• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمرانوں پر تنقید کی جا سکتی ہے...؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ستائیس کروڑ پچاس لاکھ کی ...."شاندار" بچت..

..
پنجاب حکومت کا ایک "بوڑھا" اور تھکا ماندہ ہیلی کاپٹر مرمت کے لیے روس جا رہا تھا..اس کی عمر یعنی "فلائنگ آورز " پورے ہو چکے تھے...پشاور سے اڑا اور افغانستان کے صوبہ لوگر میں ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی....عملے میں چھ سابق فوجی سوار تھے اور ایک روسی ماہر....ادھر ہیلی کاپٹر زمین بوس ہوا ادھر طالبان نے اسے گھیر لیا...عملے کو ساتھ لے گئے
مجھے حیرت ہوئی کہ محض مرمت کے لیے ایک چوتھائی ارب روپیہ قوم کا اس پر لگایا جا رہا تھا...اور ساتھ جانے والے افسران کو کتنا ملنا تھا ان کا آنا جانا اور مہنگے ہوٹلوں کی رہائش پر کتنا...اس کا کوئی حساب ہی نہیں..اگر حادثہ نہ ہوتا تو یہ کہانی بھی اندر ہی رہ جاتی...
المیہ ہے کہ ہمارے افسران قید میں چلے گئے...ان کے لواحقین کس پریشانی کے عالم میں ہوں گے وہ ہی جان سکتے ہیں جن پر ایسی گزرتی ہے...لیکن اخبار کے مطابق ہم نے امریکی فوجی چیف سے رابطہ کیا ہے کہ ہمارے بندے چھڑوا کے دے...اگر امریکی اس قابل ہوتے تو طالبان ان لوگوں کو قید کر سکتے.تھے ؟
..اخبار کے مطابق اس علاقے میں امریکیوں اور کابل کی حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ...جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے یعنی طالبان....جناب امریکی فوج دنیا کی نالائق ترین فوج ہے وہ آپ کے بندے نہیں لا کے دے گی....آپ کو خود ہی کچھ کرنا ہو گا...آپ کو خود ہی طالبان سے رابطہ کرنا ہو گا..البتہ ان بندوں کا اغوا امریکی فوج کے منہ پر طمانچہ ہے...کہ اتنے لاکھوں معصوم افراد کو قتل کیا..اربوں ڈالر خرچ کیے..اور بدلے میں کابل اور ایک دو مزید شہروں کی حکومت حاصل کی..ہم سے رابطہ کیا ہوتا ہم کوشش کر کے قانون منظور کروا دیتے کہ جو امریکی صدر ریٹائر ہو گا اسے مزار شریف یا فاٹا کی کسی ایجنسی کا اعزازی میر مقرر کروا دیتے...آپ کی ہوس ملک گیری بھی پوری ہو جاتی اور لاکھوں معصوم بندوں کی جان بھی بچ جاتی...
..میاں شہباز شریف صاحب ...یہ جو اتنے پیسے بچے ہیں...کیونکہ ہیلی کاپٹر کی تو انہوں نے موقعے پر ہی "ارتھی" جلا دی تھی..تو یہ جو پیسے بچے ہیں اس کے پنجاب کےہسپتالوں میں "وینٹی لیٹر" لے لیں..مشورہ ہے ..مانیں گے آپ کبھی نہیں...ان پیسوں میں تیس کے قریب ایسی مشینیں آ جائیں گی...آپ اگر کرپشن سے پاک خریداری کریں..آپ کو شاید معلوم نہیں کہ صرف لاہور کے ہسپتالوں میں اس سستی سی مشین کے نہ ہونے سے کتنے مریض مر جاتے ہیں...لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کبھی بھی ایسا نہیں کریں گے
ایسے میں حسرت سے آرزو ہے کہ کاش حکمران بھی اسی ہیلی کاپٹر میں ہوتے.....

...................ابو بکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نامراد ناسعید !

