بسم اللہ الرحمن الرحیم
لفظ ’’سیاست‘‘ عربی لفظ ہے اور حکومت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔ زیر نظر کتاب ’’السیاسۃ الشرعیہ‘‘ میں ’’حکمران، بیوروکریسی اور عوام‘‘ کے باہمی ربط اور حقوق و فرائض پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
عملی سیاست کی تعریف کچھ اس طرح سے کی جا سکتی ہے کہ ’’ہر وہ عمل، قول، فعل، معاملہ، سوچ و فکر، تدبر، اشارہ اور کام وغیرہ وغیرہ جو باقی سب کی رائے، قول و عمل پر حاوی ہو جائے اور باقی سب اس کے مطیع ہو جائیں‘‘ عملی سیاست کہلاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ ’’اپنی بات ، کام اور سوچ دوسروں پر غالب کر دینا‘‘ عملی سیاست کہلاتی ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کے قرآن کی یہ آیت بطورِ دلیل پیش کی جا سکتی ہے:
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ
(اللہ تعالیٰ) وہ ذات ہے جس نے رسول بھیجا ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ ’’اس کو غالب کردے‘‘باقی تمام ادیان (زندگی گذارنے کے راستوں اور طریقوں) پر (توبہ:33)
اس آیت کریمہ میں لفظ ’’لِیُظْہِرَہٗ ‘‘عملی سیاست کا مظہر ہے۔ اور شرعی اصطلاح میں ’’السیاسۃ الشرعیہ‘‘ وہ ہے جس کے تحت دین اسلام باقی تمام ادیان (یعنی زندگی گذارنے کے راستوں اور طریقوں) پر غالب کر دیا جائے۔
دین اسلام ہو یا کوئی بھی نظام، اسے دنیا میں نافذ کرنے کے لیے ایک تو قائد/ لیڈر/ امام/ حاکم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور دوسرے وہ لوگ جن پر نظام نافذکیا جائے گا۔ یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اب ان کی کیا کیا صفات ہونی چاہئیں کہ وہ نظام کامیابی سے ہمکنار ہو، وہ مقصد پورا ہو، ذیل میں ہم اسی نقطے پر بحث کریں گے۔
قائد/لیڈر/امام/ حاکم وغیرہ وہ شخصیت ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے اپنی اعلیٰ ترین خوبیوں کو بروئے کار لا تے ہوئے ان کی ہر قسم کی رہنمائی کرے، اور انہیں منزل مقصود تک لے کر چلے۔ اس کی شخصیت میں بہت ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں جن میں دو کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں سورئہ بقرہ میں کچھ اس انداز سے کیا ہے:
وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ
اور اُس (قائد) کو علم و جسم میں زیادتی عطا فرمائی ہے۔ (البقرۃ:247)۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اگر کسی شخصیت کا بطورِ قائد چناؤ کیا جائے تو یہ دیکھا جائے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے، پھر ان علم والے لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر اور شجاع کون ہے؟ کیونکہ اس آیت کا تقاضہ یہی ہے کہ قائد بنانے سے پہلے، کسی کی بیعت کرنے سے پہلے، اس کے پیچھے چلنے سے پہلے یہ تو دیکھ لیا جائے کہ کیا یہ شخصیت از رُوئے قرآن مجید قائد بننے کے لائق بھی ہے یا نہیں؟
اسی طرح جسمانی طاقت کے معنی قوتِ دل بھی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک تو یہ جسم ہی کا حصہ ہے اور دوسرے یہ کہ بعض اوقات کمزور اور بددل بڑے جثے والے لوگ دل ہار جاتے ہیں اور قوی دل والے لوگ ان پر حاوی ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح قوتِ ضبط، قوتِ فیصلہ، قوتِ ارادہ، قوتِ دماغ، ثابت قدمی، پھرتی، صحیح نشانہ بازی، تلوار بازی، رعب و دبدبہ، ظالم و جابر حکمران کے سامنے کلمہء حق کہنے کی جرأت وغیرہ بھی جسمانی قوت و طاقت ہی میں شمار کی جا سکتی ہیں جو کہ ایک ’’قائد‘‘ کے اندر لازماً ہونی چاہئیں اور یہ ایسی صفات ہیں کہ ان پر الگ الگ کتاب بھی ترتیب دی جا سکتی ہے لیکن اختصار کی خاطر سب کو جمع کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح تدبر، غور و فکر، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، حکمت و دانائی اور سیاست وغیرہ بھی قائد کی شخصیت کو نمایاں کرتی ہیں کہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآء وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا ٓ اُولُوا الْاَلْبَابِ
یعنی ’’وہ اللہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا گیا وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں‘‘۔ (بقرہ:269)۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت و فتح پر یقین کامل اور غیر متزلزل ایمان بھی اسی طاقت کا خاصہ ہیں۔ اور دراصل یہی چیزیں قوموں کے کسی بھی معرکے اور پنجہ آزمائی میں فتح و شکست میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
طاقت کے بعد جو سب سے بڑی خوبی ہونی چاہیئے وہ اخلاص ہے۔ اخلاص، اللہ کے ساتھ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ۔ اخلاص ہے تو باقی عمل قابل قبول ہیں۔ اخلاص کی مثال روح کی سی ہے کہ روح ہے تو بدن ’’زندگی‘‘ کا حسین نمونہ ہے۔ کلمہء طیبہ کی بنیاد اخلاص پر موقوف ہے۔
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن میں اخلاص کا پیغام اور اقرار ہے۔
اَلَا لِلہِ اَلدِّیْنُ الْخَالِص، زندگی گزارنے کے طریقے اور راستے یعنی ’’دین‘‘ میں اخلاص ہے۔
وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُ اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اور رَبِّ کائنات کا حکم بھی ’’اخلاص‘‘ ہے۔مختصر یہ کہ اخلاص ہو گا تو منزل کی جانب بڑھنے کا عمل قابل قبول ہے ورنہ نہیں۔