• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکام وقت کی اطاعت احادیث نبویہ ﷺ کی روشنی میں از الشیخ ذکاءاللہ السندھی حفظہ اللہ

Ibrahim Qasim

مبتدی
شمولیت
مارچ 14، 2016
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
25
حکام وقت کی اطاعت احادیث نبویہ ﷺ کی روشنی میں

الشیخ ذکاءاللہ السندھی حفظہ اللہ
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کیااطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔
(بخاری: 2957، الفاظ بخاری کے ہیں، نیز دیکھئے مسلم:1835)
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
ایک مسلمان پر سمع واطاعت فرض ہے چاہے اسے پسند ہو یا نا پسند ہو، الا یہ کہ اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے ، اگر امیر اسے نافرمانی کا حکم دے تو نہ تو اس پر سننا ہے اور نہ ماننا۔
(بخاری 7144، مسلم: 1839 الفاظ مسلم کے ہیں)۔
حذیفۃ بن الیمانؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہا آپ ﷺ نے فرمایا
میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نہ تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے ان میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے اور دل شیطان کے۔
میں نے کہا:
اے اللہ کے رسول! اگر میں ایسے لوگوں کو پالوں تو کیا کروں؟
آپﷺ نے فرمایا:
حاکم وقت کی سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگرچہ تمہاری پیٹھ پر مارے اور تمہارا سارا مال لے لے۔ سنو اور اطاعت کرو۔
(مسلم:1847)۔
علقمۃ ابن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
سلمۃ بن یزید بحفیؓ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا، وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے کہا:
اے اللہ کے نبی اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہوجائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارا حق روکیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سنو اور اطاعت کرو، ان کا کام وہ ہے جو انہیں سونپا گیا ہے اور تمہارا کام وہ ہے جو تمہیں سونپا گیا ہے۔
(مسلم:1846)
عیاض بن غنم ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جو کوئی کسی صاحب منصب کو نصیحت کا ارادہ کرے تو اسے علانیۃ ظاہر نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ تھامے او اسے اکیلے میں لے جائے، اگر وہ اس کی بات سن لے تو ٹھیک ورنہ اس نے اپنی ذمہ داری ادا کردی۔
السنۃ لابن ابی عاصم 1096، نیز البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔
ام سلمۃؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نےفرمایا:
عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جوان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا، اور جس نے ان پر انکار کیا اس کا ذمہ بری ہوگیا لیکن جو راضی ہو گیا اور اسی صورت کے پیچھے چل پڑا ،
صحابہ نے فرمایا :
کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟
آپﷺ نے فرمایا :
نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔
(صحیح مسلم:1854)۔
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(
جو اطاعت سے نکلا اور جماعت سے الگ ہوا اور اسی حال میں مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔
(مسلم: 1848)
عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
جسے اپنے امیر کی کوئی بات بری لگے تو اس کو چاہئے کہ اس پر صبر کرے ؛ کیونکہ جو بھی امیر کی اطاعت سے ایک بالشت بھی باہر نکلا اور پھر اسی حال میں مرگیا۔تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوئی ۔
(بخاری:7053، مسلم: 1849 الفاظ مسلم کے ہیں)
عرفجہ اشجعیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جو تمہارے پاس اس حال میں آئے جبکہ تم پر ایک امیر قائم ہے اور تمہاری اجتماعیت کو توڑنے کی کوشش کرے یا اس میں انتشہار وتفرق پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کو قتل کردو۔
اور ایک روایت میں ہے :
تو اس تلوار سے اس کی گردن ماردو جو بھی ہو۔
(مسلم:1852)۔
10۔ نیز عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی طویل مرفوع حدیث میں ہے:
جو کسی امیر کی بیعت کرے اور اسے اپنی وفاداری سونپ دے ، دل سے اس کی اطاعت پر راضی ہو جائے تو اسے چاہئے کہ حتی المقدور اس کی اطاعت کرے پھر اگر کوئی دوسرا آکر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کی گردن ماردو۔
(مسلم :1844)۔
11۔ ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
جب دو امیروں کی بیعت ہو تو ان میں سے دوسرے کو قتل کردو۔
(مسلم)
12۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
جو ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔
اور ایک روایت میں ہے:
جو ہم پر تلوار سونتے وہ ہم میں سے نہیں ۔
(مسلم :98۔99)
13۔ حزیفۃ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں :
لوگ رسول اللہﷺ سے بھلائی کے بارے میں سوال کرتے تھے جبکہ میں آپﷺ سے شر(برائی) کے بارے میں سوال کرتا تھا کہ کہیں مجھ تک نہ پہنچ جائے چنانچہ میں نے کہا:
اے اللہ کے رسول ﷺ ہم جاہلیت اور شر کی دلدلوں میں پھنسے ہوئے تھے پھر اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر عطا فرمائی تو کیااب اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں،
میں نے کہا:
کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہے؟
آپ نے فرمایا: ہاں ، لیکن اس میں دھواں ہوگا،
میں نے کہا : دھواں کیسا؟
فرمایا : ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کو چھوڑ کر دوسری سنتیں اختیار کریں گے، اور میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقے اختیار کریں گے ، تم ان کی بعض باتوں کو پہچانو گے اور بعض کا انکار کرو گے،