ادھر کپتان بنی گالہ میں پریس کانفرنس کے دوران فریاد لیکر آنے والی متاثره خاتون کو دھکا دے کر "جائے واردات "سے فرار ہوئے تو ادھر سوات میں انصافی وزیر مراد سعید نے جناب کے والد ذی احترام کا چالان کرنے پر غریب کانسٹیبل حیات خان کو دھکا دیکر نوکری سے معطل و چلتا کیا ، اور ان کی حیات ان پر تنگ کردی ،جناب یہی نیا پاکستان ہے ؟ یہی نیا خیبر پختون خواہ ہے ؟ کپتان صاحب پرانا کباڑ لیکر آپ گارمنٹس کی نئ دکان کا شوشہ کب تک چھوڑیں گے ؟ جہانگیر ترین کے مہنگے ترین جہاز میں سوار ہوکر نیچے کیڑے مکوڑوں کی طرح کی غریب عوام آپ کو کب نظر آئیں گی ؟فریاد لیکر آنے والوں کو دهتکاریے مت اور عملی طور پر جس صوبے میں آپ کی حکومت ہے وہاں کچھ پرفارمنس دیں اور اپنے بے مہار و نامراد وزیروں کی کچھ تربیت کا بھی اہتمام کریں ورنہ پرکشش مگر کهوکهلے نعرے اور انصاف کے بے روح دعوے چھوڑ کر ٹین ڈبے کا کام شروع کریں گلی گلی محلہ محلہ سدا لگاتے پھریں کہ ٹین ڈبے والا ٹین ڈبے والا چوں کہ یہی رویہ یہی روش رہی تو آگے لوگ ووٹ دینے سے تو رہے ہاں شاید ٹین ڈبے آپ کی جھولی اور ریڑی میں بهریں .

( نوٹ اس پوسٹ پر انصافی دوستوں کی سیاسی و اخلاقی تربیت کا مشاہدہ بھی بنا ٹکٹ کے بالکل مفت اور فری میں کریں ) .هههه

فردوس جمال
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کل جب یہ خبر سوشل میڈیا پر جیو نیوز کے ذریعے آئی تو میں نے بالکل یقین نہ کیا پھر میرے ایک دوست نے شئیر کی تو میں نے اسے بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ خبر ابھی کنفرم نہیں ہے اور میں نے اسے بتایا کہ میں نے جیو اور اے آر وائے کی خبروں پہ کبھی یقین نہیں کیا۔اب میں نے مراد سعید کا پیج دیکھا کہ شاید کوئی تردید ہو گی کہ بالکل غلط ہے، کوئی اہلکار معطل نہیں ہوا ہے لیکن کافی دیر بعد جاکہ ایک ٹوٹی پھوٹی تردید ملی جو کچھ یوں تھی ’’مجھ سے منسوب اطلاعات سراسر غلط اور کسی ذہنی اختراع کا نتیجہ ہیں. پختونخوا میں پولیس کے کام میں مداخلت کا کوئی تصور نہیں. تھانے بکنے اور سیاستدانوں کی جانب سے پولیس کو ہراساں کرنے کی روایت تخت رائیونڈ کی پہچان ہے.

پختونخوا کی پولیس ماڈل پولیس ہے جو پوری طرح آزاد اور بااختیار ہے. پختونخوا میں ٹیلی فون کے ذریعے پولیس کو احکامات دینے کا کوئی تصور نہیں. خود سے منسوب خبروں کی مکمل تردید اور جھوٹے پراپیگنڈے کی مذمت کرتا ہوں. -- ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور رکن قومی اسمبلی مراد سعید‘‘اب اس بات میں کوئی ذکر نہیں ہے کہ وہ ٹریفک اہلکار معطل ہوا یا نہیں چالان ہوا یا نہیں، بلکہ اس تردید سے مجھے بالکل یقین ہو گیا کہ خبر بالکل درست ہے ، پھر بھی میں نے پی ٹی آئی کے مختلف پیجز پہ جا کہ دیکھا کہ شاید کوئی مزید ڈیٹیل آئی ہو گی لیکن کوئی نہیں ۔

