• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمران بیورو کریسی اور عوام ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب السیاسۃ الشرعیہ کی تفہیم

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم قارئین کرام
حکمران بیورو کریسی اور عوام کتاب، دراصل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب السیاسۃ الشرعیہ کی تفہیم ہے۔ یہ کتاب پہلے بھی چھپی لیکن ترجمہ میں زبان کا رنگ پرانا ہو چکا تھا جسے آج کے دور کے مطابق معانی اور مترادف الفاظ کی مدد سے بہتر بنایا گیا ہے تاکہ عام قارئین کرام استفادہ حاصل کر سکیں۔

اللہ تعالی نے راقم کو یہ توفیق بخشی تھی کہ کمپوزنگ، کیلی گرافی، نشر و اشاعت اور ڈسٹری بیوشن سیمت تمام اخراجات خود اٹھائے اور اسے فی سبیل اللہ تقسیم کر دیا۔ اللہ تعالی قبول و منظور فرما لے۔ آمین

اب یہ آپ کی نظر کر رہا ہوں

اللہ تعالی سے خیر و برکت کی اُمید رکھتے ہوئے

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

فہرست​


پیش لفظ
مقدمہ از مصنف
وجہء تصنیف
باب:1۔ حاکم وغیرہ کی پہچان اور حاکم بننے کا مستحق کون ہے
باب:2۔ بہترین منتظم، زیادہ اہل، زیادہ اصلاح کرنے والا
باب: 3 قوت و امانت دار لوگ بہت کم ہیں۔
باب:4۔ زیادہ قابل اور بہترین مصلح کی پہچان۔
باب: 5 ۔ امانتوں کی دوسری قسم مال و دولت
باب:6۔ مال و دولت تین قسم ہے۔
باب:7۔ صدقہ و زکوٰة کے مصارف
باب:8۔ مالِ فئے کسے کہتے ہیں اور اس کا استعمال
باب:9۔ مال و دولت کی تقسیم۔
باب:10۔ فیصلے، سفارش اور رشوت وغیرہ
باب:11۔ راہزنوں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کی سزا اور آدابِ لڑائی
باب:12۔ سلطان کے قاتل محارب ہیں، ان پر حد جاری کی جائے گی
باب:13۔ چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹا جائے
باب:14۔ زنا کی سزا
باب:15۔ شراب نوشی کی حد
باب:16۔ زنا کی تہمت کی سزا
باب:17۔ جن گناہوں کی سزا، اور سزا کی حد مقرر نہیں ہوئی
باب:18۔ کن کن چیزوں سے اور کیسے سزا دی جائے
باب:19۔سزا کی دو قسمیں ہیں
باب:20۔ سزائیں اس لئے ہیں کہ فرائض وغیرہ پر عمل کرایا جائے
باب:21۔ بلاسبب کسی کو قتل کرنا۔ قصاص میں زندگی
باب:22۔ جرح و زخم (ایکسیڈنٹ) کا قصاص
باب:23۔ عزت و آبرو کا بھی قصاص ہے
باب:24۔ تہمت اور جھوٹی بات منسوب کرنا
باب:25۔ میاں بیوی کے حقوق
باب:26۔ اموال کا فیصلہ عدل و انصاف کا متقاضی ہے
باب:27۔ حاکم کے لئے مجلس شوریٰ سے مشورہ ضروری ہے
باب:28۔ولایت و امارت دین کا عظیم الشان رُکن ہے
خاتمہ و دُعاء
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ​

لفظ ’’سیاست‘‘ عربی لفظ ہے اور حکومت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔ زیر نظر کتاب ’’السیاسۃ الشرعیہ‘‘ میں ’’حکمران، بیوروکریسی اور عوام‘‘ کے باہمی ربط اور حقوق و فرائض پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔

عملی سیاست کی تعریف کچھ اس طرح سے کی جا سکتی ہے کہ ’’ہر وہ عمل، قول، فعل، معاملہ، سوچ و فکر، تدبر، اشارہ اور کام وغیرہ وغیرہ جو باقی سب کی رائے، قول و عمل پر حاوی ہو جائے اور باقی سب اس کے مطیع ہو جائیں‘‘ عملی سیاست کہلاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ ’’اپنی بات ، کام اور سوچ دوسروں پر غالب کر دینا‘‘ عملی سیاست کہلاتی ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کے قرآن کی یہ آیت بطورِ دلیل پیش کی جا سکتی ہے:
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ
(اللہ تعالیٰ) وہ ذات ہے جس نے رسول بھیجا ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ ’’اس کو غالب کردے‘‘باقی تمام ادیان (زندگی گذارنے کے راستوں اور طریقوں) پر (توبہ:33)