میں نے کہا : تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: ہاں جنہم کی طرف بلانے والے لوگ ہوں گے، جوان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جنہم میں پھینک دیں گے،
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ مجھے ان کے اوصاف ونشانیاں بتادیں (کہ وہ کیسے ہوں گے)
آپﷺ نے فرمایا: ہاں وہ ہماری طرح کے ہی ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے،
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ اگر مجھے یہ زمانہ مل جائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امیر کو لازم پکڑنا ،
میں نے کہا : اور اگر ان کی نہ کوئی جماعت ہو اور نہ امام؟
آپ ﷺ نے فرمایا: پھر ان تمام فرقوں سےا لگ ہوجانا اگرچہ تمہیں درخت کی ٹہنی سے ہی لٹکنا پڑے ، یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے اور تم اسی طریقے پر ہو۔
(بخاری:7084، مسلم:847 الفاظ مسلم کے ہیں)۔
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث حذیفہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ :
مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امام کو لازم پکڑنا چاہئے ، اس کی اطاعت کرنی چاہئے اگرچہ وہ فسق وفجور یا دیگر معصیت میں مبتلا ہو لوگوں کا مال غصب کرتا ہو یا دیگر گناہوں میں ملوث ہو ایسی صورت میں اگر وہ گناہ کا حکم نہ دے تو اس کی اطاعت فرض ہے۔
(شرح مسلم 12/237) ط۔دالفکر بیروت۔
14۔ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
بنواسرائیل کے امور کی تدبیر انبیاء کے ذمہ تھی، جب بھی کوئی نبی وفات پاتا اس کے بعد ایک اور نبی آجاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، لیکن خلفا، بکثرت ہوں گے ،
صحابہ کرام نے فرمایا :
اے اللہ کے رسول پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: جو پہلے امیر بنے اس کی بیعت نبھاؤ اور وفا کرو، ان کو ان کا حق دو: کیونکہ اللہ نے ان کے سپرد جو کیا ہے اللہ ان سے اس بارے میں پوچھے گا۔
(بخاری 3455، مسلم 1842)
15۔ ابن مسعود سے روایت ہے کہا آپﷺ نے فرمایا:
امیری و تونگری عام ہوجائے گی، اور ایسے امور ظاہر ہوں گے جن کو تم براجانو گے،
صحابہ کرام نے عرض کی:
اے اللہ کے رسول! آپ ایسی حالت میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
آپ نے فرمایا: جو تمہارے ذمے ان کا حق ہے اس کو ادا کرنا اور اپنا حق اللہ سے طلب کرنا۔
(بخاری: 3603، مسلم :1843)۔
عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا :
تمہارے بہترین امراء وہ ہیں جن سے تم محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں، اور جن کے لئے تم دعا کرتے ہو اور جو تمہارے لئے دعا کرتے ہیں، جبکہ تمہارے بدترین امراء وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھتے ہو وہ تم سے نفرت رکھتے ہیں اور جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کی :
اے اللہ کے رسولﷺ کیا ایسے موقع پر ہم ان سے جنگ نہ کریں؟
آپﷺ نےفر مایا:
نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو کہ جس پر کوئی امیر ہو اور وہ اسے کوئی ناجائز کام کرتا دیکھے، تو وہ اس نا جائز کام کو ناپسند کرے اور ہر گز اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے ۔
(مسلم:1855)۔
17۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
جس نے امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا اس کے لئے قیامت کے دن کوئی حجت نہیں ہوگی، اور جو اس حال میں مراکہ وہ جماعت سے الگ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
(السنۃ/ابن ابی عاصم 1075، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)
18۔ حارث ابن بشیرؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کو لازم پکڑنے کا، سننے اور اطاعت کرنے کا ، ہجرت کا، اللہ کی راہ میں جہاد کا، اور جو جماعت سے ایک بالشت بھی باہر ہوا تو اس نے اسلام کا پٹہ اپنے گلے سے اتار پھینکا۔
(ترمذی:2863، البانی نے حدیث کو صحیح کہاہے)
19۔ عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے فرمایا:
اللہ سے ڈرو ، اور سنو اور اطاعت کرو اگر چہ تمہارے اوپر ایک حبشی غلام امیر بنادیا جائے ،تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ سخت اختلافات دیکھے گا، اس لئے تم میری سنت کو لازم پکڑو اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑو او اس سے تمسک اختیار کرو۔
(اخرجہ ابن ابی عاصم السنۃ 54، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)
20۔ عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے بلایا ، ہم نے آپ ﷺ کی بیعت کی آپ نے ہم سے جن امور پر بیعت لی وہ یہ تھے کہ ہم سنیں اور اطاعت کریں چاہیں وہ کام ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔ اور ہمیں اس میں مشکل پیش آئے یا آسانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم امراء سے بغاوت نہ کریں
اور آپ نے فرمایا: سوائے اس کے کہ تم ان میں واضح کفر پاؤ جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح وصاف دلیل ہو۔
(صحیح مسلم، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ ، وتحر یمھافی المعصیۃ)
21۔ انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: اصحاب رسول اللہﷺ میں سے کبارصحابہ نے ہمیں سختی سے منع کیا: فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
نہ تو اپنے امراء کوگالی دو اور نہ ان کے پاس زیادہ جاؤ اور نہ ان سے بغض رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو؛ کیونکہ وقت بہت قریب ہے۔
22۔ تمیم داریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
دین نصیحت وخیر خواہی کا نام ہے۔
ہم نے کہا کس کی؟
آپ نے فرمایا: اللہ کے لئے اس کی کتاب کے لئے ، مسلمان امراء کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے۔
(صحیح مسلم:55)
 
Top