اب بات یہ ہے کہ میرے دوست جو پی ٹی آئی پہ تنقید کرتے ہیں ان کے ہاتھ ایک اچھی خبر لگ گئی ہے اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔پہلے مراد سعید کی ڈگری کا معاملہ بنا اور کافی بدنامی ہوئی اور اس معاملے کی وجہ سے پی ٹی آئی پر بڑی تنقید ہو رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ میں لوگوں کو مثالیں دیتا تھاکہ مراد سعید 26 سال کا ایم این اے پڑھا لکھا مڈل کلاس مگر کیا خاک کہ دوسری دفعہ بدنامی کا باعث بنا اور ابھی تک خان صاحب کی طرف سے کوئی جواب آیا نہ ہی خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے تو کیا ایسے بندے کو ضیاءاللہ آفریدی کی طرح باعث عبرت نہیں بنانا چاہیے ۔کیا عمران خان مراد سعید جیسے بندے سے بھی بلیک میل ہو رہے ہیں۔پہلے ہم ایک بڈھے وزیر اعلیٰ کو برداشت کر رہے ہیں اوپر سے ایسی خبریں ملیں گی تو ہم کیسے پی ٹی آئی کا دفاع کریں گے ۔میری پی ٹی آئی کے دوستوں سے گزارش ہے اس ایشو پر آواز اٹھائیں، اس ٹریفک اہلکار کو بحال کروائیں اورمراد سعید کو اس حرکت پر پارٹی سےباہر نکالنا چاہیے۔اگر ہم بھی ایسے ایشو پر خاموشی سے بیٹھ جائیں گے تو پھر ہم میں اور ن لیگ کے سپورٹروں میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا لہٰذا برائے مہربانی اس ایشو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ خان صاحب کو مجبوراً ایکشن لینا پڑے۔

عبدالرازق
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
MNA KA KHARCHA

1۔ ماہانہ تنخواہ:
120000 مبلغ ایک لاکھ بیس ہزار سے200000 مبلغ دو لاکھ روپے تک

2۔ آئین سازی کیلئے ملنے والاماہانہ خرچ: 100000 مبلغ ایک لاکھ روپے

3۔ دفتر کے ماہانہ اخراجات:
140000 مبلغ ایک لاکھ چالیس ہزار روپے

4۔ سفری رعایت:
(8روپے فی کلومیٹر): اسلام آباد ایک بار جانے اور واپس آنے کے اخراجات 48000 مبلغ اڑتالیس ہزار روپے

5۔ اسمبلی کے اجلاسوں کے
دوران روزانہ ریفریشمنٹ کے اخراجات:
500 پانچسو روپے

6۔ ٹرین میں درجہ اول کے ٹکٹ مکمل طور پر مفت:
جب چاہیں اور جتنی بار چاہیں اور جہاں چاہیں کی بنیاد پر۔

7۔ جہازوں میں بزنس کلاس کے اخراجات:
بیوی یا پی اے کے ساتھ سال
میں 40بار مفت سفر کی اجازت۔

8۔ گھر پر بجلی کے اخراجات:
50000یونٹ
پچاس ہزار یونٹ مفت

9۔ لوکل فون کال چارجز:
170000 ایک لاکھ ستر ہزار کالز مفت

10۔ ایک ایم این اے کا کل سالانہ سرکاری خرچ:
32000000مبلغ تین کڑور بیس
لاکھ روپے سالانہ

11۔ 5سال کے کل اخراجات:
160000000 مبلغ ایک سوساٹھ کڑور روپے

12۔ 534 ایم این ایز کے 5 برس کے اخراجات: 85440000000 مبلغ پچاسی ارب چوالیس کڑور روپے ہے

یاد رہے کہ یہ تمام لوگ پاکستانی عوام کی جانب سے منتخب کئے جاتے ہیں اوراس دنیا میں رائج جمہوری طریقہ کار کے ذریعے منتخب کئے جاتے ہیں۔