اس آیت کریمہ میں لفظ ’’لِیُظْہِرَہٗ ‘‘عملی سیاست کا مظہر ہے۔ اور شرعی اصطلاح میں ’’السیاسۃ الشرعیہ‘‘ وہ ہے جس کے تحت دین اسلام باقی تمام ادیان (یعنی زندگی گذارنے کے راستوں اور طریقوں) پر غالب کر دیا جائے۔

دین اسلام ہو یا کوئی بھی نظام، اسے دنیا میں نافذ کرنے کے لیے ایک تو قائد/ لیڈر/ امام/ حاکم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور دوسرے وہ لوگ جن پر نظام نافذکیا جائے گا۔ یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اب ان کی کیا کیا صفات ہونی چاہئیں کہ وہ نظام کامیابی سے ہمکنار ہو، وہ مقصد پورا ہو، ذیل میں ہم اسی نقطے پر بحث کریں گے۔

قائد/لیڈر/امام/ حاکم وغیرہ وہ شخصیت ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے اپنی اعلیٰ ترین خوبیوں کو بروئے کار لا تے ہوئے ان کی ہر قسم کی رہنمائی کرے، اور انہیں منزل مقصود تک لے کر چلے۔ اس کی شخصیت میں بہت ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں جن میں دو کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں سورئہ بقرہ میں کچھ اس انداز سے کیا ہے:

وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ
اور اُس (قائد) کو علم و جسم میں زیادتی عطا فرمائی ہے۔ (البقرۃ:247)۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اگر کسی شخصیت کا بطورِ قائد چناؤ کیا جائے تو یہ دیکھا جائے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے، پھر ان علم والے لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر اور شجاع کون ہے؟ کیونکہ اس آیت کا تقاضہ یہی ہے کہ قائد بنانے سے پہلے، کسی کی بیعت کرنے سے پہلے، اس کے پیچھے چلنے سے پہلے یہ تو دیکھ لیا جائے کہ کیا یہ شخصیت از رُوئے قرآن مجید قائد بننے کے لائق بھی ہے یا نہیں؟

اسی طرح جسمانی طاقت کے معنی قوتِ دل بھی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک تو یہ جسم ہی کا حصہ ہے اور دوسرے یہ کہ بعض اوقات کمزور اور بددل بڑے جثے والے لوگ دل ہار جاتے ہیں اور قوی دل والے لوگ ان پر حاوی ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح قوتِ ضبط، قوتِ فیصلہ، قوتِ ارادہ، قوتِ دماغ، ثابت قدمی، پھرتی، صحیح نشانہ بازی، تلوار بازی، رعب و دبدبہ، ظالم و جابر حکمران کے سامنے کلمہء حق کہنے کی جرأت وغیرہ بھی جسمانی قوت و طاقت ہی میں شمار کی جا سکتی ہیں جو کہ ایک ’’قائد‘‘ کے اندر لازماً ہونی چاہئیں اور یہ ایسی صفات ہیں کہ ان پر الگ الگ کتاب بھی ترتیب دی جا سکتی ہے لیکن اختصار کی خاطر سب کو جمع کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح تدبر، غور و فکر، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، حکمت و دانائی اور سیاست وغیرہ بھی قائد کی شخصیت کو نمایاں کرتی ہیں کہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآء وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا ٓ اُولُوا الْاَلْبَابِ
یعنی ’’وہ اللہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا گیا وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں‘‘۔ (بقرہ:269)۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت و فتح پر یقین کامل اور غیر متزلزل ایمان بھی اسی طاقت کا خاصہ ہیں۔ اور دراصل یہی چیزیں قوموں کے کسی بھی معرکے اور پنجہ آزمائی میں فتح و شکست میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

