو علم مَا يطْرَأ لَهُ خَاصَّة أَو أَرَادَ أَنه فَرِيضَة على كل مُسلم حَتَّى يقوم بِهِ من فِيهِ كِفَايَة ثمَّ روى عَن بن الْمُبَارك انه سُئِلَ عَن تفسيرهذا الحَدِيث فَقَالَ لَيْسَ هُوَ الَّذِي يظنون انما طلب الْعلم فَرِيضَة ان يَقع الرجل فِي شَيْء من أُمُور دينه فَيسْأَل عَنهُ حَتَّى يُعلمهُ وَقَالَ الْبَيْضَاوِيّ المُرَاد من الْعلم هُنَا مَالا مندوحة للْعَبد عَن تعلمه كمعرفة الصَّانِع وَالْعلم بوحدانيته ونبوة رَسُوله وَكَيْفِيَّة الصَّلَاة فَإِن تعلمه فرض عين.
قَوْله وَوَاضِع الْعلم عِنْد غير أَهله قَالَ الطَّيِّبِيّ يشْعر بِأَن كل علم يخْتَص باستعداد وَله أهل فَإِذا وَضعه فِي غير مَوْضِعه فقد ظلم فَمثل معنى الظّهْر بتقليلد اخس الْحَيَوَان بأنفس الْجَوَاهِر التسجين ذَلِك الْوَضع والتنفير عَنهُ قَالَ الشَّيْخ أَبُو حَفْص السهروردي اخْتلف فِي الْعلم الَّذِي هُوَ فَرِيضَة قيل هُوَ علم الْإِخْلَاص وَمَعْرِفَة النَّفس والنفوس وَمَا يفْسد الْأَعْمَال لِأَن الْإِخْلَاص مَأْمُور بِهِ كَمَا ان الْعَمَل مَأْمُور بِهِ وخدع النَّفس وغرورها وشهواتها تخرب مباني الْإِخْلَاص الْمَأْمُور بِهِ فَصَارَ علم ذَلِك فرضا وَقيل معرفَة الخواطر وتفصيلها لِأَن الخواطر منشاء الْفِعْل وَبِذَلِك يعرف الْفرق بَين لمة الْملك وَبَين لمة الشَّيْطَان وَقيل هُوَ طلب علم الْحَلَال حَيْثُ كَانَ أكل الْحَلَال فَرِيضَة وَقيل هُوَ علم البيع وَالشِّرَاء وَالنِّكَاح وَالطَّلَاق إِذا أَرَادَ الدُّخُول فِي شَيْء من ذَلِك يجب عَلَيْهِ طلب علمه وَقيل هُوَ علم الْفَرَائِض الْخمس الَّتِي بني عَلَيْهِ الْإِسْلَام وَقيل هُوَ علم التَّوْحِيد بِالنّظرِ وَالِاسْتِدْلَال أَو النَّقْل وَقيل هُوَ علم الْبَاطِن وَهُوَ مَا يزْدَاد بِهِ العَبْد يَقِينا وَهُوَ الَّذِي يكْتَسب بِصُحْبَة الصَّالِحين والزهاد والمتعبدين فهم وارثو علم النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 155 مصباح الزجاجة على سنن ابن ماجة - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - بيت الأفكار الدولية

امام سیوطی اور امام النووی کا زمانہ ملاحظہ فرمائیں:
عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (849 - 911 هـ، 1445 - 1505 م).
أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (631 - 676هـ، 1234- 1278م).

یعنی کہ امام سیوطی کی پیدائش امام النووی کی وفات کے قریباً 173 سال بعد ہوئی ہے!

امام سیوطی نے امام النووی سے نہیں پوچھا، بلکہ امام سیوطی نے کہا کہ امام النووی سے پوچھا گیا!
کس حدیث کے بارے میں امام النووی سے پوچھا گیا، وہ امام السیوطی نے مصباح الزجاجة على سنن ابن ماجة میں یوں تحریر فرمایا ہے:
''قَوْله طلب الْعلم فَرِيضَة على كل مُسلم سُئِلَ الشَّيْخ مُحي الدّين النَّوَوِيّ عَن هَذَا الحَدِيث''
یعنی کہ امام النووی سے کئے گئے سوال کی اور امام النووی کے جواب کا تعلق ''قَوْله طلب الْعلم فَرِيضَة على كل مُسلم'ٰ' سے ہے نہ کہ اس ابن ماجہ کی راویت کے مزید الفاظ سے!
امام النووی نے کہا کہ ضعیف ہے، اور اس کے معنی میں امام سندھی نے وضاحتی ادارج کیا ہے کہ یہاں سند کو ضعیف کہا ہے، یعنی یہ سنداً ضعیف ہے! یعنی ابن ماجہ کی سند کے ساتھ ضعیف ہے!
امام النووی نے یہ کہا ہے کہ گو کہ صحیح ہے۔ اس کے معنی میں امام سندھی نے وضاحتی ادراج کیا ہے کہ یہاں اس معنی صحیح ہیں، یعنی کہ یہ الفاظ ''قَوْله طلب الْعلم فَرِيضَة على كل مُسلم'ٰ' صحیح ہیں۔ یعنی دیگر سند سے ثابت ہیں۔