خودبخود اسمبلیوں میں نہیں گھس جاتے۔

نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی خاص کوالفکیشن ہوتی ہے جو ان کے اسمبلی میں جانے کا سبب کہلا سکے۔

پیسے کا یہی وہ غیر ضروری اور بے حساب بہاؤ ہے جو ہمارے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی رقوم کو نگل لیتا ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا سبب بنتا ہے۔....کیا اسی لیے تقدیر نے چنواے تھے تنکے کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
کرتے ہیں سب ہی عیش یہاں اہلِ اقتدار
بس قوم کو دکھوں کی دوائی نہ مل سکی

آزاد کب کے ہو چکے اہلِ فرنگ سے
ان ڈاکوؤں سے پھر بھی رہائی نہ مل سکی

ارشاد دہلوی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حکمرانوں پر تنقید اور ہمارے اسلاف کا فہم

..
کچن سے ایک دم سیٹی کی آواز آتی ہے اور خاتون خانہ خراماں خراماں کچن کو چل دیتی ہیں ، جا کر ناب ہٹاتی ہیں اور بھاپ نکل جاتی ہے -

اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دال پک رہی ہوتی ہے اور کوئی دانہ بھاپ کے اخراج والے سوراخ میں جا پھنستا ہے - اب وہ " سیفٹی والو " بند ہو جاتا ہے ، اور پریشر ککر پھٹ جاتا ہے - کبھی حادثہ خاصا نقصان دہ اور کبھی جان لیوا بھی ہو سکتا ہے -

قصہ مختصر فالتو بھاپ کا اخراج ضروری ہی نہیں , بلکہ زندگی کا لازمہ بھی ہے -اسلام دین فطرت ہے اور کیسے ممکن ہے کہ دین فطرت ، جبر کا دین بن کے رہ جائے ؟ -

یہی معاملہ نظام زندگی اور نظام ملکی کا ہے - یاد رکھئے ایک انتہا ہمیشہ دوسری انتہا کو جنم دیتی ہے ، اگر آپ حکمرانوں پر جائز تنقید کے دروازے بھی بند کر دیں گے تو آپ دراصل ایک بغاوت کا راستہ کھول دیں گے - ہمارے علماء میں ایک سوچ در آئ اور اب ان کے کچھ ماننے والے بھی پیدا ہو چلے ہیں ، وہ یہ کہ حکمرانوں کی کسی غلط بات پر احتجاج کرنا بھی گناہ ہے ، خارجیت ہے ، اور لطیفہ سنیے ان احباب کا موقف ہے کہ اگر حکمران کو نصیحت کرنی ہے تو اکیلے میں ، تنہائی میں - چناچہ پاکستان میں تو یہ مبینہ نصیحت ممکن نہیں رہی کیونکہ حکمران تو اپنے ممبران اسمبلی کو بھی نہیں ملتے "مولانا " صاحب کو کہاں ملیں گے کہ جو نصیحت کی جا سکے - اور پاکستان کہ جہاں پھر بھی آپ حکومت پر تنقید کر سکتے ہیں وہاں یہ حل ہے تو ایسے ممالک کا کیا عالم ہو گا جہاں "بادشاہ سلامت " پائے جاتے ہیں اور عوام ان کا دیدار صرف سکرین پر کر سکتے ہیں - یہ نظریہ مکمل غیر حقیقی اور تخیلاتی دنیا کی پیدوار ہے - اس نصحت کے امکان پر ہم تو یہی تبصرہ کر سکتے ہیں :

. درد سر کے واسطے از بسکہ صندل ہے مفید
اس کا گھسنا اور لگانا، درد سر یہ بھی تو ہے

نہ حکمران کی تنہائی تک آپ کی رسائی ہو ،نہ اس تک نصیحت پہنچے ،اور وہ جو جی چاہے کرے -نہ کوئی احتجاج نہ کوئی روکنے والا نہ کوئی ٹوکنے والا -