طاقت کے بعد جو سب سے بڑی خوبی ہونی چاہیئے وہ اخلاص ہے۔ اخلاص، اللہ کے ساتھ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ۔ اخلاص ہے تو باقی عمل قابل قبول ہیں۔ اخلاص کی مثال روح کی سی ہے کہ روح ہے تو بدن ’’زندگی‘‘ کا حسین نمونہ ہے۔ کلمہء طیبہ کی بنیاد اخلاص پر موقوف ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن میں اخلاص کا پیغام اور اقرار ہے۔ اَلَا لِلہِ اَلدِّیْنُ الْخَالِص، زندگی گزارنے کے طریقے اور راستے یعنی ’’دین‘‘ میں اخلاص ہے۔ وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُ اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اور رَبِّ کائنات کا حکم بھی ’’اخلاص‘‘ ہے۔مختصر یہ کہ اخلاص ہو گا تو منزل کی جانب بڑھنے کا عمل قابل قبول ہے ورنہ نہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قائد کی دو انتہائی اعلیٰ ترین خوبیاں


قائد میں مزید دو خوبیاں ہوتی ہیں جو اُس کی شخصیت کو درجہء کمال تک پہنچتاتی ہیں ان میں سے ایک تو یہ کہ تمام لوگ اپنے قائد سے خوف کھاتے ہوں۔ اور دوسری یہ کہ سب لوگ اس سے محبت بھی رکھتے ہوں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
1۔ تمام لوگ اپنے قائد سے خوف کھاتے ہوں۔


اس کا مطلب یہ نہیں کہ قائد خوفناک قسم کی بلا ہو یا اُس کا چہرہ خوفناک ہو تاکہ لوگ اُس سے خوف کھائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی کوتاہی، لاپرواہی اور بری بات پر ہر شخص کو اپنے قائد کا خوف ہو کہ وہ کسی بھی صورت معاف نہیں کرے گا۔ اور یہ چیز صرف اسی صورت ممکن ہو سکتی ہے کہ قائد بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر عمل کرنے والا ہو اور لوگوں سے بھی عمل کروانے والا ہو۔ جب کبھی کسی کا کوئی بھی عمل اللہ کی حدود سے تجاوز کرے اور شریعت نے اُس حد پر سزا مقرر کر رکھی ہو تو پھر اس سزا پر بھی پورا پورا عمل کروائے اور اس سزا میں کسی بھی قسم کی لچک یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرے۔ اور حدود نافذ کرنے میں کبھی کسی کی سفارش، رشوت، دھونس یا دھمکی حتی کہ پوری دنیا کی طاقت کے سامنے بھی سرنگوں نہ ہو اور کوئی بھی ’’سمجھوتہ‘‘ کئے بغیر اس حد کو نافذ کر دے تو پھر ’’قائد‘‘ کی شخصیت سے تمام لوگ خوف کھائیں گے اور کسی کو بھی دم مارنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ مثلاً رسول اللہ ا نے قریش خاندان کی عورت فاطمہ پر چوری کا الزام ثابت ہونے پر اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو اُسامہ ص کی سفارش پر اُن کو ڈانٹ دیا اور پوری اُمت کو درسِ عبرت دیا کہ تم سے پہلی قومیں اسی لیے برباد ہو گئیں کہ اُن کا بڑا اگر کوئی گناہ کرتا تو اُس کو چھوڑ دیتے اور اگر کمزور شخص گناہ کرتا تو اُس پر حد جاری کر دیتے۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم ا کے سامنے کسی کو بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔

اسی طرح سیدنا ابوبکر ص نے اپنی وفات سے پہلے جب مسلمانوں کا ’’قائد‘‘ سیدنا عمر فاروق ص کو مقرر فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ ان میں اور تو کچھ بھی نہیں صرف ’’سخت مزاج‘‘ ہیں۔ گویا وہ عمر ص کی شخصیت سے خوف کھاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے شہروں کے درمیان سفر کرنے والی ایک عورت اپنے پورے زیورات کے ساتھ کئی ہفتوں تک اکیلی سفر کرتی لیکن اُسے کسی چوری اور ڈاکہ زنی کا ڈر یا خوف نہیںہوتا تھا۔

چنانچہ اسی بات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:

وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ:179)۔
اور تمہارے لیے قصاص (یعنی حدود کے نفاذ) میں ہی زندگی (کا راز پوشیدہ) ہے اے عقلمندو۔ تاکہ تم (ناکامی و نامرادی اور معاشرتی بگاڑ سے) بچ جاؤ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
2۔ تمام لوگ اپنے قائد سے محبت کرتے ہوں۔​