اب درست ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

امام سیوطی کی کتاب مصباح الزجاجة على سنن ابن ماجة کے الفاظ:
قَوْله طلب الْعلم فَرِيضَة على كل مُسلم سُئِلَ الشَّيْخ مُحي الدّين النَّوَوِيّ عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَ أَنه ضَعِيف وان كَانَ صَحِيحا
الشیخ محیی الدین النووی سے حدیث''قَوْله طلب الْعلم فَرِيضَة على كل مُسلم'ٰ' کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا: کہ یہ ضعیف ہے، گو کہ (دیگر نصوص سے) صحيح ثابت ہے ۔

علامہ سندھی کی تصنیف
حاشية السندي على سنن ابن ماجه = كفاية الحاجة في شرح سنن ابن ماجه اور محمد فواد عبد الباقی کی تعلیق کے الفاظ:
وَقَالَ السُّيُوطِيُّ سُئِلَ الشَّيْخُ مُحْيِي الدِّينِ النَّوَوِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ إِنَّهُ ضَعِيفٌ أَيْ سَنَدًا وَإِنْ كَانَ صَحِيحًا أَيْ مَعْنًى
امام سیوطی نے کہا: الشیخ محیی الدین النووی سے حدیث''قَوْله طلب الْعلم فَرِيضَة على كل مُسلم'ٰ' کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا: کہ یہ ضعیف ہے، یعنی کہ اس کی سند ضعیف ہے، گو کہ (دیگر نصوص سے) صحيح ثابت ہے یعنی ''قَوْله طلب الْعلم فَرِيضَة على كل مُسلم'ٰ'کا معنی۔

اس روایت پر شعيب الأرناؤوط الحنفي اور دیگر کی تعلیق ملاحظہ فرمائیں
حديث حسن بطرقه وشواهده -فيما ذهب إليه المزي والسيوطي وغيرهما من أهل العلم- دون قوله: "وواضع العلم عند غير أهله ... " إلخ، فضعيف جدًا، فإن حفص بن سليمان- وهو الكوفي القارئ- متروك الحديث. وانظر تخريج أحاديث "الإحياء" للعراقي 1/ 55 - 57، و"المقاصد الحسنة" ص 275 - 277.
وأخرجه السهمي في "تاريخ جرجان" ص 316، وابن عبد البر في "بيان العلم وفضله" 1/ 9، والمزي في ترجمة كثير بن شنظير من "تهذيب الكمال" 24/ 126 من طريق حفص بن سليمان، بهذا الإسناد. واقتصر ابن عبد البر على أوله.
وأخرج الشطر الأول منه أبو يعلى (2837) و (2903) و (4035)، والعقيلي في "الضعفاء" 4/ 250، والطبراني في "الأوسط" (9) و (2008) و (2462) و (8381) و (8834)، وابن عدي في "الكامل" 6/ 2091، والبيهقي في "الشعب" = = (1663 - 1666)، والخطيب في "تاريخ بغداد" 4/ 156 و207 - 208 و7/ 386، وابن عبد البر 1/ 7 - 9، وابن الجوزي في "العلل المتناهية" 1/ 67 - 71 من طرق عن أنس بن مالك مرفوعًا.
قال السندي: قوله: "طلب العلم فريضة" قال البيهقي في "المدخل": أراد -والله تعالى أعلم- العلمَ الذي لا يسع البالغَ العاقلَ جهلُه، أو علم ما يطرأ له، أو أراد أنه فريضة على كل مسلم حتى يقوم به مَن به كفاية، وقال: سئل ابنُ المبارك عن تفسير هذا الحديث. فقال: ليس هو الذي يظنون، إنما هو أن يقع الرجل في شيء من أمور دينه فيسأل عنه حتى يعلمه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 151 – 152جلد 01 سنن ابن ماجة ﴿تحقيق: شعيب الأرناؤوط الحنفي وآخرون﴾ - ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، (المتوفى: 273هـ) - دار الرسالة العالمية

انہوں نے بھی امام سیوطی اور جمال الدین المزي کے کلام سے وہی سمجھا ہے، جو ہم نے بیان کیاہے،کہ اس روایت کا پہلا حصہ اس روایت کی سندکے علاوہ دیگر اسانید سے ثابت ہے، جبکہ اس روایت کا دوسرا حصہ شدید ضعیف ہے!

 
Top