بذات خود مداہنت اور خوشامد والا یہ رویہ خارجیت کا سبب ہے ..کیسے اس کی وضاحت ہم آج صبح کی تحریر میں کر چکے -اب ہم اسلاف میں سے کچھ مثالیں دیں گے کہ حکمرانوں کو نصیحت کرنے کے لیے وہ کیا انداز اختیار کرتے تھے ؟-

جناب سلمان فارسی کا سیدنا عمر سے سردربار چادر کا سوال احتساب کی شاندار مثال ہے - اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ :

* حکمران کی امانت و دیانت تک کے معاملات بیچ مجمے میں قابل بحث اور مواخذہ ہیں

*سیدنا عمر کی دیانت پر کیا جناب سلمان فارسی کو شک ہو گا ؟ - یقینا نہیں ، بلکہ ان کا مقصد یہی رہا ہو گا کہ احتساب حکمران کی مثال قائم کی جائے -

* جواب میں سیدنا عمر نے یہ کہا کہ یہ بات اکیلے میں کرنے کی تھی ؟ - جی نہیں انہوں نے وہیں اسی مجلس میں اپنے بیٹے کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حکم دیا


اب سوال یہ ہے کیا اس احتساب سے خروج کے دروازے کھل گیے ؟ - کوتاہ نظری تو یہی کہے گی ، لیکن سیدنا سلمان اس سوال نے بہت سے اذہان میں اٹھنے والے سوالات کا گلہ گھونٹ دیا جو ممکن ہے خلیفہ وقت کے دبدبے کے سبب نوک زبان تک نہ پہنچتے ..اب انصاف سے فیصلہ کیجئے یہ سوال جواب ، حاکم وقت کے حق میں نعمت ہووے یا خروج کا دروازہ ؟-

سیدنا ابو در غفاری عمر بھر حکام پر برسرعام تنقید کرتے رہے ، اور ان کا لہجہ بھی تلخ ہو جاتا تھا ..لیکن کسی نی ان کی اس روش پر اعتراض نہ کیا - ان کے لیے خلیفہ وقت سے تنہائی میں ملنا کیا مشکل تھا ؟ - لیکن ان کا رویہ حکمرانوں کے لیے کیا تھا ؟

جب ان کا وقت آخر آیا ، ربذہ کے ویرانے میں عبد اللہ بن مسعود ساتھیوں سمیت اچانک جا نکلے ، دیکھا صحابی رسول ابو ذر کا آخری وقت ہے ..سیدنا ابو ذر نے وصیت کی کہ مجھے کفن وہ نہ دے جو کسی حاکم یا عامل کا معاون رہ چکا ہو ..کیا خیال ہے ایسی وصیت کے بارے میں .. اور ویرانہ کہ جب کوئی اور بھی پاس نہ تھا کہ کوئی اور آگے بڑھ کے یہ کام کر دے اور تب کے حاکم کیا آج کل جیسے تھے ؟ کہ جن کے بارے میں آئین اور قانون کے دائرے میں لب کشائی بھی بعض احباب کے ہاں "خارجیت " ٹھری -
اس کے علاوہ بے شمار واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں ہمارے اسلاف نے حکمرانوں ی غلطیوں پر گرفت کی ، کبھی برسردربار کی اور کبھی ان کی غیر موجودگی میں کی گئی -

حجاج کے دربار کے قصے کس معلوم نہیں .. کیا سعید ابن جبیر ، ابن مسیب کی حق گوئی کو محض خارجیت کا دروازہ قرار دے دیا جائے گا ؟-

اور سفاح کے دربار میں امام اوزاعی کی حق گوئی اور تنقید کو کیا کہا جائے گا ؟-

امام احمد بن حنبل تین خلفاء کے زیر عتاب رہے ، کوڑے کھاتے رہے لیکن ان کی غلط بات کو درست نہ کہا ، اور نہ ہی اپنے موقف کو مخفی رکھا ... ان کو یہ سمجھ ہی نہ آئ کہ کسی روز خاموشی سے جاتے ، حاکم سے تخلیے کی فرمائش کرتے ، اسے نصیحت کرتے ، سمجھاتے ....

