• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمرانوں اور رعایا کے حقوق

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
حکمرانوں اور رعایا کے حقوق

"ولاۃ" (حکمران) وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے امور کے نگران ہوتے ہیں خواہ یہ ولایت "عامہ" ہو ،جیسے سلطنت کا سربراہ اعلیٰ یا "خاصہ" ہو،جیسے کسی مخصوص ادارے یا معین کام کا سربراہ اور ان سب کا اپنی اپنی عریت پر حق ہوتا ہے جس سے وہ اپنے فرائ انجام دے سکیں۔اسی طرح عریت کا بھی ان پر حق ہے۔

رعایا کے حکمرانوں پر حقوق یہ ہیں کہ وہ اس امانت کو قائم رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذمے رکھی ہے۔وہ رعیت کی خیرخواہی کے کام سر انجام دینا لازم سمجھیں اور ایسی متوازن راہ پر چلیں جو دنوی اور اخروی مصلحتوں کی کفیل ہو۔یہ مومنوں کے راستے کا اتباع ہو گا اور یہی رسول اللہ ﷺ کا طریقہ تھا ،کیونکہ اسی میں ان کی،ان کی رعیت کی اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کی سعادت ہے۔اور یہی وہ چیز ہے جس میں رعیت زیادہ سے زیادہ اپنے حکمرانوں سے خوش اور مربوط رہ سکتی ہے۔ان کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر سکتی ہے اور اس امانت کی حفاظت بھی ہو سکتی ہے جس کے لیے رعیت نے اسے حاکم بنایا تھا۔کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اسے لوگوں سے بچاتا ہے اور جو شخص اللہ کو راضی رکھتا ہے اللہ اُس کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور اسے لوگوں کی رضامندی اور مدد سے بے نیاز کر دیتا ہے کیونکہدل تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔وہ جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔
حکمرانوں کے رعایا پر حقوق یہ ہیں کہ وہ حکمرانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورے دیں۔انہیں نصیحت کرتے رہیں تاکہ وہ راہ راست پر قائم رہیں ۔اگر وہ راہ حق سے ہٹنے لگیں تو انہیں راہ راست کی طرف بلائیں ،ان کے حکم بجا لانے میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو تی ہو تو اسے بجا لائیں کیونکہ اسی صورت میں سلطنت کا کام اور انتظام درست رہ سکتا ہے اور اور اگر حکمرانوں کی مخالفت اور نافرمانی کی جائے تو انارکی پھیل جائے گی اور سب کام بگڑ جائیں گے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ،اپنے رسول اور حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔فرمان الہی ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ
ترجمہ: مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں (سورۃ النساء،آیت 59)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
على المرء المسلم السمع والطاعة فيما أحب وكره إلا أن يؤمر بمعصية فإن أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سنے اور اطاعت کرے خواہ وہ کام اسے پسند ہو یا نا پسند مگر یہ کہ اسے نافرمانی والا حکم دیا جائے اور جب اللہ کی نافرمانی والا حکم دیا جائے تو پھر نہ سنے اور نہ اطاعت کرے۔"
اس حدیث پر شیخین کا اتفاق ہے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو رسول اللہ ﷺ کے منادی نے الصلاۃ جامعۃ کی ندا دی ۔ہم سب رسول اللہ ﷺ کے پاس اکھٹے ہو گئے آپ نے فرمایا:
إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه لهم وينذرهم شر ما يعلمه لهم وإن أمتكم هذه جعل عافيتها في أولها وسيصيب آخرها بلاء وأمور تنكرونها وتجيء فتنة فيرقق بعضها بعضا وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه مهلكتي ثم تنكشف وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه هذه فمن أحب أن يزحزح عن النار ويدخل الجنة فلتأته منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر وليأت إلى الناس الذي يحب أن يؤتى إليه ومن بايع إماما فأعطاه صفقة يده وثمرة قلبه فليطعه إن استطاع فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر (صحیح مسلم)
"اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا،اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اپنی اُمت کی ہر اس بھلائی کی طرف راہنمائی کرے جسے وہ اُمت کے لیے بہتر سمجھتا ہے اور ہر اس برائی سے ڈرائے جس کو اُمت کے لیے شر سمجھتا ہے اور تمہاری اُمت کے ابتدائی دور میں عافیت رکھی گئی ہے۔آخری دور میں آزمائش اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں م ناپسند کو گے۔ایک فتنہ آئے گا جس کا ایک ھصہ دوسرے کو کمزور بنا دے گا ۔فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا یہ مجھے پلاک کر ڈالے گا،پھر وہ ختم ہو گا تو ایک اور فتنہ آ جائے گا تو مومن کہے گا: یہ تو مجھے نہیں چھوڑے گا ،لہذا جو شخص چاہتا ہے کہ آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے اسے چاہیے کہ وہ اس حال میں مرے کہ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔اور جس نے کسی امام کی بیعت کی ،اس کے ہاتھ میں ہتھ دیا اور دل سے تسلیم کیا تو اسے چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا امام آ جائے جو اس (پہلے امام) سے جھگڑا کرے تو اس دوسرے (امام) کی گردن اڑا دو۔"
ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا،اے اللہ کے نبی ! دیکھیے اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق تو مانگتے ہوں لیکن ہمارا حق نہ دیتے ہوں تو اس بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں،آپ ﷺ نے اس شخص سے منہ پھیر لیا۔اس شخص نے دوسری بار وہی سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم (صحیح مسلم)
"ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ان کی ذمہ داری کا بار( بوجھ) ان پر ہے اور تمہاری ذمہ داری کا بوجھ تم پر!"
اسلام میں بنیادی حقوق از شیخ محمد بن صالح العثیمین
 
Top