قائد کی دوسری انتہائی اعلیٰ ترین خوبی یہ ہے کہ لوگ اس سے محبت بھی کرتے ہوں۔ اپنے قائد کی بات کو خوش دلی سے ماننا اور عمل کرنا، قائد کی ہر ادا کو سمجھنا، اس سے بحث و تکرار کئے بغیر اس کے قول و فعل کو اختیار کرنا، اختلاف رائے رکھنے کے باوجود قائد کی بات کو ہی ترجیح دینا اور اپنی ذات پر قائد کو مقدم جاننا۔ کیونکہ جب تک محبت کا یہ معیار قائم نہیں ہو گا اُس وقت تک کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ قائد کے ایک ایک اشارے پر جان نچھاور کرنے سے ہی اندرونی اور بیرونی سازشوں، بغاوتوں اور یلغاروں کو کامیابی سے ختم کیا جا سکتا ہے اور حملہ آوروں کو واقعی داندان شکن جواب دیا جا سکتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
لیکن​

اگر قائداللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات کے خلاف کسی بات کا حکم کرے تو اُس سے انکار کرنا اور اس بات پر عمل نہ کرنا بھی فرضِ عین ہے۔ مثلاً امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو حاکم (امیر) بنایا۔ اُس نے آگ جلائی اور لوگوں سے کہا کہ اس میں داخل ہو جاؤ۔ بعض لوگوں نے چاہا کہ اس میں داخل ہو جائیں اور بعض نے کہا کہ ہم آگ سے بھاگ کر تو مسلمان ہوئے (اور جہنم سے ڈر کر کفر چھوڑا تو اب پھر آگ ہی میں گھسیں تو یہ ہم سے نہ ہو گا)۔ پھر اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو آپ ﷺ نے ان لوگوں سے جنہوں نے داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا یہ فرمایا کہ اگر تم داخل ہو جاتے تو قیامت تک ہمیشہ اسی میں رہتے (کیونکہ یہ خودکشی ہے جو شریعت میں حرام ہے) اور جو لوگ داخل ہونے پر راضی نہ ہوئے، ا ن کی تعریف کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت اسی میں ہے جو جائز بات ہے۔

اسی طرح صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے بہتر حاکم وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور وہ تمہیں چاہتے ہیں اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور تم اُن کے لیے دعا کرتے ہو۔ اور تمہارے بُرے حاکم وہ ہیں جن کے تم دشمن ہو اور وہ تمہارے دشمن ہیں، تم اُن پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قائد کی وہ خوبیاں جن کی وجہ سے عوام اس سے محبت کریں

اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کونسے عوامل ہیں کہ لوگ اپنے قائد سے محبت کریں؟ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ’’قائد‘‘ اپنے لوگوں کے مال و دولت پر ’’نگاہ‘‘ نہ رکھے بلکہ اپنی ملکیت میں آنے والا تمام مال و دولت اور دیگر اشیائ، مثلاً خمس اور مالِ غنیمت وغیرہ کا حصہ، اور اپنی جیب سے بھی لوگوں کی تألیف قلب کے لیے خرچ کر دے تو لوگ اپنے قائد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ قائد اپنے لوگوں پر ’’ٹیکس‘‘ نہ لگائے، مالی بوجھ نہ ڈالے۔ مثلاً امیر المؤمنین ابوبکر صدیق اور عمر فاروق ث اور بنو امیہ کا شہزادہ جناب عمر بن عبدالعزیز a، یہ سب مسلمانوں کے قائد بنے تو اپنی ساری دولت بیت المال میں جمع کروا دی اور بیت المال سے صرف اتنا وظیفہ لیتے کہ گھر میں صرف ضرورت کے مطابق روٹی بنتی اور ایک ایک جوڑا بناتے، جمعہ کے روز اُسی جوڑے کو دھو کر دوبارہ پہنتے حتی کہ پھٹ جاتا۔ اس سے زیادہ کبھی بھی نہیں لیا۔