امام مالکؒ نے اپنی چھیاسی سال کی عمر میں ولید بن عبدالملک سے لے کر ہارون رشید تک ، بنوامیہ اور بنو عباس کے متعدد حکمرانوں کو دیکھا ۔ آپؒ ان سے ملتے بھی رہے ، بعض اوقات ان کے تحفے بھی آپ نے قبول فرمائے ۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس مردِ جری نے کبھی کسی حکمران کے سامنے حق بات کہنے سے گریز نہ کیا ،

امام ابن تیمیہ کا جیل میں انتقال ہو گیا ، لیکن حاکم وقت کے سامنے جھکنے سے ، سیاہ کو سفید کہنے سے انکار ہی کرتے رہے ...کیا خیال ہے امام پر حق گوئی کے علاوہ بھی کوئی " مقدمہ " درج تھا ؟- اب تو یہی صاحبان بتا سکتے ہیں کہ کیا امام صاحب کا حاکم وقت کے ساتھ کوئی جائیداد کا جھگڑا تو نہیں تھا ؟

...
ابو بکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ایک کیس دائر کیا گیا وقت کا حکمران جس کے خلاف کیس دائر ہوتا ہے اسے اپنی عدالت میں طلب کرتا ہے اے ابو الحسن حاضر ہوں اور مدعی بھی موجود تھا ابو الحسن کو شدید غصہ اور ناراضی کے اثرات چہرے پر نظر آتے ہیں
کیس کی سماعت اور فیصلہ کے بعد حکمران وقت ابو الحسن سے پوچھتا ہے کہ آپ کو میں نے اس کیس کے سلسلے میں اپنی عدالت میں طلب کیا تو آپ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات کیوں نظر آ رہے ہیں
جواب ملا کہ ابو عبداللہ بات یہ ہے کہ عدالت میں طلب کرنے پر ناراض نہیں ہو رہا بلکہ ناراض اس لیے ہو رہا تھا کہ آپ نے میرے اور مدعی کے درمیان برابری کا معاملہ نہیں کیا ۔ حکمران وقت حیران کہ وہ کیسے ۔ ابو الحسن کہنے لگے:
آپ نے مجھے میری کنیت سے پکارا اور دوسرے فریق کو اس کے نام سے ۔ آپ کو چاہیے تھا کہ آپ مجھے بھی میرے نام سے پکارتے
حکمران وقت وہ تھا جس کے بارے میں سنہری قول موجود ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے اور ابوالحسن فیض یافتگان بارگاہ رسالت ابو الحسنین رضی اللہ عنہما سید نا علی رضی اللہ عنہ تھے
یہ تھی ہماری صدی ھجری کی تاریخ اور نتیجہ تین براعظموں پر اسلام کا جھنڈا لہرا دیا گیا تھا
اور ایک ہمارا عدالتی نظام
بہنوں اور بیٹوں کو غیر مسلموں کے ہاتھ بیچنے والا
معصوم بچیوں اور بہنوں کا سفاک اور درندہ صفت قاتل
وطن عزیز میں دہشت گردی کا بانی
مساجد اور مدارس کے خلاف صہیونی مقاصد کی تکمیل میں سرگرم عمل
معاشی بدحالی کا ذمہ دار
عدالت اسے نوٹس پر نوٹس دیتی ہے اور وہ ان تمام نوٹسز کو مذاق میں اڑا دیتا ہے ایک عام آدمی کو نوٹس ملتا اور وہ نہ آتا تو عدالت کا مزاج برہم ہو جاتا ہے اور توہین عدالت کے جرم میں اسے جانوروں کی طرح گھسیٹ کر لایا جاتا اگر وہ نہ ملتا تو اس کے گھر میں سے کسی کو بھی پکڑ لیا جاتا اور وطن عزیز میں عدل و انصاف کا بول بالا کیا جاتا
جبکہ یہ قاتل درندہ حکمران وقت سے معاملات طے کرتا ہے باقاعدہ قانونی طور ہر باہر جانے کے معاملات طے پاتے ہیں اور بھاگ جاتا ہے اس کے بعد عدالت عالیہ کے ایک منصف غصے ہوتے ہیں کہ عزت مآب قاتل صاحب باہر کیسے گئے
جج صاحب اگر اتنے ہی سچے ہو تو کھل کو بولو اور انٹر پول کے ذریعے ریڈ وارنٹ نکالو اور گرفتار کرو
صرف گونگلووں سے مٹی نہ جھاڑو
اور مزید مثالیں درکار ہیں تو ہمارا قانون اندھا ہے بوقت ضرورت صرف ایک آنکھ کھولتا ہے کسی بھی طوائف کی ضمانت کرنے کے لیے
لٹیرے، بدمعاش، قاتل ، چور زانی سب ٹھاٹھ سے ہیں کہ معلوم ہے کہ قانون اندھا ہے
اربوں کی کرپشن کے بعد اتنے عدالتی چکر لگائے جاتے ہیں کہ ایک مذاق بن جاتا ہے اور پھر نسیا منسیا ہو جاتا ہے
اور ہم کبھی ضرب عضب تو کبھی رد الفساد تو کبھی کچھ
ایک بات واضح ہے جس دن
قاتل کو لوگوں کے سامنے قتل کیا جائے گا
چور کے ہاتھ لوگوں کے سامنے کاٹے جائیں گے
معاشرے میں فساد اور ابتری پھیلانے والے کو لوگوں کے سامنے پھانسی دی جائے گی
زانی کو لوگوں کے سامنے کوڑے مارے جائیں گے اور سنگسار کیا جائے گا
یقین کر لیں صرف ایک مرتبہ جی ہاں صرف ایک مرتبہ کرنے کی ضرورت ہے
کیونکہ ہم بحیثیت قوم ڈنڈے کے یار ہیں

ڈاکٹر شاہ فیض
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی اس میں ایک ضعیف حدیث کی طرف اشارہ ہے - اس بارے میں معلومات دے دیں -

انھوں نے ایک جملہ گڑھا کہ جیسی عوام ویسے ان پر حکمرآن مسلط کر دیے جاتے ہیں- اور اسے حدیث نبوی کہہ کر مشہور کردیا گیا ۔ یہ حدیث دو طرق سے کتب میں موجود ہے ایک القضاعي في مسند الشهاب میں اور دوسرا الديلمي في مسند الفردوس ، والبيهقي في " الشعب میں لیکن اس کے دونوں طرق ہی ضعیف ہیں۔ جیسے عوام ویسے حکمرآن کا تذکرہ آج بھی سننے کو ملتا ہے بلکہ بڑے بڑے دانشوروں نے اس پر صفحوں کے صفحے سیاہ کردیے
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس کاجواب محدث فتوی میں موجود ہے :
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث دو مختلف طرق« روى القضاعي في مسند الشهاب (1/336) من طريق الكرماني بن عمرو ، ثنا المبارك بن فضالة ، عن الحسن ، عن أبي بكرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ثم كما تكونون يولى أو يؤمر عليكم . اور رواها الديلمي في مسند الفردوس ، والبيهقي في " الشعب "كما رمز له السيوطي في الجامع الصغير ، وذكر سنده المناوي في فيض القدير (5/47) فقال : » سے آتی ہے ،جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔ۛ

« كَـمَـا تَـكُـونُـوا يُـولَّـى عَـلَـيْـكُـم »

جیسے تم خود ہوگے ویسے تم پر حکمران بنا دئے جائیں گے۔
لیکن اس کے دونوں طرق ہی ضعیف ہیں۔
یہ حدیث اگرچہ سندا ضعیف ہے لیکن معنی صحیح اور قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کے موافق ہے۔ارشاد باری تعالی ہے۔

﴿ وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا ﴾ [ الأنعام : 129 ]

ہم ظالموں میں سے بعض کو بعض پر والی ﴿حکمران﴾بنا دیتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب
محدث فتوی

فتوی کمیٹی
 
Top