خود رسول اللہ ﷺکی طرف دیکھ لیجئے کہ خمس کی رقم آپ ﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی تھی، یعنی مالِ غنیمت میں اگر ایک لاکھ اشرفیاں آتیں تو ان میں سے بیس ہزار اشرفیاں رسول اللہ ﷺ کے لیے مخصوص ہوتیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی کوئی اشرفی شام تک اپنے پاس نہ چھوڑی بلکہ سب کی سب عوام الناس میں بانٹ دیں۔ یہی وجہ تھی کہ تمام صحابہ کرام ث رسول اللہ ﷺ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز جانتے تھے۔
کسی بھی طرح لوگوں کے گھروں، دوکانوں وغیرہ میں جاسوسی نہ کروائے، اُن کی جان کو اپنی جان کی طرح عزیز رکھے، کسی کو اپنے سے حقیر نہ جانے، کالے کو گورے پر ترجیح نہ دے، معاملات میں اپنی برادری کو آگے نہ رکھے، ہمیشہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ کسی بات کا اہل ہو اُسے آگے لائے، سب لوگوں کو ایک ہی تعلیم دے پھر جو کوئی سب سے بہتر ہو اُسے کسی منصب پر فائز کرے، بھلے وہ کسی مزدور کا بیٹا ہو۔ کیونکہ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ حکمران اپنے ’’بیٹوں، بیٹیوں‘‘ اور دیگر رشتہ داروں کو ہی ’’اچھی تعلیم‘‘ دلاتے ہیں اور غریب لوگوں کے لیے ’’تعلیم‘‘ حاصل کرنے کے تمام راستے بند کر دیتے ہیں تاکہ نہ تو عوام میں سے کوئی تعلیم حاصل کرے اور نہ ہی کبھی کوئی اُن کے سامنے بولنے کی جرأت کر سکے نتیجتاً اُن کی ’’حکومت و دولت‘‘ ہمیشہ قائم رہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قائد کو اللہ کے علاوہ کسی کا خوف یا ڈر نہ ہو​

ہر نماز میں جب قائد ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘ کہتا ہو،اپنا رب صرف اللہ ہی کو جانتا ہو، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھیک نہ مانگتا ہو، اللہ تعالیٰ کے فرامین کے مقابلہ میں کسی کی ڈکٹیشن قبول نہ کرتا ہو، جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کے دین کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے شہادت کی موت کا متمنی ہو، حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرتا ہو، اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کی مکمل پیروی کرتا ہو، نماز اور صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت و استعانت طلب کرتا ہو، جنت کا حصول اور جہنم کی آگ سے بچاؤ کا تصور ہر وقت اس کے سامنے ہو، اپنی منزل ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ سلامتی اور رضا والی ملاقات‘‘ کے لیے بیتاب ہو تو پھر اُسے صرف اللہ ہی کا ڈر ہوتا ہے اور باقی تمام جن و انس کا ڈر خوف اُس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَلا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ (تم دنیا والوں میں سے کسی سے بھی مت ڈرو اور صرف اللہ ہی سے ڈرو)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قائد کا ’’مشن‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مسلم ’’قائد‘‘ کا ایک ہی مشن رکھا ہے اور وہ زمین پر ’’توحید‘‘ کا قیام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے توحید کی بات لوگوں تک پہنچائی، جتنے لوگوں نے مانی انہی کو لے کر شرک والی برائی کو دنیا سے بزورِ شمشیر مٹایا، اور ہر مسلمان کی ڈیوٹی لگائی کہ توحید کی یہ بات دوسرے (غیر مسلم) لوگوں تک پہنچائے۔ جب پوری مسلم قوم نے دوسروں تک یہ بات پہنچائی، اپنے خون سے اس دعوت کی آبیاری کی اور اپنی تلوار سے اس دعوت کی حفاظت کی تو پھر آپ ﷺ اور آپ ﷺکے جانشینوں کے ہاتھوں پوری دنیا میں توحید کا نظام نافذ ہو گیا۔ تمام دنیا کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی، پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں سمٹ آئی۔

آج بھی جو قائد اس دنیا میں فتح و کامرانی چاہتا ہے اُسے یہی مشن اختیار کرنا پڑے گا کیونکہ صرف اسی ایک ’’مشن‘‘ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی، مسلمانوں کے قائد اور مسلمانوں کی مدد کا یقین دلایا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَ یُخْزِھِمْ وَ یَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ (التوبہ:14)
کافروں سے (خوب) لڑو، اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا، انہیں رسوا کرے گا اور تمہیں ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔

اسی طرح فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ
اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ (سورئہ محمد:7)۔
 
Top